سرورق
صنمابرب کریم یہاں تری ہیں ہر ایک یہ مبتلا
اے عشق مجھے شاہد اصلی کو دکھا لا
لاہوت پر نہ یدکھیں جو قدسیان تماشا
کیوں شہر چھوڑ عابد غار جبل میں ٹھا
کچھ یہ مجھے کو یوں نہیں اسکی بہن نے عشق کیا
مجھے بیخودی جو کچھ آگئی تو لپٹ کے یارنے غش کیا
میئے جود جد مین یہاں جیب کو پھار غش کیا
تنہانہ اسکو دیکھ کے محفل نے غش کیا
مکھڑی پہ اوسکی صرف نہ بلبل نے غش کیا
ساقی کی انکھڑیوں نے مجھے بادوکش کیا
گو اسکی جھانک تانک یہ جس تس نے عشق کیا
ایسا ہے ایک رند بسو کش نے غش کیا
رہا ہے ہوش کچھ باقی اسے بھی اب منسٹری جا
جس دم کہ تری محو تجلی کو غش آیا
دیکھنا جب مجھے کرشان بہ گالی دیتا
خیال کیجئے گا آج کام مینے کیا
اس بندہ کی چاہ دیکھئے گا
پر تو سی چاندنی کے ہے صحن باغ ٹھنڈا
جھمکا چمک کا تری اس نمک کا
زلف کو تھا خیال بوسہ کا
ہے ترا گال مال بوسہ کا
فقیر انہ ہے دل مقیم اسکی رہ کا
دست جنون سے اے وای ویلا
ہے ظلم اسکو یار کیا ہم نے کیا کیا
ٹک آنکھ ہے کیا کام ہمارا
رہ روان عشق نے جسدم علم آگے دھرا
اگر ہماری کری کوئی نیند بند جدا
مجھے کیوں نہ آئے ساقی نظر آفتاب الٹا
مجھے چھیڑے کو ساقی نے دیا جو جام الٹا
ہے بند ہا مینہ کے تار کا جھولا
دیوار پھاندنی میں دیکھو کے کام میرا
مینے جو آنشی میں بلبل کا مونھ چڑایا
لیا گر تھل نے مونھ میں دل بیتاب کا کٹکا
اے عشق جلوہ گر ہے خود تجھ میں ذات مولا
جو ہاتھ اپنے سبزی کا گھوٹا لگا
عشق نے مجھ پر اٹھایا اور تازہ اشقلا
پیدا ہوا جی عشق سے جب سنگ میں کپڑا
انھیں بھوک پیاس سے کیا غرض وہ جو قید تن سے ہوئی رہا
کیا جو کھیت آج چاندنی نے مراداپ۔نی یہ چاند نکلا
چل نہ امیر لوں میں جھولیں لیں درختوں کی ہوا
زاہد میرے مولا کی اسرار نہیں پاتا
ہوں کشتہ انکی گجھی اشاروں کے چوٹ کا
غلام میں تو ہوں ان صاحب نکے کی کہرپچ کا
ہوا جب اشک حل بافراغ کا بیٹا
مجھے کیا لایک عرش سے مجھے عشق ہے ترا اے جدا
اتبوا گلی سے طرحکا نہیں گہرا پردا
دل ستم زدہ پیتا بیون نے لوٹ لیا
ہوا پیدا یہ دود دل سے کوہ قاف کا جوڑا
نہ کیوں ہو چتر مدآہ اہل عزم کا جوڑا
چمک کر رات کو گرجا یہ برق ورعد کا جوڑا
جو بھیجا ابر کو دریانی نادرپاٹ کا جوڑا
ہونے جب لیلۃ القدر اس پریے کی جعد کا جوڑا
لیا چھین ابروومژگان سے عام وخاص کا جوڑا
پہن مت مانگ کے ایسے کسی کم ظرف کا جوڑا
وہ دوزلفیں نہیں ہیں ایک کالی ناگ کا جوڑا
جواہر سے ملاتا کون یہاں اعراض کا جوڑا
گیا پھٹ جگڑی قیسن بیاباں گرد کا جوڑا
نہ ایے زاہد پہن نبوا کے موٹی سوت کا جوڑا
نہیں مجھ پاس اے قمری تری کھڑاک کا جوڑا
ٹراقی کا یہ پھنااس پری نے تاش کا جوڑا
صنم خانہ میں جب بولا بت ناقوس کا جوڑا
ملی یاری سے جوہڑتال کرکے راکھ کا جوڑا
چمن سے کیا بندھی تیری رخ تمناک کا جوڑا
کھیں بچھڑا ہوا دیکھا جو ایک سرخاب کا جوڑا
کیا کہوں احوال تیری عاشق بیتاب کا
جس شخص نے کہ اپنی نخوت کے بل کو توڑا
اب کی یہ سردی پڑی ہر ایک تاراجم گیا
غزل بر مصراع طرحی حسب الحکم جنابے بعامتعالے
مل گئی سینہ سے سینے پہر یہ کیسا اضطراب
جھٹ پٹ جھٹ کے تمنے جو موندی کو اڑخوب
زلزلہ لایا ہے جسم مضمحل کا اضطراب
پھرایہ آنکھوں میں اس زلف عنبریں کا سانپ
نہیں چاہیے شرم اتنی بہت
بنا کے چھوڑوں جو افیون کا شراب میں سانپ
کعبہ سے کیا ہم نے جو آہنگ خرابات
ہمیں اس صنم کے ہے الفت بہت
کچھ اشارا جو کیا ہم نے ملاقات کے وقت
جمال وعظمت دادارخالق ملکوت
مدت کے بعد آئی نظر خیر وعافیت
تونے لگائی آکی یہ کیا آگ اے بسنت
لوصولتا سکندرد گوحشمت وہانہ اے صلعب فطرت
اہ مولے فقیر کے صورت
ضد برگ گہ وکہاے ہے گہ ارغوان بسنت
کھول آغوش ٹک اجساد اسیران سے لپٹ
ادھ نہ اے دود جگر ابر بہاراں سے لپٹ
کھول آغوش نہ تو مجھ سے رکاوٹ سے لپٹ
چرخ اسے کہ مت یہ ہے سبح لعاب عنکبوت
لگی غلیل سے ابروکی دلکی داغ کو چوٹ
کیوں سیان بلند رتبہ سر راہ کی درخت
بنکے وہ برق نگہ ابروی خمدار کی آنچ
بیٹھے جہاں ہیں غیر سب مجھ کو بلاتی ہو عبت
نہ فقیروں کی جان واہی خرچ
امر ہوئی ہیں تیری خریدار چار پانچ
سبز خط میں تری تل ہیں وہ طلسمات کی بیچ
جو بات تجھسے چاہے ہے اپنا مزاج آج
ہے شب وصل کھلی کاش نہ دروازۂ صبح
ہاتھ آوے کسکے ااپ سے عیار کا آج
کریم جلد کرم کر کہ ہو مزاج صحیح
یوں تری خونخوار آنکھوں کا ہے قاتل رنگ سرخ
تجھسے یوں یکبار توڑوں کس طرح
پھر کاش پھول بیٹھی ہر ایک اس چمن کی شاخ
ہے یہاں وہ نخل عششق میں دیوانہ پن کے شاخ
لگ جاتو مری سینہ سے دروازہ کو کربند
نہ لگی مجھ کو جب اس شوح طرحدار کی گیند
حضرت عشق ادھر کیجے کرم یا معبود
گر کوئی چاہے کسیکو یہ نہیں کچھ کام بد
نظر کرعلے کو قرین محمد
یہاں سینہ ہے مدینہ اور دل نبی کی مسجد
بے مدد حق کے کریں کیا مردم دینا مدد
کیوں نہ گھبراؤں کہی جب مجھ کو تو مشفق ملاذ
میاں چشم جادوپہ اتنا گھمنڈ
لکھ دو آخونجی صاحب کوئی ایسا تعویذ
چھیڑا نہ کرو مری قلمندان کے کاغذ
یہ جو مہنت بیٹھی ہیں رادہا کی کنڈ پر
ہیں زور حسن سے وہ نہایت گھمنڈ پر
ہلکے پھلکے جو ملے دیر کے روڑے پتھر
کہا دین ہر چند کہ بارش کے تڑیڑی پتھر
فرج لڑکوں کی جڑی کیوں نہ ترا تڑ پتھر
تالگا جو پیئے بوسہ اس نے چمن کو اندر
راتوں کو نہ نکلا کرو دروازہ سے باہر
ساقیا یہ خوش آئے بوے خانہ خمار
آئے نہ ااپ رات جو اپنے قرار پر
لے چلا دامان صحرا کو کریبان پھاڑ کر
جو چاہے تو مجھ سے ہنسوڑے کی خیر
دل کرے کیا تجھ کو لکھ کر خط پہنانے پر مہر
ہے یہ اس مہ جبین کے تصویر
سنیہ جلا شعروسخن نذز پکڑ کر
اے صبح نجاساری چمن ندر پکڑ کر
کیا ان سے ملوں عید کے دن نذر پکڑ کر
بولی وہ جب ہاتھ رکھا مینے انکی ران پر
نگاہ جو پڑے تجھ سے رشک قمر پر
مجھے رونا آتا ہے شمع سحر پر
گیا یار آفت پڑے اس سحر پر
یہ جلسترنگ نے پھیلادی آگ پانی پر
لے انھوں نے جو یہ پھولونکی چھڑی ڈالی نور
عجب سرچشمۂ مہتاب سے تھی آگ پانی پر
پیر مغاں کسے کونہ توتشنہ کام چھوڑ
اے آہ اب تو اپنی کہیں آن بان چھوڑ
پلنے کہا نہ بس مجھے ای نازنین نہ چھیڑ
ایدل سمجھ کے اسکی تو زلف رسا کو چھیڑ
اے دل تو ذکر لیلے محمل نشین نہ چھیڑ
خط ترا نور ستہ دیکھ اے بارشوخ وشنگ سبز
باغ امید میں بون ہے چمن یاس کے پاس
پھنس گئے عندلیب ہو بیکس
زلف وچشم یار ہیں دام گرہ گیر قفس
بس نہ دنیا کے رکھ اے صاحب ادراک ہوس
پھر تو کہہ بھر کے دم سردمری ہونئہ نہ چوس
بہت ٹھیمت کہ خود بدولت نے یہاں جو کی ایک دم نواز
کیوں ساقیا نہ ملال ہو اپنا یہ رنگ فرش
بہار ہوکے مجسم بوضع بادلہ پوش
لینا تھا دل سولی چکا اے بے وفا غرض
کیوں نہ دل دوں اسی دنیا میں نہیں ایسا شخص
زہے نسائم فیضان نبدع فیاض
کیا دخل تیری غم میں رہی تمنین جان غلط
میں بہانے جو لگا لیکے مئے ناب کی بط
مجھ سے فردہ طبع کو کیا سیر باغ شرط
کس کو سنا کر کہا ااپ نے او بے لحاظ
کس طرح سے مجھ سے تم سے ہووے باہم اختلاط
سمجھے ہیں قدسیان جسے شاہ جہاں مطاع
پر تجھ سے ہے سیاقی ایک جام طمع
بوقت صبح ہو یوں نشۂ شراب طلوع
روشن ہے ملک ولین ہمارے چراغ داغ
بخشا یہ حق نے اس لب گلفام کو فروغ
اے آتش فراق ترا بل بے سوز داغ
ہم جو ولی ہوں تو پڑی اپنی نگاہ صاف صاف
قتل کے محضر یہ تو شنجرف کی حرف
عالم میں دوستی کے اور اسقدر تکلف
ٹک قیس کو چھیڑ چھاڑ کر عشق
پہونچی فغان کا جوش جو اپنے بگوش برق
نادان کہاں طرب کا سرانجام اور عشق
کھولی جب چاندسی اس کمہڑی کا گھونگٹ عاشق
عشق سچ ہو تو نہ معشوق ہو کیونکر عاشق
بن تری دیکھی ہے سب دھر کو اوجڑعاشق
گرہوں افلاک وعقول اور نظر مسون ایک
ہے یاد خرام اسکی میں مجھ کو ہو کبک
بات کے ساتھ ہے موجود ہے ٹال ایک یہ بک
ایک دن رات کی صحبت میں نہیں ہوتی شریک
پہونچے جوتا بہ گوش صداے شکست رنگ
جھونک دی عشق نے جب اس دل بیتاب میں آگ
بسکہ تھا تیری شب ہجر میں بے نور پلنگ
حال درویش یہاں بیچتی ہیں فال کے مول
سلطنت بیچتی ہیں درد کشاں خاک کے مولا
حواس و ہوش تھی اپنے بچنگ نگہت گل
تجھے میں کہاں میں ایجنوں کہ نہ کھینچ پنبۂ داغ دل
مجھے حاصل ہو جو ٹک بھی فراغ دل
آئینہ فلک میں ہے عکس چراغ دال
سیر بہار لالہ زار ان کو اوہر یہ داغ دل
غم ودر دوتاسف ویاس والم سے دلامجھے آہ فراغ کہاں
فروغ می سے نہ کیونکہ ہو وے ایاغ روشن مراد حاصل
پنہاں دلمیں اور ہاتھ میں ہیں لاکھ داغ وگل
کیا ہوا درپہ ترے گرچہ ہے ابجد کا قفل
جس زمیں پر ہوں تری کشتہ دیدار کے پھول
جس زمین پر ہوں تری کشتہ دیدار کے پھول
پہلے ڈٹک سے ساعد نازک بدن کی بیل
کیا ہوا درپہ ترے گرچہ ہے ابجد کا قفل
پہلے ڈٹک سے ساعد نازک بدن کی بیل
چتون کہی دینے ہے مفصل خبر چشم
سادگی کا تری یا جلوہ گر یکا عالم
سج گرم نگہ گرم ہنسے گرم ادا گرم
بس دیکھو لگاوٹ سے نہ تم ہوگی ادھر گرم
مل مجھ سے اے پری تجھے قرآن کی قسم
چاہتا ہوں تجھے نبیؐ کے قسم
ترک کر اپنے ننگ ونام کو ہم
دل کی بڑایچ نہیں ہے ترک تازی کا مقام
وہ دیکھا خواب قاصر جس سے ہے اپنی زبان اور ہم
بادل آے بجلی چمکی مینہ کے ڈریڑی پڑتی ہیں
ہیں یہ مژگان اس نمطردام ہوس کے ٹٹیاں
کچھ نگاہیں تری ایسی ہے ہنر سے لڑیاں
وہوم اتنی ترے دیوانہ مچا سکتے ہیں
یوں بگڑ نیکو فرشتے سے بگڑ سکتے ہیں
آپ سو روپ سے گوروپ بدل سکتی ہیں
شرائی مینہ کے ہیں یہاں دل گرج رہی ہیں
کھینچ لے کاش وہ پری اپنے مجھے لحاف میں
کیا ملا ہم کو تیری یاری میں
یہ کسکا ہے غبار خاطر مایوس شیشہ میں
اوتاراس چاند کو اے رند عالی ظرف شیشہ میں
نرگستسا نکی بھی ٹک دیکھو پہن آئینہ میں
کیسی ہے کھوں نہ ہم میں تم میں لڑائیاں ہوں
جس سے کہ چپکی چپکے لاگیں لگائیاں ہوں
جاڑے میں کیا مزہ ہو وہ تو سمٹ رہی ہوں
گر آپ روپ ہم سے باتوں میں ٹک کڑی ہوں
کمر باندھے ہوئے چلنے یہ یہاں سب یار بیٹھے ہیں
خلوت میں فائدہ کیا اغیار سب بھم ہوں
پہنا کر چب نگاہ سچ دھج جمال طرز خرام آٹھوں
چشم دادا وغمزہ شوخی وناز پانچوں
سپر چشم صبر دل دیں تن مال جاں اٹھوں
دس عقل دس مقوے دس مدر کات تیسوں
تمہاری ہاتھوں کی انگلیوں کی یہ دیکھو پوریں غلام تیسوں
کہتے ہو تم تو دم لے پری ہٹ ابھی نہیں
جب تک کہ خوب واقف راز نہاں نہ ہوں
چمک ہے یہ کچھ اس اودی دوپٹہ کی کناریں
حیف ایام جوانی کے چلے جاتے ہیں
گاہے گاہے جو ادھر آپ کرم کرتے ہیں
بنگ کی جلوہ گری پہ غش ہوں
یہ نگہ یہ مونہہ یہ رنگت یہ مسی یہ لعل خنداں
اے دود جگر بنکے سرافیل کے گردن
عنقا ہے اجی طائر افسوس کی گردن
توڑونگا خسم بادۂ انگور کے گردن
یہ آپ حسن پہ اپنے گھمنڈ کرتے ہیں
وہ جو شخص اپنے ہی تاڑمیں سوچھپا ہے دل ہے کے اڑان
کل وہ یہ بولا مجھ سے ہنس کر چاہ اری کچھ کھیل نہیں
نرگس لے پھر نہ دیکھا جو آنکھ اٹھا چمن میں
آج وہ جلوہ فروز اپنے جو منظر میں نہیں
ہے نھان لطف وکرم چین جبیں کے تہ میں
ہے ادا کونسے جو اس تری اف اف میں نہیں
لیلیٰ ومجنوں کی لاکھوں گرچہ تصویریں کھینچیں
جب ہوئیں پریاں ہوا کہاں کو کھڑیاں باغمیں
یاس وامیدو شادی وغم نے ہوم اٹھائی سینہ میں
تفضلات نہیں لطف کی نگاہ نہیں
دیکھ کر ایک دو جنونکی رنگ رلیاں باغ میں
جس پر کہ ترا سائہ دامان قبا ہو
زمیں پر رکھتی یہ تسبیح والے کچھ کدھب ڈگ ہیں
بس ہوچکے آغشتہ بخون دست وگریباں
رکھتاہوں دیکھ برسر خیر اپنے یار کو
کھ بنھئے صاف اس سے یہ دل جس سے نہ واہو
چھیڑنے کا مزہ تب ہے کھو اور سنو
لہرادیا صبا نے جو کل سبزہ زار کو
کام فرمائی کس طرح سے دانائی کو
اپنے پھر کھبو ہمارے پہلے ٹک سنلور ہو
جوشش قلزم احد دیکھو
ضعف آتا ہے دل کو تھام تو لو
مرتا ہوں اجی ربان سے بولو
دے ایک شب کو اپنی مجھے زرد شال لو
کوئی اس دام محبت میں گرفتار نہ ہو
بیکلے سے تری کچھ دل کو سروکار نہ ہو
لو فقیروں کی دعا ہر طرح آبادر ہو
حق تعالی کی طرف سے جسے امداد نہ ہو
فائدہ دل سے تڑپ چھٹ جس سے کچھ حاصل نہ ہو
اے آہ قیس پردہ مخمل کے بند باندہ
اے دو واہ رات نہ ہنڑی وہ بند باندم
اس شعلہ رو کو ہو وے جب آہنگ آئنہ
بولی وہ اپنے سروخرامان کو تاڑ باندھ
نیند مستوں کو کہاں اور کدھر کا تکیہ
ڈالی جب آہ نے مری چھاڑ اور پہار باندہ
پرچھائیں اپنے چال کی ٹک سونہ کو موڑ دیکھ
تو مجھ سے لگا کہنے کہ چل ہٹ کے پرے بیٹھ
ہے مجھ کو ربط بسکہ غزالاں رم کے ساتھ
کیا کام ہم کو سجدہ دیرو حرم کے ساتھ
مونھ دیکھو حور ہووے جو ایسی پہن کے ساتھ
داغونسے ہے یوں یہ دل بیتاب شگفتہ
برق کو چھیڑ قدم معدن سیماب پہ رکھ
رکھتے تھے جو فقیر اپنے یقین پر تکیہ
کیوں نہ پھر شاہ پہ غالب ہو گدا کا سایہ
اے عشق کیا مہیب ہے سرکار کے شبیہ
دکھلا نہ مجھ کو یوسف یعقوب کے شبیہ
رود ہو مٹامرقع ناسوت کے شبیہ
لکھی وہ میری اس دل بیتاب کی شبیہ
کھینچو کے داغ سینہ مایوس کی شبیہ
دو شالہ کیا ہم نے کس گل کا دستہ
پڑہ آئینہ میں شاعر مرتاض کے شبیہ
کسی سے اٹھ سکی کیا مجھ جلا وطن کا بوجھ
جگر میں ہوگئی کہا کر تری سنان نگاہ
ہیں آپ جیسے یوسف کنعان بعینہ
لگا کر گلی رفع دلکے طپش کے
کی جو شرما کے اوٹ تکیہ کے
کل بادبھاری تی سوٹکری گلابے کے
شب خانہ رقیب میں تا صبح سوچکے
غیر کے ایک اشارہ پر اٹھ گئے میری پاس سے
چند مدت کو فراق صنم و دیر تو ہی
غیر کے مونڈھی پہ تم جو ہاتھ جو دہر بیٹھ گئے
کل بھی محفل سے تری ہم نہ ٹلی بیٹھ گئے
سبح یہ آفت تری یہ دھج یہ خوش اندامی ہے
سبزہ کیا خاک شہیدان سے تری خاک اوکی
برق شعلہ زن چمکے ابربھی خروستان ہے
طپش دل ہے سی ہم ملکی گلے بیٹھے ہیں
پی تعظیم اشک اسطرح آہ سرداد ٹھتی ہے
کب چاہوں ہوں میں صرف ملاقات کے ٹھیرے
آنی اٹک اٹک کی لگی سانس رات سے
کنایہ اور ڈھب کا اس مرے مجلس میں کم کیجے
جہان میں مثل تیمور اور بابر محتشم کیجے
فقیروں ساتھ یہ تعظیم لنبی خرچ کم کیجے
آتی تھی ایک جور مجھے دیکھ ہٹ گئے
نگہ ہے اس پری کی سحر چتوں ایک آفت ہے
بھبو کا روپ سج دھج قہرافت چلہبلا ہٹ ہے
نکلے ہی خون ٹھر ٹھر دلکی ہر ایک خراش سے
ہے اور کوئی ایسا جس می ںیہ نہیں نکلے
بستے تجھ بن اجاڑسے ہے
شہر سے دل اچاٹ ہے انس نہیں اجاڑ سے
جنونکی رہ نور دونکا کوئی لگتا کہیں دل ہے
دیکھ کر کہنکارا مجھکو اور دیا دشنام بہے
گھپ گئی آنکھوں میں کل جلوہ نمائی تیری
دیکھکر وہ لہلہی گرداوس دہن کے رونگٹے
قسم نہ کھائیو ظالم تو مے کے پینے سے
ہم نے ساقی کی کہیں ہونٹھ جو ٹک چوس لئے
دو چار سنکے تیری سخن ہم کڑی کڑی
مئے پیئے قشقہ دئی کعبہ میں ناقوس لیے
مجھ سے فرمانی لگی اب قدر جانے آپ کی
ٹرپہی ہے نبض کسقدر انگشت کے تلے
آزردہ ہم سے تو ہے جواب اے میاں رہے
خم بغل بیچ نہاں ہاتھ میں رہے جام لیے
دیکھ انگیا میں اسکے گوٹ لگی
رہتی ہیں برنگ بوکوچہ میں رگ گل کے
ایک چھوڑانہ زندہ جان تونے
کل وہ نگہہ اوچٹتی ہوئی یون جو پڑگئے
گالی سہی اداسہی چین جبین سہی
بندگی ہم نے تو جی سے اپنی ٹھانے آپ کی
زلف پہچان نے تری کھو دی یہ رونق سانپ کے
لب پہ آئی ہوئی یہ جان پھرے
کیا چھیڑ ہے کہ پہلے دل صاف تو زپہٹے
دن ہجر کے اب اپنی تو طاقت نہیں بہرتے
دو گھڑی دنسے کہا مینے کہ کیا ارشاد ہے
اگر یہ ڈھب نہیں ملتا کہ اس رخسار کو ملئے
تروتازہ دیکھ کی آپ کو یہ گلوپنہ اس سے پڑگئی
غیر کے لے جوران میں چٹکے
انکی دو مجھ سے کبوتر کے جو چوڑی اڑگئے
گلی سے تیری جو ٹک ہو کے آدمی نکلے
کب تک کری دو واہ کا تاثیر کے بھرتے
کیوں دعا اپنی نہو باب ظفر کے گنجے
سافیا آئے ہیں بادل یہ بڑی پانے کے
واقف جو ہم نہیں ہیں اس بزم میں کسی سے
مجنوں پہونچ شتاب کہ آفت میں قوم ہے
اف اس طپش سے بن منیہ تن کب تلک سجی
لے نشہ میں تجھے جب یوں قدح بنگ اوڑی
مل خون جگر میرا ہاتھوں سے حنا سمجھے
پردے وہ جو ٹک ہو خفا رک گئے
کیوں نہ وہ پردہ نشیں پھر مجھے سمرن مارے
دیکھ اسکے پرے خاتم یاقوت میں انگلے
کیوں نہ پھر اسکے لگاوٹ کی مجھے دھن مارے
غنچۂ گل کے صبا گو دبھری جاتی ہے
پبتھی تری مکڑی پہ مجھے حور کی سوجھی
زمیں سے اٹھی ہے یا چرخ پرسے اتری ہے
یوں چلی مژگان سے اشک خونفشان کی میدنی
پگڑی کسی سے جادی نسیم اور صبا بند ہے
اے چرخ نہ لکھ قیصرو خاقان پہ چٹی
اٹھتے ہے اپنے دلسے کچھ ایسی ہے ہوک سے
کاش ابر کری چادر مہتاب کے چوری
کسیکی پری کی ہنسی دل پر اپنی کچھ لہن جائے
یہ کس سے چاند نے میں ہم بزیر آسمان لپٹے
گلی سے تبرے کدھر کوئی اہل دل لپٹے
کہا لیلٰی نے کچھ شعلے سے جو اسکو نہاں لپٹے
دامن اگر نچوڑی جیون ٹپک پڑے
جنونکی دیو سے کیا عوج مضمحل لپٹے
ضیا میں نور سما جاے ظل سے ظل لپٹے
اشک مژگان ترکی پونجے ہے
صاحب کے ہرزہ پن سے ہر ایک کو گلہ ہے
ہے مستعد کہ وہ لب سیگون ٹپک پڑے
کب وہ آزاد بھلا مورد تحسین ہوئے
سانولے پن پر غضب ہے دہج بنستی شالکی
جو نسیم صبح لپٹ گئی کسی گلکی دامن پاک سے
ان انگلیوں میں قول کے پہلےنظر پڑے
بھلے آدمی کہیں بازآری اس پرے کے سہاگ سے
یہ جو مجھ سے اور جنون سے یہاں بڑے جنگ ہوتی ہے دیر سے
آج بجلے سے بنی ہفت طبق سے سونپکے
تک ایک اے نسیم سنبھال لے کہ بہار مست شراب ہے
نہ تو کام رکھئے شکار سے نہ تو دل لگائی سیر سے
ہے جبیں قفل خانہ خمار توڑئے
ہے یہ تو کیا کہ آپ کے دیوار تورئے
پیسے کے چوٹ سے سرکم ظرف توڑئے
یہ کیا کہ انکے دل کو نہ زنہار توڑئے
بوسہ جو دیتے نہیں مجھ کو تو چھڑکے ہے سہی
پہلے عصا کے واسطے ایک تاڑ توڑئے
جتنے اڑیان تھی بڑی انسے اڑے مینہ کی لگے
زنہار ہمت اپنی سے ہر گز نہ ہارئے
وہ پری ہے نہیں کچھ ہو کے کڑی مجھ سے لڑے
ایک پھر پری جو ترا خاک بسر لیتا ہے
اپنے کولے میں مگر رات کو بپھر لیتا ہے
گھیر شاخوں کو جو کل زخم تبر لیتا ہے
اے پری تیری مزی ایک بشر لیتا ہے
عیان تیری وصل میں بھی دم سردہی ہوئے
ہیں جو مروج مہرو وفا کی سب سر رشتہ بھول گئے
دلمیں بدولت ااپ کے ایک درد ہی سوہے
یہ پیاس اپنے بجے برف سے نہ شوری سے
ہے آنکھوں پہ ساقی کے مے ناب کے پہتبے
یارب ترا ہے ذکر یہاں جب نہ تب رہے
تمہارے ہاتھ سے ساقی جو شیشہ توت گئی
پگڑی تو نہیں ہے یہ فرانسیس کے ٹوپی
جی چاہتا ہے شیخ کے پگڑی اتارئے
نشہ میں آکے جو شب مرشد مغان سے لڑے
کیا چیز بھلا قصر فریدون مرے آگے
کرڈالو نگا دیوار بھی پھاند کے ٹکڑے
ہونی نہ تھی سواے دل پردرو ہوگئے
گرمی کے جو شکوہ تھے سب گرد ہوگئے
بھری وہ آتش عشق اس دل نگار میں ہے
مت ہاتھ اٹھا اپنے تو بسمل کے گلو سے
عجیب لطف کچھ آپ کے چھیڑ چھاڑ میں
معلوم نہیں روٹھی ہیں کس آئنہ روسے
چین آدمی نہ کیوں ایسی پریزاد کی بوسی
یہ نہیں برق ایک فرنگی ہے
ہو تو بہ شکن آج دلا تو سر تو سے
شب خواب میں دیکھا تھا مجنوں کو کہیں اپنے
مل گئے پر حجاب باقی ہے
یہاں زخمی نگاہ کے جینے پر حرف ہے
دیوان ریختی
جب سے کہ سامنا ہے اس چاہ کی گلے کا
چوٹی یہ تری سانپ کی ہے لہر دو گانا
کروں بستا رکیا اپنے دو گانہ کے رکھا نیکا
اللہ کرے سلامت جم جسم یہ رہے پیڑا
آگ لینے کو جو ائیں تو کہیں لاک لگا
تمنے پر بیتے کہانی بنیڑے انا
ہاے پھلپل آنسو کے بدلے نکلی نکیو نکراس تیرے
تھام تھام اپنے کو رکھتی ہوں بہت سا لیکن
ترے مہر گر پڑی تواری سرنہ تھام اپنا
رنگ ہے آنکھ کے تیلے میں اسیکا جھلکا
بیگما میں بری ہوں تو بھلا تجھکو کیا
تو قیامت بے سری ہے حد برا تیرا گلا
چلتے ہے یہ تو نگوڑی مجھے بھاری انگیا
تم نے جو میرا اوڑھا دوپٹہ ہے یہ دوگانا بات کڈھب
کوٹھی پر سپر ٹیونمیں یاکہ منڈیروں سے ادھر
لہر میں چوٹی کی تیری ڈر کے مارے کانپ کانپ
بس بلائیں نہ لے میری چٹ چٹ
مردوں سے پرچ تو مت حسن ہے پرے کم بخت
سانس یہ ٹھنڈی ٹھنڈی کیا راتوں کو بھرتے ہو عبث
ساری بھو تونسے پری ہے یہ موافو جاخبیث
کوئی چاہت میں کسی شخص کے بدنام ہو نوج
صدقی اپنے نہ ہو اسکی کوئی قربان ہوں نوج
کیا کسی باغ میں ہے آج پڑی سوتی صبح
کھلکھلاتا ہے مرے آگے جو ہو کر گستاخ
بیگما چاہ کے دریا کے بڑی پاٹ کو سوچ
ہے تو سہی اجی یہ نکیلا ازار بند
میں تری صدقہ گئے امی مری پیاری مت چیخ
مینے جو حوض میں ایک موم کی چھوڑی بطخ
جاڑا لگے ہے کھینچ لے مجھکو لحاف میں
تیرے ازار بند کی کیا بات ہے پرے
اجی کس ڈول سے بن جائے ہے گھوڑا کاغذ
اے دوگانا مجھ سے کشتی کھیلنے کا ہے گھمنڈ
کیا پڑی پھرتی ہے اسکی ہر طرف رف رف نظر
جاکی کیلون میں چھپو سب سے اکیلے ہو کر
چیلی ایک جوگی دیکھی ہمن نے ایسی لنڈ منڈ
دن میں سو بار بچھا بیٹھے گرجاے نماز
خانمی چاہ ہے وہ جھاڑ پھاڑ
کوئی کمبخت ہمارا نہیں ایسا دل سوز
نہیں زیور کے کچھ پہبن پر غش
گود پھولوں سے پھری میری دوگانا شاباش
باجی کی باس میں جو رچی ایک جنی کی باس
کب زنا خی مری پاس آئی تھی کل رات غلط
کام کسی پھول سے یہاں نہ کلی سے غرض
مت دیا کر نت نئی ہر روز یونہیں دم غلط
بیگما جی ہے یہ چوٹی دار آہوں کا دماغ
نہیں یہاں کسی آشنا کی توقع
ہم نے یہ دیکھا ہے ایک میلے کچیلے کا دماغ
بیگما چاہ بھی پھاڑ ہے ایک
نہیں جاتی کہیں مہمان مری دلکا شوق
مینے دیکھی ہے اسکی کان میں لونگ
بیگما جس طرح ہوتی ہے جو انیکی امنگ
سینہ پہ میری اپنے کھلی سر کے بال ڈال
ارے بے ایک ہے عیار ہو تم
پھولوں کی اندنونمیں لچھن سے مہڑرہی ہیں
میں تو کچھ کھیلی نہیں ہوں ایسی کچی گولیاں
تھیں تو پردہ والیاں مجھ کو پرے ہٹ بولتیں
ہے اندنو نمیں اونکی جو آواز ڈوک میں
ایری دل کچھ او نہیں تیری خبر نہیں
کیا یہ چھڑگھا نیکی باتیں آکی ہم سے چھیڑیان
بات وہ لائے کم بخت جو چت چاہے تو
نگوڑی چاہت کو کیوں سمیٹا عبت کی جھک چھوری چھبیلی کو
بلا سے اگر آئی ہو لے کھارو
ادھر آونہ سٹاؤ
جی ہے کچھ رکھتی نہیں ڈھیڑ میں نری پولی ہے توا
ارے موتی ادھر آتو
کوئی نہیں آس پاس خوف نہیں کچھ
میں تیری صدقہ نر کھ اے مصری پیاری روزہ
یہ گھٹا رات کو چھائی کہ آلہی تو بہ
نہ کہیو پھر نہ کے اللہ اللہ
کلی دلکی بھلا کیوں چٹکیوں میں وہ مسل ڈالے
کل ایک گھر میں حوب سے چھوٹی بڑی لڑے
جو دلکی آرسے کو ہمارے جلا کرے
ہزاروں دیو در کو پھانکی پریوں نے پچھاڑا ہے
چلو سیر باغ کو بیگما ہوئی ہیں درخت ہری بھری
اس گھڑی ایک دھیان میں ہوں آپ کے میں بولتے
یہ کیا تجھے ہے خواہی نہ خواہی
یوں جھکا مجھ پہ کوئی رات کا جاگا جیسے
اوکی چکی تو کبھی چونک کی بھی سیر رہے
مینے جو کچھ کچا گر کل اونکی ران کاٹی
وہ تو کسی میں نہیں آپ میں جو بات ہے
آج وہ بات سہی جسمیں تری کل کل جائے
یہ اتفاق ہے نہ بنی یا بنی رہے
دنیا ادھر کے گواو دھر کو جاے
کوئی کچی ہے گھنی ہر بات کا پکا تجھے
سچ کہوں بات جو بری نہ لگی
پڑگیا نیل میری گال میں کیا قہر ہوا
سیدھی لوگوں سے بھی رکھتی ہو کچی بے سینی
رات بھر اپنا ترستا ہی رہا جی باجی
چونب کیا ہو جو کسی سے کوئی ہر روز ملے
چبھتی ہے یہ نگوڑی مسلسل کے اورہنی
جو مخالف تھی چمن کی وہ ہوا ساری گئی
دودھ میں خوب گھول نو سادر
لگا دی شمع کے پیندے پہ شیشہ کا چپٹا
اے بی بی ہیں شاندار بھائی تیرے
کھینچ گو داد یا سلائے کا
دمبدم جھوٹ کے یہ مفت بھیارد نے دیگر
مشفقا مدّ ظلہ العالے
لکھے جو خط عرق سے لیموں کے
خان سمو المکان سلمّہ ربّہ
گڑسے لکھی جو ایک وصلی پر
میر زا صاحب الطاف نشان سلمہ
نسبت وہ جو آرام سے ہے ہاتھ کو سوکیا
عرق لیمو آدھے شیشہ میں
اے خدا وند مہ ومہر وثر یا وشفق
آغاز دیوان غزلیات وقصاید ہندی درحمد
قصیدہ درمنقبت حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام
ذوالفقار اوس شہ دین کے ہے باحقاق آتش
دارم آہی کہ بود جملہ صفا تش آتش
قصیدہ در منقبت حضرت امیر
قصیدہ بی نقط درمنقبت حضرت امیر المومنین المسمٰے بہ طور الکلام
کورار کورار کو لارادل کو رو کلکوارہ
اشعار ترکی
اشعار عربی بکمال درستی ترکیب نحوی
ادھر کو داورس مور ہو اگر وہ امام
ایک مصرعہ در عربی ومصرعۂ دویم درفارسی
ہوالامام واہل لو لاء عسکرہ
مطاع دھر ہو حلال ہر معاملہ ہو
نوع بشرمیں تھی نہان آتش وباد وآب وخاک
قصیدہ در منقبت حضرت دوازدہ امام علیہ السلام
ہیں یہ بسان طائر ان آتش وباد وآب وخاک
قصیدہ درمنقبت حضرت امام المتقین تامن آل عبا حضرت امام علی موسی رضاء
اے بفرمان توارواح ونفوس
ساقی کوثر نمی خواہد کہ باشم تشنہ کام
قصیدہ در مدح الماس علیخان بہادر
ایکہ انبازت بنا شددرمیان روم وشام
اے خبیث آفتاب وچہرہ ات ماہ تمام
اندرین عصر اگر حضرت لقمان باشد
قصیدۂ در مدح بادشاہ عالی گھر
جشن و نشاط وخوشدلے وعشرت نعم
ستجمع المکارم وستحسن الشیم
ہے تجھ میں وہ کمال کہ ہم لوح وہم قلم
اے رفعتت زر تبۂ گدون ہزار چند
قصیدہ فارسی در مدح شاہزادہ سلیمان شکوہ
لعزم وجاہ وجلال وشکوہ وضبط ونسق
بگفت نیر اعظم بابر و برق وشفق
جرعہ مے بیا وراز اشفاق
ایضاً قصیدہ در مدح شاہزادہ سلیمان شکوہ
اے سراسر تلطف واخلاق
ایضاً قصیدہ درمدح شاہزادہ سلیمان شکوہ
عازم جنگ ہو جس لخطہ تو گلگو نکوڈپٹ
ہمای اوج سعادت بہ کنگراقبال
قصیدہ المدح جناب عالی متعالی نواب یمین الدولہ ناظم الملک وزیر الممالک نواب سعادت علیخان بہادر مبارز جنگ
جلوس کردۂ امسال وسال حال الحال
تو ان دلاوری اے شیر بیشۂ اجلال
ایضاً قصیدۂ جلوس میمنیت مانوس جناب عالی متعالی نواب یمین الدولہ ناظم الملک وزیر الممالک نواب سعادت علیخان بہادر مبارز جنگ
کیوں نہ بخشے تجھے پھر شاہ ولایت پرچم
نظر آئی مجھے کل باظفر وطلوع وعلم
شاہ ایران یہی لکھتا ہے تجھے عرضی میں
سامنے تیری جورستم بھی کبھی ٹھونکی خم
کیا چیز دیو مرد سخندان کے سامنے
ایضاً قصیدہ مدح جناب عالی متعالی نواب یمین الدولہ ناظم الملک وزیر الممالک نواب سعادت علی خان بہادر مبازر جنگ
حاضر ہوا ہوں یوسف کنعان کے سامنے
سحر بھارنی خوشبو میں اگئی یہ لپٹ
قصیدہ در مدح دولھن جان
قصیدہ در سالگرہ بادشاہ ولایت انگریز بہادر مشتمل بر تعریف گونر بہادر
بگھیان نور کے طیار کراے بوے سمن
اہ سکی یوں فرق یہ ہے تاج مرصع کی بہو
بیٹے جب تخت پہ تو وقت سخاوت بن سہن
روح القدس در راز کشد بر کلیم ما
اے عشق قطع کردہ رہ سلبسل را
آغاز دیوان فارسی
مشرب رندانہ میداریم و سیجو شیم با
چنان افگند آہم ور تزلزل عرش اعظم را
دلا خونا بہ کن آہ دفغان را
برواے دخت رز براے خدا
بشمیم بادہ مستم بسر غرنرآفا
چو خلاف عقل دیدم رہ درسم کا رخودرا
صد ہزاران عقد ہا بکشودہ است
غلطیدن من بردر میخانہ ضرور است
دارستگی نگر کہ مقید بہ ننگ نیست
رودخونم زچشیہا جاری است
بھر مردن جادۂ کش قیس مرگ آمادہ رفت
حاصل زگریہ اے دل خانہ خراب حسیت
میر وی خانہ چراباز بیا ابر کہ نیست
خال برابرویت کہ رقاص است
اپخہ درباۂ من شد نہ چنان میبایست
چنان شداست بہ بزمی کہ شوخ حرف ردہ بہت
گر مصرعی زآہ حزیننے کنم طرح
شب امید وصل رابا غم جدل افتادہ بود
از انجمن چوآن ستم ایجاد می رود
ازبادبہ قیس چو جمازہ بد رزد
بصد بہانہ کسی راکسے نمے پرسد
تو بین کہ شورش من چہ قدرنمودارد
گام نختین وچشتم از سدرہ بالا تر زند
زاتوای کریم خلقے بعطیہ شاد باشد
بادہ نوشان کہ بھم انجمنے ساختہ اند
جماعتی کہ بانور حق ہم آغوشند
دیوانہ ام کہ عمری بادوستان بسربرد
بھاربے توبرنگ پریدہ میماند
کج وداکج نشتنش نگرید
عشق ازکجاست حوصلہ ام درنمی رسد
عرش اعلی بہ پایہ حیدرؑ نمی رسد
بھر دل دیوانہ من سنگ یگرید
محققانہ فغانیم چو لغرہ حق زد
نگاہت رنگ مستی بردرمیخانہ مے ریزد
عاشق سبزہ رسنگ باید شد
ہیچ چیزم بغیر درد نماند
ترک سن زیزذقن چونکہ بتر میگیرد
جشن شاہانہ باقبال مبارک باشد
بقضیاے کلواوا شربواز یزم حضور
گر عشق زعفران صفت چہرہ زرد کرد
خود دت اربیان نساری بصبات پرسم آخر
گر بفرق خویش وارد از مرضع شاہ چتر
کج واکج نگہ وچین جبین بھر چہ چیز
ہان اے سپہرایل دلانرابداغ کش
دہ چہ بنگے زدم کہ ہیچ میرس
ازطوف حرم یافتہ انداہل فرادیس
میخواست اشکم در چکددردیدہا گرداندمش
ہزار غمزہ بقربان ہر نگہ ہتش
تو نمیگوئی بیا ور زرد گر ساغر نبوش
ماشکوۂ زحال تباہی نکردہ ایم
باللہ کہ سخت بیقرارم
کہ وار دشوخ شنگی داد بیداوی کہ من دارم
راز نہ نھفت بلے می دانم
شرکت زمرۂ میخوار کنم یا نکنم
بچرخ چارم آدامیر سانم
ہر چند از جواہر واعراض عالمیم
انوار حق دانسان دیدم ندیدہ لورم
ناطرف بادہ نگھ مے کنیم
اکثر رموز مستان دیدم دلی نگوپم
شوخ محبوب ترامے دانم
ازخدایم این دعا پیوستہ باشد ہرزمان
برقصد زہدو قطع ازان ماہ پارہ ہم
اے جنون باش اضطراب مکن
اے اشک شعلہ ریز بھرتار آستین
اشتلم بنیاد کردی تاکجا ہا این ہمہ
دورۂ سد رہ در گرفت ااہ جگر خراش من
در پری خانہ آئینہ گرفتار مشو
اندرین موسم باران وہواے جنکے
آشنا نیستی از نالہ شبگیر کسے
دشت زنگاری وابرست وہوا سیمابی
میکشی با چنگ وتی اے کافر آے
بہ ابر وخال رایک ربط اخلاص است پندارے
بے دردتاسفے ندارے
واے اے شوخ جلوہ گررفتے
صف مژگانش قہر وچشم خونریرانست پندارے
داردآہ جکرم دردنھانی درپے
ایہا المحمود یارب الفلق
مثنوی شیر وبرنج
ایہا الساقی بکا سات الرحیق
فی الخطاب الی الساقی والخمرواشتعال النیران والجمروتفریح المزاج بحکایات لیلۃ المعراج
ایہا المشغول فی فکر العیال
فی ذم الفقہاء واہل الریار وترغلیہم الی منازل اہل النہی
فی ذم الحکماء والمطقین والتحریص فی مشرب اہل القین
نیستت شرمے زوزن موی ریش
فی ذم اہل الدنیا واشیا عہم وترد دھم واوضا عہم
تابکے باشی چنین زار وزبون
فی حکایت شبلی علی سبیل التمثیل والد عوۃ الی خیر السبیل
اے یکی برخوردہ بارندی بدشت
ایکہ گستردی بسان عنکبوت
فصل فی النصائح وانواع القبانیح
تذکر الرحمان اقسام الطہور
التسنیہ من الغفلۃانہ من اعظم الحمرہ
حکایت عابد ونیت التاجر والا بلیس ذوم الریاوالتلبیس
آن شنید ستی کہ دار اطراف مرد
حال ان دیوانہ تا از دور دید
دیدن درویش رند شراب کش را
حکایت اجتماع الخلایق للا ستسقاء فی حالۃ الحزی والخذلان و رجوع السططان والوزراء والا مراء فی جناب اللہ المستعال
راوی گفت است در عہد سلف
عارفے ورزمرۂ نقالھا
حکایت ابدال الذی کان نبلسا بلباس النقال فصار اسد فی محفل السلطان واکل ابنہ فی شباب الریعان واحیا بالکرامت والعزفان
فی الموعطۃ المتمکنۃ من تفسیر قولہ تعالی فی السماء رزقکم وما تو عدون فورب السماء والارض انہ الحق مثل ما انکم طناتقون
خویش راور فکر رازق سازگم
فصل فی حکایت الجاہل حین سماعۃ ہذہ آلایات المذکورۃ المسطورۃ
شرح این آیا قرآن فاضلی
ایکہ ہستی درعبادت سخت سلست
فصل فی تنبیہ مصاحبۃ العوام وترک المجالسۃ باللئام
فصثل فی حکایۃ ضرغام الاجم ونسیان بئتۃ الاصلیۃ من صولۃ محمع انغم
اتفاقاً مادہ شیری بچہ دار
حکایۃ سلطان الممالک المرمد السالک وزوجۃ المتعقدۃ لرجل و مکابر تہما مع کمال الایضاح
درشب معراج بر عرش برین
حکایت نوم الاویس علی عرش الجلیل وتفتیش النبی من احوالہ عن الجبرئیل
دی کسی میگفت بامن زاہل درد
بود آزادی کہ ازا فراط جوش
حکایۃ الرجل من الاخبار الاخذ الکئوس من امواج البحار
زان مجرویاد واری قصہ را
حکایۃ العرب وسیلہ الی الہواء وشروعہ بالاستمناء وندامۃ بمایرے
قصۂ آن کورو اکمہ گوش کن
حکایۃ رجل اعمی صاحب العرفان مع الاکمہ المسبحون فی الحرمان والخذلان
قصۂ آنراشنیدی کو مدام
حکایت رجل مقلوک رجع فی الحرمان الی الشیطان فصار الشیطان فرسا واشتراہ رجل فصار فی ہیئیت الفارکسر ذنبہ اذہو ذنب الحمار
حکایت امرأت من القواحش
جو لقی میگذشت از شہر شام
تاجری مے آبداز جرباد غان
حکایت سلطان المغرور والصبی والغابد والحور
ان حسن سروخرامان بہشت
فی بیان خلق الحسن المتمثل من قصۃ الانام ابو محمد الحسن بن علی علیہ السلام
ایھا الجمال فم بامرشدی
خاتمۃ الکتاب المستطا مع کمال الاداب وخایت الخضوع والخشوع جناب جمال الشوق المطرب الذوق وساقی الوجد وصہباے المجد
ممدوخ امم رسول اکرم
الحمد لمسکر السکارا
مثنوی بی نقط ولوحہ سرخی نیزبی نقط وہم لوحہ موزون
لوح سمر سلام وسلما
دار اعلم ومکزم ملک
اومحرم در گہ معلاً
نوحہ در مدح مالک گاہ
لوحۂ در مدح حاکم عصر
حلال ہمہ امور اسرار
درلوحہ دعا احاطہ کردم
لوحہ در مدح اسم والا
در اسم موسس ومکمل
عمر صد سالہ دہ الھم
راس الحکما دسردرما
لوح سال کلام مسطور
در در سلک کلام کردم
للہ الحمد کو دلم داد
رو در حرم آلہ آرم
حمد خدا وند و حوش وطیور
مثنوی شکارنامہ کہ حسب الارشاد جناب عالی متعالی در سفر دہر ہرہ بقید تاریخ بطریق روز نامچہ نبوک قلم آمد
تاکہ بزد خمہ زرین طناب
در تمہید کلام
درتعریف خیمہ وخرگاہ و نوبت ونقارہ وما تیعلق بذالک
از مدد شیر خداے دود
اینکہ کنون میگذر دور شمار
در تعریف حضور پر نور
تاکہ بزد خیمہ زرین طناب
اشرف خیل وزراے زمان
نہضت رایات عالیات
قطعہ در تاریخ
فوج ظفر موج باین عزو جاہ
خود چو براسپ عربے بر نشست
در تعریف اسپ
شوال ارہ جیر تپانم اولہ
شعر ترکی
مثنوی درہجوز ٹبور
ان بھڑون نے کیا یہ ابکے فہر
قطعہ درزبان اہل برج
ایک جو بھونبرا بھڑون نے گھیر لیا
مثنوی در ہجو کھٹمل
کچھ یہ کھمل بڑے ہیں ابکے سال
مثنوی در ہجو پشہ
مچھر ونکو ہوا ہے ابکے یہ اوج
بکہان ابکے یہ بڑھن بے ڈول
مثنوی در ہجو مگس
حکایت
مرد تھا ایک ایک تھی رنڈی
مثنوی ابتدای کلام ور تمھید شکایت زمان نافرجام
کرون کیا جور گردون کے شکایت
متکلم شدن بساقی و بیان امراتفاقی
دربیان حسرت جدائی ونارسائی
محبت جس سے ایک پیدا ہوئی تھی
شراب تندوی ایسی ہے ساقے
بیان ملاقات اول وتعریف دلستان
گئی آنکھوں تلے بجلے سے اک کوند
در تعریف اعضا
یقین ہواسکو جو دیکھے وہ پستان
دربیان مہاجرت بعدارصحبت یکمیاہ
ملاقات بارسوم ویکجا ماند تایک ماہ کامل
یہ آیا سوچ ایکدن بیٹھے بیٹھے
حقیقت کے نہ پوچھو بعد چندے
ہوا مدت میں جو پھر وصل دلدار
ملاقات بار دیگر
وہ شکل آنکھوں میں اپنے چھا رہی ہے
دربیان بیتابی فراق وبیان اشتیاق
صدقی آنکھوں کے تیری ساقی
مثنوی فیل
اس کام کا پڑگیا جو سایا
بیان متحیر شدن جانوران
نظم فارسے براے تفریح اہل فارس
در وقت سعید وساعت سعد
ایک تھی بٹیا سا ہو کار کا نام تھا اسکا گیان چند
در ہجو گیان چند ساہو کار
اشعار متفرقہ
رباعی فارسی در صنعت تجاہل
جواب در صنعت تجاہل مذکور
صیغہ نکاح من حیث المحموع بلا تکلف دریک مصرعہ مرقومہ بالا موززون شد
قطعہ دوم
مقطعات در معرفت زبان پشتو
ی بکسریاء تحتانیہ ہستی مے شود
بہ سلک نظم کشم رسم خط بشتورا
ود ذرا توسیل میدان بست لٹکی مے شود
ڈو ڈی اخوڑا بخور نان کنہ نبشین ساراستا
رفت الماس علیخان طرف ملک بہشت
قطعہ در تاریخ رحلت الماس علیخان
گروہے راکہ خود ایز تعالے
تو اے نسیم سحر گہ زجانب انشا
دوازدہ صد زسال ہجرت گذشتہ بود و دوازہ
قطعہ تاریخ جادس جناب عالی متعالی مد ظلکم العالی
مرد ہی نتھو کے دولت چرخ کی مسجد کے بیچ
قطعہ تاریخ مسجد سالازبخش
بخدا کہ غائبانہ در خیر سفتم آغا
سالار بخش اینجار قاصہ السیت در شہر
جبکہ کٹ کٹ کے بنادستہ تو بولا وہ درخت
بز نرنے کل پوست کندہ کہا
قطعہ در تہنیت صحت نواب اسعاد تعلیخان بہادر
ہر طرف سرد قبا پوش پڑے پھرتی ہیں
خدا وند ابحق جانشین احمدمرسل
این روزہ لکشاست چہ خوش عید جان نواز
قطعہ در تہنیت جلوس سالگرہ جناب عالی
قطعہ دعائیہ شاہزادہ سلیمان در تہنیت نو روز
از رنج مزاج ناظم الملک
سال تاریخ ازدواج کسے
ناظم الملک رستم دوران
قطعہ در تہنیت جشن نواب ناظم الملک سعاد تعلیخان بہادر دام اقبالہ
ہے لکھنؤ تو حالے واعلی سے ہم عدد
قطعہ در جواب کسا نیکہ باکوفہ لکھنور اہمعدددانستہ طعن می نمودند
تیری نواب جہان تاب کو انشا اللہ
یکہزار ویکصد و پنجاہ ویک بود آنزمان
تاریخ وفات شاہ عالم بادشاہ
شاہ شاہان نادر کشور ستان مقبول گشت
تاریخ قتل شدن نادر شاہ
قطعہ تاریخ قتل عام کہ نادر شاہ درد ہلی کرو
تاریخ جلوس میمنت مانوس اکبر بادشاہ ثانی
قطعات چیستان و پہیلی ہا پہیلی آلہی
شکر از فیض حق باد بہاری و زید
آہ ازان آغاکہ زین العابین نام اوست
نام سبحان رہے الا علے
تاریخ وفات زین العابدین خان مرحوم خلف نواب مرزا شفیع خان امیر الامرا
چیستان بھٹا
چیستان ہزاری
چیستان نام کنہیا
غرض انشا بگوش ہوش شنو
چیست آن چیزایہا الاحباب
چیستان بطور لغزومعما
شتی گھر گرفتہ منارا نیقدر رنجو یش
گر ترا فہم و وقت نظر است
چیستان باران
بود کدام درخت آن عصا ے اہل نظر
چیستان گو گرد در زبان ترکی
سوز قل الحول بار بو عربے
اے قایسی انے چیفی موسوزون وما نیست
چیستان بزبان ترکی
اولٹے مرکے ساروپ
واکے عربے تو ہرا دہرم
بو بھل جنے بوکے ترکے
ہے نصف تو اسم ذات کی سی صورت
باس سوباس اور سگری مار
پھارسے اولٹو کو کرد ہو وے
ایضا در تہنیت عید غدیربرے اشاہزادہ مرزا سلیمان شکوہ بہادر لطو ترجیع بند
مخمس در ہندی وفارسی و ترکی و عربی وپنجابی
مخمس در ہندی وفارسی و ترکی و عربی وپنجابی
میں اپنا دل مضمحل بیچتا ہوں
مخمس غزل میر سجاد ابہام گو
وہ جو معمار کا اکڑکے تنا
مخمس قصیدہ مولوی حیدر علی صاحب
رسول حق کا محمد بنی خیرا نام
نال دہد ویکے ساز بنوارد و گوید
درین زمانہ دنیست ہیچکس ہمسر
اور کس کا آسرا ہو سر گروہ اس راہ کا
رہ ورسم حمداوا کرو والم اور درد ہوا ہوا
آغاز دیوان بے نقط
دل اہل ولا کو سردرہوا الم اور ہراس وہ دو ہوا
سو واہ ہو سو واہ وا اوملحد اوگا وطلا
ملار گاکہ سرکو ہسار لال ہوا
موسم گل کا لہلہا سارا آہ گروہ اہل صلاح
دل کم حوصلہ کو گو کہ سدا اور درہا
ہم دم سر کہسار ہوا لہلہا سارا اور مور وہ کو کا
ہمکو آرام ہو دلا کس طرح
اہ کدا کو سدا دو ورع وصلاح
آمد آمد گل ہو اور وہ سادہ روا مرد
حور عروس مدحاصل علے محمد
مدر کہ طمع کھلا آہ ہوا وآہ حرص
ہو دل آرام کا اگر و سواس
ولولہ کر موحدا حال ادھر اودھر سماع
ادھر آسرکردہ اہل سلوک
طور سحر کا دولہہ کا ساحور عروس کا گل سا موسم
آہ موسے وہ طور کا عالم
واہ واسرگروہ اہل کمال
سر گروہ گدا حماک اللہ
لاؤ عروس مدعا کہدو سہاوماہ
سلسلہ گر کلام کا دا ہو
کس کام وہ وعدہ دم دلا سا اور دھوم
دلدار آمد الحمد للہ
نثر درصنعت ایضاً
سماعی است وقیاسی دو قسم زان نقطے
دربیان عامل معنوی
پس ازمناسک تحمید ونعت صل علے
تقسیم عوامل لفظی
خلو فعل مضارع زنا صب و جازم
شرح مأتہ عامل
بدانکہ پنج معارف بود میان عرب
در معارف پنجگانہ
دو قسم ہست الف در کلام اہل عرب
مثنوی مر غنامہ
حمد ہے فرض اوسکے وقت سحر
کرثناے رسول راہ نما
نعت
ہجو میان مصحفی من تصنیف میان انشااللہ خان
قطعہ تاریخ تعمیر حویلی علی نقی خان بہادر کہ اصل مادۂ تاریخ تصنیف
تال کے نہ سم کے نہ سر کے
کہنے مصرع پڑے مجھے لا جم
قطعہ تاریخ دیگر بطور استہزا
خاتمۃ الطبع
سرورق
صنمابرب کریم یہاں تری ہیں ہر ایک یہ مبتلا
اے عشق مجھے شاہد اصلی کو دکھا لا
لاہوت پر نہ یدکھیں جو قدسیان تماشا
کیوں شہر چھوڑ عابد غار جبل میں ٹھا
کچھ یہ مجھے کو یوں نہیں اسکی بہن نے عشق کیا
مجھے بیخودی جو کچھ آگئی تو لپٹ کے یارنے غش کیا
میئے جود جد مین یہاں جیب کو پھار غش کیا
تنہانہ اسکو دیکھ کے محفل نے غش کیا
مکھڑی پہ اوسکی صرف نہ بلبل نے غش کیا
ساقی کی انکھڑیوں نے مجھے بادوکش کیا
گو اسکی جھانک تانک یہ جس تس نے عشق کیا
ایسا ہے ایک رند بسو کش نے غش کیا
رہا ہے ہوش کچھ باقی اسے بھی اب منسٹری جا
جس دم کہ تری محو تجلی کو غش آیا
دیکھنا جب مجھے کرشان بہ گالی دیتا
خیال کیجئے گا آج کام مینے کیا
اس بندہ کی چاہ دیکھئے گا
پر تو سی چاندنی کے ہے صحن باغ ٹھنڈا
جھمکا چمک کا تری اس نمک کا
زلف کو تھا خیال بوسہ کا
ہے ترا گال مال بوسہ کا
فقیر انہ ہے دل مقیم اسکی رہ کا
دست جنون سے اے وای ویلا
ہے ظلم اسکو یار کیا ہم نے کیا کیا
ٹک آنکھ ہے کیا کام ہمارا
رہ روان عشق نے جسدم علم آگے دھرا
اگر ہماری کری کوئی نیند بند جدا
مجھے کیوں نہ آئے ساقی نظر آفتاب الٹا
مجھے چھیڑے کو ساقی نے دیا جو جام الٹا
ہے بند ہا مینہ کے تار کا جھولا
دیوار پھاندنی میں دیکھو کے کام میرا
مینے جو آنشی میں بلبل کا مونھ چڑایا
لیا گر تھل نے مونھ میں دل بیتاب کا کٹکا
اے عشق جلوہ گر ہے خود تجھ میں ذات مولا
جو ہاتھ اپنے سبزی کا گھوٹا لگا
عشق نے مجھ پر اٹھایا اور تازہ اشقلا
پیدا ہوا جی عشق سے جب سنگ میں کپڑا
انھیں بھوک پیاس سے کیا غرض وہ جو قید تن سے ہوئی رہا
کیا جو کھیت آج چاندنی نے مراداپ۔نی یہ چاند نکلا
چل نہ امیر لوں میں جھولیں لیں درختوں کی ہوا
زاہد میرے مولا کی اسرار نہیں پاتا
ہوں کشتہ انکی گجھی اشاروں کے چوٹ کا
غلام میں تو ہوں ان صاحب نکے کی کہرپچ کا
ہوا جب اشک حل بافراغ کا بیٹا
مجھے کیا لایک عرش سے مجھے عشق ہے ترا اے جدا
اتبوا گلی سے طرحکا نہیں گہرا پردا
دل ستم زدہ پیتا بیون نے لوٹ لیا
ہوا پیدا یہ دود دل سے کوہ قاف کا جوڑا
نہ کیوں ہو چتر مدآہ اہل عزم کا جوڑا
چمک کر رات کو گرجا یہ برق ورعد کا جوڑا
جو بھیجا ابر کو دریانی نادرپاٹ کا جوڑا
ہونے جب لیلۃ القدر اس پریے کی جعد کا جوڑا
لیا چھین ابروومژگان سے عام وخاص کا جوڑا
پہن مت مانگ کے ایسے کسی کم ظرف کا جوڑا
وہ دوزلفیں نہیں ہیں ایک کالی ناگ کا جوڑا
جواہر سے ملاتا کون یہاں اعراض کا جوڑا
گیا پھٹ جگڑی قیسن بیاباں گرد کا جوڑا
نہ ایے زاہد پہن نبوا کے موٹی سوت کا جوڑا
نہیں مجھ پاس اے قمری تری کھڑاک کا جوڑا
ٹراقی کا یہ پھنااس پری نے تاش کا جوڑا
صنم خانہ میں جب بولا بت ناقوس کا جوڑا
ملی یاری سے جوہڑتال کرکے راکھ کا جوڑا
چمن سے کیا بندھی تیری رخ تمناک کا جوڑا
کھیں بچھڑا ہوا دیکھا جو ایک سرخاب کا جوڑا
کیا کہوں احوال تیری عاشق بیتاب کا
جس شخص نے کہ اپنی نخوت کے بل کو توڑا
اب کی یہ سردی پڑی ہر ایک تاراجم گیا
غزل بر مصراع طرحی حسب الحکم جنابے بعامتعالے
مل گئی سینہ سے سینے پہر یہ کیسا اضطراب
جھٹ پٹ جھٹ کے تمنے جو موندی کو اڑخوب
زلزلہ لایا ہے جسم مضمحل کا اضطراب
پھرایہ آنکھوں میں اس زلف عنبریں کا سانپ
نہیں چاہیے شرم اتنی بہت
بنا کے چھوڑوں جو افیون کا شراب میں سانپ
کعبہ سے کیا ہم نے جو آہنگ خرابات
ہمیں اس صنم کے ہے الفت بہت
کچھ اشارا جو کیا ہم نے ملاقات کے وقت
جمال وعظمت دادارخالق ملکوت
مدت کے بعد آئی نظر خیر وعافیت
تونے لگائی آکی یہ کیا آگ اے بسنت
لوصولتا سکندرد گوحشمت وہانہ اے صلعب فطرت
اہ مولے فقیر کے صورت
ضد برگ گہ وکہاے ہے گہ ارغوان بسنت
کھول آغوش ٹک اجساد اسیران سے لپٹ
ادھ نہ اے دود جگر ابر بہاراں سے لپٹ
کھول آغوش نہ تو مجھ سے رکاوٹ سے لپٹ
چرخ اسے کہ مت یہ ہے سبح لعاب عنکبوت
لگی غلیل سے ابروکی دلکی داغ کو چوٹ
کیوں سیان بلند رتبہ سر راہ کی درخت
بنکے وہ برق نگہ ابروی خمدار کی آنچ
بیٹھے جہاں ہیں غیر سب مجھ کو بلاتی ہو عبت
نہ فقیروں کی جان واہی خرچ
امر ہوئی ہیں تیری خریدار چار پانچ
سبز خط میں تری تل ہیں وہ طلسمات کی بیچ
جو بات تجھسے چاہے ہے اپنا مزاج آج
ہے شب وصل کھلی کاش نہ دروازۂ صبح
ہاتھ آوے کسکے ااپ سے عیار کا آج
کریم جلد کرم کر کہ ہو مزاج صحیح
یوں تری خونخوار آنکھوں کا ہے قاتل رنگ سرخ
تجھسے یوں یکبار توڑوں کس طرح
پھر کاش پھول بیٹھی ہر ایک اس چمن کی شاخ
ہے یہاں وہ نخل عششق میں دیوانہ پن کے شاخ
لگ جاتو مری سینہ سے دروازہ کو کربند
نہ لگی مجھ کو جب اس شوح طرحدار کی گیند
حضرت عشق ادھر کیجے کرم یا معبود
گر کوئی چاہے کسیکو یہ نہیں کچھ کام بد
نظر کرعلے کو قرین محمد
یہاں سینہ ہے مدینہ اور دل نبی کی مسجد
بے مدد حق کے کریں کیا مردم دینا مدد
کیوں نہ گھبراؤں کہی جب مجھ کو تو مشفق ملاذ
میاں چشم جادوپہ اتنا گھمنڈ
لکھ دو آخونجی صاحب کوئی ایسا تعویذ
چھیڑا نہ کرو مری قلمندان کے کاغذ
یہ جو مہنت بیٹھی ہیں رادہا کی کنڈ پر
ہیں زور حسن سے وہ نہایت گھمنڈ پر
ہلکے پھلکے جو ملے دیر کے روڑے پتھر
کہا دین ہر چند کہ بارش کے تڑیڑی پتھر
فرج لڑکوں کی جڑی کیوں نہ ترا تڑ پتھر
تالگا جو پیئے بوسہ اس نے چمن کو اندر
راتوں کو نہ نکلا کرو دروازہ سے باہر
ساقیا یہ خوش آئے بوے خانہ خمار
آئے نہ ااپ رات جو اپنے قرار پر
لے چلا دامان صحرا کو کریبان پھاڑ کر
جو چاہے تو مجھ سے ہنسوڑے کی خیر
دل کرے کیا تجھ کو لکھ کر خط پہنانے پر مہر
ہے یہ اس مہ جبین کے تصویر
سنیہ جلا شعروسخن نذز پکڑ کر
اے صبح نجاساری چمن ندر پکڑ کر
کیا ان سے ملوں عید کے دن نذر پکڑ کر
بولی وہ جب ہاتھ رکھا مینے انکی ران پر
نگاہ جو پڑے تجھ سے رشک قمر پر
مجھے رونا آتا ہے شمع سحر پر
گیا یار آفت پڑے اس سحر پر
یہ جلسترنگ نے پھیلادی آگ پانی پر
لے انھوں نے جو یہ پھولونکی چھڑی ڈالی نور
عجب سرچشمۂ مہتاب سے تھی آگ پانی پر
پیر مغاں کسے کونہ توتشنہ کام چھوڑ
اے آہ اب تو اپنی کہیں آن بان چھوڑ
پلنے کہا نہ بس مجھے ای نازنین نہ چھیڑ
ایدل سمجھ کے اسکی تو زلف رسا کو چھیڑ
اے دل تو ذکر لیلے محمل نشین نہ چھیڑ
خط ترا نور ستہ دیکھ اے بارشوخ وشنگ سبز
باغ امید میں بون ہے چمن یاس کے پاس
پھنس گئے عندلیب ہو بیکس
زلف وچشم یار ہیں دام گرہ گیر قفس
بس نہ دنیا کے رکھ اے صاحب ادراک ہوس
پھر تو کہہ بھر کے دم سردمری ہونئہ نہ چوس
بہت ٹھیمت کہ خود بدولت نے یہاں جو کی ایک دم نواز
کیوں ساقیا نہ ملال ہو اپنا یہ رنگ فرش
بہار ہوکے مجسم بوضع بادلہ پوش
لینا تھا دل سولی چکا اے بے وفا غرض
کیوں نہ دل دوں اسی دنیا میں نہیں ایسا شخص
زہے نسائم فیضان نبدع فیاض
کیا دخل تیری غم میں رہی تمنین جان غلط
میں بہانے جو لگا لیکے مئے ناب کی بط
مجھ سے فردہ طبع کو کیا سیر باغ شرط
کس کو سنا کر کہا ااپ نے او بے لحاظ
کس طرح سے مجھ سے تم سے ہووے باہم اختلاط
سمجھے ہیں قدسیان جسے شاہ جہاں مطاع
پر تجھ سے ہے سیاقی ایک جام طمع
بوقت صبح ہو یوں نشۂ شراب طلوع
روشن ہے ملک ولین ہمارے چراغ داغ
بخشا یہ حق نے اس لب گلفام کو فروغ
اے آتش فراق ترا بل بے سوز داغ
ہم جو ولی ہوں تو پڑی اپنی نگاہ صاف صاف
قتل کے محضر یہ تو شنجرف کی حرف
عالم میں دوستی کے اور اسقدر تکلف
ٹک قیس کو چھیڑ چھاڑ کر عشق
پہونچی فغان کا جوش جو اپنے بگوش برق
نادان کہاں طرب کا سرانجام اور عشق
کھولی جب چاندسی اس کمہڑی کا گھونگٹ عاشق
عشق سچ ہو تو نہ معشوق ہو کیونکر عاشق
بن تری دیکھی ہے سب دھر کو اوجڑعاشق
گرہوں افلاک وعقول اور نظر مسون ایک
ہے یاد خرام اسکی میں مجھ کو ہو کبک
بات کے ساتھ ہے موجود ہے ٹال ایک یہ بک
ایک دن رات کی صحبت میں نہیں ہوتی شریک
پہونچے جوتا بہ گوش صداے شکست رنگ
جھونک دی عشق نے جب اس دل بیتاب میں آگ
بسکہ تھا تیری شب ہجر میں بے نور پلنگ
حال درویش یہاں بیچتی ہیں فال کے مول
سلطنت بیچتی ہیں درد کشاں خاک کے مولا
حواس و ہوش تھی اپنے بچنگ نگہت گل
تجھے میں کہاں میں ایجنوں کہ نہ کھینچ پنبۂ داغ دل
مجھے حاصل ہو جو ٹک بھی فراغ دل
آئینہ فلک میں ہے عکس چراغ دال
سیر بہار لالہ زار ان کو اوہر یہ داغ دل
غم ودر دوتاسف ویاس والم سے دلامجھے آہ فراغ کہاں
فروغ می سے نہ کیونکہ ہو وے ایاغ روشن مراد حاصل
پنہاں دلمیں اور ہاتھ میں ہیں لاکھ داغ وگل
کیا ہوا درپہ ترے گرچہ ہے ابجد کا قفل
جس زمیں پر ہوں تری کشتہ دیدار کے پھول
جس زمین پر ہوں تری کشتہ دیدار کے پھول
پہلے ڈٹک سے ساعد نازک بدن کی بیل
کیا ہوا درپہ ترے گرچہ ہے ابجد کا قفل
پہلے ڈٹک سے ساعد نازک بدن کی بیل
چتون کہی دینے ہے مفصل خبر چشم
سادگی کا تری یا جلوہ گر یکا عالم
سج گرم نگہ گرم ہنسے گرم ادا گرم
بس دیکھو لگاوٹ سے نہ تم ہوگی ادھر گرم
مل مجھ سے اے پری تجھے قرآن کی قسم
چاہتا ہوں تجھے نبیؐ کے قسم
ترک کر اپنے ننگ ونام کو ہم
دل کی بڑایچ نہیں ہے ترک تازی کا مقام
وہ دیکھا خواب قاصر جس سے ہے اپنی زبان اور ہم
بادل آے بجلی چمکی مینہ کے ڈریڑی پڑتی ہیں
ہیں یہ مژگان اس نمطردام ہوس کے ٹٹیاں
کچھ نگاہیں تری ایسی ہے ہنر سے لڑیاں
وہوم اتنی ترے دیوانہ مچا سکتے ہیں
یوں بگڑ نیکو فرشتے سے بگڑ سکتے ہیں
آپ سو روپ سے گوروپ بدل سکتی ہیں
شرائی مینہ کے ہیں یہاں دل گرج رہی ہیں
کھینچ لے کاش وہ پری اپنے مجھے لحاف میں
کیا ملا ہم کو تیری یاری میں
یہ کسکا ہے غبار خاطر مایوس شیشہ میں
اوتاراس چاند کو اے رند عالی ظرف شیشہ میں