aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو غزل میں ترقی پسندی ،رومانیت اور فکر و فلسفہ کے عناصر اسی عہد سے ملنا شروع ہوجاتے ہیں جب غزل گوئی کا باضابطہ آغاز ہوا۔پھر یہ کہ یہ رویے ایک دوسرے کے حریف و مقابل بھی نہیں ۔شاعری اور خصوصا غزل کی شاعری میں جذبہ اور احساس کی حکمرانی ہوتی ہے۔ انسانی جذبات کی کائنات اتنی بسیط اور عمیق ہے کہ اس کی تہہ تک پہنچنا تقریبا ناممکن ہے۔غزل کا شاعر اپنے تخلیقی اظہار کے وسیلہ سے انسانی جذبات کے نئے منطقے اور نئے مرکبات دریافت کرتا ہے۔زیر نظر کتاب "ترقی پسند تحریک اور اردو غزل"میں سراج اجملی نے غزل کی پوری روایت کے تحت واقعیت ،عقلیت اور عوامی فکر و احساس کی ترجمانی کو خاص اہمیت دی ہے ۔اس کے علاوہ عصری آگہی، احتجاج ،عظمت بشر اور سیاسی بصیرت بھی ترقی پسند غزل کے مزاج کاایک حصہ ہے۔اس پر بھی مصنف نے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔قارئین کی سہولت کے لیے ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعرا کو نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔جس میں مصنف نے استدلال کے ساتھ یہ بتایا ہے کہ ترقی پسند غزل کے اسلوب اور لہجہ کے تعین میں ان شعرا نے کس طرح اپنا کردا رادا کیا ،ساتھ ہی اس حقیقت پر خصوصیت سےزور دیا ہے کہ ایک تحریک سے وابستگی کے باوجود ان میں بیشتر شعرا کی انفرادیت اور پہچان قائم رہی۔ آزادی کے بعد غزل کےرنگ و آہنگ کی تعمیر میں بھی ترقی پسند شعری روایت نے اہم رول ادا کیا ہے۔ ہم عصر زندگی کے نئے تقاضوں اور جدیدیت کے صحت مند رجحان نے بھی ترقی پسندی کی روایت کو نئی جہتوں سے آشنا کیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب ترقی پسند شاعری کے سنجیدہ مطالعہ کی ایک اہم کڑی ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi
GET YOUR PASS