Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : مرزا فرحت اللہ بیگ

ایڈیٹر : خواجہ حسن نظامی

V4EBook EditionNumber : 004

ناشر : خواجہ حسن نظامی

سن اشاعت : 1945

زبان : Urdu

موضوعات : طنز و مزاح, مضامين و خاكه

ذیلی زمرہ جات : خاكه, نثر

صفحات : 114

معاون : اردو آرٹس کالج، حیدرآباد

دہلی کی آخری شمع
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

کتاب: تعارف

"دہلی کا ایک یادگار مشاعرہ" مرزا فرحت اللہ بیگ کا طویل مضمون ہے،جو کہ "دہلی کی آخری شمع" کے نام سے مختصر کتاب کی شکل میں بھی شائع ہوا۔ اس مضمون میں مرزا فرحت اللہ بیگ نے اپنے ذہن میں ایک ایسے مشاعرے کا خاکہ تیار کیا جس میں دور آخر کے تمام چھوٹے بڑے مگر نمائندہ شاعروں کا اجتماع ہوا اور دہلی کی آخری بہار کا پر کیف تہذیبی منظر پیش کیا ہے۔ فرحت اللہ بیگ نے اس مشاعرے کے لیے جس زمانے یعنی 1845 کا انتخاب کیا ہے، اس وقت دہلی میں باکمال شاعروں کا ایک بڑا حلقہ موجود تھا۔ ذوق ،غالب، مومن، شیفتہ، آزردہ، ظفر اور داغ کے علاوہ قلعے اور شہر کے بہت مشہور اور غیر مشہور شعرا شریک محفل تھے۔ مرزا چونکہ ایک بہت وسیع اور نمائندہ مشاعرے کا منظر پیش کرنا چاہتے ہیں اس لیے انھوں نے اس میں کچھ ایسے شاعروں کو بھی شامل کیا ہے جو اس زمانے میں کم سن تھے مگر بعد کے زمانے میں بہت مشہور ہوئے۔ مختصر یہ کہ زیر نظر کتاب 1857 سے دس سال قبل کی دہلی کا تہذیبی مرقع ہے اور ایک اہم تہذیبی دستاویز ہے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

ہمارے مزاح نگاروں میں مرزا فرحت اللہ بیگ کو بہت مقبولیت حاصل ہے۔ وہ خاکہ نگار کی حیثیت سے بہت مشہور ہیں اور ان خاکوں کو ہر دل عزیز بنانے میں مرزا کی فطری ظرافت کو بہت دخل ہے۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا۔ تنقید، افسانہ، سوانح، سیرت، معاشرت و اخلاق کی طرف انہوں نے توجہ کی لیکن ان کی اصل شہرت کا مدار ظرافت نگاری پر ہے۔

وہ دہلی کے رہنے والے تھے۔ ان کے اجداد شاہ عالم ثانی کے عہد میں ترکستان سے آئے اور دہلی کو اپنا وطن بنایا۔ یہاں 1884ء میں مرزا کی ولادت ہوئی۔ تعلیم بھی یہیں ہوئی۔ کالج کی تعلیم کے دوران مولوی نذیر احمد سے ملاقات ہوئی۔ ان سے نہ صرف عربی زبان و ادب کی تعلیم حاصل کی بلکہ ان کی شخصیت کا گہرا اثر بھی قبول کیا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد حیدرآباد گئے۔ وہاں مختلف عہدوں پر فائز ہوئے 1947ء میں وفات پائی۔

ان کی تصنیف ’’دلی کا آخری یادگار مشاعرہ‘‘ مرقع نگاری کا عمدہ نمونہ ہے۔ مولوی نذیر احمد کو انہوں نے بہت قریب سے دیکھا تھا ور بہت برسوں دیکھا تھا۔ ’’مولوی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘ میں ان کی ہوبہو تصویر اتاری ہے۔ اس خاکے نے ان کو لازوال شہرت عطا کی۔ یہ خاکہ مولوی وحید الدین سلیم کو ایسا پسند آیا کہ انہوں نے اپنا خاکہ لکھنے کی فرمائش کی۔ ان کی وفات کے بعد مرزا نے اس فرمائش کو پورا کردیا اور اس خاکے کو ’’ایک وصیت کی تعمیل میں‘‘ نام دیا۔ انہوں نے بڑی تعداد میں مضامین لکھے جو مضامین فرحت کے نام سے سات جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ شاعری بھی کی لیکن یہ ان کا اصل میدان نہیں۔

دہلی کی ٹکسالی زبان پر انہیں بڑی قدرت حاصل ہے اور شوخی ان کی تحریر کا خاصہ ہے۔ ان کے مضامین پڑھ کر ہم ہنستے نہیں، قہقہہ نہیں لگاتے بس ایک ذہنی فرحت حاصل کرتے ہیں۔ جب وہ کسی موضوع یا کسی شخصیت پر قلم اٹھاتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز نہیں کرتے اس جزئیات نگاری سے قاری کو بہت لطف ولذت حاصل ہوتی ہے۔

مرزا فرحت اللہ بیگ اصلاً مزاح نگار ہیں۔ ان کی تحریروں میں طنز کم ہے اور جہاں ہے وہاں شدت نہیں بس ہلکی ہلکی چوٹیں ہیں جن سے کہیں بھی زہرناکی پیدا نہیں ہوتی۔ ان کی مقبولیت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ فلسفیانہ گہرائی اور سنجیدگی سے حتی الامکان اپنا دامن بچاتے ہیں۔ ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ قاری زیادہ سے زیادہ محظوظ ہے۔

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے