سر ورق
پیشکش نامہ
دیباچی
مصنف کی مختصر سوانح عمری
دستور العمل مصنف اس دیوان میں
خاتمۂ دیباچہ و معذرت
دیوان خیال جانان
قصائد
ساقیا آج تو ہوتا ہوں میں یو ں توبہ شکن
تھا اوسی جلسے میں اک مخلص دیرین میرا
بندہ چکے سہرے تو شب گشت کا سامان ہوا
باندھا اوس گلشن خوبی نے جو پیارا سہرا
تعریف شب گشت و روشنی و آتشبازی وغیرہ
روز افزوں ہو یہ اقبال تہ چرخ کہن
طرفہ تر موسم بہار آیا
بادہ کش جہوم جہوم کر بولے
اس جواں بخت نے باندھی ہی ہے لڑای سہرے کی
واہ کیا فصل بہاری نے کھلایا گلشن
کوئی کہتی ہے تم جیو حم جم
کنار جو میں سفر میں تھا ایک دن بیٹھا
پکارتے تھے کسی سمت رند ساقی کو
کسی کی بادۂ نخوت سے آنکھیں چکنا چور
خوشی میں اور خوشی ہوتی ہے یہی ہے دستور
یہ تیرے عہد کی سب خوبیاں ہیں اے آقا
جو کھینچے تیغ دو دم تو دمِ جدال و قتال
ہلال عید دکھائی دیا پڑی جو پکار
لقب ترا ہے شہا ظل ایزو غفار
لایا ہے جشن سالگرہ رنگ زیر چرخ
محب اک ہمارے ہیں والا گہر
دیوان خیال جانان
بہرا ہے رنگ ہر گل میں خدایا تیری قدرت کا
ہائے افسوس کہ ایوانِ مدینہ چھوٹا
میسر ہوگیا ہم کو نظارہ روی جاناں کا
دل میں پڑا جو گہا وتو زخمی جگر ہوا
تو نے دیکھا ہے بتا رویِ درخشاں کس کا
دل یار کے پیکان سے بدل جاتی تو اچھا
یہ اشارہ ہے وحشتِ دل کا
ہم سے کس روز ہمارا بت دلجوں ملا
چمن میں چہچہا یہہ ہے ہر اک مرغ نوازن کا
کیا کہیں درد ہے اب مونس و ہمدم اپنا
سمایا ہے جو میرے سر میں سودا قد دلبر کا
آیا آنکھوں کو نظر چاند سا چہرہ کس کا
جب آنا اک نگاہِ شوخ سے بیتاب کر جانا
کوے دلدار میں تنگ آکے جو جانا چھوڑا
گلے پر چل گئی تیغِ جفا کیا
خبر یار کو آسان ہے جانا دل کا
گلچیں نے مژدہ موسمِ گلزار کا دیا
درپے ہمارے کیوں فلکِ کینہ خوہوا
جس دل سے تیرا جورا وٹہایا نجائےگا
جو فقرا کہیں چل گیا ہے کسی کا
ہاتھ قاتل نے جو کل دوشِ عدو پر رکھدیا
زلف سیاہ میں دل عاشق اٹک گیا
کسی کا جا کے حسینوں میں کیسا نام کیا
کوئی جانباز مجسا سخت جاں مقتل میں کم نکلا
تیر نگاہ نار غضب کام کر گیا
کہے جاؤ زبان سے تم کہ ہے تیری حقیقت کیا
جو یوں بیساختہ واعظ زبان پر نام حور آیا
ستم ڈہا گیا کیا اشارہ تمہارا
رقیبوں کے لئے ہے لطف جلوت اور خلوت کا
پوچھیں فلک سے یار دل آزار کا پتا
گریباںاپنا پہاڑو جب تقاضا ہو یہ دل ہی کا
کچھ لطف تو اوٹہیں کہ ہوں بیباکیان بھی ساتھ
جرم الفت پرستایا تو نے اے دلدار خوب
ہمسے خفا ہے وہ ستم ایجاد بے سبب
جو ہم پر ہے اون کا نہایت عتاب
پڑھ کے خط میرا وہ لکھ بھیجنے عنایت کا جواب
مجکو پہلے سے ہے آگاہی جو سمجھا ئیں گے آپ
تمنے دل کو نہیں دکھایا کب
مخفی نہیں رہتے کبھی اسرار محبت
کیوں مجسے ہے تیری ستم ایجاد رکاوٹ
دکھایے باغ جہاں میں یو نہیں بہار بسنت
عاشق سے بدگمان ہوے اے نازنین عبث
بزم مین دشمن کے پوچھا اونسے جب اونکا مزاج
کس غضب کے ہیں بھرے اوس بت عیار میں پیچ
ہے خوب جس حسین کا ہو جتنا شباب شوخ
ہر اک ستاتا ہے الفت میں آسماں کی طرح
کس غضب کا ہے فغاں و نالہ بسمل میں درد
جب ہلا طرہ بلا آگہی طرار ون پر
کچھ اشارہ وہ کر گئے شاید
کھڑے جب ہوے بزم گلرو میں اوٹھ کر
کسی پر بس نہیں آیا ہے جی اک شوخ چتوں پر
اچھی نہ تھی بہار میں گو باغبان کی چھیڑ
بھولا نہیں ہوں لذتِ جورو ستم ہنوز
جھوپڑا اپنا بھی ہے کوچہ دلدار کے پاس
ایسا یہ دل کسی کے ہے جورو ستم سے خوش
کیوں نہو رسم دل ازاری کا وہ دلبر حریص
اے دل بتوں سے تجکو امید وفا غلط
پوچھتے کیا ہو تجھے کب تھا مرض
چارکیں جب اوس سے آنکھیں آگیا کیسا لحاظ
جب میں نے درد دل کا کیا ماجرا شروع
ان حسینوں نے کی وفا موقوف
ڈر ہے نہ میرے سینہ میں آتش لگائیں داغ
ایسا ہوا ہے دل کو کسی کی ادا کا شوق
یہ آپہونچا اثر کس کی فغان تک
تیری یہی طرز ستم ہے ستم ایجاد الگ
سمجھا تھا میں وفا نہیں کرنے کا یا ردل
جب بھول ہی کے بیٹھے ہیں یاد بتاں کو ہم
خبر نہیں کون لے گیا دل وہ مست بزمِ شراب میں ہوں
کوی قاتل میں قدم بن کے نڈر رکھتے ہیں
جب تمہارا قول ہے تیر وفا کچھ یہی نہیں
اونکے انداز ستم بھی تو مزا دیتے ہیں
یہ کیا ہے آج غیر جو بلوایے جاتے ہیں
عدو سے وعدہ کچھ کرتے ہیں وہ کٹتے ہیں ہم دل میں
وہ جب کوئی نئی طرز ستم ایجاد کرتے ہیں
منہ سے نکل گیا تھا جو کچھ اضطراب میں
سنبھلنا حضرتِ دل ہم تمہیں آگاہ کرتے ہیں
تمسا اوروں کا ہے شباب کہاں
اچھا وہ پیٹھ پیچھے مجھے کیوں برا کہیں
اون کو یہ شوق روز نئی اک جفا کریں
کریں کیا جی نہیں لگتا ہے ان پرہیز گاروں میں
بلا سے ہو اگر ہم پر جفایِ آسمان برسون
منہ سے کچھ بگڑی ہوئی بات بنا لوں تو کہوں
آسماں پر جو یہ ستارے ہیں
حال آپنے ہمارا بخوبی سنا کہاں
بوسہ ابھی لیا لبِ جانبخش کا کہاں
تیر قاتل کے جو آتے ہیں ادھر آنے دو
زمان سے تیغ کا دیکھو تم آج کام نہ لو
ناصحو چپ رہو نالوں کا اثر ہونے دو
شب وعدہ مرے گہر آنے میں تاخیر کرتے ہو
بھلا بیٹھیں گے یوں دل سے اگر ہم یاد جاناں کو
میری بھی سن خدا کے لئے تند خونہو
وہ پھیر لیتے ہیں منہ کو سوال ہو کر نہو
کسے ڈر ہے ملو اغیار سے اے یار بسم اللہ
گھبرائیں وہ نہ اے دل رنجور ہٹ کے بیٹھ
بن کر بگڑ نجائے کہیں دلربا کے ساتھ
خوشی کا نکلے پہلو کوئی تو بیتابی دل سے
پتاں فراق میں دل کی طرح جگر بہی ہے
کیا بتائیں کہ ہمیں دوست سے شکوا کیا ہے
گل بہی ہے خار اوس گل رعنا کے سامنے
بجا ہے وہ قاتل اگر ہوں ابھی سے
یہ نصیحت ہے بار بار کسے
شروع عشق میں ہم مرمٹے وفا کے لئے
قاصد نے کچھ کہا بھی تو آکر کھڑے کھڑے
عقرب ہزار آفت بھرے ابرو کا بچھو اور ہے
دشمن سے میرے ہوتی جو اونکی نظرلڑی
فرقت دوست نے کر دی ہے یہ حالت میری
وہ آتے آتے گھر کو جو میرے پلٹ گئے
لیس دل لینے کو قاتل کی ادا ہوتی ہے
پھر کیوں کبھی کرنے لگے فریاد کسی کی
ہم سے تپاک ہیں جو کسی کے بڑے ہوے
یہہ کون کہتا ہے وہ اصل مدعا سمجھے
لڑا نہ غیر سے آنکھیں دکھا دکھا کے مجھے
کسی سے تونگہہ اونکی لڑی ہے
ظلم سہتے ہیں بتوں کا یہ ہمارا دل ہے
دکھا دیں حشر کا اوٹھنا تمہیں اوٹھو تو سہی
یوں مجسے جو مہرباں بگڑی
مجھ پر جو اندنوں کرم ذوالجلال ہے
ہم رنگ لالہ زار دل داغدار ہے
بزمِ عدو میں وہیان یہ اے شعلہ ٔ ور ہے
اس لئے رہتے ہیں ہم تیغ جفا جو کے تلے
اوس دل آزار پر آئی ہے طبیعت دل کی
خاک جا لپٹی کس کے دامن سے
شبِ وعدہ یہاں آنکھوں سے خونِ دل اوبلتا ہے
حال اپنا اونہیں سنا نہ سکے
پھر کسی پر یہ دل خانہ خراب آنے کو ہے
رنگ بگڑے جو اونکی صحبت کے
تمہیں جیسے دیا ہے غیر سے بڑھ کر دل اپنا ہے
کیا چپ مجھ ہی یہ چاہت کچھ ایسی
وہاں شانہ طلب ہے گیسوؤں کا خم نکلتا ہے
غیروں کو اپنی بزم سے دم بھر میں ٹال کے
خمسۂ نعتیہ بر غزل قدسی علیہ الرحمہ
خمسۂ دیگر طبغراد مصنف
سلام
متفرقات
AUTHORमौलवी मोहम्मद उमर जुनून
YEAR1894
CONTRIBUTORरेख़्ता
PUBLISHER मतबा मुफ़ीद-ए-आम, आगरा
AUTHORमौलवी मोहम्मद उमर जुनून
YEAR1894
CONTRIBUTORरेख़्ता
PUBLISHER मतबा मुफ़ीद-ए-आम, आगरा
سر ورق
پیشکش نامہ
دیباچی
مصنف کی مختصر سوانح عمری
دستور العمل مصنف اس دیوان میں
خاتمۂ دیباچہ و معذرت
دیوان خیال جانان
قصائد
ساقیا آج تو ہوتا ہوں میں یو ں توبہ شکن
تھا اوسی جلسے میں اک مخلص دیرین میرا
بندہ چکے سہرے تو شب گشت کا سامان ہوا
باندھا اوس گلشن خوبی نے جو پیارا سہرا
تعریف شب گشت و روشنی و آتشبازی وغیرہ
روز افزوں ہو یہ اقبال تہ چرخ کہن
طرفہ تر موسم بہار آیا
بادہ کش جہوم جہوم کر بولے
اس جواں بخت نے باندھی ہی ہے لڑای سہرے کی
واہ کیا فصل بہاری نے کھلایا گلشن
کوئی کہتی ہے تم جیو حم جم
کنار جو میں سفر میں تھا ایک دن بیٹھا
پکارتے تھے کسی سمت رند ساقی کو
کسی کی بادۂ نخوت سے آنکھیں چکنا چور
خوشی میں اور خوشی ہوتی ہے یہی ہے دستور
یہ تیرے عہد کی سب خوبیاں ہیں اے آقا
جو کھینچے تیغ دو دم تو دمِ جدال و قتال
ہلال عید دکھائی دیا پڑی جو پکار
لقب ترا ہے شہا ظل ایزو غفار
لایا ہے جشن سالگرہ رنگ زیر چرخ
محب اک ہمارے ہیں والا گہر
دیوان خیال جانان
بہرا ہے رنگ ہر گل میں خدایا تیری قدرت کا
ہائے افسوس کہ ایوانِ مدینہ چھوٹا
میسر ہوگیا ہم کو نظارہ روی جاناں کا
دل میں پڑا جو گہا وتو زخمی جگر ہوا
تو نے دیکھا ہے بتا رویِ درخشاں کس کا
دل یار کے پیکان سے بدل جاتی تو اچھا
یہ اشارہ ہے وحشتِ دل کا
ہم سے کس روز ہمارا بت دلجوں ملا
چمن میں چہچہا یہہ ہے ہر اک مرغ نوازن کا
کیا کہیں درد ہے اب مونس و ہمدم اپنا
سمایا ہے جو میرے سر میں سودا قد دلبر کا
آیا آنکھوں کو نظر چاند سا چہرہ کس کا
جب آنا اک نگاہِ شوخ سے بیتاب کر جانا
کوے دلدار میں تنگ آکے جو جانا چھوڑا
گلے پر چل گئی تیغِ جفا کیا
خبر یار کو آسان ہے جانا دل کا
گلچیں نے مژدہ موسمِ گلزار کا دیا
درپے ہمارے کیوں فلکِ کینہ خوہوا
جس دل سے تیرا جورا وٹہایا نجائےگا
جو فقرا کہیں چل گیا ہے کسی کا
ہاتھ قاتل نے جو کل دوشِ عدو پر رکھدیا
زلف سیاہ میں دل عاشق اٹک گیا
کسی کا جا کے حسینوں میں کیسا نام کیا
کوئی جانباز مجسا سخت جاں مقتل میں کم نکلا
تیر نگاہ نار غضب کام کر گیا
کہے جاؤ زبان سے تم کہ ہے تیری حقیقت کیا
جو یوں بیساختہ واعظ زبان پر نام حور آیا
ستم ڈہا گیا کیا اشارہ تمہارا
رقیبوں کے لئے ہے لطف جلوت اور خلوت کا
پوچھیں فلک سے یار دل آزار کا پتا
گریباںاپنا پہاڑو جب تقاضا ہو یہ دل ہی کا
کچھ لطف تو اوٹہیں کہ ہوں بیباکیان بھی ساتھ
جرم الفت پرستایا تو نے اے دلدار خوب
ہمسے خفا ہے وہ ستم ایجاد بے سبب
جو ہم پر ہے اون کا نہایت عتاب
پڑھ کے خط میرا وہ لکھ بھیجنے عنایت کا جواب
مجکو پہلے سے ہے آگاہی جو سمجھا ئیں گے آپ
تمنے دل کو نہیں دکھایا کب
مخفی نہیں رہتے کبھی اسرار محبت
کیوں مجسے ہے تیری ستم ایجاد رکاوٹ
دکھایے باغ جہاں میں یو نہیں بہار بسنت
عاشق سے بدگمان ہوے اے نازنین عبث
بزم مین دشمن کے پوچھا اونسے جب اونکا مزاج
کس غضب کے ہیں بھرے اوس بت عیار میں پیچ
ہے خوب جس حسین کا ہو جتنا شباب شوخ
ہر اک ستاتا ہے الفت میں آسماں کی طرح
کس غضب کا ہے فغاں و نالہ بسمل میں درد
جب ہلا طرہ بلا آگہی طرار ون پر
کچھ اشارہ وہ کر گئے شاید
کھڑے جب ہوے بزم گلرو میں اوٹھ کر
کسی پر بس نہیں آیا ہے جی اک شوخ چتوں پر
اچھی نہ تھی بہار میں گو باغبان کی چھیڑ
بھولا نہیں ہوں لذتِ جورو ستم ہنوز
جھوپڑا اپنا بھی ہے کوچہ دلدار کے پاس
ایسا یہ دل کسی کے ہے جورو ستم سے خوش
کیوں نہو رسم دل ازاری کا وہ دلبر حریص
اے دل بتوں سے تجکو امید وفا غلط
پوچھتے کیا ہو تجھے کب تھا مرض
چارکیں جب اوس سے آنکھیں آگیا کیسا لحاظ
جب میں نے درد دل کا کیا ماجرا شروع
ان حسینوں نے کی وفا موقوف
ڈر ہے نہ میرے سینہ میں آتش لگائیں داغ
ایسا ہوا ہے دل کو کسی کی ادا کا شوق
یہ آپہونچا اثر کس کی فغان تک
تیری یہی طرز ستم ہے ستم ایجاد الگ
سمجھا تھا میں وفا نہیں کرنے کا یا ردل
جب بھول ہی کے بیٹھے ہیں یاد بتاں کو ہم
خبر نہیں کون لے گیا دل وہ مست بزمِ شراب میں ہوں
کوی قاتل میں قدم بن کے نڈر رکھتے ہیں
جب تمہارا قول ہے تیر وفا کچھ یہی نہیں
اونکے انداز ستم بھی تو مزا دیتے ہیں
یہ کیا ہے آج غیر جو بلوایے جاتے ہیں
عدو سے وعدہ کچھ کرتے ہیں وہ کٹتے ہیں ہم دل میں
وہ جب کوئی نئی طرز ستم ایجاد کرتے ہیں
منہ سے نکل گیا تھا جو کچھ اضطراب میں
سنبھلنا حضرتِ دل ہم تمہیں آگاہ کرتے ہیں
تمسا اوروں کا ہے شباب کہاں
اچھا وہ پیٹھ پیچھے مجھے کیوں برا کہیں
اون کو یہ شوق روز نئی اک جفا کریں
کریں کیا جی نہیں لگتا ہے ان پرہیز گاروں میں
بلا سے ہو اگر ہم پر جفایِ آسمان برسون
منہ سے کچھ بگڑی ہوئی بات بنا لوں تو کہوں
آسماں پر جو یہ ستارے ہیں
حال آپنے ہمارا بخوبی سنا کہاں
بوسہ ابھی لیا لبِ جانبخش کا کہاں
تیر قاتل کے جو آتے ہیں ادھر آنے دو
زمان سے تیغ کا دیکھو تم آج کام نہ لو
ناصحو چپ رہو نالوں کا اثر ہونے دو
شب وعدہ مرے گہر آنے میں تاخیر کرتے ہو
بھلا بیٹھیں گے یوں دل سے اگر ہم یاد جاناں کو
میری بھی سن خدا کے لئے تند خونہو
وہ پھیر لیتے ہیں منہ کو سوال ہو کر نہو
کسے ڈر ہے ملو اغیار سے اے یار بسم اللہ
گھبرائیں وہ نہ اے دل رنجور ہٹ کے بیٹھ
بن کر بگڑ نجائے کہیں دلربا کے ساتھ
خوشی کا نکلے پہلو کوئی تو بیتابی دل سے
پتاں فراق میں دل کی طرح جگر بہی ہے
کیا بتائیں کہ ہمیں دوست سے شکوا کیا ہے
گل بہی ہے خار اوس گل رعنا کے سامنے
بجا ہے وہ قاتل اگر ہوں ابھی سے
یہ نصیحت ہے بار بار کسے
شروع عشق میں ہم مرمٹے وفا کے لئے
قاصد نے کچھ کہا بھی تو آکر کھڑے کھڑے
عقرب ہزار آفت بھرے ابرو کا بچھو اور ہے
دشمن سے میرے ہوتی جو اونکی نظرلڑی
فرقت دوست نے کر دی ہے یہ حالت میری
وہ آتے آتے گھر کو جو میرے پلٹ گئے
لیس دل لینے کو قاتل کی ادا ہوتی ہے
پھر کیوں کبھی کرنے لگے فریاد کسی کی
ہم سے تپاک ہیں جو کسی کے بڑے ہوے
یہہ کون کہتا ہے وہ اصل مدعا سمجھے
لڑا نہ غیر سے آنکھیں دکھا دکھا کے مجھے
کسی سے تونگہہ اونکی لڑی ہے
ظلم سہتے ہیں بتوں کا یہ ہمارا دل ہے
دکھا دیں حشر کا اوٹھنا تمہیں اوٹھو تو سہی
یوں مجسے جو مہرباں بگڑی
مجھ پر جو اندنوں کرم ذوالجلال ہے
ہم رنگ لالہ زار دل داغدار ہے
بزمِ عدو میں وہیان یہ اے شعلہ ٔ ور ہے
اس لئے رہتے ہیں ہم تیغ جفا جو کے تلے
اوس دل آزار پر آئی ہے طبیعت دل کی
خاک جا لپٹی کس کے دامن سے
شبِ وعدہ یہاں آنکھوں سے خونِ دل اوبلتا ہے
حال اپنا اونہیں سنا نہ سکے
پھر کسی پر یہ دل خانہ خراب آنے کو ہے
رنگ بگڑے جو اونکی صحبت کے
تمہیں جیسے دیا ہے غیر سے بڑھ کر دل اپنا ہے
کیا چپ مجھ ہی یہ چاہت کچھ ایسی
وہاں شانہ طلب ہے گیسوؤں کا خم نکلتا ہے
غیروں کو اپنی بزم سے دم بھر میں ٹال کے
خمسۂ نعتیہ بر غزل قدسی علیہ الرحمہ
خمسۂ دیگر طبغراد مصنف
سلام
متفرقات
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।