aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : مرزا خلیل احمد بیگ

V4EBook EditionNumber : 001

ناشر : مرزا خلیل احمد بیگ

سن اشاعت : 1985

زبان : Urdu

موضوعات : زبان وادب, لسانیات, تحقیق و تنقید

ذیلی زمرہ جات : تحقیق, زبان

صفحات : 220

معاون : ریختہ

اردو کی لسانی تشکیل

کتاب: تعارف

اردو لسانیات کے حوالے سے یہ کتاب ایک اہم دستاویز ہے ، اس کتاب میں اردو کی تشکیل و ارتقاء کے حوالے سے لسانی موضوعات و مباحث سے گفتگو کی گئی ہے ، اس کتاب میں اردو کے آغاز ، ارتقاء اور نواح دہلی کی بولیوں اور ان کے لسانی رشتوں کے حوالے سے مفصل مضامین شامل ہیں ، اردو کے رسم الخط ، ذخیرہ الفاظ ، ہندآریائی پس منظر اور رسم الخط کے حوالےسے عربی اور فارسی کا تاریخی و تحقیقی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب تحقیقی نوعیت کے آٹھ مضامین پر مشتمل ہے،جن میں بالترتیب اردو کے آغاز سے متعلق مختلف نظریات،شمالی ہند میں اردو کے لسانی و ادبی ارتقاء،اردو کی معکوسی آوازوں کا ارتقاء،سترہویں صدی کی اردو زبان کی صوتی خصوصیات،قدیم شعرائے دہلی کے دس مرثیوں کا جائزہ،اردو اور ہریانی کے لسانی رشتے،قدیم اردو کا سرمایہ ٔالفاظ،قدیم مخطوطوں کے حوالے سے املائی تبدیلی جیسےموضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

مرزا خلیل احمد بیگ(پیدائش:01 جنوری 1945ء)اردو کے ممتاز ماہر لسانیات،لکھنؤ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جامعہ علی گڑھ  سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ 01 جنوری 1945 کوگورکھپور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم یہیں سے مکمل کی۔ 1964ء میں علی گڑھ منتقل ہوگئے۔ 1975ء میں جامعہ علی گڑھ سے پی ایچ  ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اسی جامعہ میں شعبۂ لسانیات کے سربراہ بھی رہے اور اس عہدے سے 31 دسمبر 2006ء میں سبکدوش ہوئے۔ 1994ء میں امریکا کا علمی سفر شروع کیا اور یونیورسٹی آف ٹینسٹی(ناکس ول) کے شعبۂ لسانیات میں داخلہ لیا۔ 1996ء میں واپس بھارت کا رخ کیا اور سماجی لسانیات پر ایک کتاب لکھی۔

حالات زندگی
مرزا خلیل احمد بیگ 1945ء میں گورکھپور (یو پی) میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔اس کے بعد وہیں سے میاں صاحب جارج اسلامیہ (MSGI) کالج سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے انگریزی ادبیات  کےساتھ بی اے اور ایم اے کے امتحانات پاس کرنے کے بعد انہی کی نگرانی میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا۔ ابھی ان کی ریسررچ کا سلسلہ جاری تھا کہ علی گڑھ کالج کے شعبۂ لسانیات میں  عارضی  لیکچرر کی حیثیت سے ان کی تقرری ہوگئی۔ 1975ء میں انھوں نے پی ایچ ڈی مکمل کر لی تاہم سند 1976ء میں تفویض ہوئی۔
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں چار سال (1973ء تا 1977ء) عارضی لیکچرار رہنے کے بعد ان کی تقرری سولن (ہماچل پردیس) میں حکومت ہند کےقائم کردہ ادارے ”اُردو تدریسی و تحقیقی مرکز“ (Urdu Teaching  and Research Centre) میں پرنسپل کی حیثیت سے تقرری  ہو گئی۔ یہ ادارہ سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگوئجز (میسور) کے تحت کام کرتا تھا جس کا براہ ِراست تعلق وزارت فروغ انسانی وسائل، حکوم ت ہند سے تھا۔ سولن کا یہ ادارہ بنیادی طور پر ہما چل پردیس کے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو اُردو کی تربیت دینے کے لیے قائم کیاگیا تھا تاکہ اساتذہ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد سہ لسانی فارمولے کے تحت اپنے اپنے اسکولوں میں اُردو پڑھانے کے اہل ہو سکیں۔ اس ادارے میں قیام کے دوران انھوں نے ”آئیے اُردو سیکھیے“ کے  نام سے ایک کتابچہ  تیار کیا جو بعد میں اشاعت پذیر ہو کر بہت مقبول ہوا۔ اگست  1981ء میں سولن سے مستعفی ہو کر انھوں نے دوبارہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں ملازمت کا آغاز کیا اور 2001ء میں شعبۂ لسانیات کی صدارت پر فائز ہوئے اور 2006 ء تک منصب پر فائز  رہے۔ بالآخر 33 سال تک درس و تدریس کے فرائض سر انجام دینے کے بعد 31 دسمبر 2006ء کو عمر عزیز کے 62 سال مکمل ہونے پر وظیفہ حسنِ خدمت پر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے سبک دوش ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں ملازمت کے دوران انھوں نے شعبۂ لسانیات اور مادر علم کے لیے کئی کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ اپنی مدمتِ ملازمت کے دوران انھوں نے 20 طلبہ و طالبات کو ایم فل اور پی ایچ –ڈی کے تحقیقی مقالوں کی نگرانی کی۔ ان کی کوششوں سے جامعہ کے ذولسانی مجلے ”اطلاقی لسانیات“ (Applied Linguistics) کا اِجراء عمل میں آیا۔ انھوں نے جامعہ میں کئی  سیمینار بھی منعقد کرائے۔ 1986ء میں ان کا تقرر جامعہ اُردو علی گڑھ میں اعزازی خازن (Treasuree) کی حیثیت سے  پانچ سال کے لیے ہو گیا۔ پانچ سال کی مدت ختم ہونے کے بعد دوبارہ پھر انھیں جامعہ اُردو کی مجلس عامہ کے لیے  اعزازی خازن کی حیثیت سے منتخب کر لیا گیا۔ بعد میں خلیق انجم جب جامعہ اُردو کے وائس چانسلر منتخب ہوئے تو اُنھوں نے بھی انھیں اعزازی خازن کی حیثیت سے اپنی ٹیم میں شامل کر لیا تاہم  بعد میں مستعفی ہو گئے۔ وہ اس دوران جامعہ اُردو سے شائع ہونے والے مجلے ”ادیب“ کے مدیر بھی رہے۔
لسانیات میں مزید تعلیم کے لیے وہ 1994ء میں امریکہ روانہ ہو گئے اور یہاں یونی ورسٹی آف ٹینیسٹی(ناکس ول) کے شعبہ میں لسانیات میں داخل لے لیا۔ یہاں سے واپسی پر اُنھوں نے سماجی لسانیات(Sociolinguistics) کے موضوع پر ایک کتاب لکھی جو 1996ء میں نئی دہلی سے شائع ہوئی۔
1998میں ان کاتقرر سعودی عرب میں واقع جامعہ کنگ خالد(King Khalid University)  میں شعبۂ انگریزی میں بحیثیت پروفیسر ہو گیا۔ جولائی 2010ء میں سعودی عرب سے واپس آئے اور 2011ء میں دوبارہ علمی سفر  پرامریکہ روانہ ہوگئے۔ علی گڑھے سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ مسلسل مختلف اداروں میں علمی خدمات ادا کر رہے ہیں۔ اسلوبیات ، اطلاقی لسانیات ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ ان کی دلچسپی کا دوسرا  بڑامیدان اُردو زبان و قواعد کی تاریخ ہے۔ وہ مسلسل ان موضوعات پر لکھ رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ علمی دنیا میں وہ ایک نامور ماہر لسانیات اور اسلوبیاتی نقاد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔

مرزا خلیل احمد بیگ کی لسانی خدمات
”مرزا خلیل احمد بیگ کی لسانی خدمات“ کے عنوان سے ایک اہم تحقیقی مقالہ محمد عثمان بٹ نے تحریر کیا جوشش ماہی تحقیقی جریدے ”اُردو“ انجمن ترقی اُردو، پاکستان، کراچی کی جلد 96، شمارہ 2 میں 31 دسمبر 2020ء کو شائع ہوا۔ یہ تحقیقی مقالہ مرزا خلیل احمد بیگ کے مختصر سوانحی خاکے کے علاوہ اُن کی اُردو زبان کے حوالے سے لسانی خدمات کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ وہ اکیسویں صدی کے اُن ماہرینِ لسانیات میں شامل ہیں جن کا اُردو لسانیات اور اُسلوبیات کے میدان میں تحقیقی کام قابلِ قدر ہے۔ مرزا خلیل احمد بیگ اُردو کے آغاز و ارتقا کے سلسلے میں مختلف ماہرینِ لسانیات کی جانب سے پیش کردہ مختلف نظریات میں سےاپنے استاد ڈاکٹر مسعود حسین خاں کے لسانی نظریے کو سب سے زیادہ اہمیت کا حامل گردانتے ہیں۔ وہ اپنے لسانی نظریے کی بنیاد پر اپنے استاد کے لسانی نظریے سے اتفاق کرتے ہیں مگر اُردو کے آغاز کے حوالے سے اُن سے اختلاف کرتے ہوئے وہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ”میرے اور مسعود حسین خاں کے نظریے میں فرق صرف اتنا ہے کہ میں اُردو کا آغاز1000 سنہِ عیسوی کے فوراً بعد سے مانتا ہوں اور مسعود حسین خاں 1193ء سے۔ مسعود حسین خاں آغازِ اُردو کے سلسلے میں فتحِ دہلی (1193ء) کو بے حد اہمیت دیتے ہیں جب کہ میں دہلی سلطنت کے قیام (1206ء) کو اُردو کے ارتقا کی دوسری منزل قرار دیتا ہوں۔“ دراصل کھڑی بولی کے آغاز کو ہی وہ اُردو کا آغاز خیال کرتے ہیں۔

تصانیف

(1)اردو کی لسانی تشکیل(1985ء)
(2)تنقید اوراسلوبیاتی تنقید(2005ء)
(3)اردو کا تاریخی تناظر
(4)پنڈت بر جموہن دتاتریہ کیفی
(احوال و آثار)(1989ء)
(5)مسعود حسین خان(احوال وآثار) (2015ء)
(6)نذر مسعود(1989ء)
(7)اردولفظ کا صوتیاتی و تجزیاتی تجزیہ (مسعود حسین خان کی انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ (1986ء)
(8)ایک بھاشا جو مسترد کر دی گئی(2007ء)
(9)لسانی مسائل و مباحث(2016ء)
(10)لسانی تناظر(1997ء)
(11)مکاتیب مسعود(2017ء)
(12)پریم چند-شخصیت اور فن(1997ء)
(13)زبان ،اسلوب اور اسلوبیات(1983ء)
(14)آئیے اردو سیکھیے(1987ء)
(15)اردو زبان کی تاریخ(1995ء)
(16)اسلوبیاتی تنقید(2014ء)
(17)ادبی تنقید کے لسانی مضمرات(2012ء)
(18)Urdu Grammar-History & Structure,1988
(19)Pschyolinguistitics & Language Acquisition,1991
(20)Sociolinguistics & Perspectives of Urdu  & Hindi,1996

.....مزید پڑھئے

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے