Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : علی یاسر

ناشر : نستعلیق مطبوعات، لاہور

سن اشاعت : 2016

زبان : Urdu

موضوعات : شاعری

ذیلی زمرہ جات : غزل

صفحات : 196

معاون : شمیم حنفی

غزل بتائے گی
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

کتاب: تعارف

ڈاکٹر علی یاسر اردو زبان کے پاکستانی شاعر ، نقاد ، محقق اور مترجم تھے۔ ان کی شاعری کی ایک واضح خاصیت اس کا نئی ردیفوں اور نئے قافیوں میں شعر کہنا ہے۔وہ یہ رمز جانتے ہیں کہ نئی اور اچھوتی ردیفوں کے ساتھ مروج انداز سے ذرا مختلف قافیے استعمال کرنے سے ہی نئے انداز میں نئے موضوعات سموئے جاسکتے ہیں۔اس کتاب میں جابجا بہت سی نئی ردیفیں ایسی ہیں جو شاعری میں پہلے استعمال نہیں ہوئیں۔مثلاً چلا آیا ،مرجائے گا ، برامت مانو ،مری عمر سے گیا ،مرے قدموں کی ،تلخ ہے زندگی تلخ ہے۔ ان کے شاعری کا ایک اور وصف مکالماتی انداز کی چند غزلیں ہیں جو ان کی شاعری میں اپنے علاوہ کسی اورکی موجودگی کا احساس بھی دلارہی ہیں جس سے ان کی مخاطبت ہورہی ہے ،اور ان مکالمات میں اس نے محبتوں ،قربتوں اور جدائیوں کے کئی دریچے روشن کیے ہیں۔2016 میں ان کی غزلوں کا دوسرا مجموعہ"غزل بتائے گی"کے عنوان سے شائع ہوا انھوں نے گویا کہ اعلان کر دیا کہ جو کچھ ان کی غزل میں ہے وہ کوئی اور نہیں ان کی غزل ہی بتائے گی۔بلاشبہ انھوں نے پوری پوری سنجیدگی کے ساتھ غزل کہی ،اور بہت اچھی کہی ،اس کی یہ غزلیں نئے اسلوب کی اور جدید لہجے کی ہیں جس سے محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے کلام کا بہت کڑا انتخاب کیا ہے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

13؍دسمبر 1976ء کو گوجرانوالہ، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام حبیب حیدر تھا۔ انہوں نے عمر کے ابتدائی سولہ سال گوجرانوالہ میں ہی گذارے اور وہ 1994ء میں اسلام آباد چلے گئے۔ علی یاسر نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے (اردو) کی ڈگری حاصل کی اور پھر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے اردو ادب میں ایم فل اور پھر ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ علی یاسر نے 1990ء میں شاعری کا آغاز کیا اور ابتدا میں اپنے دادا امیر علی ساتھی سے اصلاح لی۔ ان کی تعلیمی سرگرمیاں بھی اردو کے حوالوں سے جاری رہیں اور یوں ان کا ادبی ذوق اور مہارت بڑھتی رہی۔ انہوں نے ادبی حلقوں میں اپنی مضبوط پہچان اور جدا رنگ قائم کیا۔ علی یاسر نے ادب کی سرپرستی کے لیے قائم حکومتی ادارے اکادمی ادبیات میں ملازمت اختیار کی اور یوں نہ صرف ملک بھر کے ادبی حلقوں سے وابستہ ہو گئے بلکہ شعر و ادب کی خدمت کا بیڑا بھی اٹھایا۔ وہ اکادمی ادبیات میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر مامور رہے۔شاعری میں اپنی پہچان رکھنے والے علی یاسر میڈیا سے بھی وابستہ رہے اور ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرام میں شریک بھی ہوتے اور میزبانی بھی کرتے رہے۔ وہ پاکستان ٹیلی ویژن، ریڈیو پاکستان اور علامہ اقبال یونیورسٹی ایف ایم ریڈیو پر کئی پروگرامز کے میزبان رہے۔ انہوں نے پی ٹی وی کے لیے بہت سی دستاویزی فلمیں، اسکرپٹس اور نغمے لکھے۔ بطور مترجم انہوں نے انگریزی اور پنجابی سے اردو میں تراجم کیے جن میں ”چین کی محبت کی نظمیں“ اور ”نوبل لیکچر“ وغیرہ شامل ہیں۔ علی یاسر علامہ اقبالؔ یونیورسٹی سے جُز وقتی استاد کے طور پر بھی وابستہ تھے۔
علی یاسر تواتر سے مشاعروں میں شریک ہوتے تھے اور مشاعروں کی نظامت بھی کرتے تھے۔ وہ پاکستان کے مختلف شہروں میں ادبی محافل اور مشاعروں میں شرکت کے علاوہ دبئی، ابو ظہبی اور نئی دہلی میں مشاعروں میں بھی شریک ہو ئے۔ ”ارادہ“ کے نام سے علی یاسر کی غزلوں کا مجموعہ 2007ء میں منظر عام پر آیا جبکہ 2016ء میں ان کی غزلوں کا دوسرا مجموعہ ”غزل بتائے گی“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ علی یاسر نے 2008ء اور 2010ء میں اہلِ قلم ڈائری کو مرتب کیا۔ ”کلیاتِ منظور عارف“ اور ”اردو غزل میں تصورِ فنا و بقا“ کے عنوانات سے کتابیں زیرِ طبع ہیں۔ وہ اپنی نعتیں اور نیا مجموعہء غزل بھی مرتب کرنے میں منہمک تھے لیکن موت نے مہلت نہ دی۔
ڈاکٹر علی یاسرؔ 17؍فروری 2020ء کو برین ہیمرج کے سبب اسلام آباد میں وفات پا گئے اور اپنے آبائی علاقے راہوالی ( گوجرانوالہ) میں مدفون ہوئے۔

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے