ترکی دو سبھیتاؤں کے ملاپ اور پل کی حیثیت رکھتا ہے اور ترکی وہ چوراہا ہے جہاں پر ایشیاء، یورپ اور بلقان و مشرقی دیشوں کے تجارتی و غیر تجارتی قافلوں کا ملاپ ہوتا تھا۔ اور اس کے آس پاس سلجوق، ترک، تاتار اور عثمانی بسے ہوئے ہیں اس لئے جب بھی یورپ کی سیاسی و جنگی سرگرمی بڑھی تبھی ان قبائلوں کو باڑھ کی طرح امڑنے کا موقع ملا اور پھر ان کے قدم نہ رکے۔ ایشیائی مائنر میں اتھل پتھل کی وجہ یہی ہے کہ یہ دو مختلف تہذیبوں کے درمیان میں ہے۔ اس کتاب میں پہلے اس ملک کی جغرافیائی وضعیت کو بیان کیا گیا ہے پھر وہاں کے رہنے والے قبائل کا ذکر کیا گیا ہے اور پھر عثمانیہ حکومت کی بات کی گئی ہے اور اس کے تنزل کے بعد ترکی کا یورپ سے تعلق اور اس میں سدھار کا ذکر کیا گیا ہے اور مصطفی کمال پاشا کی کوششوں اور کچھ جنگوں اور وہاں کی نئی حکومت کے اصول و قوائد اور سماجی انقلاب اور فوجی سدھار اور اس کی فارن تجارتی پالیسی وغیرہ کا ذکر کیا گیا ہے۔
اگر آپ دوسرے قارئین کی دلچسپیوں میں تجسس رکھتے ہیں، تو ریختہ کے قارئین کی پسندیدہ
مزید