سرورق
مضامین
تقریب
دیباچہ
ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن
دیوان غالب (حصۂ اول)
قصائد
الف
آتشیں پا ہوں گداز وحشت زنداں نہ پوچھ
غزلیات
جنوں گرم انتظار ونالہ بیتابی کمند آیا
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب؟
سواد چشم بسمل انتخاب نقطہ آرائی
عالم جہاں بعرض بساط وجود تھا
فکر نالہ میں گویا حلقہ ہوں زسر تاپا
کارخانے سے جنوں کے بھی میں عریاں نکلا
نہ ہوئی ہم سے رقم حیرت خط رخ یار
ناتوانی ہے تماشائی عمر رفتہ
شب اختر قدح عیش نے محمل باندھا
نہ بھولا اضطراب دم شماری انتظار اپنا
دیکھتے تھے ہم بچشم خود وہ طوفان بلا
شب کہ ذوق گفتگو سے تیری دل بیتاب تھا
رہ خوابیدہ تھی گردن کش یک درس آگاہی
ہوں چراغان ہوس جوں کاغذ آتشزدہ
جہات مٹ جاے سعی دید خضر آباد آسایش
ہو س گستاخی آئینہ تکلیف نظر بازی
کس کا خال آئنۂ انتظار تھا؟
زبس خوں گشتۂ وفا تھا وہمم بسمل کا
ملی نہ وسعت جولان یک جنوں ہم کو
شگفتن کمیں گاہ تقریب جوئی
بہار رنگ خون گل ہے ساماں اشکباری کا
ضعف جنوں کو وقت تپش دو بھی دور تھا
خود پرستی سے رہے با ہمدگر ناآشنا
طاؤس در رکاب ہے ہر ذرہ آہ کا
گر وہ مست ناز تمکیں دے صلای عرض حال
گرمی دولت دوئی آتشزن نام نکو
دود میرا سنبلستاں سے کرے ہے ہمسری
جاندادگاں کا حوصلہ فرصت گداز ہے
خود آرا وحشت چشم پری سے شب وہ بدخو تھا
خلوت آبلۂ پا میں ہے جولاں میرا
بت پرستی ہے بہار نقش بندیہاے دہر
دویدن کے کمیں جوں ریشۂ زیر زمیں پایا
نزاکت ہے فسون دعوی طاقت شکستنہا
بشغل انتظار مہوشاں در خلوت شبہا
بسان جوہر آئینہ از ویرانی دلہا
یاد روزے کہ نفس سلسلۂ یارب تھا
برہن شرم ہے باوصف شوخی اہتمام اس کا
بسکہ جوش گریہ سے زیر وزبر ویرانہ تھا
رات دل گرم خیال جلوۂ جاناں تھا
وحشتیں بن صیاد نے ہم رنجوردوں کو کیا رام کیا
کرے گر حیرت نظارہ طوفان نکتہ گوئی کا
یک گام بیخودی سے لوٹیں بہار صحرا
کیا کس شوخ نے ناز از سر تمکیں نشتن کا؟
شب کہ دل زخمی عرض دو جہاں تیرآیا
سیر آنسوے تماشا ہے طلبگاروں کا
عیادت سے زبس ٹوٹا ہے دل یاران غمگیں کا
ورد اسم حق سے دیدار صنم حاصل ہوا
بسکہ عاجز نارسائی سے کبوتر ہو گیا
ہے تنگ زوامانندہ شدن حوصلۂ پا
گرفتاری میں فرمان خط تقدیر ہے پیدا
بہ مہر نامہ جو بوسہ گل پیام رہا
بسکہ ہے میخانہ ویراں جوں بیابان خراب
سحرگہ باغ میں وہ حیرت گلزار ہو پیدا
ت
ہے بہاراں میں کزاں پرور خیال عندلیب
جاتا ہوں جدھر سب کی اٹھے ہے ادھر انگشت
دود شمع کشتۂ گل بزم سامانی عبث
دو عالم کی ہستی پہ خط وفا کھینچ
ث
ج
معزولی تپش ہوئی افراط انتظار
ناز لطف عشق با وصف توانائی عبث
جنبش گلبرگ سے ہے گل کے لب کو اختلاج
چ
نہ کہہ کہ طاقت رسوائی وصال نہیں
قطع صفرہستی وآرام فنا ہیچ
بیدل نہ ناز وحشت جیب دریدہ کھینچ
د
دعوی عشق بتاں سے بگلستاں گل وصبح
بکام دل کریں کس طرح گمرہاں فریاد
ح
بسکہ وہ پاکو بیاں در پردۂ وحشت ہیں یاد
تھی نگہ میری نہا خانۂ دل کی نقاب
تو پست فطرت اور خیال بسا بلند
ر
بسکہ مائل ہے وہ رشک ماہتاآئینےپر
حسرت دستگہ وہ پاے تحمل تا چند
بینش بسعی ضبط جنوں نوبہار تر
خط نوخیز نیل چشم صافی عارض
فسون یکدلی ہے لذت بیداد دشمن ہو
دیا یاروں نے بیہوشی میں درماں کا فریب آخر
شیشۂ آتشیں رخ پر نور
بیگانۂ وفا ہے ہواے چمن ہنوز
میں ہوں سراب یک تپش آموختن ہنوز
فریب صنعت ایجاد کا تماشا دیکھ
حسن خود آرا کو ہے مشق تغافل ہنوز
داغ اطفال ہے دیوانہ بکہسار ہنوز
کو بیابان تمنا وہ کجا جولان عجز؟
چاک گریباں کو ہے زبط تامل ہنوز
س
حاصل دلبستگی ہے عمر کوتاہ اور بس
نہ بندھا تھا بعدم نقش دل مور ہنوز
دشت الفت میں ہے خاک کشتگاں محبوس وبس
ش
کرتا ہے بیاد بت رنگیں دل مایوس
ہوئی ہے بسکہ صرف مشق تمکیں بہار آتش
باقلیم سخن ہے جلوۂ گرد سواد آتش
شمع سے ہے بزم انگشت تحیو در دہن
ع
غ
عشاق اشک چشم سے دھوویں ہزار داغ
بلبلوں کو دور سے کرتا ہے منع بار باغ
ف
اس عمل میں عیش کی لذت نہیں ملتی اسد
نامہ بھی لکھتے ہیں ہو تو بخط غبار حیف!
ک
عیسیٰ مہرباں ہے شفاریز یک طرف
گ
اے آرزو شہید وفا خونبہا نمانگ
آئے ہیں پارہ ہا سے جگر درمیان اشک
ہر عضو غم سے ہے شکن آسا شکستہ دل
ل
بدر ہے آئینہ طاق ہلال
ہوں بوحشت انتظار آوارۂ دشت خیال
بہر عرض حال شبنم ہے رقم ایجاد گل
دیوانگاں کا چارہ فروغ بہار ہے
م
گرچہ ہے یک بیضۂ طاؤس آسا تنگ دل
اثر کمندی فریاد نارسا معلوم
بسکہ ہیں بدمست بشکن بشکن میخانہ ہم
رہتے ہیں افسردگی سے سخت بیدردانہ ہم
از انجاکہ حسرت کش یار ہیں ہم
ن
جس دم کہ جادہ وار ہو تار نفس تمام
خوش وحشتی کہ عرض جنون وفا کروں
آنسو کہوں کہ آہ سوار ہوا کہوں؟
کسو کو زخود رفتہ کم دیکھتے ہیں
جائے کہ پاے سیل بلا درمیاں نہیں
آئینہ دام کو پردے میں چھپاتا ہے عبث
ہے ترحم آفریں آرایش بیداد یاں
پاؤں میں جب وہ حنا باندھتے ہیں
فزوں کی دوستوں نے حرص قاتل ذوق کشتن میں
سرشک آشفتہ سر تھا قطرہ زن مژگاں سے جانے میں
صاف ہے از بسکہ عکس گل سے گلزار چمن
تن بہ بند ہوس درندادہ رکھتے ہیں
جوں مردمک چشم سے ہوں جمع نگاہیں
کیا ضعف میں امید کو دل تنگ نکالوں
طاؤس نمط داغ کے گر رنگ نکالوں
خوں در جگر نہفتہ بزردی رسیدہ ہوں
سودای عشق سے دم سرد کشیدہ ہوں
بقدر لفظ ومعنی فکرت احرام گریباں ہیں
مرگ شیرں ہو گئی تھی کوہکن کی فکر میں
فتادگی میں قدم استوار رکھتے ہیں
اے نوا ساز تماشا سربکف جلتا ہوں میں
بغفلت عطر گل ہم آگہی مخمور ملتے ہیں
ہوئی ہیں آب شرم کوشش بیجا سے تدبیریں
ظاہرا سر پنچۂ افتادگاں گیرا نہیں
بیدماغی حیلہ جو سے ترک تنہائی نہیں
ضبط سے مطلب بجز وارستگی دیگر نہیں
فلک سفلہ بے محابا ہے
دیکھیے مت چشم کم سے ضبط افسردگاں
بے درد سر بسجدۂ الفت فرو نہ ہو
و
بالیدن سنگ وگل صحرا یہ چاہے ہے
اگر وہ آفت نظارہ جلوہ گستر ہو
مبادا بے تکلف فصل کا برگ ونوا گم ہو
خشکی مے نے تلف کی میکدے کی آبرو
رنگ طرب ہے صورت عہد وفا گرو
حیرت ہجوم لذت غلطانی تپش
ہ
جز دل سراغ درد بدل خفتگاں نہ پوچھ
بسکہ می پیستے ہیں ارباب فنا پوشیدہ
خلق ہے صفحۂ عبرت سے سبق ناخواندہ
رفتار سے شیرازۂ اجزاے قدم باندھ
شکوہ وشکر کو ثمر بیم وامید کا سمجھ
جوش دل ہے مجھ سے حسن فطرت بیدل نہ پوچھ
دل ہی نہیں کہ منت درباں اٹھائیے
کلفت ربط ایں وآں غفلت مدعا سمجھ
ی
مجھے معلوم جو تو نے میرے حق میں سوچا ہے
کیا پوچھے ہے بر خود غلطیہاے عزیزاں؟
کرتے ہو شکوہ کس کا؟ تم اور بیوفائی
ظاہر ہے طرز قید سے صیاد کی غرض
نظر بنقص گدایاں کمال بے ادبی ہے
ہے پیچتاب رشتۂ شمع سحر گہی
کہوں کیا گر م جوشی میکشی میں شعلہ رویاں کی؟
نہ کھینچ اے سعی دست نارسا زلف تمنا کو
بجز دیوانگی ہوتا ہے نہ انجام خود آرائی
ہوا ہے مانع عاشق نوازی ناز خود بینی
تشنۂ خون تماشا جو وہ پانی مانگے
ہمزباں آیا نظر فکر سخن میں تو مجھے
بنان شوخ کا دل سخت ہوگا کس قدر یارب
نشۂ مے بے چمن دود چراغ کشتہ ہے
دل بیمار از خود رفتہ تصویر نہالی ہے
یوں بعد ضبط اشک پھروں گرد یار کے
بنقص ظاہری رنگ کمال طبع پنہاں ہے
آئینہ نفس سے بھی ہوتا ہے کدورت کش
جہاں زندان موجستان دلہاے پریشاں ہے
کجامے؟ کو عرق؟ شعی عروج نشۂ رنگیں تر
عاشق نقاب جلوۂ جانانہ چاہیے
ہاتھ پر گر ہاتھ مار سے یا روقت قہقہہ
چشم خوباں میفروش نشۂ زار ناز ہے
بسکہ حیرت سے زپا افتادۂ زنہار ہے
خواب جمیعت محمل ہے پریشاں مجھ سے
تغافل مشربی سے ناتمامی بسکہ پیدا ہے
ببزم مے پرستی حسرت تکلیف بیجا ہے
اثر سوز محبت کا قیامت بیمحابا ہے
بذوق شوخی اعضا تکلف بار بستر ہے
بپاس شوخی مژگاں سر ہر خار سوزن ہے
دل سراپا وقف سودای نگاہ تیز ہے
تر جبیں رکھتی ہے شرم قطرہ سامانی مجھے
شوخی مضراب جولاں آبیار نغمہ ہے
صبح ناپیدا ہے کلفت خانۂ ادبار میں
وحشت کہاں کہ بیخودی انشا کرے کوئی؟
خود فروشیہاے ہستی بسکہ جاے خندہ ہے
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
عجز دیدنہا بناز وناز رفتہا بچشم
باغ تجھ بن گل نرگس سے ڈراتا ہے مجھے
حیرت تپیدنہا خونبہاے دیدنہا
یاد رکھیے ناز ہاے التفات اولیں
غم وعشرت قدمبوس دل تسلیم آئیں ہے
دیکھتا ہوں وحشت شوق خروش آمادہ سے
ہے انتظار سے شرر آباد رستخیز
زنجیر یاد پڑتی ہے جادے کو دیکھ کر
بحلقۂ خم گیسوے راستی آموز
منت کشی میں حوصلہ بے اختیار ہے
کیا ہے ترک دنیا کاہلی سے
پھونکتا ہے نالہ ہر شب صور اسرافیل کی
نگہ اس چشم کی افزوں کر ے ہے ناتوانائی
بسکہ زیر خاک با آب طراوت راہ ہے
بسکہ چشم از انتظار خوش خطاں بے نور ہے
اے خیال وصل نادر ہے مے آشامے تری
گریاس سر نہ کھینچے تنگی عجب فضا ہے
ربط تمیز اعیاں درد می صدا ہے
ضبط سے جوں مردمک اسپند اقامت گیر ہے
ذوق خود داری خراب وحشت تسخیر ہے
بیخود زبسکہ خاطر بیتاب ہو گئی
ہر رنگ سوز پردۂ یک سا ز ہے مجھے
یہ سر نوشت میں میری ہے اشک افشانی
خدایا دل کہاں تک دن بصد رنج وتعب کاٹے
نگاہ یار نے جب عرض تکلیف شرارت کی
بفکر حیرت رم آئینہ پرداز زانو ہے
خبر نگہ کو نگہ چشم کو عدو جانے
ہوا ہے جب حسن کم خط بر عذار سادہ آتا ہے
دیکھ تری خوے گرم دل بتپش رام ہے
کاوش دزد حنا پوشیدہ افسوں ہے مجھے
محو آرامیدگی سامان بیتابی کرے
دلا عبث ہے تمناے خاطر افروزی
اے خوشا قتے کہ ساقی یک خمستاں واکرے
صبح سے معلوم آثار ظہور شام ہے
عذار یار نظر بند چشم گریاں ہے
بہار تعزیت آباد عشق ماتم ہے
شفق بدعوی عاشق گواہ رنگیں ہے
جوہر آئینہ ساں مژگاں بدل آسودہ ہے
بہر پروردن سراسر لطف گستر سایہ ہے
چشم گریاں بسمل شوق بہار دید ہے
فرصت آئینہ صد رنگ خود آرائی ہے
نواے خفتۂ الفت اگر بیتاب ہو جاوے
دامان دل بوہم تماشا نہ کھینچیے
تاچند ناز مسجد وبتخانہ کھینچیے
بسکہ سودای خیال زلف وحشتناک ہے
زلف سیہ افعی نظر بد قلمی ہے
مژہ پہلوے چشم اے جلوۂ ادراک باقی ہے
شکل طاؤس گرفتار بنایا ہے مجھے
جنوں رسوائی وارستگی زنجیر بہتر ہے
دربوزۂ سامانہا اے بے سروسامانی
گریہ سرشاری شوق بہ بیاباں زدہ ہے
خواب غفلت بہ کمینگاہ نظر پنہاں ہے
کلفت طلسم جلوۂ کیفیت دگر
کوشش ہمہ بیتاب تردد شکنی ہے
نظر پرستی وبیکاری وخود آرائی
کاشانۂ ہستی کہ برانداختنی ہے
گلستاں بے تکلف پیش پا افتادہ مضموں ہے
گداے طاقت تقریر ہے زباں تجھ سے
حکم بیتابی نہیں اور آرمیدن منع ہے
قتل عشاق نہ غفلت کش تدبیر آوے
تاچند نفس غفلت ہستی سے بر آوے
بیتابی یاد دوست ہمرنگ تسلی ہے
چار سوے عشق میں صاحب دکانی مفت ہے
سوختگاں کی خاک میں زیرش نقش داغ ہے
اگر گل حسن والفت کی بہم جوشیدنی جانے
ابر روتا ہے کہ بزم طرب آمادہ کرو
رباعیات
دیوان غالب (حصۂ دوم)
دیباچہ
قطعات
ہے جو صاحب کے کف دست پہ یہ چکنی ڈلی
کلکتّے کا جو ذکر کیا تو نے ہمنشیں
گئے وہ دن کہ نادانستہ غیروں کی وفاداری
اے شہنشاہ فلک منظر بے مثل ونظیر
منظور ہے گزارش احوال واقعی
اے شہنشاہ آسماں اورنگ
نصرت الملک بہادر مجھے بتلا کہ مجھے
اے شاہ جہانگیر جہاں بخش جہاندار
ہے چار شنبہ آخر ماہ صفر چلو
سیہ گلیم ہوں لازم ہے میرا نام نلے
سہل تھا مسہل ولے یہ سخت مشکل آپڑی
مثنویات
قصائد
ساز یک ذرہ نہیں فیض چمن سے بیکار
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہاں مہ نو سنیں ہم اس کا نام
صبح دم دروازۂ خاور کھلا
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
غزلیات
شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسندآیا
الف
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروی کار
کہتے ہو ندیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
جب بتقریب سفر یار نے محمل باندھا
شوق ہر رنگ رقیب سرو ساماں نکلا
شب کو برق سوز دل سے زہرۂ ابر آب تھا
پی نذر کرم تحفہ ہے شرم نارسائی کا
شب خمار شوق ساقی رستخیر اندازہ تھا
وہ مری چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگی جاکا
یک ذرۂ زمیں نہیں بیکار باغ کا
غافل بوہم ناز خود آرا ہے ورنہ یاں
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
گر نہ اندوہ شب فرقت بیاں ہو جاے گا
دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
تو دوست کسی کا بھی ستمگر نہ ہوا تھا
شب کو وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا
عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
ایک ایک قطر ے کا مجھے دینا پڑا حساب
دھمکی میں مرگیا جو نہ باب نبرد تھا
دوست غمخواری میں میری سع فرماویں گے کیا
محرم نہیں ہے تو ہی نواھای راز کا
ستایشگر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
عشق قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
گھر ہمارا جو نروتے بھی تو ویراں ہوتا
میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں
ذکر اس پریوش کا اور پھر بیاں اپنا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
حور سے باز آئے پرباز آئیں کیا؟
درد منت کش دوا نہ ہوا
در خور قہر وغضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
ب
افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے
پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موج شراب
ت
رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
آمد خط سے ہوا ہے سرد جو بازار دوست
گلشن میں بندوبست برنگ دگر ہے آج
نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ
ج
ر
حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
بلا سے ہیں جو بہ پیش نظر درودیوار
د
لرزتا ہے مرا دل زحمت مہر درخشاں پر
چ
کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر
جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی
گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور
ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
ز
حریف مطلب مشکل نہیں فسوں نیاز
فارغ مجھے نجان کہ مانند صبح ومہر
وسعت سعی کرم دیکھ کر سرتا سر خاک
نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
کیوں اس بت سے رکھوں جان عزیز
مژدہ اے ذوق اسیری کہ نظر آتا ہے
نہ لیوے گر خس جوہر طراوت سبزۂ خط سے
ش
س
رخ نگار سے ہے سوز جاودانی شمع
ع
ف
بیم رقیب سے نہیں کرتے وداع ہوش
ک
آہ کو چاہیے ایک عمر اثر ہوتے تک
زخم پر چھڑکیں کہاں طفلان بے پروا نمک
ہے کس قدر ہلا ک فریب وفاے گل
ل
گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نمانگ
گ
لوں وام بخت خفتہ سے یک خواب خوش ولے
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
م
ن
عہد ے سے مدح ناز کے باہر نہ آسکا
غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
دل لگا کر لگ گیا ان کو بھی تنہا بیٹھنا
جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے در خور مرے تن میں
تیرے تو سن کو صبا باندھتے ہیں
برشکال گریۂ عاشق ہے دیکھا چاہیے
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
عشق تاثیر سے نومید نہیں
دیوانگی سے دوش پہ نار بھی نہیں
آبرو کیا خاک اس گل کی کہ گلشن میں نہیں
مزے جہاں کے اپنی نظر میں خاک نہیں
ذکر میرا بہ بدہ بھی اسے منظوری نہیں
نالہ جز حسن طالب اے ستم ایجا نہیں
مہرباں ہو کے بلالو مجھے چاہو جس وقت
یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
ہم پر جفا سے ترک وفا کا گماں نہیں
ملتی ہے خوے یار سے نار التہاب میں
کل کے لیے کر آج نہ خست شراب میں
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
دونوں جہان دے کر وہ سمجھے یہ خوش رہا
سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہو گئیں
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آے کیوں
وارے اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو
حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرم تماشا ہو
و
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم وراہ ہو
دھوتا ہوں جب میں پینے کواس سیمتن کے پاؤں
گئی وہ بات کہ وہ گفتگو تو کیونکر ہو
کعبے میں جارہا تو ندو طعنہ کیا کہیں
قفس میں ہوں گر اچھا بھی نجانیں میرے شیون کو
کسی کو دیکے دل کوئی نواسنج فغاں کیوں ہو
ہے بزم بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
ی
صد جلوہ روبرو ہے جو مژگاں اٹھائیے
غم دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
کیا تنگ ہم ستمزدگاں کا جہاں ہے
درد سے میرے ہے تجھ کو بیقراری ہائہاے
سرگشتگی میں عالم ہستی سے یاس ہے
گر خامشی سے فائدہ اخفاے حال ہے
تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھو
ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے
جنوں تہمت کش تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
نکوہش ہے سزا فریادی بیداد دلبر کی
جو نہ نقد داغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
ہجوم غم سے یاں تک سرنگونی مجھ کو حاصل ہے
پا بدامن ہورہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد
آہ کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
نقش ناز بت طناز بآغوش رقیب
تغافل دوست ہوں میرا دماغ عجز عالی ہے
نہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی
گلشن کو تری صحبت ازبسکہ خوش آئی ہے
ہجوم نالہ حیرت یاجز عرض یک افغاں ہے
چاک کی خواہش اگر وحشت بعریانی کرے
ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے
تپش سے میری وقف کشمکش ہر تار بستر ہے
ایک جا حرف وفا لکھا تھا سو بھی مٹ گیا
کرے ہے بادہ ترے سے لب سے کسب رنگ فروغ
کیوں نہ ہو چشم بتاں محو فغافل کیوں نہو
زبسکہ مشق تماشا جنوں علامت ہے
عرض ناز شوخی دنداں براے خندہ ہے
یا د ہے شادی میں بھی ہنگامۂ یارب مجھے
جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی
مستی بذوق غفلت ساقی ہلاک ہے
باغ پاکر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
جس جا نسیم شانہ کش زلف یار ہے
کارگاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے
شبنم بگل لالہ نہ خالی ز ادا ہے
آئینہ کیوں ندوں کہ تماشا کہیں جسے
خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے
مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
مسری ہستی فضای حیرت آباد تمنا ہے
دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آجاے ہے
چاہیے اچھوں کو جتنا چاہیے
گرم فریاد رکھا شکل نہالی نے مجھے
پھر کچھ اک دل کو بیقراری ہے
وہ آکے خواب میں تسکین اضطراب تو دے
کبھی نیکی بھی اس کے جی میں گر آجاے ہے مجھ سے
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوے
بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوے
چشم خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے
عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
رونے سے اور عشق میں بیباک ہو گئے
ہوں میں بھی تماشائی نیرنگ تمنا
ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے
کب وہ سنتا ہے کہانی میری
سادگی پر اس کی مرجانے کی حسر ت دل میں ہے
گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا
دیکھ کر دو پردہ گرم دامن افشانی مجھے
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
نوید امن ہے بیداد دوست جاں کے لیے
لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جادے مجھے
تسکیں کو ہم نروئیں جو ذوق نظر ملے
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
کوئی امید بر نہیں آتی
کہتے تو ہو تم سب کہ بت غالیہ مو آے
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
حسن مہ گرچہ بہنگام کمال اچھا ہے
شکوے کے نام سے بیمہر خفا ہوتا ہے
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
اس بزم میں مجھ سے نہیں بنتی حیا کیسے
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
منظور تھی یہ شکل تجلی کو طور کی
حضور شاہ میں اہل سخن کی آزمایش ہے
غم کھانے میں بودا دل ناکام بہت ہے
نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہیے
کہوں جو حال تو کہتے ہو مدعا کہیے
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے
پھر اس انداز سے بہارآئی
روندی ہوئی ہے کوکبۂ شہر یار کی
رباعیات
خاتمہ
دیوان غالب (حصۂ سوم)
بسکہ فعال مایرد ہے آج
قطعات
ایک اہل درد نے سنسان جو دیکھا قفس
اٹھا اک دن بگولا سا جو کچھ میں جوش وحشت میں
اس کتاب طرف نصاب نے جب
سلیم خاں کہ وہ ہے نور چشم واصل خاں
ہندوستان کی بھی عجب سرزمین ہے
مقام شکر ہے اے ساکنان خطۂ خاک
خوشی ہے یہ آنے کی برسات کی
ہند میں اہل تسنن کی ہیں دو سلطنتیں
مثنویات
ایک دن مثل پتنگ کاغذی
مژدہ اے رہروان راہ سخن
قادر اللہ اور یزداں ہے خدا
اے جہاں آفریں خدای کریم
ملاذ کشور ولشکر پناہ شہر وسپاہ
قصائد
گنی ہیں سال کے رشتے میں بیس بار گرہ
مرحبا سال فرخی آئیں
کرتا ہے چرخ روز بصد گونہ احترام
مرثیہ
ہاں اے نفس باد سحر شعلہ فشاں ہو
سلام اسے کہ اگر بادشاہ کہیں اس کو
سہرا
خوش ہو اے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا
مخمس
غزلیات
الف
ب ، ر
آفت آہنگ ہے کچھ نالۂ بلبل ورنہ
س ، ط ، غ
بدتر از ویرانہ ہے فصل خزاں میں صحن باغ
دیکھنے میں ہیں گرچہ دو پر ہیں یہ دونوں یار ایک
ک
محفل شمع عذاراں میں جو آجاتا ہوں
ل ، ن
اپنا احوال دل زار کہوں یا نکہوں
جو شمع ہم اک سوختہ سامان وفا ہیں
ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
نسخۂ سوزش دل در خور عناب نہیں
حسن بے پروا گرفتار خود آرائی نہ ہو
و
وضع نیرنگی آفاق نے مارا ہم کو
گاتی تھیں شمرو کی بیگم تنناہا یا ہو
بھولے سے کاش وہ ادھرآئیں تو شام ہوا
شب وصال میں مونس گیا ہے بن تکیہ
نپوچھ حال اس انداز اس عتاب کے ساتھ
دیکھ وہ برق تبسم بس کہ دل بیتاب ہے
ی
نسیم صبح جب کنعان میں بوے پیرہن لائی
وفا جفا کی طلبگار ہوتی آئی ہے
نمایش پردہ دار طرز بیداد تغافل ہے
وجہ مایوسی عاشق ہے تغافل ان کا
بھولے ہوے جو غم ہیں انہیں یاد کیجیے
ہم سے خوبان جہاں پہلو تھی کرتےرہے
سکوت وخامشی اظہار حال بیزبانی ہے
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
اس جوروجفا پر بھی بدظن نہیں ہم تجھ سے
روز اس شہر میں اک حکم نیا ہوتا ہے
کس کی برق شوخی رفتار کا دلدادہ ہے
آپ نے مسنّی الضّرّ کہا ہے تو سہی
میں ہوں مشتاق جفا مجھ پہ جفا اور سہی
کٹے تو شب کہیں کاٹے تو سانپ کہلاوے
لطف نظارۂ قاتل دم بسمل آئے
رباعیات
گنجینۂ معنی
نوای سروش
قطعات
قصائد
مثنویات
غزلیات
یاد گار نالہ
اختلاف نسخ
گنجینۂ معنی
نوای سروش
یاد گار نالہ
فہرست اشعار
اشاریہ
غلط نامہ
سرورق
مضامین
تقریب
دیباچہ
ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن
دیوان غالب (حصۂ اول)
قصائد
الف
آتشیں پا ہوں گداز وحشت زنداں نہ پوچھ
غزلیات
جنوں گرم انتظار ونالہ بیتابی کمند آیا
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب؟
سواد چشم بسمل انتخاب نقطہ آرائی
عالم جہاں بعرض بساط وجود تھا
فکر نالہ میں گویا حلقہ ہوں زسر تاپا
کارخانے سے جنوں کے بھی میں عریاں نکلا
نہ ہوئی ہم سے رقم حیرت خط رخ یار
ناتوانی ہے تماشائی عمر رفتہ
شب اختر قدح عیش نے محمل باندھا
نہ بھولا اضطراب دم شماری انتظار اپنا
دیکھتے تھے ہم بچشم خود وہ طوفان بلا
شب کہ ذوق گفتگو سے تیری دل بیتاب تھا
رہ خوابیدہ تھی گردن کش یک درس آگاہی
ہوں چراغان ہوس جوں کاغذ آتشزدہ
جہات مٹ جاے سعی دید خضر آباد آسایش
ہو س گستاخی آئینہ تکلیف نظر بازی
کس کا خال آئنۂ انتظار تھا؟
زبس خوں گشتۂ وفا تھا وہمم بسمل کا
ملی نہ وسعت جولان یک جنوں ہم کو
شگفتن کمیں گاہ تقریب جوئی
بہار رنگ خون گل ہے ساماں اشکباری کا
ضعف جنوں کو وقت تپش دو بھی دور تھا
خود پرستی سے رہے با ہمدگر ناآشنا
طاؤس در رکاب ہے ہر ذرہ آہ کا
گر وہ مست ناز تمکیں دے صلای عرض حال
گرمی دولت دوئی آتشزن نام نکو
دود میرا سنبلستاں سے کرے ہے ہمسری
جاندادگاں کا حوصلہ فرصت گداز ہے
خود آرا وحشت چشم پری سے شب وہ بدخو تھا
خلوت آبلۂ پا میں ہے جولاں میرا
بت پرستی ہے بہار نقش بندیہاے دہر
دویدن کے کمیں جوں ریشۂ زیر زمیں پایا
نزاکت ہے فسون دعوی طاقت شکستنہا
بشغل انتظار مہوشاں در خلوت شبہا
بسان جوہر آئینہ از ویرانی دلہا
یاد روزے کہ نفس سلسلۂ یارب تھا
برہن شرم ہے باوصف شوخی اہتمام اس کا
بسکہ جوش گریہ سے زیر وزبر ویرانہ تھا
رات دل گرم خیال جلوۂ جاناں تھا
وحشتیں بن صیاد نے ہم رنجوردوں کو کیا رام کیا
کرے گر حیرت نظارہ طوفان نکتہ گوئی کا
یک گام بیخودی سے لوٹیں بہار صحرا
کیا کس شوخ نے ناز از سر تمکیں نشتن کا؟
شب کہ دل زخمی عرض دو جہاں تیرآیا
سیر آنسوے تماشا ہے طلبگاروں کا
عیادت سے زبس ٹوٹا ہے دل یاران غمگیں کا
ورد اسم حق سے دیدار صنم حاصل ہوا
بسکہ عاجز نارسائی سے کبوتر ہو گیا
ہے تنگ زوامانندہ شدن حوصلۂ پا
گرفتاری میں فرمان خط تقدیر ہے پیدا
بہ مہر نامہ جو بوسہ گل پیام رہا
بسکہ ہے میخانہ ویراں جوں بیابان خراب
سحرگہ باغ میں وہ حیرت گلزار ہو پیدا
ت
ہے بہاراں میں کزاں پرور خیال عندلیب
جاتا ہوں جدھر سب کی اٹھے ہے ادھر انگشت
دود شمع کشتۂ گل بزم سامانی عبث
دو عالم کی ہستی پہ خط وفا کھینچ
ث
ج
معزولی تپش ہوئی افراط انتظار
ناز لطف عشق با وصف توانائی عبث
جنبش گلبرگ سے ہے گل کے لب کو اختلاج
چ
نہ کہہ کہ طاقت رسوائی وصال نہیں
قطع صفرہستی وآرام فنا ہیچ
بیدل نہ ناز وحشت جیب دریدہ کھینچ
د
دعوی عشق بتاں سے بگلستاں گل وصبح
بکام دل کریں کس طرح گمرہاں فریاد
ح
بسکہ وہ پاکو بیاں در پردۂ وحشت ہیں یاد
تھی نگہ میری نہا خانۂ دل کی نقاب
تو پست فطرت اور خیال بسا بلند
ر
بسکہ مائل ہے وہ رشک ماہتاآئینےپر
حسرت دستگہ وہ پاے تحمل تا چند
بینش بسعی ضبط جنوں نوبہار تر
خط نوخیز نیل چشم صافی عارض
فسون یکدلی ہے لذت بیداد دشمن ہو
دیا یاروں نے بیہوشی میں درماں کا فریب آخر
شیشۂ آتشیں رخ پر نور
بیگانۂ وفا ہے ہواے چمن ہنوز
میں ہوں سراب یک تپش آموختن ہنوز
فریب صنعت ایجاد کا تماشا دیکھ
حسن خود آرا کو ہے مشق تغافل ہنوز
داغ اطفال ہے دیوانہ بکہسار ہنوز
کو بیابان تمنا وہ کجا جولان عجز؟
چاک گریباں کو ہے زبط تامل ہنوز
س
حاصل دلبستگی ہے عمر کوتاہ اور بس
نہ بندھا تھا بعدم نقش دل مور ہنوز
دشت الفت میں ہے خاک کشتگاں محبوس وبس
ش
کرتا ہے بیاد بت رنگیں دل مایوس
ہوئی ہے بسکہ صرف مشق تمکیں بہار آتش
باقلیم سخن ہے جلوۂ گرد سواد آتش
شمع سے ہے بزم انگشت تحیو در دہن
ع
غ
عشاق اشک چشم سے دھوویں ہزار داغ
بلبلوں کو دور سے کرتا ہے منع بار باغ
ف
اس عمل میں عیش کی لذت نہیں ملتی اسد
نامہ بھی لکھتے ہیں ہو تو بخط غبار حیف!
ک
عیسیٰ مہرباں ہے شفاریز یک طرف
گ
اے آرزو شہید وفا خونبہا نمانگ
آئے ہیں پارہ ہا سے جگر درمیان اشک
ہر عضو غم سے ہے شکن آسا شکستہ دل
ل
بدر ہے آئینہ طاق ہلال
ہوں بوحشت انتظار آوارۂ دشت خیال
بہر عرض حال شبنم ہے رقم ایجاد گل
دیوانگاں کا چارہ فروغ بہار ہے
م
گرچہ ہے یک بیضۂ طاؤس آسا تنگ دل
اثر کمندی فریاد نارسا معلوم
بسکہ ہیں بدمست بشکن بشکن میخانہ ہم
رہتے ہیں افسردگی سے سخت بیدردانہ ہم
از انجاکہ حسرت کش یار ہیں ہم
ن
جس دم کہ جادہ وار ہو تار نفس تمام
خوش وحشتی کہ عرض جنون وفا کروں
آنسو کہوں کہ آہ سوار ہوا کہوں؟
کسو کو زخود رفتہ کم دیکھتے ہیں
جائے کہ پاے سیل بلا درمیاں نہیں
آئینہ دام کو پردے میں چھپاتا ہے عبث
ہے ترحم آفریں آرایش بیداد یاں
پاؤں میں جب وہ حنا باندھتے ہیں
فزوں کی دوستوں نے حرص قاتل ذوق کشتن میں
سرشک آشفتہ سر تھا قطرہ زن مژگاں سے جانے میں
صاف ہے از بسکہ عکس گل سے گلزار چمن
تن بہ بند ہوس درندادہ رکھتے ہیں
جوں مردمک چشم سے ہوں جمع نگاہیں
کیا ضعف میں امید کو دل تنگ نکالوں
طاؤس نمط داغ کے گر رنگ نکالوں
خوں در جگر نہفتہ بزردی رسیدہ ہوں
سودای عشق سے دم سرد کشیدہ ہوں
بقدر لفظ ومعنی فکرت احرام گریباں ہیں
مرگ شیرں ہو گئی تھی کوہکن کی فکر میں
فتادگی میں قدم استوار رکھتے ہیں
اے نوا ساز تماشا سربکف جلتا ہوں میں
بغفلت عطر گل ہم آگہی مخمور ملتے ہیں
ہوئی ہیں آب شرم کوشش بیجا سے تدبیریں
ظاہرا سر پنچۂ افتادگاں گیرا نہیں
بیدماغی حیلہ جو سے ترک تنہائی نہیں
ضبط سے مطلب بجز وارستگی دیگر نہیں
فلک سفلہ بے محابا ہے
دیکھیے مت چشم کم سے ضبط افسردگاں
بے درد سر بسجدۂ الفت فرو نہ ہو
و
بالیدن سنگ وگل صحرا یہ چاہے ہے
اگر وہ آفت نظارہ جلوہ گستر ہو
مبادا بے تکلف فصل کا برگ ونوا گم ہو
خشکی مے نے تلف کی میکدے کی آبرو
رنگ طرب ہے صورت عہد وفا گرو
حیرت ہجوم لذت غلطانی تپش
ہ
جز دل سراغ درد بدل خفتگاں نہ پوچھ
بسکہ می پیستے ہیں ارباب فنا پوشیدہ
خلق ہے صفحۂ عبرت سے سبق ناخواندہ
رفتار سے شیرازۂ اجزاے قدم باندھ
شکوہ وشکر کو ثمر بیم وامید کا سمجھ
جوش دل ہے مجھ سے حسن فطرت بیدل نہ پوچھ
دل ہی نہیں کہ منت درباں اٹھائیے
کلفت ربط ایں وآں غفلت مدعا سمجھ
ی
مجھے معلوم جو تو نے میرے حق میں سوچا ہے
کیا پوچھے ہے بر خود غلطیہاے عزیزاں؟
کرتے ہو شکوہ کس کا؟ تم اور بیوفائی
ظاہر ہے طرز قید سے صیاد کی غرض
نظر بنقص گدایاں کمال بے ادبی ہے
ہے پیچتاب رشتۂ شمع سحر گہی
کہوں کیا گر م جوشی میکشی میں شعلہ رویاں کی؟
نہ کھینچ اے سعی دست نارسا زلف تمنا کو
بجز دیوانگی ہوتا ہے نہ انجام خود آرائی
ہوا ہے مانع عاشق نوازی ناز خود بینی
تشنۂ خون تماشا جو وہ پانی مانگے
ہمزباں آیا نظر فکر سخن میں تو مجھے
بنان شوخ کا دل سخت ہوگا کس قدر یارب
نشۂ مے بے چمن دود چراغ کشتہ ہے
دل بیمار از خود رفتہ تصویر نہالی ہے
یوں بعد ضبط اشک پھروں گرد یار کے
بنقص ظاہری رنگ کمال طبع پنہاں ہے
آئینہ نفس سے بھی ہوتا ہے کدورت کش
جہاں زندان موجستان دلہاے پریشاں ہے
کجامے؟ کو عرق؟ شعی عروج نشۂ رنگیں تر
عاشق نقاب جلوۂ جانانہ چاہیے
ہاتھ پر گر ہاتھ مار سے یا روقت قہقہہ
چشم خوباں میفروش نشۂ زار ناز ہے
بسکہ حیرت سے زپا افتادۂ زنہار ہے
خواب جمیعت محمل ہے پریشاں مجھ سے
تغافل مشربی سے ناتمامی بسکہ پیدا ہے
ببزم مے پرستی حسرت تکلیف بیجا ہے
اثر سوز محبت کا قیامت بیمحابا ہے
بذوق شوخی اعضا تکلف بار بستر ہے
بپاس شوخی مژگاں سر ہر خار سوزن ہے
دل سراپا وقف سودای نگاہ تیز ہے
تر جبیں رکھتی ہے شرم قطرہ سامانی مجھے
شوخی مضراب جولاں آبیار نغمہ ہے
صبح ناپیدا ہے کلفت خانۂ ادبار میں
وحشت کہاں کہ بیخودی انشا کرے کوئی؟
خود فروشیہاے ہستی بسکہ جاے خندہ ہے
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
عجز دیدنہا بناز وناز رفتہا بچشم
باغ تجھ بن گل نرگس سے ڈراتا ہے مجھے
حیرت تپیدنہا خونبہاے دیدنہا
یاد رکھیے ناز ہاے التفات اولیں
غم وعشرت قدمبوس دل تسلیم آئیں ہے
دیکھتا ہوں وحشت شوق خروش آمادہ سے
ہے انتظار سے شرر آباد رستخیز
زنجیر یاد پڑتی ہے جادے کو دیکھ کر
بحلقۂ خم گیسوے راستی آموز
منت کشی میں حوصلہ بے اختیار ہے
کیا ہے ترک دنیا کاہلی سے
پھونکتا ہے نالہ ہر شب صور اسرافیل کی
نگہ اس چشم کی افزوں کر ے ہے ناتوانائی
بسکہ زیر خاک با آب طراوت راہ ہے
بسکہ چشم از انتظار خوش خطاں بے نور ہے
اے خیال وصل نادر ہے مے آشامے تری
گریاس سر نہ کھینچے تنگی عجب فضا ہے
ربط تمیز اعیاں درد می صدا ہے
ضبط سے جوں مردمک اسپند اقامت گیر ہے
ذوق خود داری خراب وحشت تسخیر ہے
بیخود زبسکہ خاطر بیتاب ہو گئی
ہر رنگ سوز پردۂ یک سا ز ہے مجھے
یہ سر نوشت میں میری ہے اشک افشانی
خدایا دل کہاں تک دن بصد رنج وتعب کاٹے
نگاہ یار نے جب عرض تکلیف شرارت کی
بفکر حیرت رم آئینہ پرداز زانو ہے
خبر نگہ کو نگہ چشم کو عدو جانے
ہوا ہے جب حسن کم خط بر عذار سادہ آتا ہے
دیکھ تری خوے گرم دل بتپش رام ہے
کاوش دزد حنا پوشیدہ افسوں ہے مجھے
محو آرامیدگی سامان بیتابی کرے
دلا عبث ہے تمناے خاطر افروزی
اے خوشا قتے کہ ساقی یک خمستاں واکرے
صبح سے معلوم آثار ظہور شام ہے
عذار یار نظر بند چشم گریاں ہے
بہار تعزیت آباد عشق ماتم ہے
شفق بدعوی عاشق گواہ رنگیں ہے
جوہر آئینہ ساں مژگاں بدل آسودہ ہے
بہر پروردن سراسر لطف گستر سایہ ہے
چشم گریاں بسمل شوق بہار دید ہے
فرصت آئینہ صد رنگ خود آرائی ہے
نواے خفتۂ الفت اگر بیتاب ہو جاوے
دامان دل بوہم تماشا نہ کھینچیے
تاچند ناز مسجد وبتخانہ کھینچیے
بسکہ سودای خیال زلف وحشتناک ہے
زلف سیہ افعی نظر بد قلمی ہے
مژہ پہلوے چشم اے جلوۂ ادراک باقی ہے
شکل طاؤس گرفتار بنایا ہے مجھے
جنوں رسوائی وارستگی زنجیر بہتر ہے
دربوزۂ سامانہا اے بے سروسامانی
گریہ سرشاری شوق بہ بیاباں زدہ ہے
خواب غفلت بہ کمینگاہ نظر پنہاں ہے
کلفت طلسم جلوۂ کیفیت دگر
کوشش ہمہ بیتاب تردد شکنی ہے
نظر پرستی وبیکاری وخود آرائی
کاشانۂ ہستی کہ برانداختنی ہے
گلستاں بے تکلف پیش پا افتادہ مضموں ہے
گداے طاقت تقریر ہے زباں تجھ سے
حکم بیتابی نہیں اور آرمیدن منع ہے
قتل عشاق نہ غفلت کش تدبیر آوے
تاچند نفس غفلت ہستی سے بر آوے
بیتابی یاد دوست ہمرنگ تسلی ہے
چار سوے عشق میں صاحب دکانی مفت ہے
سوختگاں کی خاک میں زیرش نقش داغ ہے
اگر گل حسن والفت کی بہم جوشیدنی جانے
ابر روتا ہے کہ بزم طرب آمادہ کرو
رباعیات
دیوان غالب (حصۂ دوم)
دیباچہ
قطعات
ہے جو صاحب کے کف دست پہ یہ چکنی ڈلی
کلکتّے کا جو ذکر کیا تو نے ہمنشیں
گئے وہ دن کہ نادانستہ غیروں کی وفاداری
اے شہنشاہ فلک منظر بے مثل ونظیر
منظور ہے گزارش احوال واقعی
اے شہنشاہ آسماں اورنگ
نصرت الملک بہادر مجھے بتلا کہ مجھے
اے شاہ جہانگیر جہاں بخش جہاندار
ہے چار شنبہ آخر ماہ صفر چلو
سیہ گلیم ہوں لازم ہے میرا نام نلے
سہل تھا مسہل ولے یہ سخت مشکل آپڑی
مثنویات
قصائد
ساز یک ذرہ نہیں فیض چمن سے بیکار
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہاں مہ نو سنیں ہم اس کا نام
صبح دم دروازۂ خاور کھلا
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
غزلیات
شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسندآیا
الف
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروی کار
کہتے ہو ندیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
جب بتقریب سفر یار نے محمل باندھا
شوق ہر رنگ رقیب سرو ساماں نکلا
شب کو برق سوز دل سے زہرۂ ابر آب تھا
پی نذر کرم تحفہ ہے شرم نارسائی کا
شب خمار شوق ساقی رستخیر اندازہ تھا
وہ مری چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگی جاکا
یک ذرۂ زمیں نہیں بیکار باغ کا
غافل بوہم ناز خود آرا ہے ورنہ یاں
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
گر نہ اندوہ شب فرقت بیاں ہو جاے گا
دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
تو دوست کسی کا بھی ستمگر نہ ہوا تھا
شب کو وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا
عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
ایک ایک قطر ے کا مجھے دینا پڑا حساب
دھمکی میں مرگیا جو نہ باب نبرد تھا
دوست غمخواری میں میری سع فرماویں گے کیا
محرم نہیں ہے تو ہی نواھای راز کا
ستایشگر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
عشق قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
گھر ہمارا جو نروتے بھی تو ویراں ہوتا
میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں
ذکر اس پریوش کا اور پھر بیاں اپنا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
حور سے باز آئے پرباز آئیں کیا؟
درد منت کش دوا نہ ہوا
در خور قہر وغضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
ب
افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے
پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موج شراب
ت
رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
آمد خط سے ہوا ہے سرد جو بازار دوست
گلشن میں بندوبست برنگ دگر ہے آج
نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ
ج
ر
حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
بلا سے ہیں جو بہ پیش نظر درودیوار
د
لرزتا ہے مرا دل زحمت مہر درخشاں پر
چ
کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر
جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی
گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور
ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
ز
حریف مطلب مشکل نہیں فسوں نیاز
فارغ مجھے نجان کہ مانند صبح ومہر
وسعت سعی کرم دیکھ کر سرتا سر خاک
نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
کیوں اس بت سے رکھوں جان عزیز
مژدہ اے ذوق اسیری کہ نظر آتا ہے
نہ لیوے گر خس جوہر طراوت سبزۂ خط سے
ش
س
رخ نگار سے ہے سوز جاودانی شمع
ع
ف
بیم رقیب سے نہیں کرتے وداع ہوش
ک
آہ کو چاہیے ایک عمر اثر ہوتے تک
زخم پر چھڑکیں کہاں طفلان بے پروا نمک
ہے کس قدر ہلا ک فریب وفاے گل
ل
گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نمانگ
گ
لوں وام بخت خفتہ سے یک خواب خوش ولے
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
م
ن
عہد ے سے مدح ناز کے باہر نہ آسکا
غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
دل لگا کر لگ گیا ان کو بھی تنہا بیٹھنا
جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے در خور مرے تن میں
تیرے تو سن کو صبا باندھتے ہیں
برشکال گریۂ عاشق ہے دیکھا چاہیے
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
عشق تاثیر سے نومید نہیں
دیوانگی سے دوش پہ نار بھی نہیں
آبرو کیا خاک اس گل کی کہ گلشن میں نہیں
مزے جہاں کے اپنی نظر میں خاک نہیں
ذکر میرا بہ بدہ بھی اسے منظوری نہیں
نالہ جز حسن طالب اے ستم ایجا نہیں
مہرباں ہو کے بلالو مجھے چاہو جس وقت
یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
ہم پر جفا سے ترک وفا کا گماں نہیں
ملتی ہے خوے یار سے نار التہاب میں
کل کے لیے کر آج نہ خست شراب میں
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
دونوں جہان دے کر وہ سمجھے یہ خوش رہا
سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہو گئیں
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آے کیوں
وارے اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو
حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرم تماشا ہو
و
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم وراہ ہو
دھوتا ہوں جب میں پینے کواس سیمتن کے پاؤں
گئی وہ بات کہ وہ گفتگو تو کیونکر ہو
کعبے میں جارہا تو ندو طعنہ کیا کہیں
قفس میں ہوں گر اچھا بھی نجانیں میرے شیون کو
کسی کو دیکے دل کوئی نواسنج فغاں کیوں ہو
ہے بزم بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
ی
صد جلوہ روبرو ہے جو مژگاں اٹھائیے
غم دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
کیا تنگ ہم ستمزدگاں کا جہاں ہے
درد سے میرے ہے تجھ کو بیقراری ہائہاے
سرگشتگی میں عالم ہستی سے یاس ہے
گر خامشی سے فائدہ اخفاے حال ہے
تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھو
ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے
جنوں تہمت کش تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
نکوہش ہے سزا فریادی بیداد دلبر کی
جو نہ نقد داغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
ہجوم غم سے یاں تک سرنگونی مجھ کو حاصل ہے
پا بدامن ہورہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد
آہ کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
نقش ناز بت طناز بآغوش رقیب
تغافل دوست ہوں میرا دماغ عجز عالی ہے
نہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی
گلشن کو تری صحبت ازبسکہ خوش آئی ہے
ہجوم نالہ حیرت یاجز عرض یک افغاں ہے
چاک کی خواہش اگر وحشت بعریانی کرے
ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے
تپش سے میری وقف کشمکش ہر تار بستر ہے
ایک جا حرف وفا لکھا تھا سو بھی مٹ گیا
کرے ہے بادہ ترے سے لب سے کسب رنگ فروغ
کیوں نہ ہو چشم بتاں محو فغافل کیوں نہو
زبسکہ مشق تماشا جنوں علامت ہے
عرض ناز شوخی دنداں براے خندہ ہے
یا د ہے شادی میں بھی ہنگامۂ یارب مجھے
جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی
مستی بذوق غفلت ساقی ہلاک ہے
باغ پاکر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
جس جا نسیم شانہ کش زلف یار ہے
کارگاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے
شبنم بگل لالہ نہ خالی ز ادا ہے
آئینہ کیوں ندوں کہ تماشا کہیں جسے
خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے
مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
مسری ہستی فضای حیرت آباد تمنا ہے
دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آجاے ہے
چاہیے اچھوں کو جتنا چاہیے
گرم فریاد رکھا شکل نہالی نے مجھے
پھر کچھ اک دل کو بیقراری ہے
وہ آکے خواب میں تسکین اضطراب تو دے
کبھی نیکی بھی اس کے جی میں گر آجاے ہے مجھ سے
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوے
بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوے
چشم خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے
عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
رونے سے اور عشق میں بیباک ہو گئے
ہوں میں بھی تماشائی نیرنگ تمنا
ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے
کب وہ سنتا ہے کہانی میری
سادگی پر اس کی مرجانے کی حسر ت دل میں ہے
گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا
دیکھ کر دو پردہ گرم دامن افشانی مجھے
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
نوید امن ہے بیداد دوست جاں کے لیے
لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جادے مجھے
تسکیں کو ہم نروئیں جو ذوق نظر ملے
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
کوئی امید بر نہیں آتی
کہتے تو ہو تم سب کہ بت غالیہ مو آے
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
حسن مہ گرچہ بہنگام کمال اچھا ہے
شکوے کے نام سے بیمہر خفا ہوتا ہے
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
اس بزم میں مجھ سے نہیں بنتی حیا کیسے
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
منظور تھی یہ شکل تجلی کو طور کی
حضور شاہ میں اہل سخن کی آزمایش ہے
غم کھانے میں بودا دل ناکام بہت ہے
نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہیے
کہوں جو حال تو کہتے ہو مدعا کہیے
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے
پھر اس انداز سے بہارآئی
روندی ہوئی ہے کوکبۂ شہر یار کی
رباعیات
خاتمہ
دیوان غالب (حصۂ سوم)
بسکہ فعال مایرد ہے آج
قطعات
ایک اہل درد نے سنسان جو دیکھا قفس
اٹھا اک دن بگولا سا جو کچھ میں جوش وحشت میں
اس کتاب طرف نصاب نے جب
سلیم خاں کہ وہ ہے نور چشم واصل خاں
ہندوستان کی بھی عجب سرزمین ہے
مقام شکر ہے اے ساکنان خطۂ خاک
خوشی ہے یہ آنے کی برسات کی
ہند میں اہل تسنن کی ہیں دو سلطنتیں
مثنویات
ایک دن مثل پتنگ کاغذی
مژدہ اے رہروان راہ سخن
قادر اللہ اور یزداں ہے خدا
اے جہاں آفریں خدای کریم
ملاذ کشور ولشکر پناہ شہر وسپاہ
قصائد
گنی ہیں سال کے رشتے میں بیس بار گرہ
مرحبا سال فرخی آئیں
کرتا ہے چرخ روز بصد گونہ احترام
مرثیہ
ہاں اے نفس باد سحر شعلہ فشاں ہو
سلام اسے کہ اگر بادشاہ کہیں اس کو
سہرا
خوش ہو اے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا
مخمس
غزلیات
الف
ب ، ر
آفت آہنگ ہے کچھ نالۂ بلبل ورنہ
س ، ط ، غ
بدتر از ویرانہ ہے فصل خزاں میں صحن باغ
دیکھنے میں ہیں گرچہ دو پر ہیں یہ دونوں یار ایک
ک
محفل شمع عذاراں میں جو آجاتا ہوں
ل ، ن
اپنا احوال دل زار کہوں یا نکہوں
جو شمع ہم اک سوختہ سامان وفا ہیں
ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
نسخۂ سوزش دل در خور عناب نہیں
حسن بے پروا گرفتار خود آرائی نہ ہو
و
وضع نیرنگی آفاق نے مارا ہم کو
گاتی تھیں شمرو کی بیگم تنناہا یا ہو
بھولے سے کاش وہ ادھرآئیں تو شام ہوا
شب وصال میں مونس گیا ہے بن تکیہ
نپوچھ حال اس انداز اس عتاب کے ساتھ
دیکھ وہ برق تبسم بس کہ دل بیتاب ہے
ی
نسیم صبح جب کنعان میں بوے پیرہن لائی
وفا جفا کی طلبگار ہوتی آئی ہے
نمایش پردہ دار طرز بیداد تغافل ہے
وجہ مایوسی عاشق ہے تغافل ان کا
بھولے ہوے جو غم ہیں انہیں یاد کیجیے
ہم سے خوبان جہاں پہلو تھی کرتےرہے
سکوت وخامشی اظہار حال بیزبانی ہے
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
اس جوروجفا پر بھی بدظن نہیں ہم تجھ سے
روز اس شہر میں اک حکم نیا ہوتا ہے
کس کی برق شوخی رفتار کا دلدادہ ہے
آپ نے مسنّی الضّرّ کہا ہے تو سہی
میں ہوں مشتاق جفا مجھ پہ جفا اور سہی
کٹے تو شب کہیں کاٹے تو سانپ کہلاوے
لطف نظارۂ قاتل دم بسمل آئے
رباعیات
گنجینۂ معنی
نوای سروش
قطعات
قصائد
مثنویات
غزلیات
یاد گار نالہ
اختلاف نسخ
گنجینۂ معنی
نوای سروش
یاد گار نالہ
فہرست اشعار
اشاریہ
غلط نامہ
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔