تر تیب
نقرئی جھانجھنوں جھن جھن جھن دود ھ سے پاؤں کو گد گداتی ہے
دعا
وادئ سربن کی ایک صبح
کوہ سربن کی آغوش گلبوش میں نقرئی بادلوں نے بسیرا کیا
چھپی وہ شب کی سیاہی میں دن کی تابانی
تکون
غم کے پر ہوں شبستانوں میں!
سپنا
اک جام کھنکتا جام کی ساقی رات گزرنے والی ہے
غزل
ننگے پیڑوں کو ڈھانپنے کے لئے
کروٹ
قطعہ
چاند نی رات فکر شعر وسخن!!
نگاہوں میں حمار آتا ہوا محسوس ہوتا ہے
غزل
جاگ سہیلی!
دلہن
ہرجائی!
کھیت سے دور دمکتے ہوئے دور ا ہے پر
کھنڈر
وہ مکاں جس کے دریچے مدتوں سے بند ہیں
پیش گوئی
سونے کی انگوٹھی میں یہ ہیرے کا نگینہ!
شمع انجمن
میں زندگی کی ہر ایک سانس کو ٹٹول چکی
غزل
دل کو غم حیات گوارا ہے ان دنوں
آپ بیتی
میرے خوابوں کے شبستاں میں اجالا نہ کرو
حریری ملبوس میں گلابی بدن کی خوشبو
شرافت
کہاں ہو وادئ سربن کی سر سرد ہواؤ
دیس پردیس
پربت پربت گھوم چکا ہوں صحرا صحرا چھان رہا ہوں
غزل
تھر تھرائی رہی چراغ کی لو!
ایکٹریس
غنچوں کا رس کلیوں کا مس ایک زما نے کو للچائے
غزل
راستے کا پھول
نچوڑ لو مرے جواں لبوں کا رس نچوڑ لو!
کل رات اک رئیس کی بانہوں میں جھوم کر
کہانی
تمہاری انجمن سے اٹھ کے دیوانے کہاں جاتے
غزل
البم
یہ میری جوانی کی پہلی کرن ہے
بانجھ!
کتنے ہی سال ستاروں کی طرح ٹوٹ گئے
آنکھوں میں سوال ہوگئی ہے
غزل
کھلونا
اڑا اڑا سا رنگ ہے!
نگاہوں میں چمک دل میں خوشی محسوس کرتا ہوں
غزل
ائینے کے سامنے
ترے شبستاں کی نکہتوں میں ہزاروں سانسیں مہک رہی ہیں
غزل
انگڑائی پہ انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی
وہی خرام ناز ہے تو بانکپن کہاں گیا؟
راکھ
غزل
صدمے جھیلوں جان پہ کھیلوں اس سے مجھے انکار نہیں ہے
پڑوسی
محبتوں کی عبادت کا دور ختم ہوا
غزل
احترام لب درخسار تک آپہنچے ہیں
اکتاہٹ
روشنی نہیں ہے دور دور تک
روشنی ڈوب گئی چاند نے منہ ڈھانپ لیا
لڑھکتا پتھر
ذکر مرا اور تیرے لب پر، یاد مری اور تیرے دل میں
جب چھلکتے ہیں زیر وسیم کے گاتے ہوئے جام
آج اور کل
سکون دل تو کہاں راحت نظر بھی نہیں
غزل
پھر وہی بڑھتے ہوئے رکتے ہوئے قدموں کی چھاپ
رہگزار
غزل
جب بھی کوئی ادا تری بھاگئی مجھے
اے گدا گر! مجھے ایمان کی سوغات نہ دے
حالات کی اس دو رنگی میں کیا ساتھ ہمارا ان کا
غزل
جب بھی تنہا مجھے پاتے ہیں گزر تے لمحے!
آج کی باتیں کل کے سپنے
اے دیدۂ گریاں کیا کہتے اس پیار بھرے افسانے کو
غزل
جبت تک چہرے کی شریانیں سرخ لہو دوڑاتی ہیں
داشتہ
ٹمپل روڈ
رنگ رنگیلے محل دو محلے جگمگ جگمگ جاگ رہے ہیں
میں جو ظلم کبھی تجھ سے روا رکھا تھا
درد مشترک
عورت
جب کبھی چاند گھٹاؤں میں گھرا ہوتا ہے
زندگی کا ایک ایک داغ مل سکے
غزل
تجدید
وہی جھنکار وہی ناچتی گاتی تلوار
وہی گیسوؤں کی اڑان ہے، وہی عارضوں کا نکھار ہے
گیت
باج رہی شہنائی آئی دلہن نئی نویلی!
یہی کفن اوڑھ لو بدن پر سمور و سنجاب کو بھلا دو!
بہلا وے
غزل
برسات کی بھیگی رات بھی ہے جذبات کا تیز الاؤ بھی
میرا قلم
مرے قلم سے تقاضا ہے شہر یاروں کا
پریشان رات ساری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
غزل
چراغ ٹمٹما رہا ہے ظلمتوں کی چھاؤں میں
غزل
گریباں در گریباں نکتہ آرائی بھی ہوتی ہے
غزل
غزل
کچھ محبت کے غم، کچھ زمانے کے غم
غزل
برس رہی ہیں فضا میں حسین تنویر یں
بے خودی میں پہلوئے اقرار پہلے تو نہ تھا
غزل
کچھ غنچہ لبوں کی یاد آئی کچھ گل بدنوں کی یاد آئی
غزل
غزل
افق کے اس پار زندگی کے اداس لمحے گذار آؤں
طرب خانوں کے نغمے غم کدوں کو بھانہیں سکتے
غزل
غزل
ہم کو انتظار سحر بھی قبول ہے
ہم سوختہ جانوں کی خاطر آرائش عارض ولب ہی سہی
غزل
ذکر ہے اپنا محفل محفل اے غم جاناں اے غم دوراں
غزل
تر تیب
نقرئی جھانجھنوں جھن جھن جھن دود ھ سے پاؤں کو گد گداتی ہے
دعا
وادئ سربن کی ایک صبح
کوہ سربن کی آغوش گلبوش میں نقرئی بادلوں نے بسیرا کیا
چھپی وہ شب کی سیاہی میں دن کی تابانی
تکون
غم کے پر ہوں شبستانوں میں!
سپنا
اک جام کھنکتا جام کی ساقی رات گزرنے والی ہے
غزل
ننگے پیڑوں کو ڈھانپنے کے لئے
کروٹ
قطعہ
چاند نی رات فکر شعر وسخن!!
نگاہوں میں حمار آتا ہوا محسوس ہوتا ہے
غزل
جاگ سہیلی!
دلہن
ہرجائی!
کھیت سے دور دمکتے ہوئے دور ا ہے پر
کھنڈر
وہ مکاں جس کے دریچے مدتوں سے بند ہیں
پیش گوئی
سونے کی انگوٹھی میں یہ ہیرے کا نگینہ!
شمع انجمن
میں زندگی کی ہر ایک سانس کو ٹٹول چکی
غزل
دل کو غم حیات گوارا ہے ان دنوں
آپ بیتی
میرے خوابوں کے شبستاں میں اجالا نہ کرو
حریری ملبوس میں گلابی بدن کی خوشبو
شرافت
کہاں ہو وادئ سربن کی سر سرد ہواؤ
دیس پردیس
پربت پربت گھوم چکا ہوں صحرا صحرا چھان رہا ہوں
غزل
تھر تھرائی رہی چراغ کی لو!
ایکٹریس
غنچوں کا رس کلیوں کا مس ایک زما نے کو للچائے
غزل
راستے کا پھول
نچوڑ لو مرے جواں لبوں کا رس نچوڑ لو!
کل رات اک رئیس کی بانہوں میں جھوم کر
کہانی
تمہاری انجمن سے اٹھ کے دیوانے کہاں جاتے
غزل
البم
یہ میری جوانی کی پہلی کرن ہے
بانجھ!
کتنے ہی سال ستاروں کی طرح ٹوٹ گئے
آنکھوں میں سوال ہوگئی ہے
غزل
کھلونا
اڑا اڑا سا رنگ ہے!
نگاہوں میں چمک دل میں خوشی محسوس کرتا ہوں
غزل
ائینے کے سامنے
ترے شبستاں کی نکہتوں میں ہزاروں سانسیں مہک رہی ہیں
غزل
انگڑائی پہ انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی
وہی خرام ناز ہے تو بانکپن کہاں گیا؟
راکھ
غزل
صدمے جھیلوں جان پہ کھیلوں اس سے مجھے انکار نہیں ہے
پڑوسی
محبتوں کی عبادت کا دور ختم ہوا
غزل
احترام لب درخسار تک آپہنچے ہیں
اکتاہٹ
روشنی نہیں ہے دور دور تک
روشنی ڈوب گئی چاند نے منہ ڈھانپ لیا
لڑھکتا پتھر
ذکر مرا اور تیرے لب پر، یاد مری اور تیرے دل میں
جب چھلکتے ہیں زیر وسیم کے گاتے ہوئے جام
آج اور کل
سکون دل تو کہاں راحت نظر بھی نہیں
غزل
پھر وہی بڑھتے ہوئے رکتے ہوئے قدموں کی چھاپ
رہگزار
غزل
جب بھی کوئی ادا تری بھاگئی مجھے
اے گدا گر! مجھے ایمان کی سوغات نہ دے
حالات کی اس دو رنگی میں کیا ساتھ ہمارا ان کا
غزل
جب بھی تنہا مجھے پاتے ہیں گزر تے لمحے!
آج کی باتیں کل کے سپنے
اے دیدۂ گریاں کیا کہتے اس پیار بھرے افسانے کو
غزل
جبت تک چہرے کی شریانیں سرخ لہو دوڑاتی ہیں
داشتہ
ٹمپل روڈ
رنگ رنگیلے محل دو محلے جگمگ جگمگ جاگ رہے ہیں
میں جو ظلم کبھی تجھ سے روا رکھا تھا
درد مشترک
عورت
جب کبھی چاند گھٹاؤں میں گھرا ہوتا ہے
زندگی کا ایک ایک داغ مل سکے
غزل
تجدید
وہی جھنکار وہی ناچتی گاتی تلوار
وہی گیسوؤں کی اڑان ہے، وہی عارضوں کا نکھار ہے
گیت
باج رہی شہنائی آئی دلہن نئی نویلی!
یہی کفن اوڑھ لو بدن پر سمور و سنجاب کو بھلا دو!
بہلا وے
غزل
برسات کی بھیگی رات بھی ہے جذبات کا تیز الاؤ بھی
میرا قلم
مرے قلم سے تقاضا ہے شہر یاروں کا
پریشان رات ساری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
غزل
چراغ ٹمٹما رہا ہے ظلمتوں کی چھاؤں میں
غزل
گریباں در گریباں نکتہ آرائی بھی ہوتی ہے
غزل
غزل
کچھ محبت کے غم، کچھ زمانے کے غم
غزل
برس رہی ہیں فضا میں حسین تنویر یں
بے خودی میں پہلوئے اقرار پہلے تو نہ تھا
غزل
کچھ غنچہ لبوں کی یاد آئی کچھ گل بدنوں کی یاد آئی
غزل
غزل
افق کے اس پار زندگی کے اداس لمحے گذار آؤں
طرب خانوں کے نغمے غم کدوں کو بھانہیں سکتے
غزل
غزل
ہم کو انتظار سحر بھی قبول ہے
ہم سوختہ جانوں کی خاطر آرائش عارض ولب ہی سہی
غزل
ذکر ہے اپنا محفل محفل اے غم جاناں اے غم دوراں
غزل
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।