میر حسن تسکینؔ :۔باپ کا نام میر حسنؔ عرف میرن صاحب تھا ۔ دہلی میں 1218ھ مطابق 1803ء میں پیدا ہوئے اور صہبائی سے درسی کتابیں پڑھیں۔ شاعری کا شوق ابتدا ہی سے تھا پہلے شاہ نصیرؔ کے شاگرد ہوئے بعد کو مومنؔ سے اصلاح لینے لگے اور ان کے محبوب شاگرد ہوگئے ۔ شیفتہؔ کے بڑے دوستوں میں سے تھے تلاش معاش میں لکھنؤ بھی گئے تھے لیکن وہاں ناکام رہے (خم خانۂ جاوید) کئی برس میرٹھ میں قیام کے بعد رام پور پہنچے وہاں نواب محمد سعید خاں نے ملازم رکھ لیا اور آخر دم تک وہیں رہے 1268ھ مطابق1851ء میں انتقال کیا ۔ اپنے وقت کے مشاہری شعراء میں سے تھے ۔ ان کا کلام لطف دل کشی اور مزے سے خالی نہیں ۔ استاد کی سی معاملہ نگاری اور شوخی بھی پائی جاتی ہے ۔ زبان صاف شیریں اور بندش چست ہے۔
شیخ قیام الدین نام عرف محمد قائم ہے ۔ قائم ،تخلص چاند پور ضلع بجنور کے رہنے والے تھے ۔ اس زمانے میں دہلی میں میر تقی میر، میردردؔ سوداؔ وغیرہ جیسے باکمال استاد موجود تھے اور اردو شاعری شباب پر تھی ۔(الخ) ایسی بگڑی کہ ہجو کہی تعجب یہ ہے کہ شاہ موصوف باوجود یہ کہ حد سے زیادہ خاکساری طبیعت میں رکھتے تھے مگر انہوں نے بھی ایک قطعہ ان کے حق میں کہا پھر خواجہ میر دردؔ کے شاگرد ہوئے ان کے حق میں بھی کہہ سن کے الگ ہوئے پھر مرزا کی خدمت میں آئے اور ان سے پھر مرزا تو مرزا تھے ۔ انہوں نے سیدھا کیا ۔ عالم گیر ثانی کے عہد میں جب دہلی بگڑی تو پہلے نواب یار محمد خاں کی سرکار میں بمقام ٹانڈہ بسر کی (1155ھ مطابق1742ء) یہیں مصحفی سے بھی ملاقات کی اور دوستی ہوئیاور مصحفیؔ کو بھی انہوں نے وہاں رکھوا دیا۔(الخ) تین سال بعد یہاں بھی انقلاب رونما ہوا اور یہ رام پور پہنچے عرصہ تک یہیں رہے لیکن تنخواہ قلیل تھی اس لئے آخر کار لکھنؤ آئے اور یہاں راجہ ٹکیت رائے سے اپنے وطن کے عامل نام شقے اور پروانے حاصل کیے تاکہ اپنی قدیمی ملک اور یومیہ بحال کرائیں اسمیں انہیں کامیابی ہوئی لیکن رامپور پہونچتے ہی انتقال کیا 1208ھ 1793ء جرأت نے تاریخ کہی۔ قائمؔ کی شاعری کی ہر تذکرہ نویس نے تعریف کی ہے۔ کریم الدین (فیلن) کی رائے ہے کہ : ’’عجب طرح کا شاعر و خوش گفتار بلند مرتبہ موزوں طبع عالی مقدار ہے کہ اس کی برابری اچھے اچھے شاعر نہیں کرسکتے ، بعض بعض آدمی جو کہ اس کو سوداؔ سے بہتر کہتے ہیں حق یہ ہے کہ سچے ہیں اور بعضے کم مایہ بے استعداد جو اس کو برابر سوداؔ کے گنتے گئے ہیں خیال سودا اور دیوانگی کا کرتے ہیں۔‘‘ برخلاف اس کے شیفتہؔ کی رائے ہے کہ انہیں سوداؔ کا ہم پلہ سمجھنا سوداؔ ہے البتہ وہ ان کے قطعات اور رباعیات کی بہت تعریف کرتے ہیں حالانکہ وہ محض الفاظ کے الٹ پھیر ہیں ۔ قائم کا مخصوص لہجہ بہ قول حسرت رچا ہوا انداز ہے اس میں شک نہیں کہ قائم ایک بڑا اور قابل مطالعہ شاعر ہے لیکن اسے میرؔ و مرزا کا ہم رتبہ کہنا نا انصافی ہے ۔ ان کا کلام ہر صنف میں موجود ہے ، غزل ، رباعی، قطعہ ، مثنوی، قصیدہ ، ترکیب بند، تاریخ سب کچھ کہا ہے ۔ ہجو کہنے اور فحش بکنے میں اپنے استاد سوداؔ سے کسی طور کم نہیں متعدد مثنویاں لکھی ہیں جن میں قصے سلیقے سے نظم کیے ہیں ۔ قصیدوں میں بھی زور پایا جاتا ہے ایک تذکرہ مخزن نکات(1168ھ مطابق1754ء) بھی لکھا ہے جس میں ہر دور کے شعراء کا حال الگ الگ لکھا ہے اور مستند سمجھا جاتا ہے ۔
Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi
GET YOUR FREE PASS