aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : قاضی عبد الستار

ناشر : قاضی عبد الستار

مقام اشاعت : الہٰ آباد, انڈیا

سن اشاعت : 1984

زبان : Urdu

موضوعات : ناول

صفحات : 187

معاون : سینٹرل لائبریری آف الہ آباد یونیورسٹی، الہ آباد

پہلا اور آخری خط

مصنف: تعارف

قاضی عبدالستار دنیائے اردو کا نہایت ادب سے لیا جانے والا نام ہے کہ نہ صرف اردو آبادی بلکہ دنیا کی بڑی زبانوں میں بھی اس نام کو اعتبار و استناد حاصل ہے۔ ان کی پیدائش 8 فروری 1933ء کو سیتا پور، مچھریٹہ میں ایک جاگیر دار گھرانے میں ہوئی اور انتقال 29 اکتوبر 2018ء میں دہلی میں ہوا، علی گڑھ کے ایک قبرستان میں مدفون ہوئے۔ اس عمر طبعی کے طویل سفر میں انہوں نے ادب اور زندگی کا توازن کچھ اس طرح برتا کہ دونوں ہی ایک دوسرے کا عکس و معکوس نظر آتے ہیں۔ ان کی ادبی زندگی کی ابتدا بظاہر ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے ’’اردو شاعری میں قنوطیت‘‘ 1963ء سے شروع ہوتی ہے لیکن اس سے قبل بھی انہوں نے ایک عمدہ اور طویل انقلابی نظم’گومتی کی آواز‘ لکھ کر ادبی حلقہ کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ اس نظم کی ہنگامہ خیزی کے باوجود قاضی عبدالستار نے شاعری سے خود کو دور رکھا کہ وہ اس بات پر مصر رہے کہ اظہار کی جو آزادی نثر میں ہے، نظم میں نہیں ہے۔ انہیں بڑا کینوس درکار تھا اور اس لئے وہ نثر کی طرف کل وقتی طور پر متوجہ رہے۔ ان کا دوسرا مقالہ ’’جمالیات اور ہندوستانی جمالیات‘‘ 1977 ء میں شائع ہوا۔ یہ مقالہ بھی اپنے آپ میں ایک نیا موضوع اور بالکل نئے وژن کے ساتھ سامنے آیا۔ اس کے بعد انہوں نے مکمل طور پر تخلیقی ادب سے اپنا رشتہ جوڑ لیا۔ یوں ان کا پہلا افسانہ ’اندھا‘ ہے مگر ’پیتل کا گھنٹہ‘ سے انہیں شہرت ملی۔ قاضی عبدالستار نے اپنے افسانوں میں اودھ کی معاشرتی زندگی کو خاص طور سے ملحوظ خاطر رکھا اور بیشتر کہانیوں میں ایک خاص تہذیب پر ایک نئی تہذیب کے غلبے کو بیان کیا ہے۔ ایک مانوس معاشرہ جسے انگریزوں کی آمد نے کچل ڈالا، قاضی صاحب اپنے افسانوں میں اسی مانوس تہذیب کا نوحہ کرتے نظر آتے ہیں۔

ناول نگاری کے میدان میں انہوں نے اسلامی تاریخ کا انتخاب کیا اور یقینا ان کا وہ انتخاب بہت مشکل تھا۔ مشکل اس لئے کہ تاریخی موضوعات کو برتنے میں مبالغہ آرائی کا امکان غالب رہتا ہے، ساتھ ہی تاریخ کے ایک ایک گوشہ پر نظر رکھنا ایک کار محال ہے۔ بہرحال، انہوں نے ایک طرف اسلامی تاریخ پر مبنی خالد بن ولید، صلاح الدین ایوبی جیسے معرکۃ الآرا ناول لکھے تو دوسری طرف ہندوستانی تاریخ پر مبنی ناول ’داراشکوہ، اور ’غالب‘ لکھ کر انہوں نے ناول نگاری کی جیسے روایت ہی بدل ڈالی۔ پلاٹ کے مطابق ناول میں منظر کشی اور کردار کے موافق کالمے، کمال تو یہ ہے کہ انہوں اسلامی تاریخ کی منظر کشی اور ہندوستانی تاریخ کی زمین پر مغلیہ عہد کی تصویر کشی میں جو حد فاصل قائم رکھی ہے ،اسے پڑھ کر دل کو یہ اطمینان ضرور مل جاتا ہے کہ ناول کی کہانی کوئی خیالی دنیا سے نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہے۔ اس کے کردا ایک جانے پہچانے ماحول کے دیکھے بھالے بہت قریب کے ہیں۔ ناول کا بیانیہ ایسا کہ جیسے وہ تمام معرکے، مرحلے اور روز و شب کے ہنگامے آنکھوں کے سامنے ہیں۔

قاضی عبدالستار کو لفظیات کا جادو گر کہا جاتا ہے۔ وہ ایک ایسے اسلوب کے موجد مانے جاتے ہیں جس کی تقلید معاصرین کرتے آئے ہیں۔ جس جاگیردارانہ ماحول میں ان کی پرورش ہوئی اور جو عادات و اطورا ان کی سرشت میں شامل تھے، وہی چیزیں ان کی تحریروں میں بھی جھلکتی ہیں۔ انہوں نے بچپن سے جوانی تک اور طالب علمی سے معلمی تک جس شعور کو اپنا شعار بنایا اسے سبکدوشی سے عمر کے آخری ایام تک اسی شان بے نیازی سے برتا۔ 1974 میں انہیں پدم شری اعزاز سے نوازا گیا، اس کے علاوہ درجنوں اعزازات انہیں حاصل ہوئے۔ ناول 'خالد بن ولید' کے علاوہ ان کے کئی ناولوں کے تراجم  دنیا کی متعدد زبانوں میں  شائع ہوئے ہیں۔

.....مزید پڑھئے

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے