سرورق
شہرہ ہے جابجا جو قلم کے صریر کا
ردیف الف
شجر سے گل سے جلوہ ہے نمایاں تیری صنعت کا
گر لکھوں میں وصف ذات احمد مختار کا
گلشن میں ہوا جب گزر اس غنچہ دہن کا
وصف اعجاز پیمبر جب رقم کرنے لگا
جوانی کا جو بن جو ڈھل جائیگا
کوچہ سے میرے جبکہ وہ خنداں نکل گیا
بیوجہ کسی دل کا ستانا نہیں اچھا
باڑ پرچڑھنا نہیں بیوجہ اس تلوار کا
ایدل تو اسکے عشق میں برباد کیوں ہوا
جب سے میرے گھر سے دلربا نکلا
دکھاؤں ہجر میں گرجوش اپنی چشم گریاں کا
جلوہ گر بزم میں جو وہ گل رعنا ہوگا
کیا پرزے پرزے جو نامہ ہمارا
لیکے قاصد خبر نہیں آتا
اشکباری ہوا شعار اپنا
جب شریک صحبت اغیار وہ دلبر ہوا
غم سے کوئی فارغ نہ ہمیں دل نظر آیا
حال یہ فرقت سے پہونچا ہے دل بیتاب کا
گو کہ میں سر گشتہ مدت تک بیاباں میں رہا
گلشن کی طرف جیسے وہ پرفن نہیں آتا
عارض سے ترے کان کا بالا نہیں ملتا
گلشن میں ذرا کھول دے جاکر بدن اپنا
مستعد قتل پہ میرے جو وہ قاتل نہ ہوا
حق نے جب مخلوق کو پیدا کیا
آدمی کو خاک سے پیدا کیا
احباب کی رنجش سے وطن میں تر ہوں گا
دل کو میرے کج ادااک بھا گیا
شہرہ ہو نہ کیوں سب میں میری کوش قلمی کا
زلف پرخم سی ہر اک دل کو علاقہ دیکھا
ربط اس بدخو سے بیخوف و خطر پیدا کیا
ردیف بائے موحدہ
تعشق گلوں سے نہ کر عندلیب
ردیف بائے فارسی
میرے پہلو میں نہیں آتے ہیں آپ
سامنے ہے دیدۂ دل کے ہمارے روے دوست
ردیف تائے فوقانی
ردیف ثائے مثلثہ
مجھ سے رنجیدہ ہے وہ ماہ لقا کیا باعث
ہم کو ہے بس توجہ جاناں کی احتیاج
ردیف جیم تازی
ردیف حاے حطی
گردش ہے مجھ کو گنبد و دوار کی طرح
ردیف خاے معجمہ
نہیں دیکھا ہے ایسا دلربا شوخ
ردیف دال مہملہ
ہزاروں شخص وہاں ہوں گے نیم جاں قاصد
ردیف ذال معجمہ
ردیف راے مہملہ
طلب جو کرتے ہو مجھ سے حساب کاغذ
گل ہے شرمندہ ترے رخ کی نزاکت دیکھ کر
ردیف زائے معجمہ
ہوتا ہے میر آہ میں اب اتنا اثر روز
عالم سے جدا ہے تیری آواز کا انداز
ردیف سین مہملہ
مجھ سے ملتا نہیں دل کھول کے دلبر افسوس
دیر فانی میں عبث ہے جو کرے زر کی تلاش
ردیف شین معجمہ
ردیف صاد مہملہ
جو بادہ کش ہیں بہت ہے انہیں شراب کے حرص
جس بشر کو ہے خداوند جہاں سے اخلاص
نے وصل سے نہ الفت سرشار سے غرض
ردیف ضاد معجمہ
پیدا کیا ہے تم نے جو ظلم و جفا سے ربط
ردیف طاے مطبقہ
رخ پہ تیرے خوشنما ہے کس قدر اے یار خط
کیوں نہ عشاق کو ہو تیری ملاقات سے حظ
ردیف ظاے معجمہ
انجمن میں کس ادا و ناز سے آتی ہے شمع
ردیف عین مہملہ
روے مہر و یاد دلواتی ہے شمع
ردیف غین معجمہ
ہے تیری حسن دلاویز سے جہاں کو فروغ
ردیف فاے
سامنے عشاق کے کیونکر نہ ہو توقیر زلف
ردیف قاف
الٰہی دیکھوں نہ آنکھوں سے اپنی روئے فراق
کیونکر کرے نہ لب کو ہمارے شراب خشک
ردیف کاف
جو کہ صابر ہیں بدل رنج و بلا کے نزدیک
ردیف لام
اس لئے کرتے ہیں خوبان جہاں توقیر دل
ہوا رنج و بلا میں مبتلا دل
ردیف میم
آہ میں کس سے کہوں حال دل زار تمام
دن کو رہتا ہے تصور میں مرے روئے صنم
ردیف نون
اٹھا شائق قلم کو آج حمد کبریائی میں
رہا اس بحر خوبی پر میں عاشق ناتواں برسوں
ہے غضب الفت نہیں کچھ اس بت نےپیر میں
تیغ ابرو لگ گئی ہے دل پہ کاری ان دنوں
پڑی بسمل تڑپتی ہیں ہزاروں کوئے جاناں میں
مزہ مجھ کو ملا ہے کس قدر قطع بیاباں میں
بے دھڑک کوچۂ جاناں میں گزر کرتے ہیں
داغ دل روشن رہے کچھ کام گلشن سے نہیں
جب سے اس بت سے ہوئی الفت ہمیں
وصل معشوق سے یہاں کوئی بھی ناکام نہیں
سرد سا آزاد گو میں گلشن عالم میں ہوں
ہم نشیں اسکی خبر آتی نہیں
لازم ہمیں شکایت چرخ کہن نہیں
کچھ لگی ہے آگ سی میرے دل رنجور میں
ایک مدت سے مجھے درد جگر ہوتا نہیں
مری خوئے وفا ہے اور میں ہوں
وہی یاں جلوہ گر ہے اور میں ہوں
ردیف واو
جس کو تو جھڑکے خفا اس سے مقدر کیوں نہ ہو
جو حسن میں نے مثل ہو یکتاے زمان ہو
کام کیا حور و پری سے ترے دیوانہ کو
کیوں نہ الفت ہو مجھے ابروے خمدار کے ساتھ
ردیف ہاے ہوز
عارض ہے ترا مہر درخشاں سے زیادہ
دیکھا بوندیل گھنڈ کو ہے ایک بن سیاہ
پریشاں خاطر اپنی دکھائی جس کا جی چاہے
ردیف یاے تحتانی
آہ وزاری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
جب سے میری آہ میں تاثیر آدھی رہ گئی
رات کو بھولے سے جو وہ مرے گھر تک پہونچے
کہنا زبان سے حالت دل کیا ضرور ہے
شب کو رستے سے جو وہ اپنے ہمیں گھر لے گئے
جو قسمت سے کبھی ہم کوچۂ دلدار میں آئے
راہ میں لپٹوں کمر سے تیری ایجان تو سہی
خدا سے ہجر میں میں نے دعا کی
جو نوبت آئی وصل دلربا کی
روح بلبل جان گلشن تو نظر آیا مجھے
جو آب و تاب مرے اشک چشم تر میں ہے
عارض پرنور سے برقع اٹھایا چاہیے
گہ مجھے شغل اشکباری ہے
نہیں قلزم سے کم یارو یہ میرا دیدۂ تر ہے
اب اس کافر نے جو زلف چلیپا کو سوارا ہے
کل صبح خبر لائی تھی باد سحر ایسی
نالہ و آہ وفغاں لب پہ مری جاری ہے
چھپی تو نکہت گل تیرے پیرہن میں رہے
جبکہ اغیار کا مجمع ترے در پر ہوے
شرمندہ تیرے رخ سے رخ آفتاب ہے
بسان شمع ہمیں اشک ہی بہانا ہے
بیتاب رعد ہے دل نالاں کے سامنے
کیا کہوں ہمدم جو مجھ کو بیقراری رات تھی
وہاں سرمہ کے آنکھوں میں ترے تحریر پھرتی ہے
ایک عالم ہو گیا آشفتہ چشم یار سے
انتظار آہ مجھے آٹھ پہر کس کا ہے
حال دل کیونکر کہوں میں اس بت خود کا م سے
کیمیا کی مجھ کو خواہش ہے نہ ہے اکسیر کی
دیکھو تو جلوۂ رخ جاناں نئے نئے
ممکن ہے کہ جائے کوئی شمشیر کے آگے
کہاں ہے قیس جو آکر مرا شور جنوں دیکھے
داغہاے عشق سے سینہ مرا گلزار ہے
خیال یار میں آتا نہیں قرار مجھے
لیل و نہار سے یہ غرض ہے آلہ کی
تجھ کو ہم اپنا او بت پر فن بتائیں گے
یاد میں ایزد برحق کی جو انساں نہ رہے
قمر کو کیا ترے رخ سے مثال اے دلبربادینگے
کوئی رفیق کوئی آشنا نہیں رکھتے
ہے مآل کار کا اندیشہ اب ہر دم مجھے
مخمس برغزل جناب مرزا حاتم علی بیگ صاحب
قطعہ
مخمس دیگر برغزل مرزا صاحب ممدوح
مخمس برغزل جناب شیخ علی حزین صاحب
ایضاً برغزل جناب مرزا حاتم علی بیگ
ایضاً
قطعات تواریخ دیوان فصاحت
سرورق
شہرہ ہے جابجا جو قلم کے صریر کا
ردیف الف
شجر سے گل سے جلوہ ہے نمایاں تیری صنعت کا
گر لکھوں میں وصف ذات احمد مختار کا
گلشن میں ہوا جب گزر اس غنچہ دہن کا
وصف اعجاز پیمبر جب رقم کرنے لگا
جوانی کا جو بن جو ڈھل جائیگا
کوچہ سے میرے جبکہ وہ خنداں نکل گیا
بیوجہ کسی دل کا ستانا نہیں اچھا
باڑ پرچڑھنا نہیں بیوجہ اس تلوار کا
ایدل تو اسکے عشق میں برباد کیوں ہوا
جب سے میرے گھر سے دلربا نکلا
دکھاؤں ہجر میں گرجوش اپنی چشم گریاں کا
جلوہ گر بزم میں جو وہ گل رعنا ہوگا
کیا پرزے پرزے جو نامہ ہمارا
لیکے قاصد خبر نہیں آتا
اشکباری ہوا شعار اپنا
جب شریک صحبت اغیار وہ دلبر ہوا
غم سے کوئی فارغ نہ ہمیں دل نظر آیا
حال یہ فرقت سے پہونچا ہے دل بیتاب کا
گو کہ میں سر گشتہ مدت تک بیاباں میں رہا
گلشن کی طرف جیسے وہ پرفن نہیں آتا
عارض سے ترے کان کا بالا نہیں ملتا
گلشن میں ذرا کھول دے جاکر بدن اپنا
مستعد قتل پہ میرے جو وہ قاتل نہ ہوا
حق نے جب مخلوق کو پیدا کیا
آدمی کو خاک سے پیدا کیا
احباب کی رنجش سے وطن میں تر ہوں گا
دل کو میرے کج ادااک بھا گیا
شہرہ ہو نہ کیوں سب میں میری کوش قلمی کا
زلف پرخم سی ہر اک دل کو علاقہ دیکھا
ربط اس بدخو سے بیخوف و خطر پیدا کیا
ردیف بائے موحدہ
تعشق گلوں سے نہ کر عندلیب
ردیف بائے فارسی
میرے پہلو میں نہیں آتے ہیں آپ
سامنے ہے دیدۂ دل کے ہمارے روے دوست
ردیف تائے فوقانی
ردیف ثائے مثلثہ
مجھ سے رنجیدہ ہے وہ ماہ لقا کیا باعث
ہم کو ہے بس توجہ جاناں کی احتیاج
ردیف جیم تازی
ردیف حاے حطی
گردش ہے مجھ کو گنبد و دوار کی طرح
ردیف خاے معجمہ
نہیں دیکھا ہے ایسا دلربا شوخ
ردیف دال مہملہ
ہزاروں شخص وہاں ہوں گے نیم جاں قاصد
ردیف ذال معجمہ
ردیف راے مہملہ
طلب جو کرتے ہو مجھ سے حساب کاغذ
گل ہے شرمندہ ترے رخ کی نزاکت دیکھ کر
ردیف زائے معجمہ
ہوتا ہے میر آہ میں اب اتنا اثر روز
عالم سے جدا ہے تیری آواز کا انداز
ردیف سین مہملہ
مجھ سے ملتا نہیں دل کھول کے دلبر افسوس
دیر فانی میں عبث ہے جو کرے زر کی تلاش
ردیف شین معجمہ
ردیف صاد مہملہ
جو بادہ کش ہیں بہت ہے انہیں شراب کے حرص
جس بشر کو ہے خداوند جہاں سے اخلاص
نے وصل سے نہ الفت سرشار سے غرض
ردیف ضاد معجمہ
پیدا کیا ہے تم نے جو ظلم و جفا سے ربط
ردیف طاے مطبقہ
رخ پہ تیرے خوشنما ہے کس قدر اے یار خط
کیوں نہ عشاق کو ہو تیری ملاقات سے حظ
ردیف ظاے معجمہ
انجمن میں کس ادا و ناز سے آتی ہے شمع
ردیف عین مہملہ
روے مہر و یاد دلواتی ہے شمع
ردیف غین معجمہ
ہے تیری حسن دلاویز سے جہاں کو فروغ
ردیف فاے
سامنے عشاق کے کیونکر نہ ہو توقیر زلف
ردیف قاف
الٰہی دیکھوں نہ آنکھوں سے اپنی روئے فراق
کیونکر کرے نہ لب کو ہمارے شراب خشک
ردیف کاف
جو کہ صابر ہیں بدل رنج و بلا کے نزدیک
ردیف لام
اس لئے کرتے ہیں خوبان جہاں توقیر دل
ہوا رنج و بلا میں مبتلا دل
ردیف میم
آہ میں کس سے کہوں حال دل زار تمام
دن کو رہتا ہے تصور میں مرے روئے صنم
ردیف نون
اٹھا شائق قلم کو آج حمد کبریائی میں
رہا اس بحر خوبی پر میں عاشق ناتواں برسوں
ہے غضب الفت نہیں کچھ اس بت نےپیر میں
تیغ ابرو لگ گئی ہے دل پہ کاری ان دنوں
پڑی بسمل تڑپتی ہیں ہزاروں کوئے جاناں میں
مزہ مجھ کو ملا ہے کس قدر قطع بیاباں میں
بے دھڑک کوچۂ جاناں میں گزر کرتے ہیں
داغ دل روشن رہے کچھ کام گلشن سے نہیں
جب سے اس بت سے ہوئی الفت ہمیں
وصل معشوق سے یہاں کوئی بھی ناکام نہیں
سرد سا آزاد گو میں گلشن عالم میں ہوں
ہم نشیں اسکی خبر آتی نہیں
لازم ہمیں شکایت چرخ کہن نہیں
کچھ لگی ہے آگ سی میرے دل رنجور میں
ایک مدت سے مجھے درد جگر ہوتا نہیں
مری خوئے وفا ہے اور میں ہوں
وہی یاں جلوہ گر ہے اور میں ہوں
ردیف واو
جس کو تو جھڑکے خفا اس سے مقدر کیوں نہ ہو
جو حسن میں نے مثل ہو یکتاے زمان ہو
کام کیا حور و پری سے ترے دیوانہ کو
کیوں نہ الفت ہو مجھے ابروے خمدار کے ساتھ
ردیف ہاے ہوز
عارض ہے ترا مہر درخشاں سے زیادہ
دیکھا بوندیل گھنڈ کو ہے ایک بن سیاہ
پریشاں خاطر اپنی دکھائی جس کا جی چاہے
ردیف یاے تحتانی
آہ وزاری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
جب سے میری آہ میں تاثیر آدھی رہ گئی
رات کو بھولے سے جو وہ مرے گھر تک پہونچے
کہنا زبان سے حالت دل کیا ضرور ہے
شب کو رستے سے جو وہ اپنے ہمیں گھر لے گئے
جو قسمت سے کبھی ہم کوچۂ دلدار میں آئے
راہ میں لپٹوں کمر سے تیری ایجان تو سہی
خدا سے ہجر میں میں نے دعا کی
جو نوبت آئی وصل دلربا کی
روح بلبل جان گلشن تو نظر آیا مجھے
جو آب و تاب مرے اشک چشم تر میں ہے
عارض پرنور سے برقع اٹھایا چاہیے
گہ مجھے شغل اشکباری ہے
نہیں قلزم سے کم یارو یہ میرا دیدۂ تر ہے
اب اس کافر نے جو زلف چلیپا کو سوارا ہے
کل صبح خبر لائی تھی باد سحر ایسی
نالہ و آہ وفغاں لب پہ مری جاری ہے
چھپی تو نکہت گل تیرے پیرہن میں رہے
جبکہ اغیار کا مجمع ترے در پر ہوے
شرمندہ تیرے رخ سے رخ آفتاب ہے
بسان شمع ہمیں اشک ہی بہانا ہے
بیتاب رعد ہے دل نالاں کے سامنے
کیا کہوں ہمدم جو مجھ کو بیقراری رات تھی
وہاں سرمہ کے آنکھوں میں ترے تحریر پھرتی ہے
ایک عالم ہو گیا آشفتہ چشم یار سے
انتظار آہ مجھے آٹھ پہر کس کا ہے
حال دل کیونکر کہوں میں اس بت خود کا م سے
کیمیا کی مجھ کو خواہش ہے نہ ہے اکسیر کی
دیکھو تو جلوۂ رخ جاناں نئے نئے
ممکن ہے کہ جائے کوئی شمشیر کے آگے
کہاں ہے قیس جو آکر مرا شور جنوں دیکھے
داغہاے عشق سے سینہ مرا گلزار ہے
خیال یار میں آتا نہیں قرار مجھے
لیل و نہار سے یہ غرض ہے آلہ کی
تجھ کو ہم اپنا او بت پر فن بتائیں گے
یاد میں ایزد برحق کی جو انساں نہ رہے
قمر کو کیا ترے رخ سے مثال اے دلبربادینگے
کوئی رفیق کوئی آشنا نہیں رکھتے
ہے مآل کار کا اندیشہ اب ہر دم مجھے
مخمس برغزل جناب مرزا حاتم علی بیگ صاحب
قطعہ
مخمس دیگر برغزل مرزا صاحب ممدوح
مخمس برغزل جناب شیخ علی حزین صاحب
ایضاً برغزل جناب مرزا حاتم علی بیگ
ایضاً
قطعات تواریخ دیوان فصاحت
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.