سرورق
مقدمہ
فہرست کتب ماخذ
فہرست دیوان بیدار
فہرست غزلیات
دیوان بیدار
ہے نام ترا باعث ایجاد رقم کا
گلچین ستایش ہوں چمن ساز جہاں کا
دل خدا جانے کہاں تیرے گلستاں میں رہا
احوال سن مرے مژۂ اشکبار کا
آنکھوں میں چھا رہا ہے از بسکہ نور تیرا
تیرے دنداں سے فقط در ہے نہ عماں میں چھپا
چھوٹ کر جسم سے دل تیرے زنخداں میں گرا
جو وہ بہار عذار خوبی چمن میں آتا خرام کرتا
ہم پہ سو ظلم و ستم کیجئے گا
تو نے جو مدتوں میں ادھر کو گزر کیا
جو کچھ ہونا تھا سواے دل ہو گیا
دیتا نہیں دل مے کے وہ مغرور کسی کا
پاس میرے وہ دل آرام گر آج آوے گا
بھرا ہے وہ مری چشم پر آب میں دریا
ہم نشیں ! پوچھ نہ باعث تو مری زاری کا
مست ہم کو شراب میں رہنا
برنگ نقش نگیں زخم ہے مرے دل کا
جس چشم کو نہ ہو ترا دیدار دیکھنا
آہ کیا جانے کہاں وہ بت خود کام رہا
تنہا نہ دل ہی لشکر غم دیکھ ٹل گیا
جانوں ہی نہ جبکہ نام اس کا
کل تری یاد میں آنسو ہی نہ کچھ گلگوں تھا
نپٹ دل ہے مشتاق اے یار تیرا
گلبدن گھر مرے مہماں نہ ہوا تھا سو ہوا
پھر شتاب آئے وہ دلدار خدا کو سونپا
گر کہیں اس کو جلوہ گر دیکھا
جو کچھ کہ تھا وظائف واوراد رہ گیا
غم جگر شکن و درد جاں ستاں دیکھا
رشک کھاتا ہے چمن دیکھ کے داماں میرا
طلب میں تیری تنہا یہ نہ پائے جستجو ٹوٹا
دل سے پوچھا تو کہاں ہے تو کہا تجھ کو کیا؟
ہم کلام اس سے میں اک بار نہ ہونے پایا
یہ کون پے شکار نکلا
اگر یہ چرخ مجھے مہر سے حنا کرتا
سبزۂ خط ترے عارض پہ نمودار ہوا
میکدے میں جو ترے حسن کا مذکور ہوا
مے و ساقی ہیں سب یک جا آہاہاہا آہاہاہا
اس نے یہاں تک کبھو گزر نہ کیا
بارہا یار سے چاہا کہ ہوئیں اغیار جدا
جو اب کے چھوڑے مجھے غم تری جدائی کا
صبح کو بے نور بن تیرے چراغ لالہ تھا
جلوہ دکھا کے گزرا وہ نور دیدگاں کا
آپ میں دیکھ اسے میں رہ نہ سکا
گر اسی طرح سج بنایئے گا
نہیں کچھ ابر ہی شاگرد میری اشکباری کا
نہ جاہ و حشم کا طالب ہوں نے (میں) احتشامی کا
بے مروت بیوفا نامہرباں ناآشنا
آہ وہ ماہ نمایاں نہ ہوا
گرچہ دلکش ہے دلبراں کی ادا
متفرقات (6 شعر)
ہواے عشا سے سر سبز باغ ہے دل کا
مہرباں بھی ارے بے مہر کبھی ہووے گا
جو ایک شب مرے مہماں مرا صاحب
ردیف ب
وقت سحر نہ کھینچے اگر منہ پہ تو نقاب
لب میگوں میں ترے دیکھ بہم آتش و آب
اس شعلہ رو کی بزم میں گر آئے آفتاب
کیوں نہاں رنگ صفا میں ہوں علم آتش و آب
لے چکے دل تو جنگ کیا ہے اب
ردیف ت
خط اس عذار پہ دیکھا ہے ہم نے خواب میں رات
بیدار کروں کس کو میں اظہار محبت
دل سلامت اگر اپنا ہے تو دلدار بہت
دکھا دے دست نگاریں سے تو اگر انگشت
ردیف ث
کم نہ ہوویگا جنوں اس کی ہے تدبیر عبث
چشم و عارض ہی نہیں لیتے گل و نرگس سے آج
ردیف ج
ردیف چ
کھو دیا نور بصیرت تو نے ماؤمن کے بیچ
چشم ساقی نے چھکایا سب کو میخانے میں آج
خوبی جتنی ہے سنا ہے مرے دلدار کے بیچ
ردیف ح
گرچہ رکھتے ہیں بتاں اور ہی بیداد کی طرح
ہوتی ہے فصل گل میں جو مست بہار شاخ
ردیف خ
نہ دیا اسکو یاد یا قاصد!
پہن کے شام کوبرمیں لباس ململ سرخ
ردیف د
نہ غم دل نہ فکر جاں ہے یاد
نالہ گو ہے خدنگ کے مانند
ردیف ر
ردیف ذ
حال جاں سوز کا میں اس کو لکھوں گر کاغذ
جو وہ خورشید طلعت شام کو ہو بام پر ظاہر
گیا ہے جب سے دکھا جلوہ وہ پری رخسار
تجھ بن سر شک خوں کا ہے آنکھوں سے طغیاں اس قدر
یک شمہ تجھ شمیم بدن سے ہے بوئے عطر
حیف ہے ایسی زندگانی پر
وجد اہل کمال ہے کچھ اور
خاک و خوں میں ہیں تپاں عاشق غمناک ہنوز
ردیف ز
اس کو حنا کی دل میں نہ باقی رہے ہوس
ردیف س
ردیف ش
دل آتش و آہ دہر داغ غم آتش
دیکھ اسے شادی سے کرتا ہے دل دیوانہ رقص
ردیف ص
سبھوں سے یوں تو ہے دل آپ کا خوش
ردیف ض
سبزۂ خط ہے ترا ابر بہار عارض
عبث کرتا ہے اس سے اے دل اب عرض
چھوٹے اب اس شعلہ خو سے مجھ سے کیونکر اختلاط
ردیف ط
حسن ترا سا کہاں بر میں نہاں رکھتی ہے شمع
جاتا ہے مرے گھر سے دلدار خدا حافظ
ردیف ظ
ردیف ع
روشن مثال شمع ہزاروں ہیں دل کے داغ
ردیف غ
ہوی تھی اس رخ تاباں کے کیا مقابل شمع
سرمہ عزیز تجھ کو ہو اے چشم یار حیف
آتا ہے آج مجھ کو یہی بار بار حیف
ردیف ف
ردیف ق
گمان بے وفائی مجھ کو اے پیارے نہ تھا مطلق
ردیف ک
کینے کا ہے گا اگر ہم سے بھی آہنگ فلک
چرخ کی گردش سے یوں پھرتا ہے اس دنیا کا رنگ
ردیف گ
تا فلک آہ گئی تابہ سمک زاری دل
آپ نے کہنا کیا سب کا قبول
ردیف ل
بھڑکا ہے آہ سرد سے جوں شعلہ داغ دل
نہیں فقط تجھ حسن کی ہے ہند کے خوباں میں دھوم
کیا ہوے گلشن میں آکر اے عزیزاں شاد ہم
ردیف م
تجھ بن گلشن میں گر گئے ہم
آتیری گلی میں مر گئے ہم
یہ بھی کوئی وضع ہے آنے کی جو آتے ہو تم
محو رخ یار ہو گئے ہم
اے ظہور مبدأ ایجاد خلقت السلام
ردیف ن
خاک عاشق ہے ہوئی ہے جو تتار دامن
آوے گر اے جان تو مست شراب آغوش میں
شتاب آ کہ مجھے تاب انتظار نہیں
آہ اے یار کیا کروں تجھ بن
سینۂ داغدار رکھتا ہوں
چاہ کا تجھ کو مرے دل پہ گماں ہے کہ نہیں
جانیں مشتاقوں کی لب تک آئیاں
جاں بلب تجھ بن ہوں میں تو اب تلک آتا نہیں
یارب جو خار غم ہیں جلا دے انھوں کے تئیں
دل ہمارے کو چرا تم نے لیا کہتے ہیں
خرقہ رہن شراب کرتا ہوں
تیرے کوچے سے نہ یہ شیفتگاں جاتے ہیں
ہم تری خاطر نازک سے حذر کرتے ہیں
دید ہم اس ستم ایجاد کا کر جاتے ہیں
تیرے حیرت زدگاں اور کہاں جاتے ہیں
جو کحل چشم بتاں تیری خاک راہ کریں
ہم جو تجھ بزم سے اے نور بصر جاتے ہیں
بھرے موتی ہیں گویا تجھ دہن میں
نہ ہووے یہ کبھو(جو)آپ آنگاہ کریں
کہاں گنجائش حرف اس دہن میں
یہ تو قدرت ہی کہاں پاس جو اس کے جاؤں
بہار گلشن ایام ہوں میں
جوں غنچہ اپنی جیب میں جو سرفرو کریں
ماہ رخسار ہلال ابرو و خورشید جبیں
انجمن ساز عیش تو ہے یہاں
نہیں تیرا تو کچھ ہم اے بت خود کام لیتے ہیں
حصول فقر گر چاہے ہے چھوڑ اسباب دنیا کو
ردیف و
ترا جمال دل افروز جس نے دیکھا ہو
کہاں ہیں طالع بیدار یہ کہ ایسا ہو
دل کو میں آج ناصحا اس کو دیا جو ہو سو ہو
تم تو کہتے ہیں کہ عاشق کا فغاں سنتے ہو
کون سی بات دل میں لائے ہو
نہیں آرام ایک جا دل کو
داد دیتا نہیں فریادی کو
ایک دن وصل سے اپنے مجھے تم شاد کرو
کوئی کس طرح تم سے سربر ہو
آنے دیو تم اپنے پاس مجھ کو
جاتے ہو سیر باغ کو اغیار ساتھ ہو
دیکھ کر موسم بہاراں کو
یوں مجھ پہ جفا ہزار کیجو
گزر ہماری طرف بھی تو کر اے یار کبھو
تیری محفل پہ ہوا جو گزر پروانہ
ردیف ہ
عشق کا درد بے دوا ہے یہ
تو نے جو کچھ کہ کیا میرے دل زار کے ساتھ
دیکھ تجھ کاکل مشکیں کی ادائیں شانہ
کیا ہے تجھ سے دو چار آئینہ
یوں بہار خط سبز اس کے ہے رخسار کے ساتھ
اس سے ہو کر دو چار آئینہ
ردیف ی
لب رنگیں ہیں ترے رشک عقیق یمنی
کچھ نہ ادھر ہے نہ ادھر تو ہے
شتاب آکہ نہیں تاب انتظار مجھے
تجھ بن تو ایک دم نہیں آرام جاں مجھے
تھم گیا اشک شب ہجر میں روتے روتے
کیا کہوں گزرے ہے جو کچھ ہجر میں خواری مجھے
مت پوچھ تو جانے والے احوال کو فرقت کے
کیونکہ عاشق سے بھلا کوچۂ جاناں چھوٹے
مکتب میں تجھے دیکھ کسے ہوش سبق ہے
عاشقوں میں جو کوئی کشتۂ کاکل ہووے
میر مجلس رنداں آج وہ شرابی ہے
عاشق کا اگر دیدۂ خونبار نہ ہووے
رات مت پوچھ کہ تجھ بن جو مصیبت گزری
حسن سرشار ترا واردے بیہوشی ہے
حسن ہر نونہال رکھتا ہے
دل میں اتنی ہی رہی آہ تمنا اس سے
بزم بتاں میں ہر چند ہر ایک دلربا ہے
جو توں ہوے پاس تو دیکھوں بہار آنکھوں سے
آہ ملتے ہی پھر جدائی کی
مقدور کیا مجھے کہ کہوں وہاں کہ یہاں رہے
اب تک مرے احوال سے وہاں بے خبری ہے
ہم ہی تنہا نہ تری چشم کے بیمار ہوے
زلف اس رخ پہ صبا سے جو پریشاں ہو جائے
جس دن تم آکے ہم سے ہم آغوش ہو گئے
سلام بھی رہی زمانے میں اور دعا بھی ہے
نہ وفا ہے نہ مہر و الفت ہے
جب لگ کہ دل نہ لاگا ان بے مروتوں سے
تیرے مژگاں ہی نہ پہلو مارتے ہیں تیر سے
کون یہاں بازار خوبی میں ترا ہم سنگ ہے
گر ایک رات گزر یہاں وہ رشک ماہ کرے
وہ شوخ جو بے نقاب آوے
میرے دل میں نہیں کچھ خواہش دنیا باقی
قاصد اس کا پیام کچھ بھی ہے
مئے پئے مست ہے سرشار کہاں جاتا ہے
گر بڑے مرد ہو تم غیر کو یہاں جا دیجے
جو کچھ چاہئے آپ فرمائیے
تجھ عشق کا دعویٰ نہیں اے یار زبانی
آئیے نا آرزو ہے جاں نثاری کیجئے
تجھ بن آرام جاں کہاں ہے مجھے
نشہ میں جی چاہتا ہے بوسہ بازی کیجئے
دور سے بات خوش نہیں آتی
صفا الماس و گوہر سے فزوں ہے تیرے دنداں کی
دوستو جانے دو اب ہاتھ اٹھاؤ ہم سے
عیاں ہے شکل تری یوں ہمارے سینے سے
زاہد ! اس راہ نہ آ مست ہیں میخوار کئی
اٹھ کے لوگوں سے کنارے آئیے
اور کچھ بات یہاں بہت کم ہے
ٹک ایک سامنے آ تو بھی باغ میں گل کے
رمزو ایماء و اشارات چلی جاتی ہے
دیکھ اس پری (کو) کیجئے کیا اب تو جا لگی
تیغ حسن آبدار رکھتا ہے
کوچے سے تیری زلف کے دل کیونکہ چل سکے
خورشید تیرے سامنے آکر نہ چل سکے
خورشید شرم سے ترے آگے نہ آسکے
سامنے ہوتے ہی اس رخ کی درخشانی سے
متفرقات(13 شعر)
کوئی دم کھڑا جو لب دریا پہ رہ سکے
خمسہ جات(10) ، برغزل حافظ شیراز۔ 1
نہ پوچھ مجھ سے کچھ اے دل تو ماجرائے فراق
برغزل حافظ شیراز ۔ 2
فقط ہی جاگے نہ سر رات کوہ سے مارا
برغزل حضرت مرزا رفیع السودا ۔ 3
جو باتیں اور سے وہ ہم سے گفتگو معلوم
خدا جانے کدھر تو اے ماہ رو ہے
برغزل حضرت میر درد ۔ 4
برغزل قائم چاندپوری ۔ 5
میخانۂ عشق میں گزر کر
برغزل خود ۔ 6
خجالت اسکو عزیزاں! نہ دو ہوا سو ہوا
اے مرے دل کے خریدار خدا کو سونپا
برغزل خود ۔ 7
دل دادۂ جاں باختہ عشاق شیدا یک طرف
برغزل حضرت امیر خسروی دہلوی ۔ 8
برغزل حضرت امیر خسرو ۔ 9
زپائے بہ سراے ماہ مایۂ نوری
برغزل حافظ شیراز ۔ 10
پوچھے ہے تو کیا مجھ سے حال دل شیدائی
بھیجو اس شاہ پردرودوسلام
سلام بحضور سرور کائنات
رباعیات
خورشید سپہر دیں رسول الثقلین
دیوان فارسی
پارہ کردم نہ ہمیں حبیب شکیبائی را
شاخ مرجاں نہ رسد دست نگارین ترا
غزلیات
بہ از بالین کمخواب اب دست زیر سرمارا
اے رخت آفتاب خانۂ ما
یاد تو عشق جا و دانۂ ما
اے درد تو راحت دل ما
صبا بگوزمن آں ماہ مہر سیمارا
نیست کم زابر بہاراں دیدۂ پر خون ما
ردیف ت
درانجمنے کہ غیر من نیست
شور محشر کہ بہر کوچۂ و بازارے ہست
ردیف د
مہر است سہا پیش مہ ردے محمد
پرنور رخ روز شدازردے محمد
گل ہزاررچہ رنگ وبودارد
چوآں گل پیرہن در گلستاں مست شراب آید
دلبرم درکنارمی باید
بہ عزم قتل اگر آں نگار برخیزد
ردیف ش
ردیف س
نے ہمیں دربند رنگیں بال طاؤس است دبس
گرامشب آید آں یارم در آغوش
خیال زلف سیاہش بباغ دل دارم
ردیف ل
کرداز مے گل گوں برخت جلوہ گری رنگ
ردیف م
آں خط شب رنگ ترا خورشید تاباں دربغل
ردیف گ
فتنۂ آشوب صد محشر بہ عشقش دیدہ ام
چسپاں خجل نہ شود آبشار از مژہ ام
وصال گل عذارم بود شب جائیکہ من بودم
اے اسیر حلقۂ زلفت دل آزردہ ام
برداز ہوش مرانرگس جادوے کسے
ردیف ی
ردیف ن
بیایک دم بہ گل گشت چمن اے سرونازمن
در نعت حضرت خاتم المرسلیں ﷺ
محمد است آں کہ نور پاکش زآفتاب حقیقت آمد
یارب بدر تو پر گنہہ آمدہ ام
رباعیات(22)
قصائد ، در نعت حضرت سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والتحیات
بجرم عشق تو سازندگر مرا تشہیر
بہار باغ رسالت محمد آنکہ نمود
درمدح حضرت امام محمد ابن حسن رضی اللہ عنہ
بدرگہ شر دنیا ودیں پناہ برم
تاریخ بنائے فرودگاہ زائرین درگاہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی
سال تاریخ ایں چہ موزوں
قطعات تاریخی
سراقطاب قطب الدین خواجہ
تاریخ بنائے چاہ خانہ
مشفق من علی رضا کہ دلم
تاریخ وفات علی رضا مرحوم دوست مصنف
شیخ احمد آنکہ نور ذوالجلال
تاریخ وفات شیخ احمد مرحوم
ہزار افسوس وحسرت شاہ معصوم
تاریخ وفات شاہ معصوم
قطعہ تاریخ وفات حضرت خواجہ میر درد دہلوی علیہ الرحمہ
چناں علی مکان نو بنایا فت
آفتاب امت دین محمد خواجہ میرؔ
تاریخ بنائے مبارک منزل
خواجۂ جن و انس قطب الدین
مثنویات
در توصیف بناء درگاہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی وقطعہ تاریخ آں
نامۂ منظوم بنام کاظم علی خان معہ قطعۂ تاریخ وفات شفیع الدین
بیا اے خامہ مشکیں شمامہ
آں خدائیکہ زکن کون ومکاں پیدا کرد
شجرۂ و مدح اولیاء عظام وقطعہ تاریخ وفات شاہ عبد الستار
شجرۂ ومدح اولیاء سلسلہ بیعت مصنف
شجرۂ ومدح سلسلۂ اولیاء چشتیہ
ثناء وحمد ہمہ می سزوبذات احد
ضمیمہ
غزل متعلق ردیف ن
غیر از ترے حادث ہے جو کوئی اسکو فنا ہے
پادے کس طرح کوئی کس کو ہے مقدور ہمیں
سرورق
مقدمہ
فہرست کتب ماخذ
فہرست دیوان بیدار
فہرست غزلیات
دیوان بیدار
ہے نام ترا باعث ایجاد رقم کا
گلچین ستایش ہوں چمن ساز جہاں کا
دل خدا جانے کہاں تیرے گلستاں میں رہا
احوال سن مرے مژۂ اشکبار کا
آنکھوں میں چھا رہا ہے از بسکہ نور تیرا
تیرے دنداں سے فقط در ہے نہ عماں میں چھپا
چھوٹ کر جسم سے دل تیرے زنخداں میں گرا
جو وہ بہار عذار خوبی چمن میں آتا خرام کرتا
ہم پہ سو ظلم و ستم کیجئے گا
تو نے جو مدتوں میں ادھر کو گزر کیا
جو کچھ ہونا تھا سواے دل ہو گیا
دیتا نہیں دل مے کے وہ مغرور کسی کا
پاس میرے وہ دل آرام گر آج آوے گا
بھرا ہے وہ مری چشم پر آب میں دریا
ہم نشیں ! پوچھ نہ باعث تو مری زاری کا
مست ہم کو شراب میں رہنا
برنگ نقش نگیں زخم ہے مرے دل کا
جس چشم کو نہ ہو ترا دیدار دیکھنا
آہ کیا جانے کہاں وہ بت خود کام رہا
تنہا نہ دل ہی لشکر غم دیکھ ٹل گیا
جانوں ہی نہ جبکہ نام اس کا
کل تری یاد میں آنسو ہی نہ کچھ گلگوں تھا
نپٹ دل ہے مشتاق اے یار تیرا
گلبدن گھر مرے مہماں نہ ہوا تھا سو ہوا
پھر شتاب آئے وہ دلدار خدا کو سونپا
گر کہیں اس کو جلوہ گر دیکھا
جو کچھ کہ تھا وظائف واوراد رہ گیا
غم جگر شکن و درد جاں ستاں دیکھا
رشک کھاتا ہے چمن دیکھ کے داماں میرا
طلب میں تیری تنہا یہ نہ پائے جستجو ٹوٹا
دل سے پوچھا تو کہاں ہے تو کہا تجھ کو کیا؟
ہم کلام اس سے میں اک بار نہ ہونے پایا
یہ کون پے شکار نکلا
اگر یہ چرخ مجھے مہر سے حنا کرتا
سبزۂ خط ترے عارض پہ نمودار ہوا
میکدے میں جو ترے حسن کا مذکور ہوا
مے و ساقی ہیں سب یک جا آہاہاہا آہاہاہا
اس نے یہاں تک کبھو گزر نہ کیا
بارہا یار سے چاہا کہ ہوئیں اغیار جدا
جو اب کے چھوڑے مجھے غم تری جدائی کا
صبح کو بے نور بن تیرے چراغ لالہ تھا
جلوہ دکھا کے گزرا وہ نور دیدگاں کا
آپ میں دیکھ اسے میں رہ نہ سکا
گر اسی طرح سج بنایئے گا
نہیں کچھ ابر ہی شاگرد میری اشکباری کا
نہ جاہ و حشم کا طالب ہوں نے (میں) احتشامی کا
بے مروت بیوفا نامہرباں ناآشنا
آہ وہ ماہ نمایاں نہ ہوا
گرچہ دلکش ہے دلبراں کی ادا
متفرقات (6 شعر)
ہواے عشا سے سر سبز باغ ہے دل کا
مہرباں بھی ارے بے مہر کبھی ہووے گا
جو ایک شب مرے مہماں مرا صاحب
ردیف ب
وقت سحر نہ کھینچے اگر منہ پہ تو نقاب
لب میگوں میں ترے دیکھ بہم آتش و آب
اس شعلہ رو کی بزم میں گر آئے آفتاب
کیوں نہاں رنگ صفا میں ہوں علم آتش و آب
لے چکے دل تو جنگ کیا ہے اب
ردیف ت
خط اس عذار پہ دیکھا ہے ہم نے خواب میں رات
بیدار کروں کس کو میں اظہار محبت
دل سلامت اگر اپنا ہے تو دلدار بہت
دکھا دے دست نگاریں سے تو اگر انگشت
ردیف ث
کم نہ ہوویگا جنوں اس کی ہے تدبیر عبث
چشم و عارض ہی نہیں لیتے گل و نرگس سے آج
ردیف ج
ردیف چ
کھو دیا نور بصیرت تو نے ماؤمن کے بیچ
چشم ساقی نے چھکایا سب کو میخانے میں آج
خوبی جتنی ہے سنا ہے مرے دلدار کے بیچ
ردیف ح
گرچہ رکھتے ہیں بتاں اور ہی بیداد کی طرح
ہوتی ہے فصل گل میں جو مست بہار شاخ
ردیف خ
نہ دیا اسکو یاد یا قاصد!
پہن کے شام کوبرمیں لباس ململ سرخ
ردیف د
نہ غم دل نہ فکر جاں ہے یاد
نالہ گو ہے خدنگ کے مانند
ردیف ر
ردیف ذ
حال جاں سوز کا میں اس کو لکھوں گر کاغذ
جو وہ خورشید طلعت شام کو ہو بام پر ظاہر
گیا ہے جب سے دکھا جلوہ وہ پری رخسار
تجھ بن سر شک خوں کا ہے آنکھوں سے طغیاں اس قدر
یک شمہ تجھ شمیم بدن سے ہے بوئے عطر
حیف ہے ایسی زندگانی پر
وجد اہل کمال ہے کچھ اور
خاک و خوں میں ہیں تپاں عاشق غمناک ہنوز
ردیف ز
اس کو حنا کی دل میں نہ باقی رہے ہوس
ردیف س
ردیف ش
دل آتش و آہ دہر داغ غم آتش
دیکھ اسے شادی سے کرتا ہے دل دیوانہ رقص
ردیف ص
سبھوں سے یوں تو ہے دل آپ کا خوش
ردیف ض
سبزۂ خط ہے ترا ابر بہار عارض
عبث کرتا ہے اس سے اے دل اب عرض
چھوٹے اب اس شعلہ خو سے مجھ سے کیونکر اختلاط
ردیف ط
حسن ترا سا کہاں بر میں نہاں رکھتی ہے شمع
جاتا ہے مرے گھر سے دلدار خدا حافظ
ردیف ظ
ردیف ع
روشن مثال شمع ہزاروں ہیں دل کے داغ
ردیف غ
ہوی تھی اس رخ تاباں کے کیا مقابل شمع
سرمہ عزیز تجھ کو ہو اے چشم یار حیف
آتا ہے آج مجھ کو یہی بار بار حیف
ردیف ف
ردیف ق
گمان بے وفائی مجھ کو اے پیارے نہ تھا مطلق
ردیف ک
کینے کا ہے گا اگر ہم سے بھی آہنگ فلک
چرخ کی گردش سے یوں پھرتا ہے اس دنیا کا رنگ
ردیف گ
تا فلک آہ گئی تابہ سمک زاری دل
آپ نے کہنا کیا سب کا قبول
ردیف ل
بھڑکا ہے آہ سرد سے جوں شعلہ داغ دل
نہیں فقط تجھ حسن کی ہے ہند کے خوباں میں دھوم
کیا ہوے گلشن میں آکر اے عزیزاں شاد ہم
ردیف م
تجھ بن گلشن میں گر گئے ہم
آتیری گلی میں مر گئے ہم
یہ بھی کوئی وضع ہے آنے کی جو آتے ہو تم
محو رخ یار ہو گئے ہم
اے ظہور مبدأ ایجاد خلقت السلام
ردیف ن
خاک عاشق ہے ہوئی ہے جو تتار دامن
آوے گر اے جان تو مست شراب آغوش میں
شتاب آ کہ مجھے تاب انتظار نہیں
آہ اے یار کیا کروں تجھ بن
سینۂ داغدار رکھتا ہوں
چاہ کا تجھ کو مرے دل پہ گماں ہے کہ نہیں
جانیں مشتاقوں کی لب تک آئیاں
جاں بلب تجھ بن ہوں میں تو اب تلک آتا نہیں
یارب جو خار غم ہیں جلا دے انھوں کے تئیں
دل ہمارے کو چرا تم نے لیا کہتے ہیں
خرقہ رہن شراب کرتا ہوں
تیرے کوچے سے نہ یہ شیفتگاں جاتے ہیں
ہم تری خاطر نازک سے حذر کرتے ہیں
دید ہم اس ستم ایجاد کا کر جاتے ہیں
تیرے حیرت زدگاں اور کہاں جاتے ہیں
جو کحل چشم بتاں تیری خاک راہ کریں
ہم جو تجھ بزم سے اے نور بصر جاتے ہیں
بھرے موتی ہیں گویا تجھ دہن میں
نہ ہووے یہ کبھو(جو)آپ آنگاہ کریں
کہاں گنجائش حرف اس دہن میں
یہ تو قدرت ہی کہاں پاس جو اس کے جاؤں
بہار گلشن ایام ہوں میں
جوں غنچہ اپنی جیب میں جو سرفرو کریں
ماہ رخسار ہلال ابرو و خورشید جبیں
انجمن ساز عیش تو ہے یہاں
نہیں تیرا تو کچھ ہم اے بت خود کام لیتے ہیں
حصول فقر گر چاہے ہے چھوڑ اسباب دنیا کو
ردیف و
ترا جمال دل افروز جس نے دیکھا ہو
کہاں ہیں طالع بیدار یہ کہ ایسا ہو
دل کو میں آج ناصحا اس کو دیا جو ہو سو ہو
تم تو کہتے ہیں کہ عاشق کا فغاں سنتے ہو
کون سی بات دل میں لائے ہو
نہیں آرام ایک جا دل کو
داد دیتا نہیں فریادی کو
ایک دن وصل سے اپنے مجھے تم شاد کرو
کوئی کس طرح تم سے سربر ہو
آنے دیو تم اپنے پاس مجھ کو
جاتے ہو سیر باغ کو اغیار ساتھ ہو
دیکھ کر موسم بہاراں کو
یوں مجھ پہ جفا ہزار کیجو
گزر ہماری طرف بھی تو کر اے یار کبھو
تیری محفل پہ ہوا جو گزر پروانہ
ردیف ہ
عشق کا درد بے دوا ہے یہ
تو نے جو کچھ کہ کیا میرے دل زار کے ساتھ
دیکھ تجھ کاکل مشکیں کی ادائیں شانہ
کیا ہے تجھ سے دو چار آئینہ
یوں بہار خط سبز اس کے ہے رخسار کے ساتھ
اس سے ہو کر دو چار آئینہ
ردیف ی
لب رنگیں ہیں ترے رشک عقیق یمنی
کچھ نہ ادھر ہے نہ ادھر تو ہے
شتاب آکہ نہیں تاب انتظار مجھے
تجھ بن تو ایک دم نہیں آرام جاں مجھے
تھم گیا اشک شب ہجر میں روتے روتے
کیا کہوں گزرے ہے جو کچھ ہجر میں خواری مجھے
مت پوچھ تو جانے والے احوال کو فرقت کے
کیونکہ عاشق سے بھلا کوچۂ جاناں چھوٹے
مکتب میں تجھے دیکھ کسے ہوش سبق ہے
عاشقوں میں جو کوئی کشتۂ کاکل ہووے
میر مجلس رنداں آج وہ شرابی ہے
عاشق کا اگر دیدۂ خونبار نہ ہووے
رات مت پوچھ کہ تجھ بن جو مصیبت گزری
حسن سرشار ترا واردے بیہوشی ہے
حسن ہر نونہال رکھتا ہے
دل میں اتنی ہی رہی آہ تمنا اس سے
بزم بتاں میں ہر چند ہر ایک دلربا ہے
جو توں ہوے پاس تو دیکھوں بہار آنکھوں سے
آہ ملتے ہی پھر جدائی کی
مقدور کیا مجھے کہ کہوں وہاں کہ یہاں رہے
اب تک مرے احوال سے وہاں بے خبری ہے
ہم ہی تنہا نہ تری چشم کے بیمار ہوے
زلف اس رخ پہ صبا سے جو پریشاں ہو جائے
جس دن تم آکے ہم سے ہم آغوش ہو گئے
سلام بھی رہی زمانے میں اور دعا بھی ہے
نہ وفا ہے نہ مہر و الفت ہے
جب لگ کہ دل نہ لاگا ان بے مروتوں سے
تیرے مژگاں ہی نہ پہلو مارتے ہیں تیر سے
کون یہاں بازار خوبی میں ترا ہم سنگ ہے
گر ایک رات گزر یہاں وہ رشک ماہ کرے
وہ شوخ جو بے نقاب آوے
میرے دل میں نہیں کچھ خواہش دنیا باقی
قاصد اس کا پیام کچھ بھی ہے
مئے پئے مست ہے سرشار کہاں جاتا ہے
گر بڑے مرد ہو تم غیر کو یہاں جا دیجے
جو کچھ چاہئے آپ فرمائیے
تجھ عشق کا دعویٰ نہیں اے یار زبانی
آئیے نا آرزو ہے جاں نثاری کیجئے
تجھ بن آرام جاں کہاں ہے مجھے
نشہ میں جی چاہتا ہے بوسہ بازی کیجئے
دور سے بات خوش نہیں آتی
صفا الماس و گوہر سے فزوں ہے تیرے دنداں کی
دوستو جانے دو اب ہاتھ اٹھاؤ ہم سے
عیاں ہے شکل تری یوں ہمارے سینے سے
زاہد ! اس راہ نہ آ مست ہیں میخوار کئی
اٹھ کے لوگوں سے کنارے آئیے
اور کچھ بات یہاں بہت کم ہے
ٹک ایک سامنے آ تو بھی باغ میں گل کے
رمزو ایماء و اشارات چلی جاتی ہے
دیکھ اس پری (کو) کیجئے کیا اب تو جا لگی
تیغ حسن آبدار رکھتا ہے
کوچے سے تیری زلف کے دل کیونکہ چل سکے
خورشید تیرے سامنے آکر نہ چل سکے
خورشید شرم سے ترے آگے نہ آسکے
سامنے ہوتے ہی اس رخ کی درخشانی سے
متفرقات(13 شعر)
کوئی دم کھڑا جو لب دریا پہ رہ سکے
خمسہ جات(10) ، برغزل حافظ شیراز۔ 1
نہ پوچھ مجھ سے کچھ اے دل تو ماجرائے فراق
برغزل حافظ شیراز ۔ 2
فقط ہی جاگے نہ سر رات کوہ سے مارا
برغزل حضرت مرزا رفیع السودا ۔ 3
جو باتیں اور سے وہ ہم سے گفتگو معلوم
خدا جانے کدھر تو اے ماہ رو ہے
برغزل حضرت میر درد ۔ 4
برغزل قائم چاندپوری ۔ 5
میخانۂ عشق میں گزر کر
برغزل خود ۔ 6
خجالت اسکو عزیزاں! نہ دو ہوا سو ہوا
اے مرے دل کے خریدار خدا کو سونپا
برغزل خود ۔ 7
دل دادۂ جاں باختہ عشاق شیدا یک طرف
برغزل حضرت امیر خسروی دہلوی ۔ 8
برغزل حضرت امیر خسرو ۔ 9
زپائے بہ سراے ماہ مایۂ نوری
برغزل حافظ شیراز ۔ 10
پوچھے ہے تو کیا مجھ سے حال دل شیدائی
بھیجو اس شاہ پردرودوسلام
سلام بحضور سرور کائنات
رباعیات
خورشید سپہر دیں رسول الثقلین
دیوان فارسی
پارہ کردم نہ ہمیں حبیب شکیبائی را
شاخ مرجاں نہ رسد دست نگارین ترا
غزلیات
بہ از بالین کمخواب اب دست زیر سرمارا
اے رخت آفتاب خانۂ ما
یاد تو عشق جا و دانۂ ما
اے درد تو راحت دل ما
صبا بگوزمن آں ماہ مہر سیمارا
نیست کم زابر بہاراں دیدۂ پر خون ما
ردیف ت
درانجمنے کہ غیر من نیست
شور محشر کہ بہر کوچۂ و بازارے ہست
ردیف د
مہر است سہا پیش مہ ردے محمد
پرنور رخ روز شدازردے محمد
گل ہزاررچہ رنگ وبودارد
چوآں گل پیرہن در گلستاں مست شراب آید
دلبرم درکنارمی باید
بہ عزم قتل اگر آں نگار برخیزد
ردیف ش
ردیف س
نے ہمیں دربند رنگیں بال طاؤس است دبس
گرامشب آید آں یارم در آغوش
خیال زلف سیاہش بباغ دل دارم
ردیف ل
کرداز مے گل گوں برخت جلوہ گری رنگ
ردیف م
آں خط شب رنگ ترا خورشید تاباں دربغل
ردیف گ
فتنۂ آشوب صد محشر بہ عشقش دیدہ ام
چسپاں خجل نہ شود آبشار از مژہ ام
وصال گل عذارم بود شب جائیکہ من بودم
اے اسیر حلقۂ زلفت دل آزردہ ام
برداز ہوش مرانرگس جادوے کسے
ردیف ی
ردیف ن
بیایک دم بہ گل گشت چمن اے سرونازمن
در نعت حضرت خاتم المرسلیں ﷺ
محمد است آں کہ نور پاکش زآفتاب حقیقت آمد
یارب بدر تو پر گنہہ آمدہ ام
رباعیات(22)
قصائد ، در نعت حضرت سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والتحیات
بجرم عشق تو سازندگر مرا تشہیر
بہار باغ رسالت محمد آنکہ نمود
درمدح حضرت امام محمد ابن حسن رضی اللہ عنہ
بدرگہ شر دنیا ودیں پناہ برم
تاریخ بنائے فرودگاہ زائرین درگاہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی
سال تاریخ ایں چہ موزوں
قطعات تاریخی
سراقطاب قطب الدین خواجہ
تاریخ بنائے چاہ خانہ
مشفق من علی رضا کہ دلم
تاریخ وفات علی رضا مرحوم دوست مصنف
شیخ احمد آنکہ نور ذوالجلال
تاریخ وفات شیخ احمد مرحوم
ہزار افسوس وحسرت شاہ معصوم
تاریخ وفات شاہ معصوم
قطعہ تاریخ وفات حضرت خواجہ میر درد دہلوی علیہ الرحمہ
چناں علی مکان نو بنایا فت
آفتاب امت دین محمد خواجہ میرؔ
تاریخ بنائے مبارک منزل
خواجۂ جن و انس قطب الدین
مثنویات
در توصیف بناء درگاہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی وقطعہ تاریخ آں
نامۂ منظوم بنام کاظم علی خان معہ قطعۂ تاریخ وفات شفیع الدین
بیا اے خامہ مشکیں شمامہ
آں خدائیکہ زکن کون ومکاں پیدا کرد
شجرۂ و مدح اولیاء عظام وقطعہ تاریخ وفات شاہ عبد الستار
شجرۂ ومدح اولیاء سلسلہ بیعت مصنف
شجرۂ ومدح سلسلۂ اولیاء چشتیہ
ثناء وحمد ہمہ می سزوبذات احد
ضمیمہ
غزل متعلق ردیف ن
غیر از ترے حادث ہے جو کوئی اسکو فنا ہے
پادے کس طرح کوئی کس کو ہے مقدور ہمیں
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔