aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : وامق جونپوری

ناشر : خدا بخش لائبریری،پٹنہ

سن اشاعت : 1993

زبان : Urdu

موضوعات : خود نوشت

صفحات : 447

معاون : عابد رضا بیدار

گفتنی نا گفتنی

مصنف: تعارف

احمد مجتبیٰ نام، وامقؔ تخلص، 1913ء میں کج گاؤں ضلع جونپور میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک علمی اور متمول خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ دادا کا نام مجتبی حسین تھا عربی فارسی اور سنسکرت کے عالم تھے۔ جیوتش میں بھی دستگاہ رکھتے تھے۔ والد مصطفی حسین کلکٹری کے عہدے پر مامور تھے۔ ملازمت کے سلسلے میں تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ اس لیے احمد مجتبی کی تعلیم مختلف مقامات پر ہوئی۔ ان میں فیض آباد، بارہ بنکی اور لکھنؤ قابل ذکر ہیں۔

احمد مجتبی نے تعلیم کی آخری منزل تک پہنچتے پہنچتے شاعری بھی شروع کردی اور وامقؔ تخلص اختیار کیا۔ وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد وکالت شروع کردی۔ اس میں کامیابی نہیں ہوئی تو سرکاری ملازمت کر لی مگر وہ اس کام کے لئے موزوں نہیں تھے اس لیے نوکری چھوڑ کر ہمہ تن شاعری میں مصروف ہوگئے۔

ان کے کلام کے دو مجموعے شائع ہوئے ’’چیخیں‘‘ اور ’’جرس‘‘ ناموں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وامقؔ کا کلام مظلوموں اور محنت کشوں کے کرب کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ دوسری عالمگیر جنگ کے خاتمے پر غریبوں اور مزدوروں کی مشکلات میں بے حد حساب اضافہ ہوگیا۔ غریبی اور بے روزگاری بڑھی۔ اشیائے ضرورت بازار میں نایاب ہوگئیں۔ پچھڑے ہوئےطبقے کی زندگی جو پہلے ہی مشکلوں میں گھری ہوئی تھی اور زیادہ دردناک ہوگئی۔ ترقی پسند تحریک کا آغاز دوسری عالمی جنگ کے شروع ہونے سے پہلے ہو چکا تھا۔ اور اب وہ کافی مستحکم ہوگئی تھی۔ جنگ کے بعد کے حالات نے عوام کو اس تحریک کے بہت قریب کر دیا۔ ادیب اور شاعر زیادہ جوش و خروش کے ساتھ اپنی تخلیقات سے تحریک کو مستحکم اور منظم کرنے لگے۔ وامقؔ اس تحریک کے بنیادی ستونوں میں سے ایک تھے۔ ان کے پرکشش اور پرتاثیر کلام نے انہیں صف اول کے شاعروں میں شامل کر دیا۔

وامقؔ کی نظمیں ’’بھوکا بنگال‘‘، ’’مینا بازار‘‘، ’’تقسیم پنجاب‘‘ بہت مقول ہوئیں۔ ان کی شہرت چاروں طرف پھیل گئی۔ دراصل ان کی شاعری میں فکر و فن کا ایسا امتزاج تھا جس نے ہر دل کو موہ لیا۔ لفوں کا انتخاب، ترتیب، مصروں کا درست، نظم کا آہنگ یہ سب مل کر ان کی شاعری کو بلند خیالات اور حسین پیش کش کا مرقع بنا دیتے ہیں۔

وامقؔ کے چند شعر نمونے کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں؎

سرخ دامن میں شفق کے کوئی تارا تو نہیں
ہم کو مستقبل زریں نے پکارا تو نہیں

دست وپا شل ہیں کنارے سے لگا بیٹھا ہوں
لیکن اس شورش طوفان سے ہارا تو نہیں

آ کے پھر لوٹ چلی کشتی دل ساحل سے
پھر کسی موجۂ طوفاں نے پکارا تو نہیں

.....مزید پڑھئے

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے