aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
انتظار حسین اردو افسانے کی ایک اہم اور مضبوط کڑی ہے۔ انہوں نے جس زمانے میں اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا وہ شکست و ریخت کا دور تھا ایک طرف تقسیمِ ہند کا المیہ پورے زوروں پر تھا تو دوسرے طرف ترقی پسند تحریک کا شیرازہ بکھر رہا تھا۔لیکن انتظار حسین نے نہ صرف ترقی پسند تحریک کے سکہ بند اصولوں کی زنجیر کو توڑا بلکہ ایک نئے رجحان یعنی جدیدیت کے تحت اپنے افسانے کے پیچ وخم کو سنوارنے کی کوشش کی۔ بقول گوپی چند "انتظار حسین کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے سارے وجود کو یقینی شعور ،لاشعور ،حافظے وعقیدے اور تجربے و مشاہدے کو تخلیقی نقطے پر مرتکز کرسکتے ہیں۔۔۔وہ ان یادوں اور خوابوں کو واپس لانے کی سعی کرتے ہیں جو ماضی میں انسان کی مسرتوں اور اس کی خوشیوں میں بسے ہوئے تھے ،اور عہد حاضر کی یلغار میں یکایک غائب ہوگئے ۔وہ ان یادوں کو کھیل کے میدانوں سے بھاگے ہوئے بچوں کی طرح پکڑ پکڑ کرلاتے ہیں اور سب جمع ہو کر دھماچوکڑی مچاتے ہیں انتطار حسین کہتے ہیں کہ انسان چونکہ یادیں رکھتا ہے اس لیے ہے"زیر نظر کتاب ،انتظار حسین کے افسانوں کا مجموعہ ہے ، یہ مجموعہ 1957 میں منظر عام پر آیا۔ اس مجموعہ میں انتظار حسین کے پندرہ افسانے شامل ہیں۔
इन्तिज़ार हुसैन का जन्म 21 दिसंबर 1925 को मेरठ में हुआ था। मेरठ कॉलेज से बी.ए. किया और पाकिस्तान बनने के बाद वो लाहौर पाकिस्तान चले आए, जहाँ जामिया-ए-पंजाब से उर्दू में एम.ए करने के बाद वे पत्रकारिता के क्षेत्र से जुड़ गए। उनका पहला फ़िक्शन संग्रह "गली कूचे " 1953 में प्रकाशित हुआ था। वो रेडियो में कॉलम भी लिखते थे। उर्दू अफ़्साना निगारी में उनका मक़ाम बहुत बुलंद है और उनके बेशुमार अफ़्साने लोगों में चर्चा का विषय हैं। उपन्यास लेखन में उनका विशेष स्थान है। उनकी किताबों का मुख़्तलिफ़ ज़बानों में तर्जुमा हुआ है। समीरा गिलानी ने उनकी किताब "बस्ती" और "ख़ाली पिंजरा" का फ़ारसी में अनुवाद किया है।
उनको हुकूमत-ए-पाकिस्तान ने सितारा-ए-इम्तियाज़ से नवाज़ा है। इन्तिज़ार हुसैन पाकिस्तान के पहले अदीब हैं जिनका नाम मैन बुकर प्राइज़ के लिए शॉर्ट लिस्ट किया गया था ।
Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi
GET YOUR PASS