aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : احمد فراز

ناشر : کتاب نما، راولپنڈی

مقام اشاعت : راول پنڈی, پاکستان

سن اشاعت : 1966

زبان : Urdu

موضوعات : شاعری

ذیلی زمرہ جات : مجموعہ

صفحات : 239

معاون : جامعہ ہمدردہلی

درد آشوب

کتاب: تعارف

"درد آشوب " فراز کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جو 1966 ء میں منظر عام پر آیا ، اس مجموعے کو شاعری کی بہترین کاوش قرار دیا گیا اور اس مجموعے پر احمد فراز کو پاکستان رائٹرز گلڈ کے تحت آدم جی آوارڈ سے نوازا گیا۔ درد آشوب کے بارے میں لکھتے ہوئے جمیل یوسف کہتے ہیں " احمد فراز کا پہلا مجموعہ " تنہا تنہا" آٹھ سال قبل 1958 میں شائع ہو چکا تھا مگر توجہ کا مرکز اسے "دردآشوب " نے ہی بنایا۔ اس مجموعہ میں "35 نظمیں 66 غزلیں شامل ہیں۔ اس مجموعہ کو فراز نے محبوب اختر کے نام منسوب کیا ہے۔ جب یہ مجموعہ شائع ہوا تو پڑھنے والوں نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا تھا، اس مجموعہ کی شاعری کی خوبی یہ ہے کہ یہ اپنے اندر نہ صرف نیا اسلوب اختیار کئے ہوئے ہے بلکہ ساری اردو شاعری کو ایک نیا لہجہ اور نیا احساس دلاتا ہے،اس مجموعہ میں بھی شکوے کثرت سے ملتے ہیں،یہاں بھی" تنہا تنہا"کی طرح مذہب کا کوئی مثبت رنگ نظر نہیں آتا لیکن " درد آشوب" کےشکوےمیں وہ جذباتی لے مدھم نظر آتی ہے جو "تنہا تنہا" میں عروج پردکھائی دیتی ہے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

احمد فراز ۱۲ جنوری ۱۹۳۱ کو کوہاٹ کے ایک معزز سادات خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ تھا۔ احمد فراز نے جب شاعری شروع کی تو اس وقت ان کا نام احمد شاہ کوہاٹی ہوتا تھا جو بعد میں فیض احمد فیض کے مشورے سے احمد فراز ہوگیا۔ احمد فراز کی مادری زبان پشتو تھی لیکن ابتدا ہی سے فراز کو اردو لکھنے اور پڑھنے کا شوق تھا اور وقت کے ساتھ اردو زبان اور ادب میں ان کی یہ دلچسپی بڑھنے لگی۔ ان کے والد انہیں ریاضی اور سائنس کی تعلیم میں آگے بڑھانا چاہتے تھے لیکن احمد فراز کا فطری میلان ادب وشاعری کی طرف تھا۔ اس لئے انہوں نے پشاور کے ایڈورڈ کالج سے فارسی اور اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور باضابطہ ادب وشاعری کا مطالعہ کیا۔ احمد فراز نے اپنا کرئیر ریڈیو پاکستان پشاور میں اسکرپٹ رائٹر کے طور پر شروع کیا مگر بعد میں وہ پشاور یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوگئے۔ ۱۹۷۶ میں جب حکومت پاکستان نے اکیڈمی آف لیٹرس کے نام سے ملک کا اعلی ترین ادبی ادارہ قائم کیا تو احمد فراز اس کے پہلے ڈائریکٹر جنرل بنائے گئے۔ 

فراز اپنے عہد کے سچے فنکار تھے حق گوئی اور بے باکی ان کی تخلیقی فطرت کا بنیادی عنصر تھی انہوں نے حکومت وقت اور اسٹیبلشمینٹ کی بدعنوانیوں کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی۔ جنرل ضیا الحق کی آمریت کو سخت تنقید کا نشانہ بنانے کی پاداش میں انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔ وہ چھ سال تک کناڈا اور یورپ میں جلاوطنی کا عذاب سہتے رہے۔

فراز کی شاعری جن دو بنیادی جذبوں، رویوں اور تیوروں سے مل کرتیار ہوتی ہے وہ احتجاج، مزاحمت اور رومان ہیں۔ ان کی شاعری سے ایک رومانی، ایک نوکلاسیکی، ایک جدید اور ایک باغی شاعر کی تصویر بنتی ہے۔ انہوں نے عشق، محبت اور محبوب سے جڑے ہوئے ایسے باریک احساسات اور جذبوں کو شاعری کی زبان دی ہے جو ان سے پہلے تک ان چھوے تھے۔

فرازکی شخصیت سے جڑی ہوئی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ اپنے عہد کے سب سے مقبول ترین شاعروں میں سے تھے۔ ہندوپاک کے مشاعروں میں جتنی محبتوں اور دلچسپی کے ساتھ فراز کو سنا گیا ہے اتنا شاید ہی کسی اور شاعر کو سنا گیا ہو۔ فراز کی پزیرائی ہر سطح پر ہوئی انہیں بہت سے اعزازات وانعامات سے بھی نوازا گیا۔ ان کو ملنے والے چند اعزازات کے نام یہ ہیں۔ آدم جی ایوارڈ، اباسین ایوارڈ، فراق گورکھپوری ایوارڈ (انڈیا)، اکیڈمی آف اردو لیٹریچر ایوارڈ (کینیڈا)،  ٹاٹا ایوارڈجمشید نگر (انڈیا)، اکادمی ادبیات پاکستان کا ’کمال فن‘ ایوارڈ، ادب میں نمایاں کارکردگی پر ہلال امتیاز۔

شعری مجموعے
جاناں جاناں، خواب گل پریشاں ہے، غزل بہانہ کرو، درد آشوب ،تنہا تنہا، نایافت ،نابینا شہر میں آئینہ، بے آواز گلی کوچوں میں، پس انداز موسم، شب خون، بودلک ، یہ سب میری آوازیں ہیں، میرے خواب ریزہ ریزہ، اے عشق جفاپیشہ۔ 

 


.....مزید پڑھئے

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے