aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
عطیہ پروین کا اصل نام امۃ الزھرا تھا اور آپ ضلع ہردوئی کے ایک مردم خیز قصبہ بلگرام میں پیدا ہوئیں۔ اس قصبہ کے بارے ہر خاص و عام جانتا ہے کہ ادب میں اسے ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔ اوائل عمر میں انہوں نے روایتی ہندوستانی گھرانوں کی طرح امور خانہ داری کو ہی اپنی ذمہ داری سمجھا لیکن آہستہ آہستہ گھر خاندان کی دیکھا دیکھی انہوں نے بھی لکھنا شروع کیا اور جب لکھنا شروع کیا تو سیر ہو کر لکھا۔ ان کی بسیار نویسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کم و بیش ڈھائی سو افسانے لکھے، بے شمار مزاحیہ کالم مختلف اخبارات کے لیے لکھے اور پینتیس ناول لکھے۔ ان کے افسانے ملک کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ سماجی پہلو اور خلوص و محبت ان کی تحریروں کا بنیادی وصف ہے۔ زیر نظر ناول میں بھی انہوں نے انہیں پہلوؤں کا ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ عطیہ پروین اردو کی ان خواتین میں ہیں جنہیں اردو ادب کی مرکزی ادبی تاریخ میں بہت زیادہ ناموری نہیں مل سکی تاہم ان کی تحریریں زبان شناسی کے اعتبار سے آج بھی اردو قارئین کے لیے مشعل راہ کا کام کر سکتی ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi
GET YOUR PASS