میر تقی میر
کلام میرؔ
تھا مستعار حسن سے اسکے جو نور تھا
ردیف الف
کیا میں بھی پریشانئ خاطر سے قریب تھا
جامۂ ہستی عشق اپنا مگر کم گھیر تھا
لطف اگر یہ ہے بتاں صندل پیشانی کا
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا
منعم نے بنا ظلم کی رکھ کر گھر تو بنا یا
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
منہ لگا ہی ترے یہ جس تس کا
مر رہنے جو گل بن تو سارا خلل جاتا
مانند شمع مجلس شب اشک بار پایا
پودھا تم کو جس نے اس باغ میں لگایا
سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اس نخچیر کا
گل کو محبوب میں قیاس کیا
ہم خستہ دل ہیں تجھ سے بھی نازک مزاج تر
دم صبح بزم خوش جہاں شب غم سے کم نہ تھی مہرباں
دل سے شوق رخ نکو نہ گیا
پھوڑا سا ساری رات جو پکتار ہیکا دل
اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہوگا
دل جو تما اک آبلہ پھوٹا گیا
خواہ مجھ سے لڑگیا اب خواہ مجھ سے مل گیا
دشمنی ہم سے کی زمانے نے
وہ دن گئے کہ آنکھیں دریا سی بہتہاں تھیں
دل ودماغ ہے اب کس کو زندگانی کا
شریف مکہ رہا ہے تمام عرم اے شیخ
اپنے تڑپنے کی میں تدبیر پہلے کر لوں
شہرۂ عالم اسے یمن محبت نے کیا
سر سری تم جہان سے گزرے
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
چوری میں دل کی وہ ہنر کر گیا
دیر وحرم سے گزرے اب دل ہے گھر ہمارا
جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا
بتاں کے عشق نے بے اختیار کر ڈالا
گلیوں میں اب تلک بھی مذکور ہے ہمارا
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
رنگ اڑ چلا چمن میں گلوں کا تو کیا نسیم
اشک آنکھوں سے کب نہیں آتا
سحر گہ عید میں دور سبو تھا
تفحص فائدہ ناصح تدارک مجھ سے کیا ہوگا
قدر رکھتی نہ تھی متاع دل
نہ وے زنجیر کے غل ہیں نہ وے جرگے غزالو ں کے
قطعہ
ماہیت دو عالم کھائی پھرے ہے غوطے
بے زری کا نہ کر گلہ غافل
کل چمن میں گل وسمن دیکھا
جہاں کو فتنے سے خالی کبھو نہیں پایا
زمیں اک صحفۂ تصویر بے ہو شاں سے مانا ہے
کیسا چمن کہ ہم سے اسیروں کو منع ہے
جو اس شورسے میر روتا رہے گا
خدا کو کام تو سوپنے ہیں ہیں نے سب لیکن
سعئ طوف حرم نہ کی ہرگز
پوشیدہ راز عشق چلا جائے تھا سو آج
لذت سے نہیں خالی جانوں کا کھپا جانا
پھرتا ہے زندگی کے لئے آہ خوار کیا
عشق نے کیا کیا تصرف یاں کئی ہیں آجکل
ہو ش اڑ گئے سبھوں کے شور سحر سے اسکے
یہ میر ؔ ستم کشتہ کسووقت جواں تھا
کجی اس کی جو میں جتا نے لگا
آنسو مری آنکھوں میں ہردم جو نہ آجاتا
کچھ عشق و ہوس میں فرق بھی کر
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
آتے ہی آتے تیرے یہ ناکام ہو چکا
وائے احوال اس جفا کش کا
عجب ہم بے بصیرت ہیں کہاں کھولا ہے بار آکر
پہلا قدم ہے انساں پامال مرگ ہوتا
ہر آن تھی سر گوشی یہ بات نہیں گا ہے
پریشاں ہوا دوستی کرکے میں
کیونکر بسر کرے غم وغصہ میں ہجر کے
تجاہل تغافل تساہل کیا
دل نے کہا کیا نہ درد رات دیئے
بہار آئی چلو چلمن میں ہوا کے اوپر بھی رنگ آیا
دیکھا نہ ادھر ورنہ آتا نہ نظری پھر میں
مکے گیا مدینے گیا کر بلا گیا
دل کو گل کہتے تھے دردو غم سے مرجھایا گیا
سخن مشتاق ہے عالم ہمارا
بعد ہمارے اس فن کا جو کوئی ماہر ہو وے گا
عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا
اس کی سی جو چلے ہے راہ تو کیا
ہوئے ہم جس کی خاطر بے وفا تھا
قلک نے پیس کر سر مہ بنا یا
جو تو ہی صنم ہم سے بیزار ہوگا
سائے میں تاک کے مجھے رکھا اشیر کر
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں نہ سنئے گا
جانا نہ تھا سرہانے مجھ مختصر کے ہائے
رہے بدحال صوفی حال کرتے دیر مجلس میں
سخن مشتاق ہے عالم ہمارا
ردیف ب
شکوہ عبث ہے میرؔ کہ کڑھتے ہی ں سارے دن
شب کو وہ پئے شراب نکلا
اس عمر برق جلوہ کی فرصت بہت ہے کم
آیا ہے شیب سر پہ گیا ہے شباب اب
شب ہائے تارو تیرہ زمانے میں دن ہوئے
ہوتی ہے گرچہ کہنے سے یارو پرائی بات
دیر کچھ کھینچتی تو کہتے بھی ملاقات کی بات
ردیف ت
ہر جنس کے خواہاں ملے بازار جہاں میں
اب تو چپت لگ گئی ہے حسرت سے
شعر کے پردے میں میں نے غم سنایا ہے بہت
ملامت گر نہ مجھ کو کر ملامت
مت ان نمازیوں کو خانہ زار دیں جانو
منہ پہ رکھتا ہے وہ نقاب بہت
کب آوے گا کیا جانے وہ سرو قامت
چشم رہنے لگی پر آب بہت
تھی بحر کی سی لہر کہ آئی چلی گئی
یاد ایا مے کہ ہنگامہ رہا کرتا تھا رات
ردیف چ
ساقی ٹک ایک موسم گل کی طرف بھی دیکھ
عشق میں اے طبیب ہا ں ٹک سوچ
ردیف ج
ایک ہو ویں جو زبان دل تو کچھ نکلے بھی کام
ردیف ح
ردیف د
میرے سنگ مزار پر فرہاد
جوں سبزہ چل چمن میں لب جو پہ سیر کر
تن کو جس جاگہ سے چھیڑوں ہوں وہاں ہے درد درد
ہے عشق کا فسانہ میرا یہاں زباں زد
قدم دشت محبت میں نہ رکھ میرؔ
ردیف ر
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
شیخی کا اب کمال ہے کچھ اور
رفتار میں یہ شوخی، رحم اے جواں زمیں پر
اے صبا گر شہر کے لوگوں میں ہو تیرا گزر
شہر کے کیا ایک دو کوچوں میں تھی شہرت رہی
نقل کرتے کیا یہ صحبت منعقد جب ہوتی بزم
صورت پسند ہوتے نہیں معنی آشنا
کچھ ہو رہے گا عشق وہوس میں بھی امتیاز
مذہب سے میرے کیا تجھے میرا دیار اور
سعی و طلب بہت کی مطلب کے تئیں نہ پہنچے
چمکے ہے جب سے برق سحر گلستاں کے اور
تناسب پہ اعضا کی اتنا تنجتر
عشق محبت یاری میں اک لطف رکھے ہے کرنا ضبط
ست اس چمن میں غنچہ روش بود باش کر
گرچہ انسان ہیں زمیں سے ولے
اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی خوبی
سوتے نہ لگ چل اس سے اے باد تونے ظالم
شاس دل گرفتہ کو دا کر بندر سے
حرماں تو دیکھ پھول بکھیرے تھی کل صبا
درد مندوں سے تمھیں دور پھرا کرتے ہو کچھ
ردیف س
ردیف ش
گل کو ہوتا صبا قرار اے کاش
کیا کہیئے کیا رکھیں ہیں ہم یار تجھ سے خواہش
ردیف ظ
جو دیکھو مرے شعر ترکی طرف
ردیف ف
جو وہ ہے تو ہے زندگانی سے خط
میر جی زرد ہوتے جاتے ہو
ردیف ک
ردیف ق
کچھ ہواے مرغ قفس لطف نہ جائے اس سے
حال سیر اشہر میں کہتے رہیں گے لوگ دیر
رہے ہے غش ودرد دو پہر تک
وہ تو نہیں کہ اودھ رہتا تھا آشاں تک
بن جو کچھ بن سکے جوانی میں
سبزہ نورستہ وہ گزرا کا ہوں
عبارت خوب لکھی شاعری انشا طرازی کی
ردیف ل
ردیف گ
گل کی جفا بھی دیکھی وفائے بلبل
طریق عشق میں ہے رہنما دل
اگر راہ میں اسکی رکھا ہے گام
ہے پیچیدا راز بس راہ وصال وہجراں
ردیف م
ہر ہر سخن پہ اب تو کرتے ہو گفتگو تم
گرچہ آوارہ جوں صبا ہیں ہم
بے کلی بے خودی کچھ آج نہیں
ردیف ن
اس کے کوچے میں نہ کر شور قیامت کا ذکر
متصل روتے ہی رہیے تو بجھے آتش دل
اس طرح دل گیا کہ اب تک ہم
دعوے کو یاد آگے معیوب کر چکے ہیں
زباں رکھ غنچہ سال اپنے دہن میں
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
کچھ کچھ کہوں گا روز یہ کہتا دل میں میں
میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں
اک دم پر ہے بنا تیری ، سو آیا کہ نہیں
نہ پھونکئے نہ خرقہ طامات کے تئیں
ملنے لگے ہو دیر دیر دیکھئے کیا ہے کیا نہیں
خوب رو سب کی جان سوتے ہیں
تجھ عشق میں مرنے کو تیار بہت ہیں
بزم میں جو ترا ظہور نہیں
جنوں میرے کی باتیں دشت اور گلشن میں جب چلیاں
یک لخط سینہ کوبی سے فرصت نہیں ہمیں
تجھے بھی یار اپنا یوں تو ہم ہر بار کہتے ہیں
دادے چھوڑوں میں صیاد سے اپنی لیکن
نہ کیوں کہ شیخ تو کل کو اختیار کریں
تو اک زباں پہ چپکی نہیں رہتی عندلیب
کہے ہے کوہ کن کر فکر میری خستہ حالی میں
آرزو ئیں ہزار رکھتے ہیں
موئے سہتے سہتے جفا کار یاں
دن نہیں رات نہیں صبح نہیں شام نہیں
یہ جو چشم پر آب ہیں دونوں
دیر و حرم سے تو تو ٹک گرم ناز نکلا
مدعی مجھ کو کھڑے صاف برا کہتے ہیں
کیا جانوں دل کو کھینچے ہیں کیوں شعر میرؔ کے
عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں
طائران خوش معاش اس باغ کے تھے ہم کبھو
کعبے جانے سے نہیں کچھ شیخ مجھ کو اتنا شوق
میں تو خویال کو جانتا ہی ہوں
اب کے جنوں میں فاصلہ شاہی کچھ رہے
کب شب ہوئی زمانے میں جو پھر ہوانہ روز
گل پھول کوئی کب تک جھڑ جھڑ کے گرتے دیکھے
میں جی سنبھالتا ہوں وہ ہنس کے ٹالتا ہے
باغ گو سبز ہوا اب سر گلزار کہاں
صبح چمن کا جلوہ ہندی بتوں میں دیکھا
یہ جوش غم ہوتے بھی ہیں یوں ابر تر ہوتے بھی ہیں
کچھ تمہیں ملنے سے ہزار ہو میرے ورنہ
جہاں سے دیکھئے اک شعر شور انگیز نکلے ہے
رفتگان میں جہاں کے ہم بھی ہیں
زبانیں بدلتے ہیں ہر آن خوباں
جامے ہے جی نجات کے غم میں
نئی گردش ہے اس کی ہر زماں میں
اب پست وبلند ایک ہی جوں نقش قدم یاں
مجھ کو دماغ وصف گل و یاسمن نہیں
محبوب کا وصال نہ مجھ کو ہوا نصیب
دن ہیں بڑے کبھو کی راتیں بڑی کبھو کی
غزل میرؔ کی کب پڑھائی نہیں
پھر میں صورت احوال ہر اک کو دکھاتا یاں
اس شہ حسن کا اقبال کہ ظالم کے تئیں
پنج روزہ عمر کریئے عاشقی یا زاہدی
درا میں کہاں شورا ایسا دھرا تھا
پیری ہی اب تو کہیے
غم ہجراں میں گھبرا کر اٹھا میں
فریاد سے کیا لوگ ہیں دن ہی کو عجب میں
کوئی سبب ایسا ہو یا رب جس سے عزت رہ جائے
اس کو دل سا مکان دیتے ہیں
مے کشی صبح وشام کرتا ہوں
اس سے گھبرا کے جو کچھ کہنے پہ آجاتا ہوں
اب دیکھیں آہ کیا ہو ہم دے جدا ہوئے ہیں
مجلس یار میں تو بار نہیں پاتا میں
بیکار مجھ کو مت کہہ میں کار آمدہ ہوں
اسرار دل کے کہتے ہیں پیرو جوان میں
گوکہ بت خانے جارہا ہوں میں
کیا جنوں ہے تم کو جو تم طالب ویرانہ ہو
موئے پر اور بھی بڑگئی رسوائی عاشق
عشق کرنا نہیں آسان بہت مشکل ہے
نا آشنا کے اپنے جیسے ہم آشنا ہیں
کچھ اور شے ہے خوب جو دیکھو رخ نگاہ
جو جو ظلم کئے ہیں تم نے سو سو ہم نے اٹھائے ہیں
کہے کون قصیدر میدہ سے کہ ادھر بھی بھر کے نظر کرے
ردیف و
ہوئے تھے جیسے مرجاتے پر اب تو سخت حسرت ہے
کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو
خدا کرے کہ نصیب اپنے ہو نہ آزادی
ماچند کوچہ گردی جیسے صبا زمیں پر
جاتے نہیں اٹھائے یہ شور ہر سحر کے
دن گزرتا ہے مجھے فکر ہی میں تاکیا ہو
عشق کو نفع نہ بیتابی کرے ہے نہ شکیب
شیخ جی آؤ مصلیٰ گرد جام کرو
خوبی یہی نہیں ہے کہ انداز وناز ہو
ہیں کہاں مجھ سے وفا پیشہ نہ بیداد کرو
صبح سے اور بھی پاتا ہوں اسے شام کو تند
اس کی طرز نگاہ مت پوچھو
مطرب نے پڑھی تھی غزل ایک میرؔ کی شب کو
یہی مشہور عالم ہے دو عالم
صحبت آخر ہے ہماری نہ کرو پھر افسوس
نہ تو طالع نہ جذب پھر دل کو
کیا کیا جوان ہم نے دنیا سے جاتے دیکھے
ہو کوئی بادشاہ کوئی یاں وزیر ہو
قتل کئے پر غصہ کیا ہے لاش مری اٹھوانے دو
کھینچا ہے آدمی نے بہت دور آپ کو
لطف شراب ابر سے ہے سو نصیب دیکھ
اس باغ کے ہر گل سے چپک جاتی ہیں آنکھیں
جنبش بھی اس کے آگے ہونٹوں کو ہوتو کہیئے
یہ سرا سونے کی جاگہ نہیں بیدار رہو
کہتا ہے کون میرؔ کہ بے اختیار رد
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یاد شاد رہو
حاصل کوئی امید ہوئی ہو تو میں کہوں
جو نہ ہوئے نماز کریئے نیاز
صوفیا خم واہوئے ہیں آنکھیں داکرد
کھلتا ہوں وہاں صحبت رندانہ جہاں ہو
اپنے حسن رفتنی پر آج مت مغرور ہو
نہ سمجھا گیا کھیل قدرت کا ہم سے
روز دفتر لکھے گئے یاں سے
موسم ابر ہو سبو بھی ہو
آتا نہیں نظر کہ حصول امید ہو
غم ہجراں میں گھبرا کر اٹھا میں
اس کو دل سا مکان دیتے ہیں
کوئی سبب ایسا ہو یا رب جس سے عزت رہ جائے
فریاد ہے کیا لوگ ہیں دن ہی کو عجب میں
اس سے گھبرا کے جو کچھ کہنے پہ آجاتا ہوں
مے کشی صبح و شام کرتا ہوں
اسرار دل کے کہتے ہیں پیرو جوان میں
اب دیکھیں آہ کیا ہو ہم دے جدا ہوئے ہیں
بے کار مجھ کو مت کہہ میں کار آمد ہوں
کیا جنوں ہے تم کو جو تم طالب ویرانہ ہو
رنگنئی زمانے سے خاطر نہ جمع رکھ
موئے پر اور بھی کچھ بڑگئی رسوائی عاشق
گوکہ بت خانے جارہا ہوں میں
نا آشنا کے اپنے جیسے ہم آشنا ہیں
عشق کرنا نہیں آسان بہت مشکل ہے
کچھ اور شے ہے خوب جو دیکھو رخ نگار
جو جو ظلم کئے ہیں تم نے سوسو ہم نے اٹھائے ہیں
ہوئے تھے جیسے مرجاتے پر اب تو سخت حسرت ہے
ردیف و
کہے کون صیدر میدہ سے کہ ادھر بھی بھر کے نظر کرے
خدا کرے کہ نصیب اپنے ہو نہ آزادی
کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو
دن گزر تا ہے مجھے فکر ہی میں تاکیا ہو
جاتے نہیں اٹھائے یہ شور ہر سحر کے
تا چند کوچہ گردی جیسے صباز میں پر
شیخ جی آؤ مصلیٰ گر د جام کرد
عشق کو نفع نہ بیتابی کرے ہے نہ شکیب
خوبی یہی نہیں ہے کہ انداز وناز ہو
صبح سے اور بھی پاتا ہوں اسے شام کو تند
ہیں کہاں مجھ سے وفا پیشہ نہ بیداد کرو
اس کی طرز نگاہ مت پوچھو
صحبت آخر ہے ہماری نہ کرو پھر افسوس
یہی مشہور عالم ہے دو عالم
مطرب نے پڑھی تھی غزل ایک میرؔ کی شب کو
ہو کوئی بادشاہ کوئی یاں وزیر ہو
کیا کیا جوان ہم نے دنیا سے جاتے دیکھے
نہ تو طالع نہ جذب پھر دل کو
قتل کئے پر غصہ کیا ہے لاش مری اٹھوانے دو
جنبش بھی اس کے آگے ہو نٹوں کو ہو تو کہیئے
کھینچا ہے آدمی نے بہت دور آپ کو
لطف شراب ابر سے ہے سو نصیب دیکھ
اس باغ کے ہر گل سے چپک جاتی ہیں آنکھیں
حاصل کوئی امید ہوئی ہو تو میں کہوں
کہتا ہے کون میرؔ کہ بے اختیار رو
عرصہ کتنا سارے جہاں کا وحشت پر جو آجائیں
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
یہ سرا سونے کی جاگہ نہیں بیدار رہو
جو نہ ہوئے نماز کریئے نیاز
کھلتا ہوں وہاں صحبت رندانہ جہاں ہو
اپنے حسن رفتنی آج مت مغرور ہو
صوفیاں خم واہوئے ہیں ہاے آنکھیں داکرد
روز ددفتر لکھے گئے یاں سے
موسم ابر ہو سبو بھی ہو
نہ سمجھا گیا کھیل قدرت کا ہم سے
آتا نہیں نظر کہ حصول امید ہو
مری خلق محو کلام سب مجھے چھوڑتے ہیں خموش کب
روشن ہے جل کے مرنا پروانے کا ولیکن
نالۂ عجز نقص الفت ہے
دل کس طرح کھینچیں اشعار ریختے کے
ناصح کو خبر کیا ہے لذت سے غم دل کی
اس فن میں کوئی بے تہ کیا ہو مرا معارض
میر میں جتیوں میں آؤں گا اسی دن جس دن
کیا کروں شرح خستہ جانی کی
کچھ تو کہہ وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے
تم نے جو اپنے دل سے بھلایا ہمیں تو کیا
خالقہ کا تونہ کر قصد ٹک اے خانہ خراب
نہیں وسواس جی گنوانے کے
آج کل بے قرار ہیں ہم بھی
رہی نہ گفتہ مرے دل میں داستاں میری
دل کو مت بھول جانا میرے بعد
غفلت میں گئی آہ مری ساری جوانی
حقیرانہ آئے صدا کر چلے
جس جگہ دور جام ہوتا ہے
کل بار سے ہم سے اس سے ملاقات ہوگئی
حسرت لطف عزیزان چمن جی میں رہی
نسبت تو دیتے ہیں ترے لب سے پر ایک دن
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
کعبے میں جاں بلب تھے ہم دور ئی تباں سے
ہر کوئی اس مقام پر دس روز
عمر بھر ہم رہے شرابی سے
گرداب وار یار تر ہے صدقے جائیے
ہم گو نہ ہوں جہاں میں آخر جہاں تو ہوگا
شاید اب ٹکڑوں نے دل کے قصد آنکھوں کا کیا
جو کفر جانتے تھے عشق بتا کو وہ ہی
وہ جو پھرتا ہے مجھ سے دور ہی دور
کیا رنگ و بود یاد سحر سب ہیں گرم راہ
تم چھیڑتے ہو بزم میں مجھ کو تو ہنسی سے
تم نہیں فتنہ ساز پچ صاحب
جفا اس کی نہ پہنچی انتہا کو
سارے دکھوں کی اے دل ہو جائے گی تلافی
تمیر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
یار بن تلخ زندگانی تھی
مقدو ر تک تو ضبط کروں ہوں پہ کیا کروں
باؤ لے سے جب تلک بکتے تھے سب کرتے تھے پیار
تھا ملک جن کے زیر نگیں صاف مٹ گئے
مزاجوں میں یاس آگئی ہے ہمارے
ہر طرف بحث تجھ سے ہے اے عشق
تو گرفتار ہوں اس باغ کا رحم اے صیاد
سرکسو سے فرد نہیں آتا
جو خواہش نہ ہوتی تو کاہش نہ ہوتی
مرگ مجنوں سے عقل گم ہے میرؔ
جی کے لگنے کی میر کچھ کہہ بھی
کرتی پھرے ہے رسوا سارے چمن میں مجھ کو
حرف شنو ساتھ اپنے نہیں ہیں ورنہ درائے قافلہ ساں
اے کاش کوئی جا کے کہہ آوے یار سے بھی
نقد دل غفلت سے کھویا راہ کھوٹی کر گئے
اس کا غضب سے نامہ نہ لکھنا تو سہل ہے
دنیا کی قدر کیا جو طلب گار ہو کوئی
سنو سر گزشت اب ہماری زبانی
باغ میں سیر کبھو ہم بھی کیا کرتے تھے
چلو چمن میں جو دل کھلے ٹک بہم غم دل کہا کریں گے
دل کی بات کہی نہیں جاتی چپکے رہنا ٹھانا ہے
اے میرؔ شعر کہنا کیا ہے کمال انساں
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
فریاد و قیس گزرے اب شور ہے ہمارا
اڑنے کی یک ہوس ہے ہم کو قفس سے ورنہ
آگے کسو کے کیا یں دست طمع دراز
مجھ کو مارا بھلا کیا تونے
میں اس کی جدائی میں تصدیع بہت پائی
آنکھوں کی طرف گوش کہ در پردہ نظر ہے
بوئے گل یا نوائے بلبل تھی
شب شور وفغاں کرتے گئی مجھ کو تواب تو
کیا خانہ خرابی کا ہمیں خوف و خطر ہے
عالم عالم عشق جنوں ہے دنیا دنیا تہمت ہے
نہ بک شیخ اتنا بھی داہی تباہی
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
ملوان دلوں ہم سے اک رات جانی
گلستاں کے ہیں دونوں پلے بھرے
اپنے نیاز تم سے اب تک بتاں رہے تھے
داد فریاد جابجا کریئے
نالہ جب گرم کار ہوتا ہے
اس صنائع اس بدائع کا
یارب کوئی دیوانہ بے ڈھنگ سا آجاوے
ترے بندے ہیں ہم خدا جانتا ہے
یارنے ہم سے بے ادائی کی
یہی عشق ہی جی کھپا جانتا ہے
جب سے جہاں ہے تب سے خرابی یہی ہے میرؔ
نے وہ لوگ ہیں اب نہ اجتماع وہ
کہو تو کب تئیں یوں ساتھ تیرے پیارے ہے
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
دل میں مسودے تھے بہت پر حضور یار
گل نے کہا بہت کہ چمن سے نہ جائیے
وہ دل نہیں رہا ہے نہ وہ اب دماغ ہے
طبیعت نے عجب کل یہ ادا کی
ہم رو رو کے درد دل دیوانہ کہیں گے
ہم کبھی غم سے آہ کرتے تھے
پامال لوگ آگے کیا کیا ہوئے ہیں تم سے
چرخ پر اپنا مدار دیکھئے کب تک رہے
بہت نا مہرباں رہتا ہے یعنی
مائل ستم کے ہونا جو رو جفا ہی کرنا
ہے گی طلب شرط یاں کچھ تو کیا چاہیئے
کرو تا مل کہ حال ہم میں رہا نہیں ہے غموں کے مارے
فردیات
دل گیا رسوا ہوئے آخر کو سودا ہوگیا
دامن عرک کا اب لیاہے میں نے
رباعیات
دلی میں بہت سخت کی اب کے گزراں
مستزاد
قابل ہے میری سیر کے اطوار روز گار
مخمسات
شہر آشوب
شکل اپنی ہوئی جو بود وباش
اسے جھوٹ آج شہر میں تیرا ہی دور ہے
مثنویات
کیا لکھوں میرؔ اپنے گھر کا حال
گھر کا حال
ضبط کروں میں کب تک آہ اب
جوش عشق
سنو اے عزیزان ذی ہو ش و عقل
دنیا
در تعریف عشق خانماں آباد
زہے عشق نیرنگ ساری تری
میر تقی میر
کلام میرؔ
تھا مستعار حسن سے اسکے جو نور تھا
ردیف الف
کیا میں بھی پریشانئ خاطر سے قریب تھا
جامۂ ہستی عشق اپنا مگر کم گھیر تھا
لطف اگر یہ ہے بتاں صندل پیشانی کا
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا
منعم نے بنا ظلم کی رکھ کر گھر تو بنا یا
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
منہ لگا ہی ترے یہ جس تس کا
مر رہنے جو گل بن تو سارا خلل جاتا
مانند شمع مجلس شب اشک بار پایا
پودھا تم کو جس نے اس باغ میں لگایا
سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اس نخچیر کا
گل کو محبوب میں قیاس کیا
ہم خستہ دل ہیں تجھ سے بھی نازک مزاج تر
دم صبح بزم خوش جہاں شب غم سے کم نہ تھی مہرباں
دل سے شوق رخ نکو نہ گیا
پھوڑا سا ساری رات جو پکتار ہیکا دل
اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہوگا
دل جو تما اک آبلہ پھوٹا گیا
خواہ مجھ سے لڑگیا اب خواہ مجھ سے مل گیا
دشمنی ہم سے کی زمانے نے
وہ دن گئے کہ آنکھیں دریا سی بہتہاں تھیں
دل ودماغ ہے اب کس کو زندگانی کا
شریف مکہ رہا ہے تمام عرم اے شیخ
اپنے تڑپنے کی میں تدبیر پہلے کر لوں
شہرۂ عالم اسے یمن محبت نے کیا
سر سری تم جہان سے گزرے
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
چوری میں دل کی وہ ہنر کر گیا
دیر وحرم سے گزرے اب دل ہے گھر ہمارا
جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا
بتاں کے عشق نے بے اختیار کر ڈالا
گلیوں میں اب تلک بھی مذکور ہے ہمارا
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
رنگ اڑ چلا چمن میں گلوں کا تو کیا نسیم
اشک آنکھوں سے کب نہیں آتا
سحر گہ عید میں دور سبو تھا
تفحص فائدہ ناصح تدارک مجھ سے کیا ہوگا
قدر رکھتی نہ تھی متاع دل
نہ وے زنجیر کے غل ہیں نہ وے جرگے غزالو ں کے
قطعہ
ماہیت دو عالم کھائی پھرے ہے غوطے
بے زری کا نہ کر گلہ غافل
کل چمن میں گل وسمن دیکھا
جہاں کو فتنے سے خالی کبھو نہیں پایا
زمیں اک صحفۂ تصویر بے ہو شاں سے مانا ہے
کیسا چمن کہ ہم سے اسیروں کو منع ہے
جو اس شورسے میر روتا رہے گا
خدا کو کام تو سوپنے ہیں ہیں نے سب لیکن
سعئ طوف حرم نہ کی ہرگز
پوشیدہ راز عشق چلا جائے تھا سو آج
لذت سے نہیں خالی جانوں کا کھپا جانا
پھرتا ہے زندگی کے لئے آہ خوار کیا
عشق نے کیا کیا تصرف یاں کئی ہیں آجکل
ہو ش اڑ گئے سبھوں کے شور سحر سے اسکے
یہ میر ؔ ستم کشتہ کسووقت جواں تھا
کجی اس کی جو میں جتا نے لگا
آنسو مری آنکھوں میں ہردم جو نہ آجاتا
کچھ عشق و ہوس میں فرق بھی کر
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
آتے ہی آتے تیرے یہ ناکام ہو چکا
وائے احوال اس جفا کش کا
عجب ہم بے بصیرت ہیں کہاں کھولا ہے بار آکر
پہلا قدم ہے انساں پامال مرگ ہوتا
ہر آن تھی سر گوشی یہ بات نہیں گا ہے
پریشاں ہوا دوستی کرکے میں
کیونکر بسر کرے غم وغصہ میں ہجر کے
تجاہل تغافل تساہل کیا
دل نے کہا کیا نہ درد رات دیئے
بہار آئی چلو چلمن میں ہوا کے اوپر بھی رنگ آیا
دیکھا نہ ادھر ورنہ آتا نہ نظری پھر میں
مکے گیا مدینے گیا کر بلا گیا
دل کو گل کہتے تھے دردو غم سے مرجھایا گیا
سخن مشتاق ہے عالم ہمارا
بعد ہمارے اس فن کا جو کوئی ماہر ہو وے گا
عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا
اس کی سی جو چلے ہے راہ تو کیا
ہوئے ہم جس کی خاطر بے وفا تھا
قلک نے پیس کر سر مہ بنا یا
جو تو ہی صنم ہم سے بیزار ہوگا
سائے میں تاک کے مجھے رکھا اشیر کر
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں نہ سنئے گا
جانا نہ تھا سرہانے مجھ مختصر کے ہائے
رہے بدحال صوفی حال کرتے دیر مجلس میں
سخن مشتاق ہے عالم ہمارا
ردیف ب
شکوہ عبث ہے میرؔ کہ کڑھتے ہی ں سارے دن
شب کو وہ پئے شراب نکلا
اس عمر برق جلوہ کی فرصت بہت ہے کم
آیا ہے شیب سر پہ گیا ہے شباب اب
شب ہائے تارو تیرہ زمانے میں دن ہوئے
ہوتی ہے گرچہ کہنے سے یارو پرائی بات
دیر کچھ کھینچتی تو کہتے بھی ملاقات کی بات
ردیف ت
ہر جنس کے خواہاں ملے بازار جہاں میں
اب تو چپت لگ گئی ہے حسرت سے
شعر کے پردے میں میں نے غم سنایا ہے بہت
ملامت گر نہ مجھ کو کر ملامت
مت ان نمازیوں کو خانہ زار دیں جانو
منہ پہ رکھتا ہے وہ نقاب بہت
کب آوے گا کیا جانے وہ سرو قامت
چشم رہنے لگی پر آب بہت
تھی بحر کی سی لہر کہ آئی چلی گئی
یاد ایا مے کہ ہنگامہ رہا کرتا تھا رات
ردیف چ
ساقی ٹک ایک موسم گل کی طرف بھی دیکھ
عشق میں اے طبیب ہا ں ٹک سوچ
ردیف ج
ایک ہو ویں جو زبان دل تو کچھ نکلے بھی کام
ردیف ح
ردیف د
میرے سنگ مزار پر فرہاد
جوں سبزہ چل چمن میں لب جو پہ سیر کر
تن کو جس جاگہ سے چھیڑوں ہوں وہاں ہے درد درد
ہے عشق کا فسانہ میرا یہاں زباں زد
قدم دشت محبت میں نہ رکھ میرؔ
ردیف ر
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
شیخی کا اب کمال ہے کچھ اور
رفتار میں یہ شوخی، رحم اے جواں زمیں پر
اے صبا گر شہر کے لوگوں میں ہو تیرا گزر
شہر کے کیا ایک دو کوچوں میں تھی شہرت رہی
نقل کرتے کیا یہ صحبت منعقد جب ہوتی بزم
صورت پسند ہوتے نہیں معنی آشنا
کچھ ہو رہے گا عشق وہوس میں بھی امتیاز
مذہب سے میرے کیا تجھے میرا دیار اور
سعی و طلب بہت کی مطلب کے تئیں نہ پہنچے
چمکے ہے جب سے برق سحر گلستاں کے اور
تناسب پہ اعضا کی اتنا تنجتر
عشق محبت یاری میں اک لطف رکھے ہے کرنا ضبط
ست اس چمن میں غنچہ روش بود باش کر
گرچہ انسان ہیں زمیں سے ولے
اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی خوبی
سوتے نہ لگ چل اس سے اے باد تونے ظالم
شاس دل گرفتہ کو دا کر بندر سے
حرماں تو دیکھ پھول بکھیرے تھی کل صبا
درد مندوں سے تمھیں دور پھرا کرتے ہو کچھ
ردیف س
ردیف ش
گل کو ہوتا صبا قرار اے کاش
کیا کہیئے کیا رکھیں ہیں ہم یار تجھ سے خواہش
ردیف ظ
جو دیکھو مرے شعر ترکی طرف
ردیف ف
جو وہ ہے تو ہے زندگانی سے خط
میر جی زرد ہوتے جاتے ہو
ردیف ک
ردیف ق
کچھ ہواے مرغ قفس لطف نہ جائے اس سے
حال سیر اشہر میں کہتے رہیں گے لوگ دیر
رہے ہے غش ودرد دو پہر تک
وہ تو نہیں کہ اودھ رہتا تھا آشاں تک
بن جو کچھ بن سکے جوانی میں
سبزہ نورستہ وہ گزرا کا ہوں
عبارت خوب لکھی شاعری انشا طرازی کی
ردیف ل
ردیف گ
گل کی جفا بھی دیکھی وفائے بلبل
طریق عشق میں ہے رہنما دل
اگر راہ میں اسکی رکھا ہے گام
ہے پیچیدا راز بس راہ وصال وہجراں
ردیف م
ہر ہر سخن پہ اب تو کرتے ہو گفتگو تم
گرچہ آوارہ جوں صبا ہیں ہم
بے کلی بے خودی کچھ آج نہیں
ردیف ن
اس کے کوچے میں نہ کر شور قیامت کا ذکر
متصل روتے ہی رہیے تو بجھے آتش دل
اس طرح دل گیا کہ اب تک ہم
دعوے کو یاد آگے معیوب کر چکے ہیں
زباں رکھ غنچہ سال اپنے دہن میں
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
کچھ کچھ کہوں گا روز یہ کہتا دل میں میں
میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں
اک دم پر ہے بنا تیری ، سو آیا کہ نہیں
نہ پھونکئے نہ خرقہ طامات کے تئیں
ملنے لگے ہو دیر دیر دیکھئے کیا ہے کیا نہیں
خوب رو سب کی جان سوتے ہیں
تجھ عشق میں مرنے کو تیار بہت ہیں
بزم میں جو ترا ظہور نہیں
جنوں میرے کی باتیں دشت اور گلشن میں جب چلیاں
یک لخط سینہ کوبی سے فرصت نہیں ہمیں
تجھے بھی یار اپنا یوں تو ہم ہر بار کہتے ہیں
دادے چھوڑوں میں صیاد سے اپنی لیکن
نہ کیوں کہ شیخ تو کل کو اختیار کریں
تو اک زباں پہ چپکی نہیں رہتی عندلیب
کہے ہے کوہ کن کر فکر میری خستہ حالی میں
آرزو ئیں ہزار رکھتے ہیں
موئے سہتے سہتے جفا کار یاں
دن نہیں رات نہیں صبح نہیں شام نہیں
یہ جو چشم پر آب ہیں دونوں
دیر و حرم سے تو تو ٹک گرم ناز نکلا
مدعی مجھ کو کھڑے صاف برا کہتے ہیں
کیا جانوں دل کو کھینچے ہیں کیوں شعر میرؔ کے
عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں
طائران خوش معاش اس باغ کے تھے ہم کبھو
کعبے جانے سے نہیں کچھ شیخ مجھ کو اتنا شوق
میں تو خویال کو جانتا ہی ہوں
اب کے جنوں میں فاصلہ شاہی کچھ رہے
کب شب ہوئی زمانے میں جو پھر ہوانہ روز
گل پھول کوئی کب تک جھڑ جھڑ کے گرتے دیکھے
میں جی سنبھالتا ہوں وہ ہنس کے ٹالتا ہے
باغ گو سبز ہوا اب سر گلزار کہاں
صبح چمن کا جلوہ ہندی بتوں میں دیکھا
یہ جوش غم ہوتے بھی ہیں یوں ابر تر ہوتے بھی ہیں
کچھ تمہیں ملنے سے ہزار ہو میرے ورنہ
جہاں سے دیکھئے اک شعر شور انگیز نکلے ہے
رفتگان میں جہاں کے ہم بھی ہیں
زبانیں بدلتے ہیں ہر آن خوباں
جامے ہے جی نجات کے غم میں
نئی گردش ہے اس کی ہر زماں میں
اب پست وبلند ایک ہی جوں نقش قدم یاں
مجھ کو دماغ وصف گل و یاسمن نہیں
محبوب کا وصال نہ مجھ کو ہوا نصیب
دن ہیں بڑے کبھو کی راتیں بڑی کبھو کی
غزل میرؔ کی کب پڑھائی نہیں
پھر میں صورت احوال ہر اک کو دکھاتا یاں
اس شہ حسن کا اقبال کہ ظالم کے تئیں
پنج روزہ عمر کریئے عاشقی یا زاہدی
درا میں کہاں شورا ایسا دھرا تھا
پیری ہی اب تو کہیے
غم ہجراں میں گھبرا کر اٹھا میں
فریاد سے کیا لوگ ہیں دن ہی کو عجب میں
کوئی سبب ایسا ہو یا رب جس سے عزت رہ جائے
اس کو دل سا مکان دیتے ہیں
مے کشی صبح وشام کرتا ہوں
اس سے گھبرا کے جو کچھ کہنے پہ آجاتا ہوں
اب دیکھیں آہ کیا ہو ہم دے جدا ہوئے ہیں
مجلس یار میں تو بار نہیں پاتا میں
بیکار مجھ کو مت کہہ میں کار آمدہ ہوں
اسرار دل کے کہتے ہیں پیرو جوان میں
گوکہ بت خانے جارہا ہوں میں
کیا جنوں ہے تم کو جو تم طالب ویرانہ ہو
موئے پر اور بھی بڑگئی رسوائی عاشق
عشق کرنا نہیں آسان بہت مشکل ہے
نا آشنا کے اپنے جیسے ہم آشنا ہیں
کچھ اور شے ہے خوب جو دیکھو رخ نگاہ
جو جو ظلم کئے ہیں تم نے سو سو ہم نے اٹھائے ہیں
کہے کون قصیدر میدہ سے کہ ادھر بھی بھر کے نظر کرے
ردیف و
ہوئے تھے جیسے مرجاتے پر اب تو سخت حسرت ہے
کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو
خدا کرے کہ نصیب اپنے ہو نہ آزادی
ماچند کوچہ گردی جیسے صبا زمیں پر
جاتے نہیں اٹھائے یہ شور ہر سحر کے
دن گزرتا ہے مجھے فکر ہی میں تاکیا ہو
عشق کو نفع نہ بیتابی کرے ہے نہ شکیب
شیخ جی آؤ مصلیٰ گرد جام کرو
خوبی یہی نہیں ہے کہ انداز وناز ہو
ہیں کہاں مجھ سے وفا پیشہ نہ بیداد کرو
صبح سے اور بھی پاتا ہوں اسے شام کو تند
اس کی طرز نگاہ مت پوچھو
مطرب نے پڑھی تھی غزل ایک میرؔ کی شب کو
یہی مشہور عالم ہے دو عالم
صحبت آخر ہے ہماری نہ کرو پھر افسوس
نہ تو طالع نہ جذب پھر دل کو
کیا کیا جوان ہم نے دنیا سے جاتے دیکھے
ہو کوئی بادشاہ کوئی یاں وزیر ہو
قتل کئے پر غصہ کیا ہے لاش مری اٹھوانے دو
کھینچا ہے آدمی نے بہت دور آپ کو
لطف شراب ابر سے ہے سو نصیب دیکھ
اس باغ کے ہر گل سے چپک جاتی ہیں آنکھیں
جنبش بھی اس کے آگے ہونٹوں کو ہوتو کہیئے
یہ سرا سونے کی جاگہ نہیں بیدار رہو
کہتا ہے کون میرؔ کہ بے اختیار رد
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یاد شاد رہو
حاصل کوئی امید ہوئی ہو تو میں کہوں
جو نہ ہوئے نماز کریئے نیاز
صوفیا خم واہوئے ہیں آنکھیں داکرد
کھلتا ہوں وہاں صحبت رندانہ جہاں ہو
اپنے حسن رفتنی پر آج مت مغرور ہو
نہ سمجھا گیا کھیل قدرت کا ہم سے
روز دفتر لکھے گئے یاں سے
موسم ابر ہو سبو بھی ہو
آتا نہیں نظر کہ حصول امید ہو
غم ہجراں میں گھبرا کر اٹھا میں
اس کو دل سا مکان دیتے ہیں
کوئی سبب ایسا ہو یا رب جس سے عزت رہ جائے
فریاد ہے کیا لوگ ہیں دن ہی کو عجب میں
اس سے گھبرا کے جو کچھ کہنے پہ آجاتا ہوں
مے کشی صبح و شام کرتا ہوں
اسرار دل کے کہتے ہیں پیرو جوان میں
اب دیکھیں آہ کیا ہو ہم دے جدا ہوئے ہیں
بے کار مجھ کو مت کہہ میں کار آمد ہوں
کیا جنوں ہے تم کو جو تم طالب ویرانہ ہو
رنگنئی زمانے سے خاطر نہ جمع رکھ
موئے پر اور بھی کچھ بڑگئی رسوائی عاشق
گوکہ بت خانے جارہا ہوں میں
نا آشنا کے اپنے جیسے ہم آشنا ہیں
عشق کرنا نہیں آسان بہت مشکل ہے
کچھ اور شے ہے خوب جو دیکھو رخ نگار
جو جو ظلم کئے ہیں تم نے سوسو ہم نے اٹھائے ہیں
ہوئے تھے جیسے مرجاتے پر اب تو سخت حسرت ہے
ردیف و
کہے کون صیدر میدہ سے کہ ادھر بھی بھر کے نظر کرے
خدا کرے کہ نصیب اپنے ہو نہ آزادی
کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو
دن گزر تا ہے مجھے فکر ہی میں تاکیا ہو
جاتے نہیں اٹھائے یہ شور ہر سحر کے
تا چند کوچہ گردی جیسے صباز میں پر
شیخ جی آؤ مصلیٰ گر د جام کرد
عشق کو نفع نہ بیتابی کرے ہے نہ شکیب
خوبی یہی نہیں ہے کہ انداز وناز ہو
صبح سے اور بھی پاتا ہوں اسے شام کو تند
ہیں کہاں مجھ سے وفا پیشہ نہ بیداد کرو
اس کی طرز نگاہ مت پوچھو
صحبت آخر ہے ہماری نہ کرو پھر افسوس
یہی مشہور عالم ہے دو عالم
مطرب نے پڑھی تھی غزل ایک میرؔ کی شب کو
ہو کوئی بادشاہ کوئی یاں وزیر ہو
کیا کیا جوان ہم نے دنیا سے جاتے دیکھے
نہ تو طالع نہ جذب پھر دل کو
قتل کئے پر غصہ کیا ہے لاش مری اٹھوانے دو
جنبش بھی اس کے آگے ہو نٹوں کو ہو تو کہیئے
کھینچا ہے آدمی نے بہت دور آپ کو
لطف شراب ابر سے ہے سو نصیب دیکھ
اس باغ کے ہر گل سے چپک جاتی ہیں آنکھیں
حاصل کوئی امید ہوئی ہو تو میں کہوں
کہتا ہے کون میرؔ کہ بے اختیار رو
عرصہ کتنا سارے جہاں کا وحشت پر جو آجائیں
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
یہ سرا سونے کی جاگہ نہیں بیدار رہو
جو نہ ہوئے نماز کریئے نیاز
کھلتا ہوں وہاں صحبت رندانہ جہاں ہو
اپنے حسن رفتنی آج مت مغرور ہو
صوفیاں خم واہوئے ہیں ہاے آنکھیں داکرد
روز ددفتر لکھے گئے یاں سے
موسم ابر ہو سبو بھی ہو
نہ سمجھا گیا کھیل قدرت کا ہم سے
آتا نہیں نظر کہ حصول امید ہو
مری خلق محو کلام سب مجھے چھوڑتے ہیں خموش کب
روشن ہے جل کے مرنا پروانے کا ولیکن
نالۂ عجز نقص الفت ہے
دل کس طرح کھینچیں اشعار ریختے کے
ناصح کو خبر کیا ہے لذت سے غم دل کی
اس فن میں کوئی بے تہ کیا ہو مرا معارض
میر میں جتیوں میں آؤں گا اسی دن جس دن
کیا کروں شرح خستہ جانی کی
کچھ تو کہہ وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے
تم نے جو اپنے دل سے بھلایا ہمیں تو کیا
خالقہ کا تونہ کر قصد ٹک اے خانہ خراب
نہیں وسواس جی گنوانے کے
آج کل بے قرار ہیں ہم بھی
رہی نہ گفتہ مرے دل میں داستاں میری
دل کو مت بھول جانا میرے بعد
غفلت میں گئی آہ مری ساری جوانی
حقیرانہ آئے صدا کر چلے
جس جگہ دور جام ہوتا ہے
کل بار سے ہم سے اس سے ملاقات ہوگئی
حسرت لطف عزیزان چمن جی میں رہی
نسبت تو دیتے ہیں ترے لب سے پر ایک دن
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
کعبے میں جاں بلب تھے ہم دور ئی تباں سے
ہر کوئی اس مقام پر دس روز
عمر بھر ہم رہے شرابی سے
گرداب وار یار تر ہے صدقے جائیے
ہم گو نہ ہوں جہاں میں آخر جہاں تو ہوگا
شاید اب ٹکڑوں نے دل کے قصد آنکھوں کا کیا
جو کفر جانتے تھے عشق بتا کو وہ ہی
وہ جو پھرتا ہے مجھ سے دور ہی دور
کیا رنگ و بود یاد سحر سب ہیں گرم راہ
تم چھیڑتے ہو بزم میں مجھ کو تو ہنسی سے
تم نہیں فتنہ ساز پچ صاحب
جفا اس کی نہ پہنچی انتہا کو
سارے دکھوں کی اے دل ہو جائے گی تلافی
تمیر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
یار بن تلخ زندگانی تھی
مقدو ر تک تو ضبط کروں ہوں پہ کیا کروں
باؤ لے سے جب تلک بکتے تھے سب کرتے تھے پیار
تھا ملک جن کے زیر نگیں صاف مٹ گئے
مزاجوں میں یاس آگئی ہے ہمارے
ہر طرف بحث تجھ سے ہے اے عشق
تو گرفتار ہوں اس باغ کا رحم اے صیاد
سرکسو سے فرد نہیں آتا
جو خواہش نہ ہوتی تو کاہش نہ ہوتی
مرگ مجنوں سے عقل گم ہے میرؔ
جی کے لگنے کی میر کچھ کہہ بھی
کرتی پھرے ہے رسوا سارے چمن میں مجھ کو
حرف شنو ساتھ اپنے نہیں ہیں ورنہ درائے قافلہ ساں
اے کاش کوئی جا کے کہہ آوے یار سے بھی
نقد دل غفلت سے کھویا راہ کھوٹی کر گئے
اس کا غضب سے نامہ نہ لکھنا تو سہل ہے
دنیا کی قدر کیا جو طلب گار ہو کوئی
سنو سر گزشت اب ہماری زبانی
باغ میں سیر کبھو ہم بھی کیا کرتے تھے
چلو چمن میں جو دل کھلے ٹک بہم غم دل کہا کریں گے
دل کی بات کہی نہیں جاتی چپکے رہنا ٹھانا ہے
اے میرؔ شعر کہنا کیا ہے کمال انساں
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
فریاد و قیس گزرے اب شور ہے ہمارا
اڑنے کی یک ہوس ہے ہم کو قفس سے ورنہ
آگے کسو کے کیا یں دست طمع دراز
مجھ کو مارا بھلا کیا تونے
میں اس کی جدائی میں تصدیع بہت پائی
آنکھوں کی طرف گوش کہ در پردہ نظر ہے
بوئے گل یا نوائے بلبل تھی
شب شور وفغاں کرتے گئی مجھ کو تواب تو
کیا خانہ خرابی کا ہمیں خوف و خطر ہے
عالم عالم عشق جنوں ہے دنیا دنیا تہمت ہے
نہ بک شیخ اتنا بھی داہی تباہی
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
ملوان دلوں ہم سے اک رات جانی
گلستاں کے ہیں دونوں پلے بھرے
اپنے نیاز تم سے اب تک بتاں رہے تھے
داد فریاد جابجا کریئے
نالہ جب گرم کار ہوتا ہے
اس صنائع اس بدائع کا
یارب کوئی دیوانہ بے ڈھنگ سا آجاوے
ترے بندے ہیں ہم خدا جانتا ہے
یارنے ہم سے بے ادائی کی
یہی عشق ہی جی کھپا جانتا ہے
جب سے جہاں ہے تب سے خرابی یہی ہے میرؔ
نے وہ لوگ ہیں اب نہ اجتماع وہ
کہو تو کب تئیں یوں ساتھ تیرے پیارے ہے
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
دل میں مسودے تھے بہت پر حضور یار
گل نے کہا بہت کہ چمن سے نہ جائیے
وہ دل نہیں رہا ہے نہ وہ اب دماغ ہے
طبیعت نے عجب کل یہ ادا کی
ہم رو رو کے درد دل دیوانہ کہیں گے
ہم کبھی غم سے آہ کرتے تھے
پامال لوگ آگے کیا کیا ہوئے ہیں تم سے
چرخ پر اپنا مدار دیکھئے کب تک رہے
بہت نا مہرباں رہتا ہے یعنی
مائل ستم کے ہونا جو رو جفا ہی کرنا
ہے گی طلب شرط یاں کچھ تو کیا چاہیئے
کرو تا مل کہ حال ہم میں رہا نہیں ہے غموں کے مارے
فردیات
دل گیا رسوا ہوئے آخر کو سودا ہوگیا
دامن عرک کا اب لیاہے میں نے
رباعیات
دلی میں بہت سخت کی اب کے گزراں
مستزاد
قابل ہے میری سیر کے اطوار روز گار
مخمسات
شہر آشوب
شکل اپنی ہوئی جو بود وباش
اسے جھوٹ آج شہر میں تیرا ہی دور ہے
مثنویات
کیا لکھوں میرؔ اپنے گھر کا حال
گھر کا حال
ضبط کروں میں کب تک آہ اب
جوش عشق
سنو اے عزیزان ذی ہو ش و عقل
دنیا
در تعریف عشق خانماں آباد
زہے عشق نیرنگ ساری تری
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।