سرورق
سر دیوان لکھا مطلع جو میں نے حمد داور کا
ردیف الف
بدر ہے اے یاس روے پر ضیائے مرتضیٰ
گناہگار ہوں روز شمار کیا ہوگا
سنگ کو تیز ہواؤں سے ضرر کیا ہوگا
ہر جگہ اس کا کل پیچاں کا افسانہ رہا
کل شب کو جلوہ گر جو کوئی مہ جبیں رہا
دھیان تیرا جو مجھے اے مہ کامل آیا
مجھ کو اس دشت میں لیکر یہ جنوں جا پہونچا
تمام رات جو اس زلف کا خیال رہا
انکی چھاگل سے بپا رہتا ہے شیوان زیرپا
وہی دل میں تری محل کا سماں ہے کہ جو تھا
عشق اس پر دغا سے کیجیے کیا
بام جب یار ترا طور تجلی ٹھہرا
ہمارے دل کی تڑپ کا جو امتحان ہوگا
کھینچ کر قاتل جو بہر قتل خنجر رہ گیا
جان سے بیقراری باطن جتائیں کیا
پھر مرے دل کو دکھانے لگا ابرو تیرا
جب نظر سلسلۂ زلف سیہ فام آیا
وہ قاتل آج گر تن سے مرے سر کو جدا کرتا
اے پری کون تری زلف کا شیدا نہ ہوا
جب کوئی جنس ہنر کا قدر داں ہو جائیگا
وحشی کیا کبھی کبھی حیراں بنا دیا
مہربان مجھ پر جو وہ رشک قمر ہو جائیگا
محبت کا مری آخر برا انجام ہونا تھا
تجھے اے دل جو محوروے آتش ناک ہونا تھا
جناب عشق میں ایسا میں بار یا ب ہوا
کیا اثر ہے اس تری ناز کبدن تصویر کا
اگر دل محو چشم وگیسو جانا نہ ہو جاتا
امتحان گاہ میں میں ہو کے جو بسمل تڑپا
دل جب سے محو زلف گرہگیر ہو گیا
ابرو کے عشق نے یہ مجھے ناتواں کیا
ہر دم خیال ہے جو کسی گلعذار کا
تیرے دیوانوں میں جیسے اے پری شامل ہوا
وحشت دل ترا چرچا نہ ہوا تھا سو ہوا
یار سے میں تپاک کر آیا
ہجر جاناں میں دل جو بھر آیا
کھینچ کوئی شبیہ روے پر تنویر کیا
بتاؤ یاسؔ کہ عہد بہار کیسا تھا
قتیل عشق ہوے کوئی حوصلہ نہ رہا
اشک خوں سے رشک گل دامن ہوا
خواب میں بھی ہجر میں رویا کیا
عشق زلف یار میں سودیکی شدت دیکھنا
ازل سے عشق ہے دلمیں مرے گیسوئے جاناں کا
نہ ہوتا فرق پھر گر عشق میں مجھ کو غلو ہوتا
ناصح جو عشق گیسو جانا نہ ہو گیا
مرے گھر اپنے کوٹھے سے جو وہ رشک قمر آیا
تابہ شانہ جو ترا گیسو خمدار آیا
گھٹا چھائے ہے ہر سو باغ پر عالم ہے جوبن کا
ہے خوف ہجر وصل کسی کا ہوا تو کیا
یار کے آنے کا دیکھا کیا رستا کیسا
بیٹھے بیٹھے عشق زلف فتنہ گر پیدا ہوا
یہ تپاں صورت بسمل کبھی ایسا تو تنہا
مجنوں تن خاکی میں کبھی دل نہیں ملتا
قتل کرکے مجھ کو بخشش کی دعا دینے لگا
جس کو ہم رہبر سمجھتے تھے وہ رہزن ہو گیا
یار پردے میں ادھر جلوہ دکھا کر رہ گیا
انکا جوبن عاشقوں کے حق میں قاتل ہو گیا
بیقراری میں جگرتجھ سے بھی ایدل بڑھ گیا
خوں گھٹ گیا تمام بدن زرد ہو گیا
پھندے میں گیسووں کے پھنسایا یہ کیا کیا
یاس مجھ کو عشق گیسوئے رساکس دن نہ تھا
تیرے قد سے ہمسری شمشاد کو کیا ہوگیا
غرق ہو جائے ابھی کلبۂ احزاں میرا
تاکنا کب دیدۂ روزن سے ان کا جائیگا
زیست میں میں اپنے مرنے پر عبث غمناک تھا
نشان گور یوں غیروں کو بتلاتے تو بہتر تھا
بس یہی کام تھا اے رشک قمر دیکھ لیا
یہ جاکے تیرے پاس جو اے جان جاں رہا
کوئی جوان جو مجھ زاروناتواں سے ملا
زرا ہمیں بھی تپا اے سحاب دیتا جا
رونے سے بخار اسکے نکل جائے تو اچھا
نالے اثر جذب نہ دکھلائیں گے پھر کیا
بیٹھا ہے تو اب عاشق مضطر نہ اٹھیگا
یاد گیسو میں جو گھر سے میں پریشاں نکلا
ردیف باء تازی
لاؤ نہ دل کو ابروخمدار کے قریب
میرے سر پر نہ بلا زلف کی لاؤ صاحب
ہو چکے تیر نگہ سے سیکڑوں نخچیر اب
سودا ہوا نہ جس سے وہ آئی بہار کب
گر کبھی چکھ لے مزا چھوٹے نہ پھر دم بھر شراب
مجھ سے رقیب الجھتے ہیں ہر بار بے سبب
عشق میں مٹ جائیگا اک دن نشان عندلیب
لکھ رہا ہوں صفت زلف صنم آج کی رات
کیا شگفتہ ہوں جو آجاے وہ یار آپ سے آپ
ردیف تاء فوقانی
ردیف باء فارسی
ہے یہی حسرت کہ دیکھوں ہر سحر میں روئے دوست
پاس آیا جو نہ وہ رشک قمر ساری رات
نکلے تھے دل میں جو ارماں خدا کی قدرت
لوگ سب تکتے ہیں اس رشک چمن کی صورت
ردیف تاء ہندی
یہ روئے ہم کہ گئے دیدۂ پر آب الٹ
ردیف ثاء مثلثہ
دیکھتے ہیں جس طرف کچھ ہم سے ہے اے یار کج
ہماری زیست ہے باقی شراب کے باعث
ردیف جیم عربی
ہے عدم تک ضعف سے مجھ زار کی مشکل پہونچ
برسوں ہوئے کہ دل ہے مرا مبتلائے رنج
ردیف جیم فارسی
چاندنی میں دے ہمیں جام شراب اچھی طرح
بھا گئی ہے اسکو شاید یار قاتل کی طرح
ردیف حاء حطی
آپ سے باہر ہے دل قابو میں لاؤں کس طرح
ردیف خاء معجمہ
پہنتا ہے وہ قاتل پیرہن سرخ
رہتا نہیں اک دم بھی مرا دیدۂ تربند
ہے عرش سے بھی یار کا میرے مکاں بلند
انکو ہے اپنے ابرورخسار پر گھمنڈ
ردیف دال مہملہ
ردیف دال ہندی
شوق کا میں نے جو لکھا کاغذ
ردیف ذال معجمہ
ردیف راء مہملہ
جانتا ہے دل نازک کو ستمگر پتھر
بلبل کرے جو نالۂ وشیون ہزار بار
ہے نہ بستر اور چادر زیر پا بالائے سر
مجھے خبر نہیں نکلا یہ سلسلا کیونکر
میں تو اٹھ سکتا نہیں اے روح بستر چھوڑ کر
روح کیوں نکلی ہماری خانۂ تن چھوڑ کر
ظرفہ عالم ہے تمہاری زلف عنبر بیز پر
شاہد گل سے ہو کم عشق عنادل کیونکر
ہوا وہ آشنا میرا بت نا آشنا ہو کر
قیدیٔ زلف ہے نالے نہ کرے دل کیونکر
تھے جو نازک وہ نکلتے ہیں وطن سے باہر
جان دیتا ہوں بت بیباک پر
زلف شبگوں ہے کہیں مشک ختن سے بہتر
مہ نو آجو گیا سامنے ابرو ہو کر
ردیف زاء معجمہ
ردیف راء ہندی
میں نے کی اس سے محبت وہ اسے سمجھا بگاڑ
آسماں کے دور میں رنج والم پاتے ہیں روز
ردیف سین مہملہ
شب بھر وہ شمع رو جو رہا میرے پاس پاس
ردیف سین معجمہ
قبر میں سوتا ہے اک ہجر کا جاگا خاموش
ردیف صاد مہملہ
دل میں ہماری یار ہی کا ہے مقام خاص
ردیف ضاد معجمہ
یہاں مژہ سے عشق ہے ابروئے دلبر کے عوض
ردیف ظاء معجمہ
ردیف طاء مطبقہ
عشق چشم یار میں ایدل بھلا کیسا لحاظ
گر گیا کہیں کمر سے خط
کی جو سرگوشی خم ابرونے دہاں قاتل شروع
ردیف عین مہملہ
گر اپنے ساتھ لیکے چلے میرا یار شمع
کیوں جلاتے ہیں بھلا میرے سر مدفن چراغ
جو ان کا ابرو پرخم ابھی دکھائے فروغ
ردیف غین معجمہ
کیوں نہ مجھ سے ناتواں کو ہو لب دلبر سے عشق
ردیف قاف معجمہ
ردیف فاء معجمہ
مجھ کو لیجائے جنوں گر کوئے جاناں کی طرف
ردیف کاف عربی
تیرے جورو ظلم کا شہرا ہے قاتل تافلک
کیے چور چور استخواں زیر خاک
ردیف کاف فارسی
عاشق زار ہو کیا کوچۂ جاناں سے الگ
دل کبھی ہو گا نہ اس زلف پریشاں سے الگ
چاک ہوتا ہے گریباں تابہ داماں آجکل
ردیف لام مہملہ
قتل کرنے سے مرے ہے یہ پشیماں قاتل
خود نکل جاتے ہیں تیر نالۂ شبگیر دل
ردیف میم
وحشی ہیں عشق زلف شکن در شکن سے ہم
راضی ہے ہم سے تیری رضا اور رضا سے ہم
در جسم خود زفکر سخن مثل جاں شدم
پھر اپنا صبر آزمائیں گے ہم جو یار مہرو کو پائیں گے ہم
دیکھتےہیں روز وشب تیرے رخ روشن کو ہم
یہ سیکڑوں جو گل ہیں دل داغدار میں
ردیف نون معجمہ
بیجا نہیں سوجی سے جو ہم تم پہ فدا ہیں
رکے قتل میں جو وہ قاتل نہیں
کیا جسم ہے لطیف کہ سایا کہیں نہیں
اگر سوئیں کبھی ہم اس مہ کامل کے پہلو میں
کوئی مزاگل وبلبل کی انجمن میں نہیں
نظیر اپنا نہیں رکھتا وہ گلرو خوش بیانی میں
کشتۂ شربت دیدار رہا کرتے ہیں
میرا رونا تھا کہ گھنگھور گھٹائیں آئیں
وہ نہیں جس مقام پر ایسا کوئی مکاں نہیں
ہے عجب افسانۂ بلبل چمن میں کیوں نہیں
دل بلبل کو نہیں باغ میں آرام کہیں
پاس کانوں کے جو گیسوئے سیہ آتے ہیں
مانع نظارہ ہے رخ پر نقاب اچھا نہیں
زلف جاناں کا ہے خیال ہمیں
پیش نظر ہیں گیسو دلدار رات دن
قاتل ابرو ترے سر تیز ہیں خنجر دونوں
چھیڑ اے مژگاں نہ مجھ کو صاحب آزار ہوں
عشق میں ساتھی بہت پر بیخطر کوئی نہیں
تیرا مدح جو اے ابرو دلدار ہوں میں
ناتواں ہیں ہم تو انکے پاس جاسکتے نہیں
ترا تیر نظر ہےاور میں ہوں
ہجر میں اشکوں سے دامن کو بھگو دیتے ہیں
سوز غم رہنے لگا میرے دل بیتاب میں
کبھی تیوری چڑھا لیتے ہیں گاہے ناز کرتے ہیں
اٹھے ہیں کالے بادل دور اکثر ہونے والے ہیں
پہنے گر میرا گل باغ جوانی چوڑیاں
جو نہ تڑپا تہ زانوئے ستمگر میں ہوں
بھلا گردن کشی کی تاب ہو کیا جاں نثاروں میں
عدیل اپنا نہیں رکھتے اگر وہ گلعذاروں میں
جب سے سوادائے زلف ورخ جاناں ہوں میں
ساقیا آیا تھا مے پینے خدا جانے کون
عشق رخسار میں گر جلوہ گری پیدا ہوا
عشق میں لاکھ اسے بہلاؤ بہلتا ہی نہیں
ردیف واؤ مہملہ
مجھ کو کہتا ہے وہ مقتول جفا ہو تو یہ ہو
پائے بلبل اگر ان پھول سے رخساروں کو
جائے حیرت ہے صبا ہاتھ سے بیداد ہو
عدیل اپنا نہیں رکھتے ہو تم ہر شے سے افضل ہو
اڑکے اس رخ پہ گئی زلف رسا کاہے کو
کھول دیں آپ چمن میں جو معنبر گیسو
سرمہ دیکر نہ تم ادھر دیکھو
بہار آئی ہے ساقی ہاتھ میں لے شیشہ مل کو
آہوں پہ باد سروکا انکو گماں نہ ہو
نہ ہو مثال صنم بے مثال ایسا ہو
ہر اک حسیں ہے مہیا مرے جلانے کو
ردیف ہاء ہوز
دیکھے جو میرا آئینہ رخسار آئینہ
اک مجھی کو عشق ہے کیا اس عدوئے جا ں کے ساتھ
مجھ کو الفت ہو گئی اس ظلم کے بانی کے ساتھ
ردیف یائے تحتانی
ہر اک سے مدح سلطاں رسالت ہو نہیں سکتی
کہتا ہوں میں یہ صبح شب وصل یار سے
مٹ گئی باطل پرستی حا نمائی ہو گئی
پسا جاتا ہے دل ہر بات پر اے یار کیا کہئے
ابتدا سودائے گیسو کی دل مضطر سے ہے
تیغ ادا کا قاتل اس پر بھی وار کوئی
بخدا موسیٰ عمران کو بھی حیرت ہو جائے
شگفتہ رہتا ہے دل جب بہار آتی ہے
پہلو میں کوئی دن سے جو دلدار نہیں ہے
کی خوب سیر باغ کی اے باغباں چلے
بے ستوں میں تو ہے قیس خستہ تن آہن میں ہے
آج ہے وصل توکل یار سے فرقت ہوگی
مردے جی اٹھیں گے زندوں پر اک آفت ہوگی
بیان عاشق ومعشوق میں ہر شعرو مطلع ہے
جہاں میں عشق کامل ہے مجھے اس ماہ طلعت سے
محبت ہے مجھے اس مصحف ناحق کی صورت سے
غضب تھیں لیلیٰ وشیریں ستم تھے نازو دنوں کے
ہاں وصل میں بھی یار کی تیوری چڑھی رہے
راہ آنے کی تری تاصبح دم دیکھا کئے
آزار عشق نے یہ کیا ناتواں مجھے
کھینچ کر تیغ ادا گر مرا قاتل اٹھے
بہار آئی گھٹا گھنگھور چھائی اور برس نکلے
کھلے وہ زلف تو مشک جناں کی بو نکلے
اگر وہ کھولکے گیسوئے مشکبو نکلے
کسی سے رخ کو چھپا رہا ہے کسی کو چہرہ دکھا رہا ہے
گھٹا یہ خوں ہمارا کہ زرد ہو کے اٹھے
خزاں میں سیر چمن کو جو وہ نگار آئے
بام پر جب وہ مرا رشک قمر جاتا ہے
مزا ہو بادہ خواری کا جو گلشن میں بہار آئے
نالۂ گرم اگر تابہ فلک جاتا ہے
طفل اشک آنکھ سے گر کو جو مچل جاتا ہے
راست ہیں پلکیں تری مثل سنان کس کے لئے
دل دیا تھا آپ کو جی سے گزر نے کے لئے
داغ سودا میرے تن میں گل ہے گلمیں خاک ہے
وہ چھیڑ کر ہمیں کیا خود رلا نہیں سکتے
ہم اشک سرخ تو رو کر دکھا نہیں سکتے
پری پیدا ہمارے دل سے ہو گی
خانۂ دل کی بنا ہے محض غم کے واسطے
دل میں ٹھہرکا سوز عشو اک جان جان کے واسطے
کس ناز کا پلا یہ دل غم نصیب ہے
جو کچھ ابکی بار گزر گئی کہیں کیا جو یار گزر گئی
قابو میں رکھے دل جسے پروردگار دے
گہرا ہے ابر جو ممکن شراب ہو جائے
جو یار کے رخ روشن کی دید ہوجائے
گھٹے یہ ضعف سے ہم عشق میں اک ماہ کامل کے
عجب صنعت کی صانع نے تری صورت بنائی ہے
عدم کی راہ کو دم میں یہ خستہ تن کاٹے
وہ سر گرم ادا ہے جان ادھر میری نکلتی ہے
کھینچ کر تیغ آیئے تو سہی
ظاہر غم دل کا یہ اثر ہے
اے بحر حسن پائیں یہ آب موتیوں کی
بیکار دشمنی یہ قاتل نے ہم سے کیوں کی
ہوا اسلام زندہ حیدر کرار کے دم سے
چشم باراں کہیں ہو جائے
کھلا زور ید الّلہی جہاں میں باب خیبر سے
دل چھپا تے کس طرح ہم اس بت بے پیر سے
لب تمہارا اور ہے برگ گل تر اور ہے
رنج وملال انسے جو یہ اک آر ہے
نہیں بچتا کبھی جو عشق کاآزاری ہے
دل بیتاب جل کر آہ میں تاثیر ہوتی ہے
کون کہتا ہے گناہوں کی جزا ہونے کو ہے
قہقہوں میں انہیں وہاں رات بسر ہوتی ہے
تم جس جگہ ہو یہ دل دیوانہ ساتھ ہے
راز الفت اس پری سے ہونہاں دشوار ہے
بہار آئی جنوں خیز ابکے پھر وحشت کا ساماں ہے
پہلو میں جو اے یاس وہ گلفام نہیں ہے
مر جائیں گے ہم ہجر کا انجام یہی ہے
فراق یار میں مجھ پر اذیت بڑھتی جاتی ہے
مرتا ہوں میں جانکاہ جدائی کا الم ہے
دل ملول مرا عاشقی کو کیا جانے
شب فرقت مجھے جب وہ پری رو یاد آتا ہے
نو گرفتاروں پر ایسی قید ہے صیاد کی
شراب خانے بہا کے چمن سے دور رہے
اول عشق نے دکھلائے یہ انجام مجھے
ہیں پیش نظر ابرو دلبر کئی دن سے
توجہ ان کی جو عشاق پر نہیں نہ سہی
یاس تم روئے تو انکی دل لگی ہو جائیگی
دل نے رخ محبوب کی تنویر دکھائی
کچھ ہیں تباہ عشق میں کچھ مر کے گڑ گئے
یاس یہ آزار الفت کی نشانی رہ گئی
موت کا پیغام ہے ہم کو لڑائی آپ کی
اے پری رہنے کو تیرے شیشۂ دل چاہئے
یاس کو جب کثرت عصیاں پہ رقت آگئی
یہ چاہئے تھا سبک یہاں سے ہم گزر کرتے
ہوا تھا خلق یہ کونین کی بنیاد سے پہلے
رفیق ہو کے رہی بعد مرگ بھی اپنی
یاد سب کیفیت دور شباب آجائیگی
بزم میں ہم جو پھری انکی نظردیکھیں گے
وحشت الفت گیسوے رسا کیا کم تھی
کیا نہیں طبع مری خوگر راحت ٹھہری
مخمس غزل استاد الکل جناب شیخ امام بخش ناسخؔ مرحوم
مخمس غزل جناب خواجہ حیدر علی آتش مغفور
مخمس غزل استادی جناب حکیم میر ضامن علی صاحب جلالؔ لکھنوی
مخمس غزل استادی جناب میرنواب صاحب مونسؔ مغفور لکھنوی
مخمس غزل نواب کلب علی خان بہادر والی ریاست رامپور خلد آشیاں
مخمس غزل منشی مرتضیٰ خاں پرویزؔ مرحوم لکھنوی
قطعات تاریخ
سرورق
سر دیوان لکھا مطلع جو میں نے حمد داور کا
ردیف الف
بدر ہے اے یاس روے پر ضیائے مرتضیٰ
گناہگار ہوں روز شمار کیا ہوگا
سنگ کو تیز ہواؤں سے ضرر کیا ہوگا
ہر جگہ اس کا کل پیچاں کا افسانہ رہا
کل شب کو جلوہ گر جو کوئی مہ جبیں رہا
دھیان تیرا جو مجھے اے مہ کامل آیا
مجھ کو اس دشت میں لیکر یہ جنوں جا پہونچا
تمام رات جو اس زلف کا خیال رہا
انکی چھاگل سے بپا رہتا ہے شیوان زیرپا
وہی دل میں تری محل کا سماں ہے کہ جو تھا
عشق اس پر دغا سے کیجیے کیا
بام جب یار ترا طور تجلی ٹھہرا
ہمارے دل کی تڑپ کا جو امتحان ہوگا
کھینچ کر قاتل جو بہر قتل خنجر رہ گیا
جان سے بیقراری باطن جتائیں کیا
پھر مرے دل کو دکھانے لگا ابرو تیرا
جب نظر سلسلۂ زلف سیہ فام آیا
وہ قاتل آج گر تن سے مرے سر کو جدا کرتا
اے پری کون تری زلف کا شیدا نہ ہوا
جب کوئی جنس ہنر کا قدر داں ہو جائیگا
وحشی کیا کبھی کبھی حیراں بنا دیا
مہربان مجھ پر جو وہ رشک قمر ہو جائیگا
محبت کا مری آخر برا انجام ہونا تھا
تجھے اے دل جو محوروے آتش ناک ہونا تھا
جناب عشق میں ایسا میں بار یا ب ہوا
کیا اثر ہے اس تری ناز کبدن تصویر کا
اگر دل محو چشم وگیسو جانا نہ ہو جاتا
امتحان گاہ میں میں ہو کے جو بسمل تڑپا
دل جب سے محو زلف گرہگیر ہو گیا
ابرو کے عشق نے یہ مجھے ناتواں کیا
ہر دم خیال ہے جو کسی گلعذار کا
تیرے دیوانوں میں جیسے اے پری شامل ہوا
وحشت دل ترا چرچا نہ ہوا تھا سو ہوا
یار سے میں تپاک کر آیا
ہجر جاناں میں دل جو بھر آیا
کھینچ کوئی شبیہ روے پر تنویر کیا
بتاؤ یاسؔ کہ عہد بہار کیسا تھا
قتیل عشق ہوے کوئی حوصلہ نہ رہا
اشک خوں سے رشک گل دامن ہوا
خواب میں بھی ہجر میں رویا کیا
عشق زلف یار میں سودیکی شدت دیکھنا
ازل سے عشق ہے دلمیں مرے گیسوئے جاناں کا
نہ ہوتا فرق پھر گر عشق میں مجھ کو غلو ہوتا
ناصح جو عشق گیسو جانا نہ ہو گیا
مرے گھر اپنے کوٹھے سے جو وہ رشک قمر آیا
تابہ شانہ جو ترا گیسو خمدار آیا
گھٹا چھائے ہے ہر سو باغ پر عالم ہے جوبن کا
ہے خوف ہجر وصل کسی کا ہوا تو کیا
یار کے آنے کا دیکھا کیا رستا کیسا
بیٹھے بیٹھے عشق زلف فتنہ گر پیدا ہوا
یہ تپاں صورت بسمل کبھی ایسا تو تنہا
مجنوں تن خاکی میں کبھی دل نہیں ملتا
قتل کرکے مجھ کو بخشش کی دعا دینے لگا
جس کو ہم رہبر سمجھتے تھے وہ رہزن ہو گیا
یار پردے میں ادھر جلوہ دکھا کر رہ گیا
انکا جوبن عاشقوں کے حق میں قاتل ہو گیا
بیقراری میں جگرتجھ سے بھی ایدل بڑھ گیا
خوں گھٹ گیا تمام بدن زرد ہو گیا
پھندے میں گیسووں کے پھنسایا یہ کیا کیا
یاس مجھ کو عشق گیسوئے رساکس دن نہ تھا
تیرے قد سے ہمسری شمشاد کو کیا ہوگیا
غرق ہو جائے ابھی کلبۂ احزاں میرا
تاکنا کب دیدۂ روزن سے ان کا جائیگا
زیست میں میں اپنے مرنے پر عبث غمناک تھا
نشان گور یوں غیروں کو بتلاتے تو بہتر تھا
بس یہی کام تھا اے رشک قمر دیکھ لیا
یہ جاکے تیرے پاس جو اے جان جاں رہا
کوئی جوان جو مجھ زاروناتواں سے ملا
زرا ہمیں بھی تپا اے سحاب دیتا جا
رونے سے بخار اسکے نکل جائے تو اچھا
نالے اثر جذب نہ دکھلائیں گے پھر کیا
بیٹھا ہے تو اب عاشق مضطر نہ اٹھیگا
یاد گیسو میں جو گھر سے میں پریشاں نکلا
ردیف باء تازی
لاؤ نہ دل کو ابروخمدار کے قریب
میرے سر پر نہ بلا زلف کی لاؤ صاحب
ہو چکے تیر نگہ سے سیکڑوں نخچیر اب
سودا ہوا نہ جس سے وہ آئی بہار کب
گر کبھی چکھ لے مزا چھوٹے نہ پھر دم بھر شراب
مجھ سے رقیب الجھتے ہیں ہر بار بے سبب
عشق میں مٹ جائیگا اک دن نشان عندلیب
لکھ رہا ہوں صفت زلف صنم آج کی رات
کیا شگفتہ ہوں جو آجاے وہ یار آپ سے آپ
ردیف تاء فوقانی
ردیف باء فارسی
ہے یہی حسرت کہ دیکھوں ہر سحر میں روئے دوست
پاس آیا جو نہ وہ رشک قمر ساری رات
نکلے تھے دل میں جو ارماں خدا کی قدرت
لوگ سب تکتے ہیں اس رشک چمن کی صورت
ردیف تاء ہندی
یہ روئے ہم کہ گئے دیدۂ پر آب الٹ
ردیف ثاء مثلثہ
دیکھتے ہیں جس طرف کچھ ہم سے ہے اے یار کج
ہماری زیست ہے باقی شراب کے باعث
ردیف جیم عربی
ہے عدم تک ضعف سے مجھ زار کی مشکل پہونچ
برسوں ہوئے کہ دل ہے مرا مبتلائے رنج
ردیف جیم فارسی
چاندنی میں دے ہمیں جام شراب اچھی طرح
بھا گئی ہے اسکو شاید یار قاتل کی طرح
ردیف حاء حطی
آپ سے باہر ہے دل قابو میں لاؤں کس طرح
ردیف خاء معجمہ
پہنتا ہے وہ قاتل پیرہن سرخ
رہتا نہیں اک دم بھی مرا دیدۂ تربند
ہے عرش سے بھی یار کا میرے مکاں بلند
انکو ہے اپنے ابرورخسار پر گھمنڈ
ردیف دال مہملہ
ردیف دال ہندی
شوق کا میں نے جو لکھا کاغذ
ردیف ذال معجمہ
ردیف راء مہملہ
جانتا ہے دل نازک کو ستمگر پتھر
بلبل کرے جو نالۂ وشیون ہزار بار
ہے نہ بستر اور چادر زیر پا بالائے سر
مجھے خبر نہیں نکلا یہ سلسلا کیونکر
میں تو اٹھ سکتا نہیں اے روح بستر چھوڑ کر
روح کیوں نکلی ہماری خانۂ تن چھوڑ کر
ظرفہ عالم ہے تمہاری زلف عنبر بیز پر
شاہد گل سے ہو کم عشق عنادل کیونکر
ہوا وہ آشنا میرا بت نا آشنا ہو کر
قیدیٔ زلف ہے نالے نہ کرے دل کیونکر
تھے جو نازک وہ نکلتے ہیں وطن سے باہر
جان دیتا ہوں بت بیباک پر
زلف شبگوں ہے کہیں مشک ختن سے بہتر
مہ نو آجو گیا سامنے ابرو ہو کر
ردیف زاء معجمہ
ردیف راء ہندی
میں نے کی اس سے محبت وہ اسے سمجھا بگاڑ
آسماں کے دور میں رنج والم پاتے ہیں روز
ردیف سین مہملہ
شب بھر وہ شمع رو جو رہا میرے پاس پاس
ردیف سین معجمہ
قبر میں سوتا ہے اک ہجر کا جاگا خاموش
ردیف صاد مہملہ
دل میں ہماری یار ہی کا ہے مقام خاص
ردیف ضاد معجمہ
یہاں مژہ سے عشق ہے ابروئے دلبر کے عوض
ردیف ظاء معجمہ
ردیف طاء مطبقہ
عشق چشم یار میں ایدل بھلا کیسا لحاظ
گر گیا کہیں کمر سے خط
کی جو سرگوشی خم ابرونے دہاں قاتل شروع
ردیف عین مہملہ
گر اپنے ساتھ لیکے چلے میرا یار شمع
کیوں جلاتے ہیں بھلا میرے سر مدفن چراغ
جو ان کا ابرو پرخم ابھی دکھائے فروغ
ردیف غین معجمہ
کیوں نہ مجھ سے ناتواں کو ہو لب دلبر سے عشق
ردیف قاف معجمہ
ردیف فاء معجمہ
مجھ کو لیجائے جنوں گر کوئے جاناں کی طرف
ردیف کاف عربی
تیرے جورو ظلم کا شہرا ہے قاتل تافلک
کیے چور چور استخواں زیر خاک
ردیف کاف فارسی
عاشق زار ہو کیا کوچۂ جاناں سے الگ
دل کبھی ہو گا نہ اس زلف پریشاں سے الگ
چاک ہوتا ہے گریباں تابہ داماں آجکل
ردیف لام مہملہ
قتل کرنے سے مرے ہے یہ پشیماں قاتل
خود نکل جاتے ہیں تیر نالۂ شبگیر دل
ردیف میم
وحشی ہیں عشق زلف شکن در شکن سے ہم
راضی ہے ہم سے تیری رضا اور رضا سے ہم
در جسم خود زفکر سخن مثل جاں شدم
پھر اپنا صبر آزمائیں گے ہم جو یار مہرو کو پائیں گے ہم
دیکھتےہیں روز وشب تیرے رخ روشن کو ہم
یہ سیکڑوں جو گل ہیں دل داغدار میں
ردیف نون معجمہ
بیجا نہیں سوجی سے جو ہم تم پہ فدا ہیں
رکے قتل میں جو وہ قاتل نہیں
کیا جسم ہے لطیف کہ سایا کہیں نہیں
اگر سوئیں کبھی ہم اس مہ کامل کے پہلو میں
کوئی مزاگل وبلبل کی انجمن میں نہیں
نظیر اپنا نہیں رکھتا وہ گلرو خوش بیانی میں
کشتۂ شربت دیدار رہا کرتے ہیں
میرا رونا تھا کہ گھنگھور گھٹائیں آئیں
وہ نہیں جس مقام پر ایسا کوئی مکاں نہیں
ہے عجب افسانۂ بلبل چمن میں کیوں نہیں
دل بلبل کو نہیں باغ میں آرام کہیں
پاس کانوں کے جو گیسوئے سیہ آتے ہیں
مانع نظارہ ہے رخ پر نقاب اچھا نہیں
زلف جاناں کا ہے خیال ہمیں
پیش نظر ہیں گیسو دلدار رات دن
قاتل ابرو ترے سر تیز ہیں خنجر دونوں
چھیڑ اے مژگاں نہ مجھ کو صاحب آزار ہوں
عشق میں ساتھی بہت پر بیخطر کوئی نہیں
تیرا مدح جو اے ابرو دلدار ہوں میں
ناتواں ہیں ہم تو انکے پاس جاسکتے نہیں
ترا تیر نظر ہےاور میں ہوں
ہجر میں اشکوں سے دامن کو بھگو دیتے ہیں
سوز غم رہنے لگا میرے دل بیتاب میں
کبھی تیوری چڑھا لیتے ہیں گاہے ناز کرتے ہیں
اٹھے ہیں کالے بادل دور اکثر ہونے والے ہیں
پہنے گر میرا گل باغ جوانی چوڑیاں
جو نہ تڑپا تہ زانوئے ستمگر میں ہوں
بھلا گردن کشی کی تاب ہو کیا جاں نثاروں میں
عدیل اپنا نہیں رکھتے اگر وہ گلعذاروں میں
جب سے سوادائے زلف ورخ جاناں ہوں میں
ساقیا آیا تھا مے پینے خدا جانے کون
عشق رخسار میں گر جلوہ گری پیدا ہوا
عشق میں لاکھ اسے بہلاؤ بہلتا ہی نہیں
ردیف واؤ مہملہ
مجھ کو کہتا ہے وہ مقتول جفا ہو تو یہ ہو
پائے بلبل اگر ان پھول سے رخساروں کو
جائے حیرت ہے صبا ہاتھ سے بیداد ہو
عدیل اپنا نہیں رکھتے ہو تم ہر شے سے افضل ہو
اڑکے اس رخ پہ گئی زلف رسا کاہے کو
کھول دیں آپ چمن میں جو معنبر گیسو
سرمہ دیکر نہ تم ادھر دیکھو
بہار آئی ہے ساقی ہاتھ میں لے شیشہ مل کو
آہوں پہ باد سروکا انکو گماں نہ ہو
نہ ہو مثال صنم بے مثال ایسا ہو
ہر اک حسیں ہے مہیا مرے جلانے کو
ردیف ہاء ہوز
دیکھے جو میرا آئینہ رخسار آئینہ
اک مجھی کو عشق ہے کیا اس عدوئے جا ں کے ساتھ
مجھ کو الفت ہو گئی اس ظلم کے بانی کے ساتھ
ردیف یائے تحتانی
ہر اک سے مدح سلطاں رسالت ہو نہیں سکتی
کہتا ہوں میں یہ صبح شب وصل یار سے
مٹ گئی باطل پرستی حا نمائی ہو گئی
پسا جاتا ہے دل ہر بات پر اے یار کیا کہئے
ابتدا سودائے گیسو کی دل مضطر سے ہے
تیغ ادا کا قاتل اس پر بھی وار کوئی
بخدا موسیٰ عمران کو بھی حیرت ہو جائے
شگفتہ رہتا ہے دل جب بہار آتی ہے
پہلو میں کوئی دن سے جو دلدار نہیں ہے
کی خوب سیر باغ کی اے باغباں چلے
بے ستوں میں تو ہے قیس خستہ تن آہن میں ہے
آج ہے وصل توکل یار سے فرقت ہوگی
مردے جی اٹھیں گے زندوں پر اک آفت ہوگی
بیان عاشق ومعشوق میں ہر شعرو مطلع ہے
جہاں میں عشق کامل ہے مجھے اس ماہ طلعت سے
محبت ہے مجھے اس مصحف ناحق کی صورت سے
غضب تھیں لیلیٰ وشیریں ستم تھے نازو دنوں کے
ہاں وصل میں بھی یار کی تیوری چڑھی رہے
راہ آنے کی تری تاصبح دم دیکھا کئے
آزار عشق نے یہ کیا ناتواں مجھے
کھینچ کر تیغ ادا گر مرا قاتل اٹھے
بہار آئی گھٹا گھنگھور چھائی اور برس نکلے
کھلے وہ زلف تو مشک جناں کی بو نکلے
اگر وہ کھولکے گیسوئے مشکبو نکلے
کسی سے رخ کو چھپا رہا ہے کسی کو چہرہ دکھا رہا ہے
گھٹا یہ خوں ہمارا کہ زرد ہو کے اٹھے
خزاں میں سیر چمن کو جو وہ نگار آئے
بام پر جب وہ مرا رشک قمر جاتا ہے
مزا ہو بادہ خواری کا جو گلشن میں بہار آئے
نالۂ گرم اگر تابہ فلک جاتا ہے
طفل اشک آنکھ سے گر کو جو مچل جاتا ہے
راست ہیں پلکیں تری مثل سنان کس کے لئے
دل دیا تھا آپ کو جی سے گزر نے کے لئے
داغ سودا میرے تن میں گل ہے گلمیں خاک ہے
وہ چھیڑ کر ہمیں کیا خود رلا نہیں سکتے
ہم اشک سرخ تو رو کر دکھا نہیں سکتے
پری پیدا ہمارے دل سے ہو گی
خانۂ دل کی بنا ہے محض غم کے واسطے
دل میں ٹھہرکا سوز عشو اک جان جان کے واسطے
کس ناز کا پلا یہ دل غم نصیب ہے
جو کچھ ابکی بار گزر گئی کہیں کیا جو یار گزر گئی
قابو میں رکھے دل جسے پروردگار دے
گہرا ہے ابر جو ممکن شراب ہو جائے
جو یار کے رخ روشن کی دید ہوجائے
گھٹے یہ ضعف سے ہم عشق میں اک ماہ کامل کے
عجب صنعت کی صانع نے تری صورت بنائی ہے
عدم کی راہ کو دم میں یہ خستہ تن کاٹے
وہ سر گرم ادا ہے جان ادھر میری نکلتی ہے
کھینچ کر تیغ آیئے تو سہی
ظاہر غم دل کا یہ اثر ہے
اے بحر حسن پائیں یہ آب موتیوں کی
بیکار دشمنی یہ قاتل نے ہم سے کیوں کی
ہوا اسلام زندہ حیدر کرار کے دم سے
چشم باراں کہیں ہو جائے
کھلا زور ید الّلہی جہاں میں باب خیبر سے
دل چھپا تے کس طرح ہم اس بت بے پیر سے
لب تمہارا اور ہے برگ گل تر اور ہے
رنج وملال انسے جو یہ اک آر ہے
نہیں بچتا کبھی جو عشق کاآزاری ہے
دل بیتاب جل کر آہ میں تاثیر ہوتی ہے
کون کہتا ہے گناہوں کی جزا ہونے کو ہے
قہقہوں میں انہیں وہاں رات بسر ہوتی ہے
تم جس جگہ ہو یہ دل دیوانہ ساتھ ہے
راز الفت اس پری سے ہونہاں دشوار ہے
بہار آئی جنوں خیز ابکے پھر وحشت کا ساماں ہے
پہلو میں جو اے یاس وہ گلفام نہیں ہے
مر جائیں گے ہم ہجر کا انجام یہی ہے
فراق یار میں مجھ پر اذیت بڑھتی جاتی ہے
مرتا ہوں میں جانکاہ جدائی کا الم ہے
دل ملول مرا عاشقی کو کیا جانے
شب فرقت مجھے جب وہ پری رو یاد آتا ہے
نو گرفتاروں پر ایسی قید ہے صیاد کی
شراب خانے بہا کے چمن سے دور رہے
اول عشق نے دکھلائے یہ انجام مجھے
ہیں پیش نظر ابرو دلبر کئی دن سے
توجہ ان کی جو عشاق پر نہیں نہ سہی
یاس تم روئے تو انکی دل لگی ہو جائیگی
دل نے رخ محبوب کی تنویر دکھائی
کچھ ہیں تباہ عشق میں کچھ مر کے گڑ گئے
یاس یہ آزار الفت کی نشانی رہ گئی
موت کا پیغام ہے ہم کو لڑائی آپ کی
اے پری رہنے کو تیرے شیشۂ دل چاہئے
یاس کو جب کثرت عصیاں پہ رقت آگئی
یہ چاہئے تھا سبک یہاں سے ہم گزر کرتے
ہوا تھا خلق یہ کونین کی بنیاد سے پہلے
رفیق ہو کے رہی بعد مرگ بھی اپنی
یاد سب کیفیت دور شباب آجائیگی
بزم میں ہم جو پھری انکی نظردیکھیں گے
وحشت الفت گیسوے رسا کیا کم تھی
کیا نہیں طبع مری خوگر راحت ٹھہری
مخمس غزل استاد الکل جناب شیخ امام بخش ناسخؔ مرحوم
مخمس غزل جناب خواجہ حیدر علی آتش مغفور
مخمس غزل استادی جناب حکیم میر ضامن علی صاحب جلالؔ لکھنوی
مخمس غزل استادی جناب میرنواب صاحب مونسؔ مغفور لکھنوی
مخمس غزل نواب کلب علی خان بہادر والی ریاست رامپور خلد آشیاں
مخمس غزل منشی مرتضیٰ خاں پرویزؔ مرحوم لکھنوی
قطعات تاریخ
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔