سرورق
غصب رحمت سے دل توڑا ہے واعظ میگسارونکا
ہے گرمی ہنگامہ تڑپنا مرے دلکا
جبیں اور شوق انکی آستان کا
خوشی گل کی نہ دھڑکا ہے خزاں کا
شورش افزا ہے ولولہ دل کا
ہوا جو میں ننگ کفرودین کا ہوانہ پیوند کیوں زمین کا
وصال دوست میں اپنا نظارہ کیاکرتا
بنایا کعبہ صنمکدونکو کیا نہ ہے ہے خیال دین کا
تم تھے جہاں وہیں دل بھی ضرور تھا
غوغای پندگونہ رہا نوحہ گررہا
دور کیا کیا نگہہ جلوہ نما کو دیکھا
دست نازک میں اگر خنجر بران ہوگا
زنگ الفت نہ حجاب رخ جاناں نکلا
یہ رنگ الفت اگر نہ ہوتا تو کچھ خدائی میں کم نہوتا
دل مرا یارب ہدف ہوناوک دلدار کا
عہد نخست ہمسے بھلا یا نہ جائیگا
مرگئے ہم وہ جو کچھ چتون بدل کر رہگیا
خونبہاے عاشق ناشاد کیا
ہر ایک زخم پہ ہے قصد لوٹ جانیکا
نگہ سے پہلی ہے کردونہ فیصلہ دل کا
سخت دشوار ہے پہلو میں بچانا دل کا
نہیں شرمندۂ یکتار بھی دامن اپنا
نصیحتگر و دل لگایا تو ہوتا
ہمکو انکی نگاہ نے مارا
کچھ وان کا یہاں رنگ جمایا نہیں جاتا
بے شاہدومے واعظ ضائع ہو شباب ایسا
رنگ جمنے نہ دیا بات کو چلنے نہ دیا
شوق نے دل سے تصور کو نکلنے نہ دیا
خوب ہوتا گر خدا سے میں نہ الفت مانگتا
کچھ شکوے گلے ہوتے کچھ طیش سوا ہوتا
کہتے ہو کہ میں تجھ سے تکلف نہیں کرتا
ظلم سہنا پڑا خدائی کا
وقت ہے جرآت آزمائے کا
برائی میں تو کیا کچھ آدمی سے ہو نہںی سکتا
اولٹے گلے وہ کرتے ہیں احسان تو گیا
ضرور اس دل بیتاب کو قرار آیا
اضطراب دل نے کیا سینہ میں خنجر رکھدیا
دیکھنا ذوق اسیری بلبل ناشاد کا
ناتوانی کہو یے دیتی ہے مزہ بیداد کا
شکوہ دشمن سے کروں یا نجت سے امداد کا
برا انجام ہے سوز جگر کا
جنوں خار غم دل میں بوتارہیگا
عشق ہے عشق تو اک روز تماشا ہوگا
دیکھنا ہے کہ مدد گار ہو دشمن اونکا
باعث نام آوری نقصان جان ہو جائیگا
بزم دشمن میں جاکے دیکھ لیا
بتوں سے کہیں دل پھرا ہے کسی کا
مفتوں ہے کسپہ نرگس فتان کو کیا ہوا
حسینوں میں رتبہ دو بالا ہے تیرا
کب تمہارا بسمل تیغ نظر اچھا ہوا
ال افشانی کے دم بھرتی ہے چشم خونفشان کیا کیا
جب زمیں پر پانودہرنے کا سہارا ہوگیا
اے بیحجاب یاد فراموش نقش پا
میری نمود و بود ہے تصویر نقش پا
جلوہ تاب رخ روشن میں کھلا
لہو ولعب میں عہد جوانی گذر گیا
جو تنگ بو الہوسی راہبر نہیں ہوتا
باہم رہے یہ شکوہ سرائی تمام شب
ردیف باے عربی
تھا زندگی میں ہجر کی جوروزبدنصیب
سیل گریہ میں پھرا کرتا ہوں میں درور خراب
ردیف باے فارسی
بگڑ کر عدو سے دکھاتے ہیں آپ
قاتل کی شکایت ہے نہ خنجر کی شکایت
ممتاز نبوت سے ہیں شایان نبوت
ردیف تاے فوقانی
بڑہے کاش نامہربانی کی صورت
ہے ہماری خاکساری غروشان کوے دوست
جلوہ رخنوں سے نمایاں ہے قمر کیصورت
ادائیں یاد جوآئیں مجھے تمہاری رات
کیا سنائی کہ دل پہ آئی چوٹ
ردیف تاے ہندی
ردیف جیم عربی
کیا دیکھتے ہو دیکھ کے دشمن کو ادھر آج
ردیف ثاے مثلثہ
دل کے دینے پہ ہے ناصح مجھے الزام عبث
جاتے ہے سوے درجو نظر بار بار آج
ردیف جیم فارسی
حسرت بوسۂ لعل لب دلدار نہ کھینچ
ملا ہے مجھ کو نصیبوں سے مہر باں ناصح
ردیف حاے حطی
ردیف خاے معجمہ
وہ اور بھوکا ہوے جب عکس پڑا سرخ
ردیف دال
ہے وحدت وکثرت میں تماشاے محمد
کہوں کیا شوکت وشان محمد
آنکھ اپنی شب غم نہ ہوے تا بسحر بند
تیرے بلا کشوں کی اگر ہو فغان بلند
ردیف راے مہملہ
آنکھوں میں رہے تم دل مضطر سے نکلکر
پڑھنے لگتا ہوں اٹھا کر جو زمیں کا کاغذ
ردیف ذال
طرز نگہہ نرگس مستانہ سمجھ کر
اللہ وہ دن بھی ہو کہ خاک رہ یثرب
صبح محشر یاد آئی شام ہجراں دیکھکر
میکشورحمت باری ہے گنہگاروں پر
ٹھرا ہے حصر درد جدائی وصال پر
گد گدایا جو انھیں نام کسی کا لیکر
شان حسن کبریا ہیں شمع وگل شمس وقمر
ناز معشوق کی ہوتی ہیں طلبگاروں پر
شب کو وہ شوخ رہا گھر سے مقرر باہر
ذکر عدو وصال میں اے بدگماں نہ چھیڑ
لٹ لٹا کر ہے سلامت دل صد چاک ہنوز
ردیف راء ہندی
ردیف زاء منقوطہ
مے سے تائب بھی ہوے پر ہیں ہو سناک ہنوز
قول نخست ہمنے بھلا یا نہیں ہنوز
مدعی ایک نہیں محرم اسرار ہنوز
زندگی کا ہے سبب خواہش آزار ہنوز
درد کی طرح نہ رہ رہ کے ستانا ہر گز
موت آکے پھر گئی مرے بیت الخرن کے پاس
ردیف سین
مرے رقیب نہ تھی غیر وپا سبان کس روز
اب کاروان عمر ہے منزل کے آس پاس
کیوں کوندھتی ہے برق نشیمن کے آس پاس
مجھے غش پہ ہردم نہ کیوں آئے غش
ردیف شین منقوطہ
بارے اتنے تورہے وعدۂ دیدار کی ہوش
دشمن جان ہیں وہی تھے جو سراپا اخلاص
ردیف صاد مہملہ
کیا قہر ہے جہاں میں کسی بدگمان سے ربط
ردیف طاے مہملہ
ردیف ضاد معجمہ
لو وہ کہتے ہیں عدو کی داستان سے کیا غرض
یارب نہو جبیں کو کسی آستان سے ربط
ردیف ظاے معجمہ
ردیف عین
میں ہوں گداز وسوز میں ہمداستان شمع
زہد وطاعت پہ تجھے ناز بجا ہے واعظ
شاہد پروانہ ہو یازینت کا شانہ شمع
باقی دل وجگر میں نہیں اب سواے داغ
ردیف غین معجمہ
ردیف فاء
کفر میں بھی ہم رہے قسمت سے ایمان کیطرف
ردیف قاف
دل دورتا ہے کیوں نگہہ یار کیطرف
نہ پوچھ مجسھے مری جان ماجرای فراق
ردیف کاف عربی
سوز غم گل کھلایے گا کبتک
فتنہ گر شوخیے حیا کب تک
درد کو چاہیے تسکین دوا ہوتے تک
ردیف کاف عجمی
عشق اور عشق شعلہ ور کی آگ
میں اور کنج غمکدہ اور نالہا دل
ردیف لام
ردیف میم
خودرفتہ ہیں کسی کی ادادانیوں میں ہم
اولجھینگے کیا صبا سے ادب دانیوں میں ہم
ہمنوائی کے لیے شیون میں ہم
کیسوسے عنبری ہے صبا اور صبا سے ہم
کرتے ہیں کیسی رشک کی باتیں صبا سے ہم
ردیف النون
ستن وہ کس پہ کرتے ہیں کسی ناحق ستاتی ہیں
برتراس آستان سے کوئی آستان نہیں
راحت پسند شوخیے دور زمان نہیں
حال آنکھ حال غیر کسی پر نہاں نہیں
فتنہ گر لطف کے پردے میں جفا کرتے ہیں
رنگ رخ داغ جگر ہے کہ دکھا بھی نہ سکوں
دل ہے کہیں لگائے کیوں دم پہ بری بنائی کیوں
زاہد نہیں ہوں رند قدح خوار بھی نہیں
حال دل میں نہیں اور دل تن بیجان میں نہیں
یہ اک دل ہے ہمارے پاس کیا کیا اسکو کہتے ہیں
وفا شیوۂ جانسپارے نہیں
داغ ہوں درد ہوں حسرت ہوں تمنا ہوں میں
نہاں جب دل میں حسن وعشق کے آثار ہوتے ہیں
بیمزہ ہوکے کچھ ایسی وہ سنادیتے ہیں
خاک میں وہ مری ہستی کو ملا دیتے ہیں
وہ تشقی سے سوا آگ لگا دیتے ہیں
ہے زندگی بھی ہجر کہ آتی قضا نہیں
وہ مہمان ہیں آج دشمن کے گھر میں
یگانہ دشمن دبیگانہ آشنا ہوں میں
جو چاہیں کہہ لیں بات بن آئی عتاب میں
وہ اپنی برّش تیغ نظر کو دیکھتے ہیں
یہ ممکن ہے کہ زاہد پوچھے جائیں محشر میں
کہاں ہے تاب غمخواری مری غم کہا نیوالے میں
بے سبب پرسش حال دل بیمار نہیں
ہو چکیں بس ملال کی باتیں
ذرہ میں وہی وہی قمر میں
نظر آئیں نہ سوا دوست کے اغیار کہیں
شعلے میں یہ تپش نہ تڑپ ہے شرار میں
مجھے صبر تمکو مروت نہیں
مل گئے ہم خاک کوی یار میں
خیال چشم دلمیں اور دل افگار پہلو میں
کام آئیں تو محبت میں وفائیں آئیں
شرمگیں چشم میں بیداد سوا کچھ بھی نہیں
شکست توبہ نے پھر آج پر پر زے نکالی ہیں
ہجر میں جز آہ وزار کیا کریں
ہوئی ہے جبسے بتوں کی الفت عجیب حال خراب میں ہوں
نہیں معلوم وہ مہمان کہاں جاتے ہیں
انکے وعدے پہ تسلی شب غم دیتے ہیں
کیا کہیں کس رنگ میں ہم خانماں برباد ہیں
غبار بن کے ترے دلمیں آئے بیٹھے ہیں
چراغ طور ہوں پروانہ ہوں یا شمع محفل ہوں
زہر اب تلخکامی حرمان چشپیدہ ہوں
راستی پر کبھی مزاج نہیں
دل کو دارالسرور کہتے ہیں
خاک راہ در جانانہ بنے بیٹھے ہیں
گنہگار محبت ہوں تو میں ہوں
گھر سے جاتے بھی نہیں آنکھ ملاتے بھی نہیں
دور بین ہے نگہہ شوق تو کچھ دور نہیں
دینے کو ایک جان ہے کسی دوں کسی نہ دوں
دیکھ لو آکے مرے گھر میں کہیں نور نہیں
امید سودتھی کچھ کچھ زیاں میں
نہیں کیا یہ بھی قدرت انقلاب چشم فتاں کو
ردیف واو
وہ کسی سے تمکو جو ربط تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
پھر جایے جو تمسے دل دشمن تو مزا ہو
لو ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ تم غیر کو چاہو
آشوب روز گار سے خالی جہاں نہ ہو
کہو دیا جان سے دید یکے دلا سے مجھکو
سوز دل سے کیا عجب ہے گر سمتدرخشک ہو
کیا ہوا اے جذبۂ الفت تری تاثیر کو
ہم سبکسارانہ پہونچے منزل تسلیم کو
پڑا ہے دل کہیں بیٹھے کہیں ہو
ہمارے ضد سے پابندوفا ہو
شکوۂ رشک لورنجش بیجا دیکھو
زمانہ نے کچھ کھوکے پایا ہے مجھکو
بیمار چارہ گر کو کرے تو دکھا کے ہاتھ
ردیف ہاے ہوز
تھی زندگی میں فکر کفن پیر ہن کے ساتھ
ملتی ہے کچھ اذان سے آہنگ بتکدہ
زانو دلبر پہ ہے تصویر پشت آینہ
دیکھ پایے گر تری تصویر پشت آینہ
غزل درنعت جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ آلہ وسلم
ردیف یاے
کیا کام کیا حسن ملیح عربی نے
غزل منقبت
بتاؤں کہ کیا غروشان علی ہے
مزہ جب ہے جفاؤں کا کہ ارمان وفا نکلے
سب سے بغیم رہے جو شاد ترے غم میں رہے
وہ خاک پا فروغ جبیں نیاز ہے
دلبستگی ہے اور کشاد نقاب سے
اپنے جلوے دل حیران میں فروزان کیجے
بیٹھے ہیں شرمناک کچھ ایسے حجاب سے
پہلے کچھ شغل صفاے دل حیران کیجے
ناصح تمہارے پند ہے کچھ کار گر ہوے
ہم قید جنوں سے اگر آزاد نہوتے
مجھے کہتے تو ہو شوریدہ سر ہے
غیر کے ساتھ عیادت کے بہانے آئے
جب آپ اپنے راز کو افشا کرے کوئی
رنگ دل کا جس میں ہو کا شانہ ایسا چاہیے
جلتے بھنتے رہے گریان رہے دل چاک رہے
دیکھنے نکلا ہے کیا وہ مہر انور چاندنی
دل سلگتا ہے تب غم سے جگر جلتا ہے
ہے نگاہ غیر سے مشتاق بڑھ کر چاندنی
تسلی یاب سوزش سے دل محرور ہوتا ہے
وہاں نزدیک تر کتنا کوئی مہچور ہوتا ہے
منستھاے شوق امکان بشر سے دور ہے
خرام ناز سے کسکا گذار راہ میں ہے
گردش میں روز حشر ہے تیرے خرام سے
دم آخر بھی کس مشکل سے میرا دم نکلتا ہے
کیا بتاؤں کہ جزو کل میں تماشا کیا ہے
جو دل پہ گذرتی ہے سنائی نہیں جاتی
اس دوئے پر بھی انھیں دعوی یکتائی ہے
کس قدر شوق شہادت یاں گریباں گیر ہے
جان بلب ہوں حسرت دیدار سے
بتوں سے بچے چلنے پر بھی آفت آہی جاتی ہے
کیا کہیے فصل گل میں دل بیقرار کی
اجل کو اجل آئی یاں آتے آتے
الٰہی خیر کیجو موسم گل میں مرے دل کی
شکن شکن ترے گیسو کی جان زار میں ہے
شکایت کیا وفا کی یا جفا کی
خشم آلودہ نظر دیکھ کے جان سوکھ گئی
کیوں کسی سے وفا کرے کوئی
آج ہم قصّہ جانسوز سنا کر اٹھے
گلشن میں اسیری کے مزے یاد کرینگے
بھولے ہوے افسانۂ دل یاد کرینگے
الفت ہے مری خواہش دیدار کسی کی
جو کچھ کہ حال ہے یہی کچھ عرض حال ہے
واعظ جوازمے میں تجھے کیا کلام ہے
ستم دیکھئے دیکھے وفا کی بیوفا ٹھہرے
صفا ہو جاؤ دل سے آرزو دلکی بہم نکلے
رشک کے غم شب ہجران کی ستم بھول گئے
ہوگئی جان کو آزار محبت کیسی
لطف سخنوری ہے سخنور کے سامنے
بوای دہلی وزہے شوکت وشان دہلی
ناصح تری سوگند جو وصل اس سے ٹھر جاے
واقف تھی ڈھنگ سے نہ جہان خراب کے
یاد آیے جو اس زلف گرہ گیر کے بوسے
اے نہیں وصل وہ فرقت ہی سہی
خوش ہو کینہ سے اگر بہر خدا اور سہی
مجازی سے حق بین نظر ہوگئی
غرور حسن انھیں موجب زوال ہوئے
وہ زود رنج ہے اور کسقدر ہے کیا کہیے
ہے صبح شب وصل قیامت اگر ایسی
ہے یہی جوش جنوں تو فائدہ تدبیر سے
وہ بزم غیر سے یوں آیے سر جھکائے ہوئے
بتکدہ چرخ چہارم ہے تری تصویر سے
سرد ہے بازار تقوی گرمے میخانہ ہے
سوے دشمن التفات نرگس مستانہ ہے
تغافل اور دل بیداد گر سے
عدو دل میں ہیں چکھ کچھ بدگمان سے
کسی کو لطف وستم کا نہ اشتباہ رہے
اٹھاتی ہے تمہاری آستاں سے
نگاہ صلح دشمن کب کسی کی یار بنتی ہے
صلح کی چھیڑ بھی عتاب بھی ہے
وہ آکے دفعتاً جو ہم آغوش ہوگئے
خموشی میں ہے کیفیت زبان کی
اب وہ غیروں کو آزمانے لگے
تڑپنے سے تھکے آہ وفغاں کی
فخر یہ کم ہے کہ ٹھہرے تری امت والے
نگہہ نگہہ دگر گونہ رنگ جان کا ہے
سہہ سہہ کے ظلم انکو ستمگر بنائیں گے
ہم اور شوق زیارت کس آستان کا ہے
وہ ہمارے دل میں ہیں انکی شرارت دل میں ہے
رنج راحت اثر نہ ہو جایے
کسی کے کفر سے مطلب نہ دین سے
غم تغافل اثر نہ ہوجاے
خدنگ ناز ترا کاش دلنشیں ہو جاے
دعوے ہیں ذرّہ ذرّہ کو حسن وجمال کے
کیا جانے تو کسی کی ستمگر لگی ہوئی
بنائے سے کہیں تقدیر بنتی اور بگڑ تی ہے
وان طبیعت دم تقریر بگڑجاتی ہے
ملکر بتوں سے چشم ودل حق نما ملی
مراور مان جان نقصان جان ہے
مردوں کو جلا دے تری ٹھوکر تو نہیں ہے
رگ رگ میں اک تپش جو سمائی ہوئی سی ہے
تربت مٹے ہوؤں کی مٹائی ہوئی سی ہے
امید قتل نیم نگاہی میں رہ گئی
عمر بھر آرزوے لذت کشتن میں رہے
رسم وراہ راز دانی اور ہے
مہکی ہوئی کسی کے جو عطر قبا میں ہے
یہ کیسی شوخیاں ہونے لگیں ہربار دامن سے
مرحبا صل علی سیر کو جانیوالے
رحم کر رحم کر اناز سے چلنے والے
ہو مبارک تجھے معراج کے جانیوالے
بیوجہ بے سبب جو وہ رنجیدہ ہوگئے
اونگاہوں کیطرح دل میں اتر نیوالے
محبت میں ہم سب گوارا کریں گے
کب کسی سے کلام ہوتا ہے
نہ سمجھو فغان بے اثر جائیگی
نہ ہوئی مونس دشمن شب فرقت میری
ناتوانی سے وہ نازک ہے طبیعت میری
شرکت گناہ میں بھی رہی کچھ تواب کی
اپنے ہی عکس رخ سے جو آپہی حیا کرے
خانہ آرائی ہے ویرانی مری
مجھے یان درد سر کیا جانے کیا ہے
نہ باتیں نہ آنکھیں ہیں وہ چاہ کی
انھیں دھیان کیا آگیا سوتے سوتے
ایسے کی محبت کو محبت نہ کہینگے
پھرے ہوے ہے نگاہ ساقی شراب ہم لے کے کیا کرینگے
آنکھیں دو چار ہوتے ہی دلکو خبر ہوئی
رباعیات
تخمیس بر غزل مولانا محمد خان قدسی
تخمیس برغزل مولا محمد صدر الدین خانصاحب بہادرمرحوم صدرالصدوردہلی متخلص بہ آزردہ
تردد ہے گرزہد کے باب میں
تخمیس برغزل حضور پر نور ناظم بنیظیر ناثر بمیثال حضور امین الدولہ وزیر الملک نواب حافظ محمد ابراہیم علیخانصاحب بہادر صورت جنگ
ترنم رنیر مرغان خوش الحان ہوتی جاتی ہیں
زہے کرامت توحید ایزد غفار
یہ التماس ہے خدمت میں یا رسول کریم
کھولدے بھر تماشا چشم انجم آسمان
یہ کسکی سالگرہ کی خوشی ہے عالمگیر
ترازمان عدالت ہے وہ نشاط افزا
وقت ہے وقت کہ اے خاطر اندوہ مآب
وقت ہے وقت کہ اے خاطر اندوہ مآب
مقدم باد بہاری سے جھان ہے سر سبز
مقدم باد بہاری سے جھان ہے سرسبز
دست فیاض کے آگے نرے قطرہ قلزم
دست فیاض کے آگے نرے قطرہ قلزم
ترانہ سنج مسرت ہے عندلیب قلم
ترانہ سنج مسرت ہے عندلیب قلم
جو بات بات تری ہے نتیجہ حکمت
جو بات بات تری ہے نتیجۂ حکمت
خرواآج ہے وہ روز خجستہ عنوان
اے جہاندار جہاں پرور وکیوان تمکین
حکم سنت ترا نساخ قوانین ململ
بسا ہے عطر محبت میں گلفشان سہرا
واہ کس شان سے کس دہوم سے آیا جھولا
آن کشتۂ زہر ستم دست جفا کار
ہوا مطبوع جب دیوان استاد
میرے بھائی کا چھپا دیوان ظہیر
زمانے کو مژدہ جہاں کو نوید
ہوا شایع عجب دیوان رنگیں
ہوا جب مشرق مطبع سے تاباں
کدھر ےہیں آئیں مشتاق نظارہ
میرے استاد کا دیوان اول
سخن سنج یکتا جناب ظہیرؔ
بعد حمد خداے ونعت رسول
کیا چھپا ہے ظہیر کا دیوان
اے ظہیر طوطئے شیریں مقال
رفت چو آذر زدہر آمدہ اردی بہشت
شکر صد شکر وہ چھپا دیوان
طرفہ دیوان ظہیر خوش بیان مطبوع شد
یہ اسی استاد کا دیوان ہے پیش نظر
ہوا طبع زیبا کلام ظہیر
تعالی اللہ زہے بیچوں سبحان
میرے نانا جانکا ہے دیوان چھپا
اندنوں بے طور تھا اصلوب دل
ہوا مطبوع لودیوان گمنام
پوچھا دیوان مولانا ظہیر
قطعات تاریخ طبعزاد مصنف دیوان
ہوا آج مطبوع ہے اسکا دیوان
ہوا بارے مطبوع دیوان وہ
نسبت نہیں ہے انسے کسیکے کلام کو
صحت نامۂ دیوان ظہیر
سرورق
غصب رحمت سے دل توڑا ہے واعظ میگسارونکا
ہے گرمی ہنگامہ تڑپنا مرے دلکا
جبیں اور شوق انکی آستان کا
خوشی گل کی نہ دھڑکا ہے خزاں کا
شورش افزا ہے ولولہ دل کا
ہوا جو میں ننگ کفرودین کا ہوانہ پیوند کیوں زمین کا
وصال دوست میں اپنا نظارہ کیاکرتا
بنایا کعبہ صنمکدونکو کیا نہ ہے ہے خیال دین کا
تم تھے جہاں وہیں دل بھی ضرور تھا
غوغای پندگونہ رہا نوحہ گررہا
دور کیا کیا نگہہ جلوہ نما کو دیکھا
دست نازک میں اگر خنجر بران ہوگا
زنگ الفت نہ حجاب رخ جاناں نکلا
یہ رنگ الفت اگر نہ ہوتا تو کچھ خدائی میں کم نہوتا
دل مرا یارب ہدف ہوناوک دلدار کا
عہد نخست ہمسے بھلا یا نہ جائیگا
مرگئے ہم وہ جو کچھ چتون بدل کر رہگیا
خونبہاے عاشق ناشاد کیا
ہر ایک زخم پہ ہے قصد لوٹ جانیکا
نگہ سے پہلی ہے کردونہ فیصلہ دل کا
سخت دشوار ہے پہلو میں بچانا دل کا
نہیں شرمندۂ یکتار بھی دامن اپنا
نصیحتگر و دل لگایا تو ہوتا
ہمکو انکی نگاہ نے مارا
کچھ وان کا یہاں رنگ جمایا نہیں جاتا
بے شاہدومے واعظ ضائع ہو شباب ایسا
رنگ جمنے نہ دیا بات کو چلنے نہ دیا
شوق نے دل سے تصور کو نکلنے نہ دیا
خوب ہوتا گر خدا سے میں نہ الفت مانگتا
کچھ شکوے گلے ہوتے کچھ طیش سوا ہوتا
کہتے ہو کہ میں تجھ سے تکلف نہیں کرتا
ظلم سہنا پڑا خدائی کا
وقت ہے جرآت آزمائے کا
برائی میں تو کیا کچھ آدمی سے ہو نہںی سکتا
اولٹے گلے وہ کرتے ہیں احسان تو گیا
ضرور اس دل بیتاب کو قرار آیا
اضطراب دل نے کیا سینہ میں خنجر رکھدیا
دیکھنا ذوق اسیری بلبل ناشاد کا
ناتوانی کہو یے دیتی ہے مزہ بیداد کا
شکوہ دشمن سے کروں یا نجت سے امداد کا
برا انجام ہے سوز جگر کا
جنوں خار غم دل میں بوتارہیگا
عشق ہے عشق تو اک روز تماشا ہوگا
دیکھنا ہے کہ مدد گار ہو دشمن اونکا
باعث نام آوری نقصان جان ہو جائیگا
بزم دشمن میں جاکے دیکھ لیا
بتوں سے کہیں دل پھرا ہے کسی کا
مفتوں ہے کسپہ نرگس فتان کو کیا ہوا
حسینوں میں رتبہ دو بالا ہے تیرا
کب تمہارا بسمل تیغ نظر اچھا ہوا
ال افشانی کے دم بھرتی ہے چشم خونفشان کیا کیا
جب زمیں پر پانودہرنے کا سہارا ہوگیا
اے بیحجاب یاد فراموش نقش پا
میری نمود و بود ہے تصویر نقش پا
جلوہ تاب رخ روشن میں کھلا
لہو ولعب میں عہد جوانی گذر گیا
جو تنگ بو الہوسی راہبر نہیں ہوتا
باہم رہے یہ شکوہ سرائی تمام شب
ردیف باے عربی
تھا زندگی میں ہجر کی جوروزبدنصیب
سیل گریہ میں پھرا کرتا ہوں میں درور خراب
ردیف باے فارسی
بگڑ کر عدو سے دکھاتے ہیں آپ
قاتل کی شکایت ہے نہ خنجر کی شکایت
ممتاز نبوت سے ہیں شایان نبوت
ردیف تاے فوقانی
بڑہے کاش نامہربانی کی صورت
ہے ہماری خاکساری غروشان کوے دوست
جلوہ رخنوں سے نمایاں ہے قمر کیصورت
ادائیں یاد جوآئیں مجھے تمہاری رات
کیا سنائی کہ دل پہ آئی چوٹ
ردیف تاے ہندی
ردیف جیم عربی
کیا دیکھتے ہو دیکھ کے دشمن کو ادھر آج
ردیف ثاے مثلثہ
دل کے دینے پہ ہے ناصح مجھے الزام عبث
جاتے ہے سوے درجو نظر بار بار آج
ردیف جیم فارسی
حسرت بوسۂ لعل لب دلدار نہ کھینچ
ملا ہے مجھ کو نصیبوں سے مہر باں ناصح
ردیف حاے حطی
ردیف خاے معجمہ
وہ اور بھوکا ہوے جب عکس پڑا سرخ
ردیف دال
ہے وحدت وکثرت میں تماشاے محمد
کہوں کیا شوکت وشان محمد
آنکھ اپنی شب غم نہ ہوے تا بسحر بند
تیرے بلا کشوں کی اگر ہو فغان بلند
ردیف راے مہملہ
آنکھوں میں رہے تم دل مضطر سے نکلکر
پڑھنے لگتا ہوں اٹھا کر جو زمیں کا کاغذ
ردیف ذال
طرز نگہہ نرگس مستانہ سمجھ کر
اللہ وہ دن بھی ہو کہ خاک رہ یثرب
صبح محشر یاد آئی شام ہجراں دیکھکر
میکشورحمت باری ہے گنہگاروں پر
ٹھرا ہے حصر درد جدائی وصال پر
گد گدایا جو انھیں نام کسی کا لیکر
شان حسن کبریا ہیں شمع وگل شمس وقمر
ناز معشوق کی ہوتی ہیں طلبگاروں پر
شب کو وہ شوخ رہا گھر سے مقرر باہر
ذکر عدو وصال میں اے بدگماں نہ چھیڑ
لٹ لٹا کر ہے سلامت دل صد چاک ہنوز
ردیف راء ہندی
ردیف زاء منقوطہ
مے سے تائب بھی ہوے پر ہیں ہو سناک ہنوز
قول نخست ہمنے بھلا یا نہیں ہنوز
مدعی ایک نہیں محرم اسرار ہنوز
زندگی کا ہے سبب خواہش آزار ہنوز
درد کی طرح نہ رہ رہ کے ستانا ہر گز
موت آکے پھر گئی مرے بیت الخرن کے پاس
ردیف سین
مرے رقیب نہ تھی غیر وپا سبان کس روز
اب کاروان عمر ہے منزل کے آس پاس
کیوں کوندھتی ہے برق نشیمن کے آس پاس
مجھے غش پہ ہردم نہ کیوں آئے غش
ردیف شین منقوطہ
بارے اتنے تورہے وعدۂ دیدار کی ہوش
دشمن جان ہیں وہی تھے جو سراپا اخلاص
ردیف صاد مہملہ
کیا قہر ہے جہاں میں کسی بدگمان سے ربط
ردیف طاے مہملہ
ردیف ضاد معجمہ
لو وہ کہتے ہیں عدو کی داستان سے کیا غرض
یارب نہو جبیں کو کسی آستان سے ربط
ردیف ظاے معجمہ
ردیف عین
میں ہوں گداز وسوز میں ہمداستان شمع
زہد وطاعت پہ تجھے ناز بجا ہے واعظ
شاہد پروانہ ہو یازینت کا شانہ شمع
باقی دل وجگر میں نہیں اب سواے داغ
ردیف غین معجمہ
ردیف فاء
کفر میں بھی ہم رہے قسمت سے ایمان کیطرف
ردیف قاف
دل دورتا ہے کیوں نگہہ یار کیطرف
نہ پوچھ مجسھے مری جان ماجرای فراق
ردیف کاف عربی
سوز غم گل کھلایے گا کبتک
فتنہ گر شوخیے حیا کب تک
درد کو چاہیے تسکین دوا ہوتے تک
ردیف کاف عجمی
عشق اور عشق شعلہ ور کی آگ
میں اور کنج غمکدہ اور نالہا دل
ردیف لام
ردیف میم
خودرفتہ ہیں کسی کی ادادانیوں میں ہم
اولجھینگے کیا صبا سے ادب دانیوں میں ہم
ہمنوائی کے لیے شیون میں ہم
کیسوسے عنبری ہے صبا اور صبا سے ہم
کرتے ہیں کیسی رشک کی باتیں صبا سے ہم
ردیف النون
ستن وہ کس پہ کرتے ہیں کسی ناحق ستاتی ہیں
برتراس آستان سے کوئی آستان نہیں
راحت پسند شوخیے دور زمان نہیں
حال آنکھ حال غیر کسی پر نہاں نہیں
فتنہ گر لطف کے پردے میں جفا کرتے ہیں
رنگ رخ داغ جگر ہے کہ دکھا بھی نہ سکوں
دل ہے کہیں لگائے کیوں دم پہ بری بنائی کیوں
زاہد نہیں ہوں رند قدح خوار بھی نہیں
حال دل میں نہیں اور دل تن بیجان میں نہیں
یہ اک دل ہے ہمارے پاس کیا کیا اسکو کہتے ہیں
وفا شیوۂ جانسپارے نہیں
داغ ہوں درد ہوں حسرت ہوں تمنا ہوں میں
نہاں جب دل میں حسن وعشق کے آثار ہوتے ہیں
بیمزہ ہوکے کچھ ایسی وہ سنادیتے ہیں
خاک میں وہ مری ہستی کو ملا دیتے ہیں
وہ تشقی سے سوا آگ لگا دیتے ہیں
ہے زندگی بھی ہجر کہ آتی قضا نہیں
وہ مہمان ہیں آج دشمن کے گھر میں
یگانہ دشمن دبیگانہ آشنا ہوں میں
جو چاہیں کہہ لیں بات بن آئی عتاب میں
وہ اپنی برّش تیغ نظر کو دیکھتے ہیں
یہ ممکن ہے کہ زاہد پوچھے جائیں محشر میں
کہاں ہے تاب غمخواری مری غم کہا نیوالے میں
بے سبب پرسش حال دل بیمار نہیں
ہو چکیں بس ملال کی باتیں
ذرہ میں وہی وہی قمر میں
نظر آئیں نہ سوا دوست کے اغیار کہیں
شعلے میں یہ تپش نہ تڑپ ہے شرار میں
مجھے صبر تمکو مروت نہیں
مل گئے ہم خاک کوی یار میں
خیال چشم دلمیں اور دل افگار پہلو میں
کام آئیں تو محبت میں وفائیں آئیں
شرمگیں چشم میں بیداد سوا کچھ بھی نہیں
شکست توبہ نے پھر آج پر پر زے نکالی ہیں
ہجر میں جز آہ وزار کیا کریں
ہوئی ہے جبسے بتوں کی الفت عجیب حال خراب میں ہوں
نہیں معلوم وہ مہمان کہاں جاتے ہیں
انکے وعدے پہ تسلی شب غم دیتے ہیں
کیا کہیں کس رنگ میں ہم خانماں برباد ہیں
غبار بن کے ترے دلمیں آئے بیٹھے ہیں
چراغ طور ہوں پروانہ ہوں یا شمع محفل ہوں
زہر اب تلخکامی حرمان چشپیدہ ہوں
راستی پر کبھی مزاج نہیں
دل کو دارالسرور کہتے ہیں
خاک راہ در جانانہ بنے بیٹھے ہیں
گنہگار محبت ہوں تو میں ہوں
گھر سے جاتے بھی نہیں آنکھ ملاتے بھی نہیں
دور بین ہے نگہہ شوق تو کچھ دور نہیں
دینے کو ایک جان ہے کسی دوں کسی نہ دوں
دیکھ لو آکے مرے گھر میں کہیں نور نہیں
امید سودتھی کچھ کچھ زیاں میں
نہیں کیا یہ بھی قدرت انقلاب چشم فتاں کو
ردیف واو
وہ کسی سے تمکو جو ربط تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
پھر جایے جو تمسے دل دشمن تو مزا ہو
لو ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ تم غیر کو چاہو
آشوب روز گار سے خالی جہاں نہ ہو
کہو دیا جان سے دید یکے دلا سے مجھکو
سوز دل سے کیا عجب ہے گر سمتدرخشک ہو
کیا ہوا اے جذبۂ الفت تری تاثیر کو
ہم سبکسارانہ پہونچے منزل تسلیم کو
پڑا ہے دل کہیں بیٹھے کہیں ہو
ہمارے ضد سے پابندوفا ہو
شکوۂ رشک لورنجش بیجا دیکھو
زمانہ نے کچھ کھوکے پایا ہے مجھکو
بیمار چارہ گر کو کرے تو دکھا کے ہاتھ
ردیف ہاے ہوز
تھی زندگی میں فکر کفن پیر ہن کے ساتھ
ملتی ہے کچھ اذان سے آہنگ بتکدہ
زانو دلبر پہ ہے تصویر پشت آینہ
دیکھ پایے گر تری تصویر پشت آینہ
غزل درنعت جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ آلہ وسلم
ردیف یاے
کیا کام کیا حسن ملیح عربی نے
غزل منقبت
بتاؤں کہ کیا غروشان علی ہے
مزہ جب ہے جفاؤں کا کہ ارمان وفا نکلے
سب سے بغیم رہے جو شاد ترے غم میں رہے
وہ خاک پا فروغ جبیں نیاز ہے
دلبستگی ہے اور کشاد نقاب سے
اپنے جلوے دل حیران میں فروزان کیجے
بیٹھے ہیں شرمناک کچھ ایسے حجاب سے
پہلے کچھ شغل صفاے دل حیران کیجے
ناصح تمہارے پند ہے کچھ کار گر ہوے
ہم قید جنوں سے اگر آزاد نہوتے
مجھے کہتے تو ہو شوریدہ سر ہے
غیر کے ساتھ عیادت کے بہانے آئے
جب آپ اپنے راز کو افشا کرے کوئی
رنگ دل کا جس میں ہو کا شانہ ایسا چاہیے
جلتے بھنتے رہے گریان رہے دل چاک رہے
دیکھنے نکلا ہے کیا وہ مہر انور چاندنی
دل سلگتا ہے تب غم سے جگر جلتا ہے
ہے نگاہ غیر سے مشتاق بڑھ کر چاندنی
تسلی یاب سوزش سے دل محرور ہوتا ہے
وہاں نزدیک تر کتنا کوئی مہچور ہوتا ہے
منستھاے شوق امکان بشر سے دور ہے
خرام ناز سے کسکا گذار راہ میں ہے
گردش میں روز حشر ہے تیرے خرام سے
دم آخر بھی کس مشکل سے میرا دم نکلتا ہے
کیا بتاؤں کہ جزو کل میں تماشا کیا ہے
جو دل پہ گذرتی ہے سنائی نہیں جاتی
اس دوئے پر بھی انھیں دعوی یکتائی ہے
کس قدر شوق شہادت یاں گریباں گیر ہے
جان بلب ہوں حسرت دیدار سے
بتوں سے بچے چلنے پر بھی آفت آہی جاتی ہے
کیا کہیے فصل گل میں دل بیقرار کی
اجل کو اجل آئی یاں آتے آتے
الٰہی خیر کیجو موسم گل میں مرے دل کی
شکن شکن ترے گیسو کی جان زار میں ہے
شکایت کیا وفا کی یا جفا کی
خشم آلودہ نظر دیکھ کے جان سوکھ گئی
کیوں کسی سے وفا کرے کوئی
آج ہم قصّہ جانسوز سنا کر اٹھے
گلشن میں اسیری کے مزے یاد کرینگے
بھولے ہوے افسانۂ دل یاد کرینگے
الفت ہے مری خواہش دیدار کسی کی
جو کچھ کہ حال ہے یہی کچھ عرض حال ہے
واعظ جوازمے میں تجھے کیا کلام ہے
ستم دیکھئے دیکھے وفا کی بیوفا ٹھہرے
صفا ہو جاؤ دل سے آرزو دلکی بہم نکلے
رشک کے غم شب ہجران کی ستم بھول گئے
ہوگئی جان کو آزار محبت کیسی
لطف سخنوری ہے سخنور کے سامنے
بوای دہلی وزہے شوکت وشان دہلی
ناصح تری سوگند جو وصل اس سے ٹھر جاے
واقف تھی ڈھنگ سے نہ جہان خراب کے
یاد آیے جو اس زلف گرہ گیر کے بوسے
اے نہیں وصل وہ فرقت ہی سہی
خوش ہو کینہ سے اگر بہر خدا اور سہی
مجازی سے حق بین نظر ہوگئی
غرور حسن انھیں موجب زوال ہوئے
وہ زود رنج ہے اور کسقدر ہے کیا کہیے
ہے صبح شب وصل قیامت اگر ایسی
ہے یہی جوش جنوں تو فائدہ تدبیر سے
وہ بزم غیر سے یوں آیے سر جھکائے ہوئے
بتکدہ چرخ چہارم ہے تری تصویر سے
سرد ہے بازار تقوی گرمے میخانہ ہے
سوے دشمن التفات نرگس مستانہ ہے
تغافل اور دل بیداد گر سے
عدو دل میں ہیں چکھ کچھ بدگمان سے
کسی کو لطف وستم کا نہ اشتباہ رہے
اٹھاتی ہے تمہاری آستاں سے
نگاہ صلح دشمن کب کسی کی یار بنتی ہے
صلح کی چھیڑ بھی عتاب بھی ہے
وہ آکے دفعتاً جو ہم آغوش ہوگئے
خموشی میں ہے کیفیت زبان کی
اب وہ غیروں کو آزمانے لگے
تڑپنے سے تھکے آہ وفغاں کی
فخر یہ کم ہے کہ ٹھہرے تری امت والے
نگہہ نگہہ دگر گونہ رنگ جان کا ہے
سہہ سہہ کے ظلم انکو ستمگر بنائیں گے
ہم اور شوق زیارت کس آستان کا ہے
وہ ہمارے دل میں ہیں انکی شرارت دل میں ہے
رنج راحت اثر نہ ہو جایے
کسی کے کفر سے مطلب نہ دین سے
غم تغافل اثر نہ ہوجاے
خدنگ ناز ترا کاش دلنشیں ہو جاے
دعوے ہیں ذرّہ ذرّہ کو حسن وجمال کے
کیا جانے تو کسی کی ستمگر لگی ہوئی
بنائے سے کہیں تقدیر بنتی اور بگڑ تی ہے
وان طبیعت دم تقریر بگڑجاتی ہے
ملکر بتوں سے چشم ودل حق نما ملی
مراور مان جان نقصان جان ہے
مردوں کو جلا دے تری ٹھوکر تو نہیں ہے
رگ رگ میں اک تپش جو سمائی ہوئی سی ہے
تربت مٹے ہوؤں کی مٹائی ہوئی سی ہے
امید قتل نیم نگاہی میں رہ گئی
عمر بھر آرزوے لذت کشتن میں رہے
رسم وراہ راز دانی اور ہے
مہکی ہوئی کسی کے جو عطر قبا میں ہے
یہ کیسی شوخیاں ہونے لگیں ہربار دامن سے
مرحبا صل علی سیر کو جانیوالے
رحم کر رحم کر اناز سے چلنے والے
ہو مبارک تجھے معراج کے جانیوالے
بیوجہ بے سبب جو وہ رنجیدہ ہوگئے
اونگاہوں کیطرح دل میں اتر نیوالے
محبت میں ہم سب گوارا کریں گے
کب کسی سے کلام ہوتا ہے
نہ سمجھو فغان بے اثر جائیگی
نہ ہوئی مونس دشمن شب فرقت میری
ناتوانی سے وہ نازک ہے طبیعت میری
شرکت گناہ میں بھی رہی کچھ تواب کی
اپنے ہی عکس رخ سے جو آپہی حیا کرے
خانہ آرائی ہے ویرانی مری
مجھے یان درد سر کیا جانے کیا ہے
نہ باتیں نہ آنکھیں ہیں وہ چاہ کی
انھیں دھیان کیا آگیا سوتے سوتے
ایسے کی محبت کو محبت نہ کہینگے
پھرے ہوے ہے نگاہ ساقی شراب ہم لے کے کیا کرینگے
آنکھیں دو چار ہوتے ہی دلکو خبر ہوئی
رباعیات
تخمیس بر غزل مولانا محمد خان قدسی
تخمیس برغزل مولا محمد صدر الدین خانصاحب بہادرمرحوم صدرالصدوردہلی متخلص بہ آزردہ
تردد ہے گرزہد کے باب میں
تخمیس برغزل حضور پر نور ناظم بنیظیر ناثر بمیثال حضور امین الدولہ وزیر الملک نواب حافظ محمد ابراہیم علیخانصاحب بہادر صورت جنگ
ترنم رنیر مرغان خوش الحان ہوتی جاتی ہیں
زہے کرامت توحید ایزد غفار
یہ التماس ہے خدمت میں یا رسول کریم
کھولدے بھر تماشا چشم انجم آسمان
یہ کسکی سالگرہ کی خوشی ہے عالمگیر
ترازمان عدالت ہے وہ نشاط افزا
وقت ہے وقت کہ اے خاطر اندوہ مآب
وقت ہے وقت کہ اے خاطر اندوہ مآب
مقدم باد بہاری سے جھان ہے سر سبز
مقدم باد بہاری سے جھان ہے سرسبز
دست فیاض کے آگے نرے قطرہ قلزم
دست فیاض کے آگے نرے قطرہ قلزم
ترانہ سنج مسرت ہے عندلیب قلم
ترانہ سنج مسرت ہے عندلیب قلم
جو بات بات تری ہے نتیجہ حکمت
جو بات بات تری ہے نتیجۂ حکمت
خرواآج ہے وہ روز خجستہ عنوان
اے جہاندار جہاں پرور وکیوان تمکین
حکم سنت ترا نساخ قوانین ململ
بسا ہے عطر محبت میں گلفشان سہرا
واہ کس شان سے کس دہوم سے آیا جھولا
آن کشتۂ زہر ستم دست جفا کار
ہوا مطبوع جب دیوان استاد
میرے بھائی کا چھپا دیوان ظہیر
زمانے کو مژدہ جہاں کو نوید
ہوا شایع عجب دیوان رنگیں
ہوا جب مشرق مطبع سے تاباں
کدھر ےہیں آئیں مشتاق نظارہ
میرے استاد کا دیوان اول
سخن سنج یکتا جناب ظہیرؔ
بعد حمد خداے ونعت رسول
کیا چھپا ہے ظہیر کا دیوان
اے ظہیر طوطئے شیریں مقال
رفت چو آذر زدہر آمدہ اردی بہشت
شکر صد شکر وہ چھپا دیوان
طرفہ دیوان ظہیر خوش بیان مطبوع شد
یہ اسی استاد کا دیوان ہے پیش نظر
ہوا طبع زیبا کلام ظہیر
تعالی اللہ زہے بیچوں سبحان
میرے نانا جانکا ہے دیوان چھپا
اندنوں بے طور تھا اصلوب دل
ہوا مطبوع لودیوان گمنام
پوچھا دیوان مولانا ظہیر
قطعات تاریخ طبعزاد مصنف دیوان
ہوا آج مطبوع ہے اسکا دیوان
ہوا بارے مطبوع دیوان وہ
نسبت نہیں ہے انسے کسیکے کلام کو
صحت نامۂ دیوان ظہیر
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.