سرورق
دیباچہ
احوال کھلا نہ ابتدا کا
بس رفع اب خیال می وجام ہو گیا
نہ ضد کوئی نے ندتری اوصاف وشیم کا
دل سے فرصت کبھی جو پائے گا
واعظ کسے دماغ جواب و سوال کا
کبھو مونھ بھی مجھے دکھائے گا
تیرے آنے کا احتمال رہا
کبھو ہم سے بھی وفا کیجئے گا
مرا دل اڑا کر تو چلتا رہا
وہاں نہ وہ قول نہ قرار رہا
جب تلک تو ادھر کو آوے گا
گر خانہ بر انداز یہ دل آہ نہ ہوتا
دیکھتے تو سہی کہ کیا ہوتا
اظہار کیونکے کیجے گا حال تباہ کا
خوب دنیا میں خوش رہا ہوگا
تیرہ مژہ کا تیرے نشانا جگر کیا
آہ کے ساتھ جی نکل نہ گیا
دل دیا گرچہ تجھ کو جانا تھا
جھوٹے نہ اسے قرار کرنا
نالہ کرنا کہ آہ کرنا
کہوں کیا دل اڑانے کا ترا کچھ ڈھب نرالا تھا
تیرے ہاتھوں سے میں ہلاک ہوا
مانند فلک طوف ہی لازم ترے در کا
ردیف (ب)
زیست ہونی تعجبات ہے اب
غم ہی دکھلاتی ہے سدا قسمت
دیکھ کر دل کو پیچ و تاب کے بیچ
اے پائے حرص پھر نہ تو اب در بدر عبث
ردیف (ت)
ردیف (چ)
ردیف (ث)
ردیف (ح)
تو ہی بتا نبھے گی یوں ہی بات کس طرح
جو بات میں نے اس سے نہیں کی اس آن تک
ردیف (ک)
جوں گل تو ہنسے ہے کھل کھلا کر
ردیف (ر)
ٹک غور سے کر سیر گلستاں تامل
ردیف (ل)
حد ہو چکی ہے اب تو خاطر بھلا کہاں تک
لے گئے اپنے ساتھ زیر زمیں
ردیف (ن)
بس ہو یارب یہ امتحان کہیں
نہ برق نہ شعلہ نے شرر ہوں
جی میں ہے از سر نوجور ترے یاد کریں
بے وفا تجھ سے کچھ گلا ہی نہیں
تجھ سوا کوئی جلوہ گر ہی نہیں
دل میں سو آرماں رکھتا ہوں
ہم ہیں بیدل دل اپنے پاس نہیں
کوئی ہوا و حرص کو یہاں دسترس نہیں
صیاد تو عبث مجھے گھیرے ہے جال میں
کرکے دل کو شکار آنکھوں میں
رہتا ہے کیا بتاؤں رنگ دل کے ہاتھوں
موجود اگر چہ نام خدا وہ کہاں نہیں
تو کہاں میں کہاں پہ کہتے ہیں
منفعل تیغ یار کے ہاتھوں
کچھ نہ کچھ تیرے تصور میں بکا کرتا ہوں
نہ ہم واقف کسوسے نہ کسوسے کام رکھتے ہیں
کوئی کھاتا تھا دغا جھوٹی مدا رات سے ہیں
گرچہ دل میں ہی سدا جان جہاں رہتے ہو
نہ لگا لے گئے جہاں دل کو
ردیف (و)
ایک تنہا خاطر محزوں جسے افکار سو
حیف میرے یہ آہ کرنے کو
ردیف (ی)
جو سزا دیجے ہے بجا مجھکو
ہر دم فزوں ہیں کجرویاں روزکار کی
ٹک آکے سیر کر جگر داغدار کی
اب آنسو کہاں دیدۂ گریاں جو نکالے
بیکسی میں اثر یگانا ہے
روز اٹھ کر نیا بہانا ہے
نفع یہاں تو گمان اپنا ہے
دل جو یوں بے قرار اپنا ہے
لیا ہے دل ہی فقط او رجان باقی ہے
میں تجھے واہ کیا تماشا ہے
ہم غلط احتمال رکھتے تھے
اسباب کوچ سارے سر انجام کر چکے
جو بات ہے تیری سو نرالی
اب غیر سے بھی تیری ملاقات رہ گئی
اثر اب تک فریب کھاتا ہے
کام کیا تجھ کو آزمانے سے
گو کہ ہاتھ اٹھائے نہ جفا کاری سے
تو مری جان گر نہیں آتی
کام باقی ابھی تو قاتل ہے
نہ کیا کچھ علاج آگو سے
آہ کیجے کہ نالہ سر کیجے
لوگ کہتے ہیں یار آتا ہے
ہم سے اجل نصیب کہ بن مارے مر چکے
جب کہ ادھر تری نگاہ پڑی
خفا اس سے کیوں تو میری جان ہے
اتنا کوئی پوچھے بے وفا سے
اے بتاں الٹی ہی خدائی ہے
آسودگی کہاں جو دل زار ساتھ ہے
آپ ہی نہ جل بجھے نہ کچھ اس دل میں راہ کی
کہیں ظاہر یہ تیری چاہ نہ کی
محروم نہ رکھ جرس فغاں سے
صرف غم ہمیں نوجوانی کی
اثر کیجئے کیا کدھر جایئے
تیرے کوچہ میں جاکے جو بیٹھے
تیرے وعدوں کا اعتبار کسے
دل پر جو یہ جور یہ جفا ہے
اب شوق چمن کسے رہا ہے
دل پر جو مرے سدا جفا ہے
کچھ بھی تجھے مہر یا وفا ہے
رقیبوں نے حماقت سے تو یہاں تک پاسبانی کی
آسودگی ہماری قسمت میں یہاں نہ وہاں ہے
کیا کہوں میں ہجر کی شب کیسی دوبھر ہو پڑی
دیجئے رخصت بوسہ نہیں لے بیٹھیں گے
کدھر کی خوشی کہاں کی شادی
یاران ٹک ایک غلطی افہام سجھئے
یارب قبول ہووے اتنی دعا تو بارے
نہ دے لطف نے وہ کرم رہ گئے
مت پوچھ کٹی رات یہ کس طرح تو ہم سے
کیا جانئے زلف یہ کسو کی
خون جگر کو پیجئے نالہ و آہ کیجئے
مفہوم ممتنع سے عدم میں تو ہاں رہے
غم کو باغم بہم نہ کیجے
گرچہ غم جی لئے ہی جاتا ہے
آشنا جو مزہ کا ہوتا ہے
دل ویران میں تری یاد سے آبادی ہے
گر آج ترا گزر نہ ہووے
مہروکیں کچھ تو ہے تحقیقی سے کیا کام مجھے
وحشت زدہ دل تو جوں شرر ہے
شمع رو تجھ پہ ہم ہلاک ہوئے
کسو کو مجھ سے نے مجھ کو کسو سے کام رہتا ہے
داغ دل جو کبھو دکھائے تھے
یوں بھلا بھولنا یہ یاد رہے
تیرے کوچہ میں دو بارہ خوب ہم ہو کر چلے
ہر طرح اب تو حال مشکل ہے
مطالع
عشق تیرے کا دل کو داغ لگا
شمع رویوں تو ہم غریبوں کی
ردیف (الف)
ردیف (ت)
بھلا شکر کرنے لگے پھر شکایت
نپٹ نرگس کی آنکھیں شرم کے مارے لجائی ہیں
نومشق آہ تھے رہی ہم کو ہوس تمام
ردیف (م)
دم بدم ہے ترا مزاج کچھ اور
ردیف (ر)
ردیف (ن)
پیارے اس وقت تم تو آہ منے
ردیف(و)
نہ کہا جائے کہ دشمن نہ کہا جائے کہ دوست
ردیف (ی)
ظاہر ہر وقت یاد ادھر کی اب رکھتا ہے تو
ردیف (ہ)
ردیف (الف)
رباعیات
فلک جس کو جب تک جلا تا رہے گا
اوقات بسر کروں میں کیوں کر یارب
ردیف (ب)
میں تجھ سے کہوں یہ بات ہے قابل ضبط
بن حال دکھائے کوئی بنتی ہے اثر
ردیف (چ) (ر) (ط) (ف)
رہتی ہے شب و روز خلش دل کے بیچ
ہیں یاد مجھے تازہ ملاقات کے لطف
ردیف (ی)
جوں شعلہ جلے ہے جی رخ زرد کے ساتھ
آّئینہ لے کے دیکھ خجل مہرو ماہ ہے
ردیف (ہ)
سرورق
دیباچہ
احوال کھلا نہ ابتدا کا
بس رفع اب خیال می وجام ہو گیا
نہ ضد کوئی نے ندتری اوصاف وشیم کا
دل سے فرصت کبھی جو پائے گا
واعظ کسے دماغ جواب و سوال کا
کبھو مونھ بھی مجھے دکھائے گا
تیرے آنے کا احتمال رہا
کبھو ہم سے بھی وفا کیجئے گا
مرا دل اڑا کر تو چلتا رہا
وہاں نہ وہ قول نہ قرار رہا
جب تلک تو ادھر کو آوے گا
گر خانہ بر انداز یہ دل آہ نہ ہوتا
دیکھتے تو سہی کہ کیا ہوتا
اظہار کیونکے کیجے گا حال تباہ کا
خوب دنیا میں خوش رہا ہوگا
تیرہ مژہ کا تیرے نشانا جگر کیا
آہ کے ساتھ جی نکل نہ گیا
دل دیا گرچہ تجھ کو جانا تھا
جھوٹے نہ اسے قرار کرنا
نالہ کرنا کہ آہ کرنا
کہوں کیا دل اڑانے کا ترا کچھ ڈھب نرالا تھا
تیرے ہاتھوں سے میں ہلاک ہوا
مانند فلک طوف ہی لازم ترے در کا
ردیف (ب)
زیست ہونی تعجبات ہے اب
غم ہی دکھلاتی ہے سدا قسمت
دیکھ کر دل کو پیچ و تاب کے بیچ
اے پائے حرص پھر نہ تو اب در بدر عبث
ردیف (ت)
ردیف (چ)
ردیف (ث)
ردیف (ح)
تو ہی بتا نبھے گی یوں ہی بات کس طرح
جو بات میں نے اس سے نہیں کی اس آن تک
ردیف (ک)
جوں گل تو ہنسے ہے کھل کھلا کر
ردیف (ر)
ٹک غور سے کر سیر گلستاں تامل
ردیف (ل)
حد ہو چکی ہے اب تو خاطر بھلا کہاں تک
لے گئے اپنے ساتھ زیر زمیں
ردیف (ن)
بس ہو یارب یہ امتحان کہیں
نہ برق نہ شعلہ نے شرر ہوں
جی میں ہے از سر نوجور ترے یاد کریں
بے وفا تجھ سے کچھ گلا ہی نہیں
تجھ سوا کوئی جلوہ گر ہی نہیں
دل میں سو آرماں رکھتا ہوں
ہم ہیں بیدل دل اپنے پاس نہیں
کوئی ہوا و حرص کو یہاں دسترس نہیں
صیاد تو عبث مجھے گھیرے ہے جال میں
کرکے دل کو شکار آنکھوں میں
رہتا ہے کیا بتاؤں رنگ دل کے ہاتھوں
موجود اگر چہ نام خدا وہ کہاں نہیں
تو کہاں میں کہاں پہ کہتے ہیں
منفعل تیغ یار کے ہاتھوں
کچھ نہ کچھ تیرے تصور میں بکا کرتا ہوں
نہ ہم واقف کسوسے نہ کسوسے کام رکھتے ہیں
کوئی کھاتا تھا دغا جھوٹی مدا رات سے ہیں
گرچہ دل میں ہی سدا جان جہاں رہتے ہو
نہ لگا لے گئے جہاں دل کو
ردیف (و)
ایک تنہا خاطر محزوں جسے افکار سو
حیف میرے یہ آہ کرنے کو
ردیف (ی)
جو سزا دیجے ہے بجا مجھکو
ہر دم فزوں ہیں کجرویاں روزکار کی
ٹک آکے سیر کر جگر داغدار کی
اب آنسو کہاں دیدۂ گریاں جو نکالے
بیکسی میں اثر یگانا ہے
روز اٹھ کر نیا بہانا ہے
نفع یہاں تو گمان اپنا ہے
دل جو یوں بے قرار اپنا ہے
لیا ہے دل ہی فقط او رجان باقی ہے
میں تجھے واہ کیا تماشا ہے
ہم غلط احتمال رکھتے تھے
اسباب کوچ سارے سر انجام کر چکے
جو بات ہے تیری سو نرالی
اب غیر سے بھی تیری ملاقات رہ گئی
اثر اب تک فریب کھاتا ہے
کام کیا تجھ کو آزمانے سے
گو کہ ہاتھ اٹھائے نہ جفا کاری سے
تو مری جان گر نہیں آتی
کام باقی ابھی تو قاتل ہے
نہ کیا کچھ علاج آگو سے
آہ کیجے کہ نالہ سر کیجے
لوگ کہتے ہیں یار آتا ہے
ہم سے اجل نصیب کہ بن مارے مر چکے
جب کہ ادھر تری نگاہ پڑی
خفا اس سے کیوں تو میری جان ہے
اتنا کوئی پوچھے بے وفا سے
اے بتاں الٹی ہی خدائی ہے
آسودگی کہاں جو دل زار ساتھ ہے
آپ ہی نہ جل بجھے نہ کچھ اس دل میں راہ کی
کہیں ظاہر یہ تیری چاہ نہ کی
محروم نہ رکھ جرس فغاں سے
صرف غم ہمیں نوجوانی کی
اثر کیجئے کیا کدھر جایئے
تیرے کوچہ میں جاکے جو بیٹھے
تیرے وعدوں کا اعتبار کسے
دل پر جو یہ جور یہ جفا ہے
اب شوق چمن کسے رہا ہے
دل پر جو مرے سدا جفا ہے
کچھ بھی تجھے مہر یا وفا ہے
رقیبوں نے حماقت سے تو یہاں تک پاسبانی کی
آسودگی ہماری قسمت میں یہاں نہ وہاں ہے
کیا کہوں میں ہجر کی شب کیسی دوبھر ہو پڑی
دیجئے رخصت بوسہ نہیں لے بیٹھیں گے
کدھر کی خوشی کہاں کی شادی
یاران ٹک ایک غلطی افہام سجھئے
یارب قبول ہووے اتنی دعا تو بارے
نہ دے لطف نے وہ کرم رہ گئے
مت پوچھ کٹی رات یہ کس طرح تو ہم سے
کیا جانئے زلف یہ کسو کی
خون جگر کو پیجئے نالہ و آہ کیجئے
مفہوم ممتنع سے عدم میں تو ہاں رہے
غم کو باغم بہم نہ کیجے
گرچہ غم جی لئے ہی جاتا ہے
آشنا جو مزہ کا ہوتا ہے
دل ویران میں تری یاد سے آبادی ہے
گر آج ترا گزر نہ ہووے
مہروکیں کچھ تو ہے تحقیقی سے کیا کام مجھے
وحشت زدہ دل تو جوں شرر ہے
شمع رو تجھ پہ ہم ہلاک ہوئے
کسو کو مجھ سے نے مجھ کو کسو سے کام رہتا ہے
داغ دل جو کبھو دکھائے تھے
یوں بھلا بھولنا یہ یاد رہے
تیرے کوچہ میں دو بارہ خوب ہم ہو کر چلے
ہر طرح اب تو حال مشکل ہے
مطالع
عشق تیرے کا دل کو داغ لگا
شمع رویوں تو ہم غریبوں کی
ردیف (الف)
ردیف (ت)
بھلا شکر کرنے لگے پھر شکایت
نپٹ نرگس کی آنکھیں شرم کے مارے لجائی ہیں
نومشق آہ تھے رہی ہم کو ہوس تمام
ردیف (م)
دم بدم ہے ترا مزاج کچھ اور
ردیف (ر)
ردیف (ن)
پیارے اس وقت تم تو آہ منے
ردیف(و)
نہ کہا جائے کہ دشمن نہ کہا جائے کہ دوست
ردیف (ی)
ظاہر ہر وقت یاد ادھر کی اب رکھتا ہے تو
ردیف (ہ)
ردیف (الف)
رباعیات
فلک جس کو جب تک جلا تا رہے گا
اوقات بسر کروں میں کیوں کر یارب
ردیف (ب)
میں تجھ سے کہوں یہ بات ہے قابل ضبط
بن حال دکھائے کوئی بنتی ہے اثر
ردیف (چ) (ر) (ط) (ف)
رہتی ہے شب و روز خلش دل کے بیچ
ہیں یاد مجھے تازہ ملاقات کے لطف
ردیف (ی)
جوں شعلہ جلے ہے جی رخ زرد کے ساتھ
آّئینہ لے کے دیکھ خجل مہرو ماہ ہے
ردیف (ہ)
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔