aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف: تعارف

شفیع الدین نیر بچوں کے لئے بے حد دلچسپ نظمیں لکھنے والے، ستر کتابوں کے مصنف، اردو ادب اطفال کی تاریخ میں ایک چمکتا ستارہ ہیں۔ ان کے ایک رشتہ دار کی ایک تحریر کے مطابق ان کے آباء واجداد کائستھ تھے جو کسی زمانے میں مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے۔ ان کے والد حکیم الدین محکمہ پولیس میں ایک معمولی ملازم تھے۔ نیر صاحب  کی تعلیم کا آغاز مصباح الاسلام مدرسہ، اترولی میں ہوا جہاں انھوں نے اردو اور فارسی سیکھی۔ سات سال کے ہی تھے جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا، والدہ نے بہت تنگدستی میں پالا۔ گیارہ سال کہ عمر میں ان کے خاندان کے پرانے واقف کار، بابو بلبیر سنگھ انھیں دہلی لے آئے۔ جہاں چار پانچ ماہ نیر صاحب اپنے ایک ہم وطن کے پاس رہے اور آخبار بیچ کر گذارا کرنے لگے۔ جامع مسجد کے شاہی امام سید احمد خاں بخاری ان سے اخبار خریدتے تھے انھوں نے اور بعد میں کچھ اور لوگوں نے ان کی مدد کی اور اینگلو عربک اسکول، چوڑی والان شاخ میں تعلیم اور رہائش کا بندو بست کرادیا۔ وہ اس اسکول کی پانچویں کلاس میں داخل ہوئے تھے۔ بہت محنتی طالب علم تھےاس لئے وظیفہ بھی ملنے لگا، وہ کلاس میں اول آتے تھے۔
جب وہ آٹھویں کلاس میں تھے تب گاندھی جی کی عدم تعاون تحریک کے زیر اثرانھوں نے یہ اسکول چھوڑ دیا اور
’آزاد قومی درسگاہ’ جس کے روح رواں بیرسٹر آصف علی تھے اس میں داخلہ لے لیا۔ اس درسگاہ کا الحاق نئ قائم ہوئ نیشنلسٹ درسگاہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تھا۔ یہیں سے انھوں نے میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ اس کے بعد مدرسہ عالیہ فتح پوری میں پڑھا۔ اخباروں میں ترجمے اورٹیوشن کرکے خرچہ نکالتے رہے۔ پرائیوٹ طور پر فارسی اور اردو کے امتحانات پنجاب یونیورسٹی سے پہلی پوزیشن کے ساتھ پاس کئے اور صرف انگلش کا میڑک پاس کیا۔ انھوں نے دوسال دہلی کے ایک میونسپلٹی اسکول میں پڑھایا لیکن وہاں ایک انسپکڑ آف اسکولز کی کچھ استادوں سے بدتمیزی دیکھ کر یہ نوکری چھوڑ دی۔ کچھ دن اینگلو عربک اسکول میں پڑھایا اس کے بعد دہلی کے مشہور ماڈرن اسکول میں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔ تقریباَ اٹھارہ سال(سن 1926 سے 1945) تک یہاں رہے۔ یہ دور ان کے علمی کاموں کے لئے بہت سازگار رہا۔ اس اسکول میں ایک ٹیچر تھیں، مس ینگ جو بچوں کو انگریزی رائمز سکھاتی تھیں ان سے متاثر ہوکر نیرصاحب نے اردو میں بچوں کے لئے نظمیں لکھنا شروع کیں اور اس ہنر میں کمال کو پہنچے۔ اس کے علاوہ اس زمانے میں ان کےمضامین اور تراجم اخباروں اور رسائل میں شائع ہوتے رہے۔ یہاں مشہور صحافی اور ادیب خوشونت سنگھ ان کے شاگرد رہے۔ لیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ سے نیر صاحب کو جونظریاتی اور جذباتی تعلق تھا اس کےتحت وہ جامعہ کے مدرسہ ثانوی میں اردو کے استاد کےطور پر شامل ہوگئے کیونکہ جامعہ کا اس وقت اچھے استادوں کی ضرورت تھی۔ سن 1950 میں پرائیوٹ طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری لی اور عمر کےآخری حصے میں جامعہ کالج میں بھی پڑھایا۔ نیر صاحب ایک بہت سادہ مزاج، نرم خو، نستعلیق انسان اور ایک اعلی استاد تھے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے