سرورق
بہار میں ہواگر ساقیا گلاب قلم
لکھی جو اس رخ تاباں کی آب وتاب قلم
چلے جو بہر صفتہاے بو تراب قلم
رقم کرے جو تیرا جود بے حساب قلم
برنگ گل جسے اب دیکھیے وہ خنداں ہے
بہار گائیو مطرب جہاں گلستان ہے
تو وہ ہی شاہ تن ہند کی لیے جان ہے
ہے جلوۂ دندان لب جاناں کے برابر
روتا ہوں کھڑا میں در جاناں کے برابر
گھر تیرا ہے جنت کی گلستاں کے برابر
خیال نرگس میگون جو تھا دم تحریر
ہنوز عشق جوان ہے اگرچہ ہوں میں پیر
جو چاندنی ترا سایہ تو رخ ہی ماہ منیر
بہہ ہی تری در دولت کی خاک کی تاثیر
نگاہ قہر سے تیری بنی ہر انگلی تیر
ہوے ہیں تیری حفاظ سے بیخطر نخچیر
بہار نے یہ کیا گلشن جہاں میں اثر
ترے بہار کرم کا ہے فیض عالم پر
ہواے آتش گل سے یہ عالم گلزار
جو بیٹھا شاہ زمن تخت پر بعزو وقار
تری سحاب کرم کا جو دشت میں ہو گزار
غزلیات
کیا کیا کروں میں شکر خدائے قدیر کا
تصور تھا جو وقت مرگ اک لیلی شمائل کا
اگر نامے ہے میں لکھ دوں حال کچھ بیتابی دل کا
صندلی رنگ پہ میں مر ہی گیا
کوئی مجھ سا دیوانہ پیدا نہ ہوگا
پڑ گیا عکس اومہ رو جو تیری گال کا
ہے جو مضمون فتنہ انگیز اسمیں تیری چال کا
وصف لکھا ہے کس گل تر کا
یہ اشارہ کر رہا ہے ہم کو حلقہ دام کا
واہ رے تلووں کی رنگت نقشہ پا گلگوں ہوا
ناتوانی سی یہ نقشہ ہی ترے رنجور کا
کشتہ ہوں تیغ نگاہ نرگس غمخوار کا
ہم نے جب روے یار کو دیکھا
جلوہ گر آنکھوں میں گر وہ بے نشاں ہو جائیگا
ہاتھ سے کچھ نہ تری اے مہ کنعان ہوگا
پھر یہ دل شیفتۂ زلف پریشاں ہو گا
یہ مر کے عار خلائق میں درد مند ہوا
نہ اجل آتی نہ وہ یار آتا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
چشم جاناں کو دل زار نے سونے نہ دیا
تھا جو افتادہ گے شعار اپنا
تیر کھا کر تری قرباں پہ جو قربان نہ ہوا
وصف زنداں میں کیا ہم نے جو اس رخسار کا
جو داغ سینہ ہے ہم چشم ہے خورشید تاباں کا
در دندان کو دکھلایا تو ہوتا
کس ناز سے واہ ہم کو مارا
غم نہیں اسکا مجھے میں مر گیا
زلف کو دیکھ کے سنبل ہی پریشاں کیسا
گھر میں اگ ماہ لقا کی ہے گزارا اپنا
چشم بیمار نے ہمیں مارا
ہم سے برگشتہ ہوتی ابرو خمدا ر جدا
درد سر میں سر پٹکتا ہے دواے عندلیب
کیا ہیں شیداے قدر یار درخت
اٹھ گیا یار مر اکیا باعث
کب بھلا وہ نوجواں آ بیٹھے ہم پیروں کے بیچ
اس رشک آفتاب کو گر دیکھ پاے صبح
جو ہم پہ غصے میں ہو رنگ روے جاناں سرخ
فلک ہے زیر فرمان محمد
صورت صبح کریں چاک گریباں تاچند
ازادب چشم سوزخم دل من نکند
طبیعت آئی ہے ان روزوں کی طفل برہمن پر
بن گیا شوق کی مضموں سی کبوتر کا
کھو ل دی ہے زلف کس نے پھول سے رخسار پر
جو کوئی وہ چشم وابرو دیکھتا روتا ضرور
دعائیں مانگیں ہیں بدنوں تک جھکا کے سر ہاتھ اٹھا اٹھا کر
ہے کف پا میں حنا کا گل عیاں بالاے سر
چاند درج ہیں ترے اے جان جاناں بالاے سر
سرکٹ گیا مرا نہیں مجھ کو خبر ہنوز
اپنا جوش اشک دکھلاتا ہے طوفاں ہر برس
سر کٹے پر کر نہ چورنگ اے مرے حلادبس
دیکھی سی تیری آئی زمین وزماں کو غش
ایکسو آفت ہے اس کا کل کا خم بالاے دوش
قبر ہے تیرا بت خود کام رقص
زباں سے کیا میں کہوں دل سے پوچھو اس کا خط
آنکھوں میں آرہا ہے مرا دم براے خط
اشک سے اپنے اگر رکھتے ہی آب و دانہ شمع
ہے یقین گل ہو جو دیکھے گیسو دلبر چراغ
آپ سے جاتا نہیں میں اس ستمگر کی طرف
ہاتھ پھر وحشت نے دوڑائے گریباں کی طرف
کاہش جاں ہے لب پہ ہاے فراق
بھولا ہے بعد مرگ مجھے دوست یاں تلک
شمع بھاگی دیکھ کر میری سیہ خانے کا رنگ
ہے تری رخ سے آفتاب خجل
کہا لیلی نے قدر شناس ہین ہم ہمیں اپنی ہی مہرو وفا کی قسم
رہتی ہیں پامال مثل سایۂ دیوار ہم
کوچۂ جاناں میں جب جاتے ہیں ہم
جاتے ہیں یا اسکو بلواتے ہیں ہم
اسکو غفلت پیشہ گہہ آتی ہیں ہم
بے سواے صبر کی دولت اگر پیدا کروں
آہ میں گر ہجر کی شب میں اثر پیدا کروں
ہوں وہ بلبل چاہوں میں گلشن اگر پیدا کروں
وہ چشم مہر سے جس دم نگاہ کرتے ہیں
منہ ڈھانپ کے میں جو رو رہا ہوں
شب وصال میں کیا یار سے دو چار ہوں میں
دماغ اور ہے پاتے ہیں ان حسینوں میں
کیونکر نہ خوش ہو سر مرا لٹکا کے دار میں
روز دکھلاتا ہے طوفاں دیدۂ تر سیکڑوں
تو نہیں ہے آگے آنکھوں کے تو دل خرم نہیں
منہ پھیر کر وہ اپنی زلفیں سنوارتی ہیں
پیش نظر وہ تو سدا رہتا ہوں میں اس دھیان میں
صبر کا کرنا دلا بیجا نہیں
عطر مٹی کا لگایا چاہیے پوشاک میں
گویا ہم اپنی زخموں کی منہ کو رفو کرین
قتل عشاق کیا کرتے ہیں
روشنی جو رخ میں ہے ماہ منور میں نہیں
تری بن مجھ سا گریاں ابرنرہووے نو میں جانوں
اے صنم تیوری ہی جو ہرابرو خمدا رمیں
دار ہے قامت نہیں پھانسی ہے وہ گیسو نہیں
کب اپنے منہ سے عاشق شکوۂ بیدا د کرتے ہیں
سمجھ کر چھیڑو مشاط اسکی زلف پر خم کو
یہ عیب نہایت ہے جو تلوار میں بل ہو
چلے ہم اے جنوں جب فصل گل میں سر گلشن دامنکو
دکھا کر مجھ کو کھولاتھا کمر جو زلف شبگوں کو
اشک خوں سے اے جنوں نسبت ہے کیا اکسیر کو
ان شکوۂ قاتل سے نہ آلودہ زباں ہو
ہم مر گئے ہیں دیکھ کے ساق نگار کو
نہیں تیرے جفا وفا ہے یہ
نیم بسمل کیا ادا ہے یہ
کس قدر مجھ کو ناتوانی ہے
حسرت اے جان شب جدائی ہے
الفت پہ چھپا ئیں ہم کسی کے
جو پنہاں تھا وہی ہر سو عیاں ہے
مٹ گیا جب میں تو اے مہرو نظر آیا مجھے
اے سگ جاناں نہ جسدم تو نظر آیا مجھے
یہ ایک تیرا جلوہ صنم چار سو ہے
کیا غم ہی لہو گر تری نخچیر سے ٹپکے
پاس غیروں کے جب وہ جابیٹھے
جو وہ اپنی محراب ابرو دکھا دے
جسم وہ حیراں جہاں آئینہ اور اک ہے
محبت بھی نہیں قاتل کی خالی ہے عداوت سے
اسکو مجھ سے روٹھا دیا کس نے
تم وفا کا عوض جفا سمجھے
ملی ہاتھوں میں یہ حنا کس نے
نہیں کچھ غم گلستاں سے جو فصل گل روانا ہے
داغ دل تازہ ہوا آدل ناشاد سے
ہوں مثل نے ندو مجھے نسبت سپند سے
ابر ہے آب رواں سے لغزش مستانہ ہے
گم ہوا ہوں نظروں سے ایسی ناتوانی ہے
شکل گراں حباب کوئی ہے
مجھ کو چاہ ذقن دکھانا ہے
تکلم جو کوئی کرتا ہے جانی
پیتی ہیں خون دل نہیں خواہش شراب کی
گرادی یار نے بجلی دوپٹے کی کنارے سے
دہن ہر گز نہیں ہے تسپہ بھی معجز بیانی ہے
ہمیں اس قید الم سے تو رہائی ہوتے
ہوں وہ بلبل رونیکو دی حق نے چشم تر مجھے
اپنا ہر عضو چشم بینا ہے
سائل ہوں اور تیرکا اس خانہ جنگ سے
لب جاں بخش پہ دم اپنا فنا ہوتا ہے
نہ آسماں کے ہوئے اور نہ ہم زمیں کے ہوئے
یہی ہے بس شب فراق میں اپنا مدعا تجھ سے
پھر کہیں چھپ چھپ کے ہم جانے لگے
کیوں بہنے لگی آٹھ پہر چشم تر ایسے
حال اپنا قیس کو چل کر سنایا چاہیے
بھر گلگشت جب اس گل کا گزر ہوتا ہے
دم پھڑک جاے جسے سنتے ہیں تقریر یہ ہے
تصور ہم بغل رکھتا ہے اک لیلی شمائل سے
لگا کر دل بت نا آشنا سے
بے زباں کوئی ہے کہتا کوئی بیہوش مجھے
خاکساری چاہیے عبد خدا کے واسطے
سوزاں ہی ادھر دل ہی ادھر یار میں گرمی
پھر ہوئی الفت کسی گردن صراحی دار کی
یہ کیا الم ہے جو ہے چاک چاک جیب سحر
ترکیب بند
حاشیے پر جولکھی تعریف خط یار کی
ہر ایک گلشن عالم میں مو پریشاں ہے
فلک نے مجھ کو دیا داغ نوجواں افسوس
یہ آہ سرو خلائق سے ہے جہان معمور
بنایا آتش غم نے مجھے چراغ مزار
اگر ہے آنکھوں میں آنسو تو دل ہے غم سے بھرا
تری فراق میں آنکھوں سے میری خوں ہے رواں
اگر چہ جانتا ہوں دم کا کیا بھروسا ہے
کسی طرح سے سمجھتا نہیں دل ناشاد
تری فراق میں اب اس قدر ہوں میں بیتاب
سلام
سلامی پیا سا مارا گمر ہوں نے دین کے رہبر کو
بلاے جسم ہے جان اور وبال دوش ہے سر
سلامی مجھ محبت ہے اس دلاور سے
شہ کہتے تھے مجرائی یہاں رنج بھی راحت ہے
روز قتل شاہ دیں ہے سب جہاں غمناک ہے
سلامی دیکھ تو ہے رنگ آسماں کیسا
لازم ہے مجرئی کو اطاعت حسین کی
جس وقت سر شاہ شہیداں نظر آیا
مجرائی باند ہے شقی ہاے وہ زنجیر میں ہاتھ
مجرائی لڑنے کو جب اکبر چلے
چرخ پر ماہ محرم جب نمایاں ہو گیا
رتبہ نہ کیوں بلند ہو میرے سلام کا
مخمس
تاریخ دیوان من تصنیف شیخ امام بخش ناسخ
تاریخ دیوان من تصنیف خواجۂ وزیر
از نظر دیوان گویا چوں گزشت
پیش فکر بلند گویا
لاریب یہ دیوان ہے بستان فصاحب
تاریخہاے ترتیب دیوان فقیر محمد خان گویا از مرزا فرخ
خاتمۃ الطبع
YEAR1863
CONTRIBUTORAnjuman Taraqqi Urdu (Hind), Delhi
PUBLISHER Matba Nizami, Kanpur
YEAR1863
CONTRIBUTORAnjuman Taraqqi Urdu (Hind), Delhi
PUBLISHER Matba Nizami, Kanpur
سرورق
بہار میں ہواگر ساقیا گلاب قلم
لکھی جو اس رخ تاباں کی آب وتاب قلم
چلے جو بہر صفتہاے بو تراب قلم
رقم کرے جو تیرا جود بے حساب قلم
برنگ گل جسے اب دیکھیے وہ خنداں ہے
بہار گائیو مطرب جہاں گلستان ہے
تو وہ ہی شاہ تن ہند کی لیے جان ہے
ہے جلوۂ دندان لب جاناں کے برابر
روتا ہوں کھڑا میں در جاناں کے برابر
گھر تیرا ہے جنت کی گلستاں کے برابر
خیال نرگس میگون جو تھا دم تحریر
ہنوز عشق جوان ہے اگرچہ ہوں میں پیر
جو چاندنی ترا سایہ تو رخ ہی ماہ منیر
بہہ ہی تری در دولت کی خاک کی تاثیر
نگاہ قہر سے تیری بنی ہر انگلی تیر
ہوے ہیں تیری حفاظ سے بیخطر نخچیر
بہار نے یہ کیا گلشن جہاں میں اثر
ترے بہار کرم کا ہے فیض عالم پر
ہواے آتش گل سے یہ عالم گلزار
جو بیٹھا شاہ زمن تخت پر بعزو وقار
تری سحاب کرم کا جو دشت میں ہو گزار
غزلیات
کیا کیا کروں میں شکر خدائے قدیر کا
تصور تھا جو وقت مرگ اک لیلی شمائل کا
اگر نامے ہے میں لکھ دوں حال کچھ بیتابی دل کا
صندلی رنگ پہ میں مر ہی گیا
کوئی مجھ سا دیوانہ پیدا نہ ہوگا
پڑ گیا عکس اومہ رو جو تیری گال کا
ہے جو مضمون فتنہ انگیز اسمیں تیری چال کا
وصف لکھا ہے کس گل تر کا
یہ اشارہ کر رہا ہے ہم کو حلقہ دام کا
واہ رے تلووں کی رنگت نقشہ پا گلگوں ہوا
ناتوانی سی یہ نقشہ ہی ترے رنجور کا
کشتہ ہوں تیغ نگاہ نرگس غمخوار کا
ہم نے جب روے یار کو دیکھا
جلوہ گر آنکھوں میں گر وہ بے نشاں ہو جائیگا
ہاتھ سے کچھ نہ تری اے مہ کنعان ہوگا
پھر یہ دل شیفتۂ زلف پریشاں ہو گا
یہ مر کے عار خلائق میں درد مند ہوا
نہ اجل آتی نہ وہ یار آتا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
چشم جاناں کو دل زار نے سونے نہ دیا
تھا جو افتادہ گے شعار اپنا
تیر کھا کر تری قرباں پہ جو قربان نہ ہوا
وصف زنداں میں کیا ہم نے جو اس رخسار کا
جو داغ سینہ ہے ہم چشم ہے خورشید تاباں کا
در دندان کو دکھلایا تو ہوتا
کس ناز سے واہ ہم کو مارا
غم نہیں اسکا مجھے میں مر گیا
زلف کو دیکھ کے سنبل ہی پریشاں کیسا
گھر میں اگ ماہ لقا کی ہے گزارا اپنا
چشم بیمار نے ہمیں مارا
ہم سے برگشتہ ہوتی ابرو خمدا ر جدا
درد سر میں سر پٹکتا ہے دواے عندلیب
کیا ہیں شیداے قدر یار درخت
اٹھ گیا یار مر اکیا باعث
کب بھلا وہ نوجواں آ بیٹھے ہم پیروں کے بیچ
اس رشک آفتاب کو گر دیکھ پاے صبح
جو ہم پہ غصے میں ہو رنگ روے جاناں سرخ
فلک ہے زیر فرمان محمد
صورت صبح کریں چاک گریباں تاچند
ازادب چشم سوزخم دل من نکند
طبیعت آئی ہے ان روزوں کی طفل برہمن پر
بن گیا شوق کی مضموں سی کبوتر کا
کھو ل دی ہے زلف کس نے پھول سے رخسار پر
جو کوئی وہ چشم وابرو دیکھتا روتا ضرور
دعائیں مانگیں ہیں بدنوں تک جھکا کے سر ہاتھ اٹھا اٹھا کر
ہے کف پا میں حنا کا گل عیاں بالاے سر
چاند درج ہیں ترے اے جان جاناں بالاے سر
سرکٹ گیا مرا نہیں مجھ کو خبر ہنوز
اپنا جوش اشک دکھلاتا ہے طوفاں ہر برس
سر کٹے پر کر نہ چورنگ اے مرے حلادبس
دیکھی سی تیری آئی زمین وزماں کو غش
ایکسو آفت ہے اس کا کل کا خم بالاے دوش
قبر ہے تیرا بت خود کام رقص
زباں سے کیا میں کہوں دل سے پوچھو اس کا خط
آنکھوں میں آرہا ہے مرا دم براے خط
اشک سے اپنے اگر رکھتے ہی آب و دانہ شمع
ہے یقین گل ہو جو دیکھے گیسو دلبر چراغ
آپ سے جاتا نہیں میں اس ستمگر کی طرف
ہاتھ پھر وحشت نے دوڑائے گریباں کی طرف
کاہش جاں ہے لب پہ ہاے فراق
بھولا ہے بعد مرگ مجھے دوست یاں تلک
شمع بھاگی دیکھ کر میری سیہ خانے کا رنگ
ہے تری رخ سے آفتاب خجل
کہا لیلی نے قدر شناس ہین ہم ہمیں اپنی ہی مہرو وفا کی قسم
رہتی ہیں پامال مثل سایۂ دیوار ہم
کوچۂ جاناں میں جب جاتے ہیں ہم
جاتے ہیں یا اسکو بلواتے ہیں ہم
اسکو غفلت پیشہ گہہ آتی ہیں ہم
بے سواے صبر کی دولت اگر پیدا کروں
آہ میں گر ہجر کی شب میں اثر پیدا کروں
ہوں وہ بلبل چاہوں میں گلشن اگر پیدا کروں
وہ چشم مہر سے جس دم نگاہ کرتے ہیں
منہ ڈھانپ کے میں جو رو رہا ہوں
شب وصال میں کیا یار سے دو چار ہوں میں
دماغ اور ہے پاتے ہیں ان حسینوں میں
کیونکر نہ خوش ہو سر مرا لٹکا کے دار میں
روز دکھلاتا ہے طوفاں دیدۂ تر سیکڑوں
تو نہیں ہے آگے آنکھوں کے تو دل خرم نہیں
منہ پھیر کر وہ اپنی زلفیں سنوارتی ہیں
پیش نظر وہ تو سدا رہتا ہوں میں اس دھیان میں
صبر کا کرنا دلا بیجا نہیں
عطر مٹی کا لگایا چاہیے پوشاک میں
گویا ہم اپنی زخموں کی منہ کو رفو کرین
قتل عشاق کیا کرتے ہیں
روشنی جو رخ میں ہے ماہ منور میں نہیں
تری بن مجھ سا گریاں ابرنرہووے نو میں جانوں
اے صنم تیوری ہی جو ہرابرو خمدا رمیں
دار ہے قامت نہیں پھانسی ہے وہ گیسو نہیں
کب اپنے منہ سے عاشق شکوۂ بیدا د کرتے ہیں
سمجھ کر چھیڑو مشاط اسکی زلف پر خم کو
یہ عیب نہایت ہے جو تلوار میں بل ہو
چلے ہم اے جنوں جب فصل گل میں سر گلشن دامنکو
دکھا کر مجھ کو کھولاتھا کمر جو زلف شبگوں کو
اشک خوں سے اے جنوں نسبت ہے کیا اکسیر کو
ان شکوۂ قاتل سے نہ آلودہ زباں ہو
ہم مر گئے ہیں دیکھ کے ساق نگار کو
نہیں تیرے جفا وفا ہے یہ
نیم بسمل کیا ادا ہے یہ
کس قدر مجھ کو ناتوانی ہے
حسرت اے جان شب جدائی ہے
الفت پہ چھپا ئیں ہم کسی کے
جو پنہاں تھا وہی ہر سو عیاں ہے
مٹ گیا جب میں تو اے مہرو نظر آیا مجھے
اے سگ جاناں نہ جسدم تو نظر آیا مجھے
یہ ایک تیرا جلوہ صنم چار سو ہے
کیا غم ہی لہو گر تری نخچیر سے ٹپکے
پاس غیروں کے جب وہ جابیٹھے
جو وہ اپنی محراب ابرو دکھا دے
جسم وہ حیراں جہاں آئینہ اور اک ہے
محبت بھی نہیں قاتل کی خالی ہے عداوت سے
اسکو مجھ سے روٹھا دیا کس نے
تم وفا کا عوض جفا سمجھے
ملی ہاتھوں میں یہ حنا کس نے
نہیں کچھ غم گلستاں سے جو فصل گل روانا ہے
داغ دل تازہ ہوا آدل ناشاد سے
ہوں مثل نے ندو مجھے نسبت سپند سے
ابر ہے آب رواں سے لغزش مستانہ ہے
گم ہوا ہوں نظروں سے ایسی ناتوانی ہے
شکل گراں حباب کوئی ہے
مجھ کو چاہ ذقن دکھانا ہے
تکلم جو کوئی کرتا ہے جانی
پیتی ہیں خون دل نہیں خواہش شراب کی
گرادی یار نے بجلی دوپٹے کی کنارے سے
دہن ہر گز نہیں ہے تسپہ بھی معجز بیانی ہے
ہمیں اس قید الم سے تو رہائی ہوتے
ہوں وہ بلبل رونیکو دی حق نے چشم تر مجھے
اپنا ہر عضو چشم بینا ہے
سائل ہوں اور تیرکا اس خانہ جنگ سے
لب جاں بخش پہ دم اپنا فنا ہوتا ہے
نہ آسماں کے ہوئے اور نہ ہم زمیں کے ہوئے
یہی ہے بس شب فراق میں اپنا مدعا تجھ سے
پھر کہیں چھپ چھپ کے ہم جانے لگے
کیوں بہنے لگی آٹھ پہر چشم تر ایسے
حال اپنا قیس کو چل کر سنایا چاہیے
بھر گلگشت جب اس گل کا گزر ہوتا ہے
دم پھڑک جاے جسے سنتے ہیں تقریر یہ ہے
تصور ہم بغل رکھتا ہے اک لیلی شمائل سے
لگا کر دل بت نا آشنا سے
بے زباں کوئی ہے کہتا کوئی بیہوش مجھے
خاکساری چاہیے عبد خدا کے واسطے
سوزاں ہی ادھر دل ہی ادھر یار میں گرمی
پھر ہوئی الفت کسی گردن صراحی دار کی
یہ کیا الم ہے جو ہے چاک چاک جیب سحر
ترکیب بند
حاشیے پر جولکھی تعریف خط یار کی
ہر ایک گلشن عالم میں مو پریشاں ہے
فلک نے مجھ کو دیا داغ نوجواں افسوس
یہ آہ سرو خلائق سے ہے جہان معمور
بنایا آتش غم نے مجھے چراغ مزار
اگر ہے آنکھوں میں آنسو تو دل ہے غم سے بھرا
تری فراق میں آنکھوں سے میری خوں ہے رواں
اگر چہ جانتا ہوں دم کا کیا بھروسا ہے
کسی طرح سے سمجھتا نہیں دل ناشاد
تری فراق میں اب اس قدر ہوں میں بیتاب
سلام
سلامی پیا سا مارا گمر ہوں نے دین کے رہبر کو
بلاے جسم ہے جان اور وبال دوش ہے سر
سلامی مجھ محبت ہے اس دلاور سے
شہ کہتے تھے مجرائی یہاں رنج بھی راحت ہے
روز قتل شاہ دیں ہے سب جہاں غمناک ہے
سلامی دیکھ تو ہے رنگ آسماں کیسا
لازم ہے مجرئی کو اطاعت حسین کی
جس وقت سر شاہ شہیداں نظر آیا
مجرائی باند ہے شقی ہاے وہ زنجیر میں ہاتھ
مجرائی لڑنے کو جب اکبر چلے
چرخ پر ماہ محرم جب نمایاں ہو گیا
رتبہ نہ کیوں بلند ہو میرے سلام کا
مخمس
تاریخ دیوان من تصنیف شیخ امام بخش ناسخ
تاریخ دیوان من تصنیف خواجۂ وزیر
از نظر دیوان گویا چوں گزشت
پیش فکر بلند گویا
لاریب یہ دیوان ہے بستان فصاحب
تاریخہاے ترتیب دیوان فقیر محمد خان گویا از مرزا فرخ
خاتمۃ الطبع
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.