aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کتاب: تعارف

پطرس بخاری کے خطوط ان کی طرزِ تحریر کے آئینہ دار ہونے کے سبب خاص نوعیت کے ہیں۔ زبان سادہ اور بیانیہ ہے۔ ان میں ادبی موضوعات بھی ہیں، خاندانی امور بھی۔ دوستوں سے شکوے، ملازمت کے دکھڑے، سب کچھ ہے جو ایک انسان کی زندگی میں پیش آ سکتا ہے۔ پطرس بخاری نے جنھیں خطوط لکھے یا جن سے ان کی خط کتابت تھی ان کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ خطوط کے مجموعوں کے مطابق سب سے زیادہ خطوط عبدالمجید سالک کے نام ہیں جن سے پطرس بخاری کو عقیدت تھی، زیر نظر کتاب میں بھی عبد المجید سالک کو لکھے ہوئے 30 خطوط شامل ہیں جبکہ غلام مہر کے نام پانچ ،صوفی غلام مصطفی تبسم کے نام 3، امتیاز علی تاج کے نام 6 ، عبد الرحمن چغتائی کے نام 7،حامد علی خان کے نام 3عبد القدیررشک،سید ہاشم رضا حکیم یوسف حسن ،کلیم الرحمن ،بیگم آمنہ مجید ملک، بیگم فیض اور منیرہ فیض کے نام ایک ایک خط شامل ہیں۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

پروفیسر احمد شاہ بخاری یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ  ایوان ادب کے پطرس بخاری، میدان تعلیم کے پروفیسر بخاری، جہان نشریات کے بڑے بخاری، دیوان سفارت کے ایمبیسڈر، اقوام متحدہ کے پروفیسر اے ایس بخاری پاکستان کے شہر پشاور میں یکم اکتوبر1898 کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد پیر سید اسد اللہ شاہ بخاری ولد سید غلام حسین پشاور کے ایک معروف وکیل خواجہ کمال الدین کے منشی تھے۔ پطرس کے چار بھائی تھے، سید غالب بخاری سب سے بڑے تھے۔ ان کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی۔ پطرس اپنے والد کے تیسرے بیٹے تھے۔ دوسرے بیٹے کا نام سید محمد شاہ تھا جو شاعری کرتے تھے اور تخلص ’رفعت‘ تھا۔ چوتھے بیٹے سید ذوالفقار علی بخاری (چھوٹے بخاری) تھے جو ریڈٰیو پاکستان کے پہلے سربراہ تھے۔ پطرس کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ ان کے والد نے ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے مشن ہائی اسکول پشاور میں ان کا داخلہ کرا دیا اور وہیں سے انھوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ بی اے کرنے کے بعد 1922میں لاہوریونیورسٹی سے ہی اپنے پسندیدہ مضمون انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور اس مضمون میں اول آکر یونیورسٹی سے طلائی تمغہ حاصل کیا۔ پطرس 1925 میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے۔ انھوں نے انگریزی ادب میں اعلیٰ ترین سند حاصل کرنے کے لیے کیمبرج یونیورسٹی کا انتخاب کیا کیونکہ وہاں کے اساتذہ ان کی افتادِ طبع سے پوری طرح مطابقت رکھتے تھے۔ کیمبرج کے عما نویل کالج میں علم و فن کے طوفان میں غوطہ کھانے والے پطرس بخاری نے ایسے ایسے موتی نکالے کہ اکثر اساتذہ سے ان کے ذاتی تعلقات قائم ہوگئے۔ تمام اساتذہ انھیں قیمتی مشوروں سے نوازتے تھے۔ انھوں نے وہاں سے انگریزی ادب میں TRIPOS کی سند اول درجے میں حاصل کی، اور عما نویل کالج کے سینیئر اسکالر منتخب ہوگئے۔ وہ جنوبی ایشیا کے دوسرے طالب علم تھے جس نے انگریزی ادب میں اول درجے کی سند حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ وطن واپس لوٹ آئے۔ اور وہاں گورنمنٹ کالج لاہور میں کئی سال تک ادبیات کے پروفیسر رہے اسی اثنا میں پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کے بھی سکریٹری 1931سے 1935تک رہے۔ 1937 سے ڈپٹی کنٹرولر اور1940 سے کنٹرولر جنرل آل انڈیا ریڈیو پر فائز رہے۔ 1946میں گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ 1929 میں مجلس اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے سربراہ مقرر ہوئے۔1955 میں اقوام متحدہ کے شعبۂ اطلاعات کے ڈپٹی سکریٹری جنرل مقرر ہوئے اور اسی عہدے کے زمانے میں 5دسمبر 1958 کو ان کا انتقال ہوا۔

پطرس کی تصانیف درج ذیل ہیں 
پطرس کے مضامین (1928)، دیہات میں بوائے اسکاؤٹ (ترجمہ،1934)، تعلیم خصوصاً اوائل طفلی میں (برٹرنڈرسل کی تصنیف کا ترجمہ، 1935)، نوع انسان کی کہانی (ترجمہ، 1939)، ڈرامہ اور ٹھیٹر پر بہت سے مضامین،کئی کتابوں کے دیباچے، بہت سے متفرق مضامین انگریزی اور اردو میں، کئی انگریزی افسانوں اور ڈراموں کے ترجمے۔
پطرس کو انگریزی ادب پر ہمہ گیر عبور حاصل تھا۔ اردو ہی کی طرح وہ انگریزی کے بھی ایک بلند پایہ انشا پرداز تھے۔ بلا کے ذٰہین، دراک اور حاضر دماغ تھے۔ دوستوں کو جمع کرکے باتیں کرنا ان کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔ بہت ہی دلچسپ اورپرلطف باتیں کرتے۔ ان کی برجستہ گوئی کے بیسیوں لطیفے مشہور ہیں۔

.....مزید پڑھئے

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے