aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کتاب: تعارف

غزل اردو شاعری كی آبرو ہے، تو مجروح "ترقی پسند غزل كی آبرو" ہیں۔غزل نے ہر دور میں اپنی اہمیت منوائی ہے۔مرزا غالب كے بعد ایك عرصے تك اردو غزل انحطاط كا شكاری رہی۔ مجروح اور ان كے ہم عصروں نے اس صنف كا احیا ءكیا ۔انھوں نے تخلیقی صلاحیتوں كو برائے كار لاتے ہوئے غزل كوپھر سے بلند معیار بخشا۔ مجروح نے اپنے مجموعہ كلام کا نام بھی "غزل" رکھا۔ جس كے اب تك كئی ایڈیشن منظر عام پر آچكے ہیں۔ ان كی غزلیں اپنی مثال آپ ہیں جوزبان و بیان كی عمدگی كے ساتھ اپنے عہد او راس كے درد كی ترجمان ہیں۔ "غزل " كے مطالعے سے اردو غزل كے اعلیٰ معیار كا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ مجروح وہ پہلے شاعر تسلیم كیے جاتے ہیں۔ جنھوں نے صنف غزل كو ترقی پسندانہ نظریہ ادب كے مطابق سیاسی اور سماجی مسائل كے اظہار كا ذریعہ بنایا تھا۔مجروح نے كلاسیكی غزل كی علامتوں اور استعاروں میں خفیف تبدیلیاں كرتے ہوئےایك نئی معنوی اور لفظیاتی دنیا بسائی ہے۔ان كی غزل سیاسی رمزیت میں ڈوبی عصری صداقتوں كا پیكر ہے۔انھوں نےغزل كی كلاسیكی روایت میں سیاسی رمزیت پیدا كركے ثابت كیا كہ صنف غزل اپنے تغزل كو قربان كئے بغیر بھی ہر طرح كے مضامین ،جذبات ،احساسات او رتصورات كے موثر اور دلنشیں اظہا ركی صلاحیت ركھتی ہے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

ترقی پسند غزل کی آبرو


"اگر بیسویں صدی میں پیدا ہونے والے تمام شاعروں کے کلام سے سَو  بہترین غزلیں منتخب کی جائیں تو اس میں مجروح کی کئی غزلیں آ جائیں گی۔  اور پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر ایسے اشعار کو یکجا  کیا  جو اس وقت باذوق لوگوں کی زبان پر چڑھے ہوئے ہیں  تو ان میں مجروح کے شعروں  کی تعداد اپنے معاصرین میں سب سے زیادہ ہوگی ۔" وارث کرمانی

مجروح سلطانپوری نے بیسویں صدی کے  چوتھے اور پانچویں عشرے میں غزل کی کلاسیکی روایت میں  سیاسی رمزیت پیدا کر کے ثابت کیا کہ  صنف غزل اپنے تغزل کو قربان کئے بغیر  بھی ہر طرح کے مضامین،جذبات ، احساسات اور تصورات  کے موثر اور دلنشیں اظہار کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ مجروح نے کلاسیکی غزل  کی علامتوں اور استعاروں  میں خفیف تبدیلیاں کرتے ہوئے اک نئی معنوی اور لفظیاتی  دنیا بسائی  اور سیاسی رمزیت میں ڈوبی ہوئی، جدید غزل کو عصری صداقتوں کا پیکر بنا دیا۔ مجروح کی  غزلوں میں صوفیانہ  شاعری کے  بیشمار استعارے ملتے ہیں  جو ان کی فن کاری کی بدولت  قارئین کے لئے زندہ علامتوں  کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ وہ روائتی لسانیاتی نظام  سے نئے عہد کی حقیقتوں کے انشراح  کا کام کچھ اس طرح لیتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعری  کی صورت میں جو کچھ ظہور پذیر ہوا ہے اس نے کلاسیکی شاعری کے ترقی پسند ادب میں حیاتِ نو کا کام کیا ہے۔

انھوں نے ترقی پسندی کے عروج کے دور میں،جب نظم کے مقابلہ میں غزل کو کمتر درجہ کی چیز سمجھا جاتا تھا بلکہ اس کے خلاف مہم بھی چل رہی تھی،غزل کی آبرو کو سلامت رکھا۔ انھوں نے غزل کو اس کی  تمام نزاکت،حسن اور بانکپن کے ساتھ  زندہ رکھا اور اپنے مجموعۂ کلام کو بھی ’’غزل‘‘ کا نام دیا۔ ان کی غزلیں اپنی مثال آپ ہیں  جن میں زبان و بیان کی عمدگی  کے ساتھ  اپنے عہد  اور اس کے درد کو بیان کیا گیا ہے۔ ان کا پیرایۂ بیان اس قدر موثر ہے کہ دل میں گھر کئے بغیر نہیں رہتا۔ ترقی پسندوں نے ان کی غزل گوئی کی ہر طرح حوصلہ شکنی کی اور ان کو محض اخلاقاً اپنے ساتھ لگائے رہے  اور خود انھیں بھی ترقی پسندوں میں  خود کو شامل رکھنے کے لئے ایسے شعر بھی کہنے پڑے جن کے لئے وہ بعد میں نادم رہے۔ مجروح کو اس بات کا غم رہا کہ ان کے ایسے ہی چند اشعار کو اچھال کر کچھ لوگ ان کی تمام شاعری کی خوبیوں کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی نظریاتی وابسگی کی بنا پر انھیں جیل بھی جانا پڑا۔ انھوں نے بہت کم کہا لیکن جو کچھ کہا وہ لاجواب ہے۔ ان کے بے شمار اشعار زبان زد خاص و عام ہیں۔

مجروح سلطان پوری 1919ء میں اتّر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام اسرار حسن خان تھا۔ ان کے والد  محمد حسن خان پولیس میں ملازم تھے اور مجروح ان کی اکلوتی اولاد تھے۔ محمد حسن خان نے تحریک خلافت کے زیر اثر بیٹے کو انگریزی تعلیم نہیں دلائی اور ان کا داخلہ اک مدرسہ میں کرا دیا گیا جہاں انھوں نے اردو کے علاوہ عربی اور فارسی پڑھی۔ مدرسہ کا ماحول سخت  تھا جس کی وجہ سے مجروح کو مدرسہ چھوڑنا پڑا  اور 1933ء میں انھوں نے لکھنؤ کے طبّیہ کالج میں داخلہ لے  کر  حکیم کی سند حاصل کی۔ حکمت کی تعلیم سے فارغ ہو کر مجروح نے فیٖض اباد کے قصبہ ٹانڈہ میں مطب قائم کیا  لیکن ان کی حکمت کامیاب نہیں ہوئی ۔اسی زمانہ میں ان کو  وہاں کی اک لڑکی سے عشق ہو گیا اور جب بات رسوائی تک پہنچی تو ان کو ٹانڈہ چھوڑ کر سلطان پور واپس آنا پڑا۔ طبیہ کالج میں تعلیم کے زمانہ میں انھیں موسیقی سے بھی دلچسپی پیدا ہوئی تھی اور انھوں نے میوزک کالج میں داخلہ بھی لے لیا تھا لیکن جب یہ بات ان کے والد کو معلوم ہوئی تو وہ ہ ناراض ہوئے اور مجروح کو میوزک  سیکھنے سے منع کر دیا۔ اس طرح ان کا یہ شوق پورا نہیں ہو سکا۔ مجروح نے 1935 ء میں شاعری شروع کی۔ اور اپنی پہلی غزل سلطان پور کے اک مشاعرہ میں پڑھی۔ ان کا ترنم غضب کا تھا۔ ان کی ذہنی تربیت میں جگر مرادآبادی اور پروفیسر رشید احمد صدیقی کا بڑا ہاتھ رہا۔ رشید احمد صدیقی نے انھیں فارسی اور اردو کی کلاسیکی شاعری کے مطالعہ کا مشورہ دیا۔ علی گڑھ میں ان کو داخلہ نہیں مل سکتا تھا اس لئے رشید صاحب نے ان کو تین سال تک اپنے گھر پر رکھا۔ دوسری طرف جگر صاحب ابھرتے ہوئے خوش گلو شاعروں کو ہر طرح پروموٹ کرتے تھے۔ خمار بارہ بنکوی، راز مرادابادی اور شمیم جے پوری سب ان کے ہی حاشیہ برداروں میں تھے۔ جگر صاحب مجروح کو بھی اپنے ساتھ مشاعروں میں لے جانے لگے۔ ایسے ہی اک مشاعرہ میں وہ مجروح کو لے کر بمبئی پہنچے تو سامعین میں اس وقت کے مشہور فلم ڈائرکٹر اے۔آر کاردار بھی تھے۔ وہ مجروح کی شاعری سے بہت متاثر ہوئے اور انھیں  بہت بڑی تنخواہ پر اپنی فلموں کے گیت لکھنے کے لئے ملازم رکھ لیا۔ اس وقت وہ فلم "شاہجہاں" بنا رہے تھے جس کے میوزک ڈائرکٹر نوشاد  اور ہیرو کے ایل سہگل تھے جو فلموں میں اپنی آواز میں گایا کرتے تھے۔ اس فلم کا  مجروح کا لکھا ہوا اور سہگل کا گیا ہوا گانا " جب دل ہی ٹوٹ گیا  ہم جی کے کیا کریں گے"  امر ہو گیا۔ سہگل کی وصیت تھی کہ ان کے مرنے پر یہ گانا ان کی ارتھی کے ساتھ بجایا جائے۔ مجروح نے اپنی تقریباً 55 سال کی فلمی زندگی میں بے شمار گانے لکھے جن میں سے بیشتر ہٹ ہوئے۔ان کی کوشش ہوتی تھی کہ فلمی گانوں میں بھی وہ جس قدر ممکن ہو ادبیت کو قائم رکھیں اور جب کبھی ان کو پروڈیوسر یا ڈائرکٹر کے اصرار کے سامنے  ادب سے سمجھوتہ کرنا پڑتا تھا تو اندر ہی اندر گھٹتے تھے۔ لیکن وہ اپنے پیشہ میں پوری طرح پروفیشنل تھے اور بے جا ناز نخرے نہیں کرتے تھے۔ 1965ء میں انھیں فلم دوستی کے گانے "چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے" کے لئے بہترین نغمہ نگار کا فلم فیر اوارڈ دیا گیا پھر 1993ء میں ان کو فلمی دنیا کے سب سے بڑے "دادا صاحب پھالکے اوارڈ" سے نوازا گیا۔ ان کی ادبی خدما ت کے لئے ان کو غالب انعام اور "اقبال سمّان"  سے بھی نوازا گیا۔ ادبی اور فلمی سرگرمیوں  کے سلسلہ میں انھوں نے روس امریکہ برطانیہ اور خلیجی ملکوں سمیت  درجنوں ملکوں کے دورے کئے۔ بڑھاپے میں وہ پھیپھڑے کی بیماری میں مبتلا تھے۔ 24 مئی 2000ء کو بمبئی کے لیلا وتی اسپتتتال میں ان کا انتقال ہو گیا۔

جگن ناتھ آزاد کے الفاظ میں مجروح کی شاعری خیال اور جذبہ کے امتزاج  کا اک نگار خانہ ہے  جس میں زندگی کے کئی رنگ جھلکتے ہیں۔ انسان کی عظمت پر مجروح کا اٹل یقین  زندگی کی ٹھوس حقیقتوں پر مبنی ہے۔ روایت کا احترام اور روایت میں توسیع  مجروح کے کلام کی خصوصیت ہے۔اس میں پیکر تراشی کے نقوش جا بجا اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ مشفق خواجہ کا کہنا ہے کہ جدید اردو غزل کی تاریخ میں مجروح سلطان پوری کی  حیثیت اک رجحان ساز غزل گو کی ہے ۔انھوں نے غزل کے کلاسیکی مزاج کو برقرار رکھتے ہوئے اسے جس طرح اپنے عہد کے مسائل کا آئینہ دار بنایا وہ کچھ انھیں کا حصہ ہے۔پرانی اور نئی غزل  کے درمیان  امتیاز کرنے کے لئے  اگر کسی ایک مجموعۂ غزل کی نشاندہی کی جائے تو وہ مجروح سلطان پوری کا مجموعۂ کلام "غزل" ہو گا۔

.....مزید پڑھئے

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے