سرورق
فہرست
دیباچہ
کاش کہ پڑتے ہوں تیرے جس زمیں پر نقش پا
ردیف الف
مشکیں بخور گل سے ہے دامن نشیم کا
رکھا جنوں نے مرے سر پہ تاج شاہی کا
شب کہ سرگرم تماشا یہ دل صد پارہ تھا
دامن ہے مرے ہاتھ میں نت ہجر کی شب کا
غم اس کا کچھ نہیں گر مجھ سے آشیاں چھوٹا
وصل کا کس کے یہ پیغام مجھے آیا تھا
شب جو پہلو میں طپاں یہ دل شیدائی تھا
بہار آئی ہوا صیاد کو سودا اسیروں کا
میں گل کے ہاتھ میں اپنا جو کل سوال دیا
ناقے کے پیچھے کل جو وہ اک گرد باد تھا
قصہ باہم پاؤں کی مہندی کے اوپر ہووے گا
مہندی سے جن دنوں کہ کچھ اپنا لگاؤ تھا
اگر یہی دل پر اضطراب ہووے گا
شب ہجراں میں مرے دل پہ جو سودا گذرا
ہر روز ہمیں گھر سے صحرا کو نکل جانا
دست قاصد سے خط اس بت نے جو لے کر کھولا
ملنے کا تم کو وعدہ ہر صبح و شام کرنا
دیکھتا چشم کو یا زلف سے سودا کرتا
خط کے آتے ہی ورق خوبی کا برہم ہو گیا
دل جس کے روے خوب کا خواہاں رہا سدا
جنوں نے لاکے بیاباں میں مجھ کو چھوڑ دیا
اب صبر تجھ کو اے دل بیتاب آچکا
بے سیر نہیں انجم رخشاں کا تماشا
ایک تو تھا ہی محبت سے جگر پر صدمہ
کیوں قتل کی خاطر ہی نہ میداں میں بٹھایا
دیکھ اس کو میں نے سب کو بہ یک بار تج دیا
بغل میں اس کی جس شب آکے تو اے یار سووے گا
شوق میں اپنے مجھے آوارۂ ہر کو کیا
ہوتے ہی تیغ جفا سے اس کی بسمل رہ گیا
وحشت کا گھر جو یہ دل دیوانہ بن گیا
تنہا نہ قیس دل شدہ دیوانہ بن گیا
رنگ چہرے کا ترے اٹھتے ہی فق ہونے لگا
ہے اک تو قہر اس شکم صاف کی ادا
جی خوش نہ کیا تم نے مری جان کسی کا
گو ہم نے کیا الفت خواباں سے کنارا
ہر طرف باغ میں پھولا ہے ہزارا گیندا
گلشن میں جو کل اس کو میں مارا گیندا
آنکھوں کی راہ جس نے پیا جام حسن کا
رنگ شگفتگی پہ چمن جلد آ گیا
گھونٹ لے سکتا ہے اس کے کوئی کم حقے کا
جب سے ہاتھ اپنا ہوا زلف پریشاں سے جدا
دنیا سے نہ کچھ سیم و نہ زر ساتھ چلے گا
تو اے قاصد ! ذرا گھردیکھ آ اس لا ابالی کا
کسی کو یاد ہے ایسی بھی مچلائی کا کم چلنا
پان کھا کر پھر کیا ہے اس نے ساماں قتل کا
جب میں کہتا ہوں مرا حال بھی کچھ یار سنا
جہاں پریوں کا نت رہے تھا اکھاڑا
باز نالے سے نہ آیا دل نالاں میرا
جرس قافلہ کب تھا دل نالاں میرا
جوڑا ہے اک تو بر میں ترے آج دھوم کا
تا بغل سینہ نما وہ مہ تاباں نکلا
میں ہجر میں کب خون جگر پی نہیں رہتا
عیسیٰ کے گھر نہیں تیرے بیمار کی دوا
مناسب کیا ہے تم کو پی کے مے غیروں کے گھر سونا
دل پہ جب صدمہ گرفتاری کا تھا
گر کبھی خواب میں ہو جائے ہے نظارا سا
کبھی جو پہنے ہے پھولوں کا وہ گندھا گہنا
شیشۂ توبہ ہمارا جو کبھو ٹوٹ گیا
بس کہ دیوانہ ترا شوریدہ زیر خاک تھا
کل جو میں مجلس خوباں کا نظارا مارا
ہر چند امردوں میں ہے اک راہ کا مزا
جس دن ترے کوچے سے سفر اپنا ہوا تھا
قہر ہے اس کفک دست حنائی کی ادا
نت اپنے حسن کا وہ طالب نظر ہی رہا
رات مہندی سے جو اس گل کی رخ زرد بھرا
کل جو میں کچھ اس سے اپنا درد تنہائی کہا
جی سے نہیں بسر تا اک پل خیال تیرا
اس پری رو نے لگائی شب جو مردانی حنا
اے غم زدہ ضبط کرکے چلنا
کوئی محبوب لگاوے تو ہے محبوب حنا
گر ہمارے زخم پر ٹک رکھ دیا مرہم تو کیا
تھے جو حجاب اٹھ گئے روم و فرنگ مل گیا
یوں خاک میں فلک مجھے تونے ملا دیا
جب سے ہوئی ہے اس کو غیروں سے راہ پیدا
الفت سے تیرے دل میں ہو کیوں نہ راہ پیدا
اک دن جو پڑا نرگس شب رنگ میں کیڑا
حال دل شوریدہ میں دامان پہ لکھا
یہ لال ہے فندق کا ترے انگ میں کیڑا
ہے غم کا دھنسا یہ جو دل تنگ میں کیڑا
جاں اپنی توڑتا ہے کوئی جاں بہ لب حنا
یہ خوب رو لگاتے نہیں بے سبب حنا
لگائی پوروں پہ اس نے گنڈیری دار حنا
باطن میں اس کو مجھ سے سروکار ہی رہا
وہ کافر جس گھڑی پہنے گلے میں ہار پھولوں کا
سلوک دیکھ کے حیراں ہوں تیغ قاتل کا
وہ قد ہے کہ یارب قیامت کا ٹکڑا
عاشق ترا صنم شب فرقت میں مر گیا
آہ ہمراز کون ہے اپنا ؟
ہر چند کہ تھا قابل دیدن بدن اس کا
ہے دل پہ نمک پاش لب خندہ زن اس کا
جس طرح دل میں مرے ہے یہ محبت پیدا
چاہے ہے جس جگہ ہو دیدار چشم پیدا
آنکھیں وہیں بھر آئیں جس دم خیال گزرا
وہ آرزو نہ رہی اور وہ مدعا نہ رہا
میں خیال زلف نگار سے شب ہجر میں جو دو چار تھا
پس قافلہ جو غبار تھا کوئی اس میں ناقہ سوار تھا
ذقن رخسار لب بینی ہے زیبا حال چاروں کا
اس کوچے کی طرف تھا شب جو دنگا آگ کا
کب بوسہ چیں ہوئی وہ رخ گل سے اے صبا
کر تو ہی رفتگی مرے قاتل سے اے صبا
دریا پہ وہ رخ جوں شب مہتاب میں چمکا
جوں اشک کا موتی شب مہتاب میں چمکا
زینت گوش یار ہے سبزا
تمہاری میٹھی چاہت نے تو اپنا جی جلا ڈالا
لعل جاں بخش نے جب رنگ سخن دکھلایا
نہانے میں بھی ہے اس کو حجاب در تہ آب
ردیف ب
عاشق نہ ہم نہ ہم کو تمناے نقش حب
دوکان مے فروش پہ گر آئے محتسب
خوش طالعوں کو ہووے مبارک پلنگ و خواب
وہ صحبتیں ہیں اب نہ وہ راتیں نہ جنگ و خواب
بوند آنسو کی سر مژگاں پہ کم آتی ہے اب
نے نسیم اس کو سے نے باد شمال آتی ہے اب
ہوئی اشکوں سے تر یکسر ہماری آستیں صاحب
اب مجھ کو گلے لگاؤ صاحب
جس تس کو نہ منہ دکھاؤ صاحب
جب سے صانع نے بنایا ہے جہاں کا بہروپ
ردیف پ
دریاے عاشقی میں جو تھے گھاٹ گھاٹ سانپ
لائی ہمیں یہ پیام حسرت
ردیف ت
تھی اس نسبت سے ہم کو ساتھ اس کے روز شب نسبت
مت تار زلف جان دلا ! تار عنکبوت
زخم دل کو نہ کیا تم نے رفو ایک بھی رات
چشم آفت و طرز نگہ سرمیٔ آفت
بوٹا سا وہ قد تس پہ وہ رفتار قیامت
مژگاں پہ جب رکھے ہے وہ مخمور پشت دست
یاں بھی جو بعد سال کبھی آئے ہے بسنت
جب نبی صاحب میں کوہ و دشت سے آئی بسنت
آہ دیکھی تھی میں جس گھر میں پری کی صورت
مژدۂ فصل جنوں مستوں کو پھر لائی بسنت
یا تھی ہوس وصال دن رات
دل آتش غم سے داغ تھا رات
ردیف ٹ
آنکھیں ہین جوش اشک سے پنگھٹ
بس کہ ہیں اس شاہد پنہاں کے جلوے بھانت بھانت
لب شیروں کی اس نے دے کر چاٹ
چاند سے مکھڑے کو رکھا ہے چھپا ہم سے عبث
ہو گئی برباد دم میں محنت مانی عبث
ردیف ث
ردیف ج
تاریکی میں کرتی نہیں کچھ کام نظر آج
واں شور حسن برسر جولاں گری ہے آج
اینڈنا اپنا کبھی مجھ کو جو دکھلاے ہے موج
اپنے جوبن کی جو وہ بحر کو دکھلائے ہے موج
ردیف چ
تم نے کچھ فرق کیا جس سے ملاقات کے بیچ
ہوتی ہے وا زبان جب اس کی سخن کے بیچ
تھا مقدر میں نہ مرنا قدم یار کے بیچ
طاقت اٹھنے کی ہے کب اپنے تن زار کے بیچ
مطلب زبون و خواہش زلف دو تا کپیچ
کھائے جاتا ہے ہمیں مصحفی دن رات کا سوچ
ردیف ح
کریں تھے ہم بھی جگر چاک سے نظارۂ صبح
میں ہوں شب فراق ہے اور انتظار صبح
شب میں واں جاؤں تو جاؤں کس طرح
کوٹھے پہ تو آمیں ترے قربان کسی طرح
ہوتی ہی نہیں اس سے ملاقات کسی طرح
دیر کے بعد فلک تو نے دکھایا رخ صبح
سودۂ گرہو شبنم سے بنایا رخ صبح
اس کی رعنائی کے کب سامنے آیا رخ صبح
ہوا نہ ہاتھ میرا تجھ بن آشناے قدح
ردیف خ
لڑانے وہ گیا تھا کیا کہیں سرخ
دیکھتے ہی بہار سبز و شخ
چھینٹیں دامن پر ہیں کچھ کچھ ہاتھ کچھ رخسار سرخ
ردیف د
پھرا کرے تری زلف میں جب کہ شانۂ باد
کرتا ہے بعد مرگ کوئی کب کسی کو یاد
لے کے کاغذ جو واں گیا قاصد
اب تلک جو نہیں پھرا قاصد
طالع نے کیا لا کے ہمیں جب سے قفس بند
دکھا نہ اے فلک بے مدار پست و بلند
ہوا یہ رقص میں شب دست یار پست و بلند
شب کو آنکلے گروہ گاتے کھنڈ
ردیف ڈ
ہے مری آہ کو اس قامت آزاد پہ لاڈ
ردیف ذ
جوں ہووے منقش خط گلزار سے کاغذ
جب آیا ہے ہم کو کسی سرکار سے کاغذ
اے دل سراغ دلبر طناز پھر بھی کر
ردیف ر
میں جھیلوں ہوں اس میگ دمبر کی ٹکر
باندھ صیاد نہ یوں بلبل دلگیر کے پر
بنایا ایک کافر کے تئیں اس دم میں دو کافر
چین آتا ہی نہیں مجھ کو ذار بستر پر
خراشیدن کے ساتھ آیا دل بیتاب ناخن پر
جانے کا پتا اپنے بناتے ہو کہیں اور
موقوف اور باتیں سب رکھیں یار ہی پر
جانا نہ تھا میں تم کو جفا کار اس قدر
یا نہ نکلے تھا کبھی چشم سے قطرا باہر
گزارا قیس کا جس دم ہوا لیلیٰ کی تربت پر
پڑھ نہ اے ہم نشیں ! وصال کا شعر
کیا آج دل ڈھلا ہے ان تاک مذہبوں پر
لٹ گیا جاتے ہی اس کے تاب اور طاقت کا گھر
ردیف ش
آئے تھے ہم یاں تو سامان خدائی دیکھ کر
یا دیکھتے تھے ہر دم پردہ اٹھا اٹھا کر
ستم اتنا نہ کر ظالم ! تو ہم پر
غور سے دیکھے کوئی کس کس کے ہے ست کا ظہور
آخر ہوا وہ حسن یہ زیر نقاب خوار
پڑے بال بھیگے ہوئے جب کمر پر
دل آیا خدا جانے کس عشوہ گر پر
مرے خط کو پھینک آئے قاتل کے در پر
یہ رنگ پاں نہیں ترے لعل کبود پر
ہو آشناے غفلت چشم پر آپ کیونکر ؟
پونچھے وہ آکے میری چشم پر آب کیوں کر ؟
حال دل بے قرار ہے اور
پہلو میں رہ گیا یوں دل تڑپ تڑپ کر
اے آہ اس کے دل میں تو ہر گز اثر نہ کر
پاؤں دامن سے رہے ہاتھ گریباں سے دور
نالہ مرا پھرتا تھا دواں کوہ کے اوپر
پھرتے ہوں جہاں لالہ رخاں کوہ کے اوپر
جنھوں کی تختۂ گل کا تھا رنگ چھاتی پر
خوش صفیروں کا ہے ازبس ان دنوں بازار تیز
عشوے نے اس کے جب سے کدایا سمند ناز
ردیف ز
سان پر رکھوا کے کی ہے اس نے پھر تلوار تیز
غم کھا گیا تمام مرے استخواں کا مغز
واں دست غیر اس کے ہے طوق گلو ہنوز
تصویر کا اس شوخ کی کاغذ پہ ہر انداز
شب دیکھ تبسم کا ترے زیر لب انداز
ردیف س
ساتھ اپنے لے گیا گل وگلزار کی ہوس
دل صد پارہ مرا میر کے قابل ہے ہنوز
مجھ سے اک بات کیا کیجیے بس
بھلا وہ بیٹھ سکے کیونکہ بے خلل ہم پاس
کیا خاک کر سکیں گے بتوں کے بدن کو مس
خلوت میں تو ہے غیروں سے واں یار ہم آغوش
شب میں حیراں رہ گیا دیکھ اس کے بسمل کی تلاش
ہر سر مو ہے ترا اے بت رعنا ! دل کش
عاشق کے روبرو ہو سو ایسا نہیں وہ شخص
ردیف ص
وہ دن گئے کہ میں رکھتا تھا بے قرار تخلص
گل دست بخیل و خار بے فیض
ردیف ض
دیکھتا کیوںکہ میں تپ میں بت خونخوار کی نبض
ردیف ط
جب اپنا ہو نہ نالۂ آتش فشاں پہ ضبط
شاید کہ کسی اور سے واں تم نے کیا ربط
بھیجے میں لکھ لکھ کے جو اس کو خطوط
ہم فقیروں کی ہے حصیر بساط
بھیجا تھا میں جو اس کو لکھا ہم نشیں سے خط
ردیف ظ
رکھنے دیا نہ ہم کو قدم لالہ زار میں
کافر ہے اگر رشتۂ زنار سے محظوظ
جو جو کہ صنم مجھ سے تری خوردی میں تھے ربط
جو عیش میں ہیں ہے انہیں سیر چمن کا حظ
ردیف ع
وہیں تھے شاخ گل پر گل جہاں جمع
اٹھا بیٹھے ہیں سب دوا سے توقع
پیدا ہے تف آہ سے سوز جگر شمع
ہوں زیر خاک بھی میں تغافل سے پرے داغ
دل ہے مری بغل میں وہ مثل شرارہ داغ
ردیف غ
دوستو ! کیونکہ نہ ہو حال مرا جاے دریغ
لگے کرنے تم ہم سے نفرت دریغ
ردیف ف
نہ تھا کوچ میں اپنے چنداں توقف
بات تو کیجیے اس سے کہ ہو کچھ بات کا لطف
بکتے ہیں شہر میں گل بے خار ہر طرف
یوں قفس سے میں چلا ہو کے چمن کا مشتاق
ردیف ق
قسمت میں تھی لکھی جو بلاے شب فراق
دل میں اس کے مدعی کا عشق
وہاں رہا اس کو آرسی کا عشق
مزہ کچھ اس میں نہیں گر ملا کبھی معشوق
ردیف ک
کر سکے جس سے نہ دور مہ افلاک سلوک
ہم سے کرتے تھے کبھی دیدۂ نمناک سلوک
ہوا پیری میں یوں اپنا بدن خشک
گر ہم سے نہ ہو وہ دل ستاں ایک
عید کو تونے پہن کر جو دکھائی پوشاک
اس نے سو ہی جو کبھی اپنی رنگائی پوشاک
جانے دے ٹک چمن میں مجھے اے صبا ! سرک
مژگاں کو جاے خوں ہو رود ارس مبارک
چاہا کروں میں اٹھ کے عرق کو جبیں سے پاک
لبریز شکوہ بیٹھے ہیں دل سے زباں تلک
کیونکر کرے اب اس کو دل بے قرار ترک
ردیف گ
ڈرتے ہیں رزق تنگ سے کب وہ خدا کے لوگ
ہیں نظر دوختۂ دولت دنیا ہم لوگ
ہو مبارک تجھ کو اے دل ! نخل مرجاں کا پلنگ
دولت فقر و فنا سے ہیں تونگر ہم لوگ
دیا یہ چشم کو میں وقت خوں فشانی رنگ
دیدۂ تر سے رکھی یوں دل کافر پہ آگ
مجھ سے ادا کی اس نے فریبندگی کی چال
ردیف ل
آج خوں ہو کے ٹپک پڑنے کے نزدیک ہے دل
او میاں بانکے ہے کہاں کی چال
جبیں سے اپنی مل اک دن میں خاک آستان دل
بانکا بنا پھرے ہے ہر روز و شب مرا دل
چاہت کے ڈھنگ اگر چہ جانے تھا سب مرا دل
ہاں جیتے جی تو دوری یاراں نہیں قبول
اس کے لب دم بہ دم نہ مس کر دل
چن کے گلشن سے جب اس گل نے رکھے کان میں پھول
کرکے شب کلک تصویر سے میں تحریر کا ڈول
کب ہوا ہم سے سراپا تو ترے تن کا مول
مے پی کے نشے میں ہو بدمست مرا غافل
گھر سے اپنے جو دیا اس نے ہمیں رات نکال
جو نہال تازہ کھاتا ہے لچک جوں شاخ گل
کیوں کروں آرزوے زلف دوتا کیا حاصل ؟
ردیف م
مکھڑے پہ ہے از بس کہ ترے نور کا عالم
گھر کو عاصی کے میاں اپنا ہی گھر سمجھو تم
وہ بت شوخ بٹھا کر کے قطار مردم
ہر چند کہ وہ جواں نہیں ہم
لب نہ حرف آشنا کریں گے ہم
کھا تیر نگہ اس کا جو یک بار گرے ہم
خاکسارانہ رہیں کیوں نہ ملے خاک میں ہم
یوں کہیے تو گھوڑے سے کئی بار گرے ہم
جوں باد صبا آتے ہی گلشن سے چلے ہم
کس آتش سوزاں کے لگے رات گلے ہم
کچھ ان دنوں ہے اس رشک ماہ کا عالم
پیش پا اس کے ہوئے ہیں جو کئی بسمل تمام
آنکھیں آ مل مل گئے جو اس پہ صاحب دل تمام
کم نہ سمجھو جسم انساں ہے سراپا دل تمام
سوزک اٹھا چکے فلک چنبری سے ہم
آنکھیں لڑاتے رہتے ہیں حور و پری سے ہم
ردیف ن
اپنا رفیق و آشنا غیر خدا کوئی نہیں
کیا خط و کتابت اسے تحریر کریں ہم
یہ دل وہ شیشہ ہے جھمکے ہے وہ پری جس میں
دل مفت میں اسیر بلا ہو تو کیا کروں ؟
رستے میں اس کے لاکھوں نت باندھے صف کھڑے ہیں
نرگس باغ اگر دیکھے وہ مخمور آنکھیں
ہیں تری سحر سامری آنکھیں
بھری آتی ہیں ہر گھڑی آنکھیں
چہرے کی تیرے دیکھ کے پیارے ! صفائیاں
ہم دل کو لیے بر سر بازار کھڑے ہیں
نہ سمجھو تم کہ میں دیوانہ ویرانے میں رہتا ہوں
دم غنیمت ہے کہ وقت خوش دلی ملتا نہیں
ہر مژہ میں وہیں موتی سے پرو دیتا ہے
تجھ بن تو کبھی گل کے تئیں بو نہ کروں میں
مانا میں ساتھ اشک کے لخت جگر نہ ہوں
عاشق کہیں ہیں جن جو وہ بے ننگ لوگ ہیں
ہے دل وحشی مرا اس زلف کی تسخیر میں
ہر دم آتے ہیں بھرے دیدۂ گریاں تجھ بن
وے جو غرفے سے سر نکالتے ہیں
رہے ہم اس شفادانی پہ رنجوری کے عالم میں
آ رہتی ہیں ہزاروں تصویر خوب رویاں
یک نالۂ عاشقانہ ہے یاں
سب چاہتے ہیں یہ کہ کچھ آثار یاں رہیں
کیونکر کہوں میں مجھ کو تری آرزو نہیں
سینہ ہے پرزے پرزے جامے رفو نہیں یاں
جو ملے دل سے ہیں کب تجھ سے جدا ہوتے ہیں
ملنے کے بیچ وعدہ و اقرار کچھ نہیں
کوچے سے اس کے جب کبھی اٹھ کر چلا ہوں میں
یا وہ غارت گر جاں آئے کہیں
جی چاہتا ہے جس کو وہ آگاہ ہی نہیں
ڈھنگ سارے اس میں محبوبی کے ہیں
بن بن نہ پھرے سبزۂ صحرا کے دنوں میں
اپنے پہلو میں نہ دیکھا ہم نے خنجر ایک دن
مہندی سے پر ہیں اک تو تری ساری انگلیاں
چھلوں سے اس کے کیوں نہ لگیں پیاری انگلیاں
نہ بوسے کی طمع نے کچھ خیال خام رکھتے ہیں
جو جو ستم ہوئے ہیں مجھ پر میں جانتا ہوں
مہندی لگے میں دیکھے کس گل کے لال ناخن
بوس و کنار و لطف و عطا اور کچھ نہیں
جن راتوں میں ملنے کی سو طرح کی تھیں گھاتیں
اتنی ہے کہاں طاقت جو یار کے گھرجاویں
نیلم ہیں دھرے گویا طاق خم ابرو میں
پیچہ بر پیچ جواناں سلح شور ہوں میں
اٹھ کے کوچے سے ترے جان میں کیوں جاؤں کہیں
اس کے ملنے کی کوئی بات تو ٹھہراؤں کہیں
بعد مدت کے جو آیا رات دلبر خواب میں
نہ یہ رنگیں بٹیریں ہیں پری زادوں کے پنجوں میں
وہی راتیں آئیں وہی زاریاں
آنکھوں کو پھوڑ ڈالوں یا دل کو توڑ ڈالوں
جو پری بھی روبرو ہو تو پری کو میں نہ دیکھوں
ہم جن کے در کے اوپر دھونی لگا رہے ہیں
کیا میں جاتا ہوں صنم ! چھٹ ترے در اور کہیں؟
پہلے جب شکووں کی دو باتیں ہوئیں
واں لال پھڑکتا ہے امیروں کے قفس میں
کس دم مزاج ناز بتاں خشمگیں نہیں ؟
نہ چھوٹے قید سے ہم سیر لالہ زار کے دن
عارض پہ ترے زلفیں یہ کالی کالیاں ہیں
طرز سخن میں اس نے طرزیں نکالیاں ہیں
کہے ہے کون فقط ایک مصحفی سے ملو
ردیف و
پاس آکر مرے پہلو سے الگ بیٹھتے ہو
پردے پردے ہی میں کیا لطف جلانا ہم کو
وعدوں ہی پہ ہر روز مری جان ! نہ ٹالو
ان کے کوچے ہی کی خوش آتی ہے جا کچھ ہم کو
پردے میں دیکھ ظالم ! مجھ کو چھپا نہ کر تو
تم یہ اکڑ کسی سے اللہ کیوں رکھو ہو
کیا کیا بدن صاف نظر آتے ہیں ہم کو
بے صرفہ جو آنکھوں سے چلے آتے ہیں آنسو
کیا دخل کسی سے مرض عشق شفا ہو
وہ نہیں آج صنم تیرے گریبان کی بو
تنہا نہ وہ ہاتھوں کی حنا لے گئی جی کو
جہانیاں کو ذرا بھی جب اپنا پاس نہ ہو
ہمارے دل کی دوا جب مسیح پاس نہ ہو
ظلمت شب ہجر کی آفات ہے اور تو
گو خنجر بیداد فلک تیختہ دم ہو
دم ناک میں آتا ہے تب تم کہیں آتے ہو
انداز میں ٹھوکر کے مردوں کو جلاتے ہو
فکر خواری کشان چند کرو
مت طوق گریباں کو گلوگیر بناؤ
ردیف ہ
دل میں چمک اٹھتی ہے نصیحت سے زیادہ
غیر سے تم راہ رکھو ہم کو دو چھچکار واہ
نزدیک ا س کے اے دل بے صبر جا تو بیٹھ
بہت سے بحر محبت میں ہم نے مارے ہاتھ
جس راہ سے وہ قاتل گزرا ہے تیغ بستہ
گلشن میں ہوا سے جو کھلا یار کا سینہ
شب کھل گئی جو طرہ دلدار کی گرہ
اٹھتا ہے شاخ گل سے کوئی آشیاں کا بوجھ
حسن بدن ہے اس کا جو مانوس آبلہ
ہے کس کی شمع حسن پہ مانوس آبلہ ؟
کعبے کرے تھا جن کا قدم بوس آبلہ
جاؤ جی ہم کو آرزو نہیں کچھ
نرگس باغ سے مانگے ہے گرو آپ کی آنکھ
چستی سے تو کمر پے رفع گزند باندھ
زیں چرم شیر کا تو بہ پشت سمند باندھ
ہم قلہ ہے ہم سمند ہے یہ
اے آہ دست بدعت چرخ پرند باندھ
آکے مہندی نے لگایا یہ تری مشت پہ قفل
میلان طبیعت نہ مرا گل کی طرف ہے
ردیف ی
گر پاس مرا کچھ بھی ہو محبوب کو میرے
آپ جب ترک محبت کیجیے
لکنت کرے ہے ہر دم منہ میں زباں جرس کی
تم اس سے خوش ہو جس سے تمہاری بنی رہے
جو دیکھ کے صورت کو تری جی سے گزر جائے
یاں مجھ پہ جدائی میں جو گزرے سو گزر جائے
داد خواہوں کی ترے کو میں دہائی کب تھی
شب وہ آیا تھا لگا کرکے دوا آنکھوں سے
کل اس کے ہاتھ میں جو عنان سمند تھی
جن دنوں خون جگر ہی پہ معاش اپنی تھی
فرشتہ دیکھ کے تجھ کو نہ چشم بند کرے
جو بام سے وہ پری رو نہ سر بلند کرکے
فغاں کروں تو کوئی میرے منہ کو بند کرے
مسی نہیں وہ دانتوں پر انگشت کے تلے
جس رستے سے وہ رشک پری ہو کے چلے ہے
اس سے جب وقت ملاقات بگڑ جاتی ہے
میری می تونے گل سے نہ گر اے صبا ! کہی
سیر چمن میں تم سے کرے غیر ہم رہی
شب ہم کو جو اس کی دھن رہی ہے
مطرب بچہ گر لب کا فسوں تان میں پھونکے
جب آگ محبت کی دل و جان میں پھونکے
گرے جو اس کی نظر سے تو پھر کہاں کے ہوئے
اگرچہ تجھ سا زمانے میں دلبر کم ہے
تو جو کہتا ہے میں گھر جاؤں یہ گھر کس کا ہے
ابرو کے ترے خم سے ہے کیلے کی زندگی
شاد کس روز ترے حلقۂ زنجیر میں تھے
کبریائی کی ادا تجھ میں ہے
کیا قتل اک جہاں چین جبیں سے
چاہے یون کہ میاں ! مجھ کو سلاسا دیجے
ذرۂ خاک آفتاب آسماں ہو جائے ہے
کب کرنے دے ہے گردش افلاک زندگی
گر مجھ کو شکار وصل کیجے
پہلو میں جیسے دل کو کوئی مسل گیا ہے
ہم لوگ کہ امید وفا رکھتے ہیں تجھ سے
دل تو کنارہ کر گیا آرزوے وصال سے
مطبخ عشق میں آگ آٹھ پہر جلتی ہے
نہ دوں جان کیونکر میں چاہت پر اس کی
گر بچ بھی رہا کوئی چتون کے اشارے سے
نہ وہ وعدۂ سر راہ ہے نہ وہ دوستی نہ نباہ ہے
سراسر خجلت و شرمندگی ہے
بس دیکھتے ہی ہم تری صورت کو مرگئے
تنہا نہ تاب زلف دوتا جی کو بھا گئی
آئے جب اک نئی ہی ادا تم دکھا گئے
مری الفت ہے اس کے دل میں اس کی میرے دل میں ہے
پاؤں میں قیس کے زنجیر بھلی لگتی ہے
آیا ہے دیر واں سے خط لے کے جب گیا ہے
دیکھو ہی مت ادھر کو ایسی ہی گر حیا ہے
تسلی ہووے گی قاتل ! تری کیا اک دو چلو سے
اول تو فقط شرمگیں صورت نظر آئی
گر سیر گلستاں کو وہ رشک قمر آوے
دل سمجھے نہ وہ چاند سی صورت نظر آوے
اجی چپ جانے والے تم ہمارے گھر نہیں آتے
اس عشق و جنوں میں یہ گریبان کا ڈر ہے
بارہ سے دو غایب ہوئے دہ ماہ کی ٹھہری
کاش اس دوری سے تو کچھ کھا کے مر جاوے کوئی
گئے وے دن کہ دروازے پہ ہم آکر نکل بیٹھے
اک خوشۂ پرویں سا یہ روے شفق آوے
رکھا نہ مرے داغ پہ کافو کسی نے
کیا کام کیا اے بت مغرور ! کسی نے
دکھلا کے فقط نرگس مخمور کسی نے
سینے کو کیا خانۂ زنبور کسی نے
دیتا ہے گلے سب کے یہ پیر فلک پھانسی
فرصت ملے جو تم کو کسی رات دو گھڑی
حق نے کیا اس کو نازکی دی ہے
کب خوش آوے ہے یہ ہجراں کی شب تار مجھے
شب ہجراں میں میں ملے دیدۂ بیدار مجھے
دیکھ اس نے گھٹا کالی جانے میں شتابی کی
آتے ہی بہار اس نے پوشاک گلابی کی
نیش مژگاں سے ترے ازبس چمن معمور ہے
نامہ آتا ہے نہ قاصد نہ خبر آتی ہے
وہ شرمگیں ہے کوئی غرفے سے جھانکتا ہے
عرق سے چہرہ جب اس زلال میں ڈوبے
کیا صف مژگاں ہی نے برہم کئی دنگل کیے
چلے لے کے سر پر گناہوں کی گٹھری
شوخی کے جو صدقے کوئی ہو جائے کسی کے
چونکا جو شب میں سن کر آواز پا کسی کی
آدمیت سے بھرا ہو جو سراپا آدمی
گو نہ صورت تو دکھا او بت طنّاز اپنی
تو ہی اے شمع ! کچھ اب فکر کر اٹھوا نے کی
کیا کہوں ہائے میں اس شوخ کے شرمانے کی
دلبر کی تمنّاے برو دوش میں مرجائے
بجا ہے کہیے موج آب کو گر آب کی لکڑی
نہ ہو آتش کے قابل کشتی غرقاب کی لکڑی
نہ پٹی سیروے ہیں صندل شاداب کی لکڑی
مجھے نت کرکے بسمل ہی وہ قاتل چھوڑ جاتا ہے
بوسہ نہ ایک لب کا لیا مصحفی نے ہائے
گلبدن پوشوں سے میرا دل سراپا داغ ہے
ترے چاہت بھرے سینے کے صدقے
گردش میں جو ہے کاسۂ افلاک کی مٹی
ملا دے اس بت کافر کو ٹک کہ جی سنبھلے
بے اختیار دل کو کھینچے ہے الفت اس کی
وصل کی شب کا وہ جب تک نہ سر انجام کرے
نے بت ہے نہ سجدہ ہے نے بادہ نہ مستی ہے
طفلی میں یہ تھے اس بت محجوب کے چھلے
مژدہ عشاق کو پہنچے شب تار آتی ہے
دیا نہیں قلق دل پہ اختیار مجھے
اب کے برس چمن میں گر ہم وطن کریں گے
کرتے ہیں چھپ کے سب سے ہم اس کو پیار گاہے
خدا کی قسم پھر تو کیا خیر ہووے
کپڑے بدل کے آئے تھے آگ مجھے لگا گئے
شب فراق نہ کچھ مجھ کو خواب میں گزری
تو فراق دیدہ کم ہے تجھے کیا خبر کسی کی
غزل کہنے کا کس کو ڈھب رہا ہے
پھر کر دیے وا روزن ناسور کسی نے
رکھے سر زانو پہ بیٹھا ہے حیا دار کوئی
لیے تھے بوسے جو میں آتشیں عذاروں کے
ناز رفتار ترا بر سر رعنائی ہے
دل پہ کیوں مارے نہ ہر تار سے نشتر کرتی
اب کے بھی سال یوں ہی گئے جان من ! رہے
ترے منہ چھپاتے ہی پھر مجھے خبر اپنی کچھ نہ ذری رہی
قدم اس کا کج ہی پڑا کیا وہی قد کی فتنہ گری رہی
دیکھتے ہی اس کے کل بے اختیاری ہو گئی
اس طرح سے نہ جی کو بھائے کوئی
ہو سبک دنیا سے ترک جسم فانی کیجیے
جی میں ہے اب ترک سوداے فلانی کیجیے
شب کرکے تم جو وعدۂ فردا چلے گئے
آئے تھے میرے گھر سو وہ لڑ کر چلے گئے
زلف اسے اس کی پیشتر عارض رشک ماہ ہے
کھائے تھے ہم نے گل جو حبیبوں کے ہاتھ سے
بس ہم ہیں شب اور کراہنا ہے
ساتھ لگاوٹ کے رکاوٹ بھی ہے
ہر موج آہ سبزۂ آتش رسیدہ ہے
الفت ہی مری تم نے بس جی سے مٹا ڈالی
چھوڑے ہے جب کہ آہ شرر بار پھلجھڑی
جب اپنی گل فشانی پر آتی ہے پھلجھڑی
جوں جوں بہار گل کی دکھاتی ہے پھلجھڑی
نہ کیونکر اس بت صندل جبیں سے دل لپٹے
آیا ہے گر جہاں میں عالم کا دید کرلے
کرکے بناؤ رخ پہ جو اپنے نگاہ کی
جو اس چمن میں نہ عاشق کی داد کو پہنچے
شب درد دل سے اٹھی جو پہلے میں ہوک سی
چھوٹنا ہووے اگر اب کے خریداری سے
خط کے آنے سے ہوے عارض گل فام برے
ہوویں ہم بھیج کے کیوں نامہ و پیغام برے
کاش کہ اس دل بے تاب کو تسکیں ہووے
مارا ہوا اس نرگس فتّاں کا کہاں جائے ؟
پلے میں مشتری بھی اس مہ کے کم تلی ہے
دامن کی اس کے چین جو ساری نکل گئی
ہوا ہے مجھ پہ ستم میری آہ و زاری سے
رباعیات
مخمسات
گو زمانے نے کیا صاحب دیواں مجھ کو
کیوں کر کہوں یہ سوز دل بحر و بر میں ہے
مخمس بر غزل سودا
مخمس در خطاب نواب وزیر الممالک آصف الدولہ مرحوم
اول تو مدح گوے پیمبرؐ ہے مصحفی
آئے تھے دیکھنے کو سراپا چلے گئے
عیسیٔ مریم آپ ہو میرے سے جب شفا طلب
مسدسات ، مسدس ، ترجیع بند
ابنائے روزگار کا کیا ماجرا لکھوں
مسدس حسب حال خود و ابناے زمانہ گوید
کیا میں فرض کہ آتا ہے سر پہ ماہ صیام
مسدس
مثنویات در صفت بکری
یہ جو بکری کی پٹھ ہے اپنے پاس
تاریخ وفات مسماۃ بی بی کلّو بنت بی بولن
قطعات
قطعۂ وفات شخصے است
قطعہ براے مرزا علی حسن
قطعہ بطور عرضی
قطعہ در تہنیت عید مرزا علی حسن
نسخۂ حیدر آباد کی زائد غزلیات
دست قاصد سے خط اس بت نے جولے کر کھولا
شکوہ کب کب مجھے بے رحمیٔ ایام سے تھا
اٹھ کے کوچے سے ترے جان میں کیوں جاؤں کہیں
واں آنکھ تری کرتی ہے روزن کا نظارا
اس عشق و جنوں میں یہ گریبان کا ڈر ہے
فرہنگ
سرورق
فہرست
دیباچہ
کاش کہ پڑتے ہوں تیرے جس زمیں پر نقش پا
ردیف الف
مشکیں بخور گل سے ہے دامن نشیم کا
رکھا جنوں نے مرے سر پہ تاج شاہی کا
شب کہ سرگرم تماشا یہ دل صد پارہ تھا
دامن ہے مرے ہاتھ میں نت ہجر کی شب کا
غم اس کا کچھ نہیں گر مجھ سے آشیاں چھوٹا
وصل کا کس کے یہ پیغام مجھے آیا تھا
شب جو پہلو میں طپاں یہ دل شیدائی تھا
بہار آئی ہوا صیاد کو سودا اسیروں کا
میں گل کے ہاتھ میں اپنا جو کل سوال دیا
ناقے کے پیچھے کل جو وہ اک گرد باد تھا
قصہ باہم پاؤں کی مہندی کے اوپر ہووے گا
مہندی سے جن دنوں کہ کچھ اپنا لگاؤ تھا
اگر یہی دل پر اضطراب ہووے گا
شب ہجراں میں مرے دل پہ جو سودا گذرا
ہر روز ہمیں گھر سے صحرا کو نکل جانا
دست قاصد سے خط اس بت نے جو لے کر کھولا
ملنے کا تم کو وعدہ ہر صبح و شام کرنا
دیکھتا چشم کو یا زلف سے سودا کرتا
خط کے آتے ہی ورق خوبی کا برہم ہو گیا
دل جس کے روے خوب کا خواہاں رہا سدا
جنوں نے لاکے بیاباں میں مجھ کو چھوڑ دیا
اب صبر تجھ کو اے دل بیتاب آچکا
بے سیر نہیں انجم رخشاں کا تماشا
ایک تو تھا ہی محبت سے جگر پر صدمہ
کیوں قتل کی خاطر ہی نہ میداں میں بٹھایا
دیکھ اس کو میں نے سب کو بہ یک بار تج دیا
بغل میں اس کی جس شب آکے تو اے یار سووے گا
شوق میں اپنے مجھے آوارۂ ہر کو کیا
ہوتے ہی تیغ جفا سے اس کی بسمل رہ گیا
وحشت کا گھر جو یہ دل دیوانہ بن گیا
تنہا نہ قیس دل شدہ دیوانہ بن گیا
رنگ چہرے کا ترے اٹھتے ہی فق ہونے لگا
ہے اک تو قہر اس شکم صاف کی ادا
جی خوش نہ کیا تم نے مری جان کسی کا
گو ہم نے کیا الفت خواباں سے کنارا
ہر طرف باغ میں پھولا ہے ہزارا گیندا
گلشن میں جو کل اس کو میں مارا گیندا
آنکھوں کی راہ جس نے پیا جام حسن کا
رنگ شگفتگی پہ چمن جلد آ گیا
گھونٹ لے سکتا ہے اس کے کوئی کم حقے کا
جب سے ہاتھ اپنا ہوا زلف پریشاں سے جدا
دنیا سے نہ کچھ سیم و نہ زر ساتھ چلے گا
تو اے قاصد ! ذرا گھردیکھ آ اس لا ابالی کا
کسی کو یاد ہے ایسی بھی مچلائی کا کم چلنا
پان کھا کر پھر کیا ہے اس نے ساماں قتل کا
جب میں کہتا ہوں مرا حال بھی کچھ یار سنا
جہاں پریوں کا نت رہے تھا اکھاڑا
باز نالے سے نہ آیا دل نالاں میرا
جرس قافلہ کب تھا دل نالاں میرا
جوڑا ہے اک تو بر میں ترے آج دھوم کا
تا بغل سینہ نما وہ مہ تاباں نکلا
میں ہجر میں کب خون جگر پی نہیں رہتا
عیسیٰ کے گھر نہیں تیرے بیمار کی دوا
مناسب کیا ہے تم کو پی کے مے غیروں کے گھر سونا
دل پہ جب صدمہ گرفتاری کا تھا
گر کبھی خواب میں ہو جائے ہے نظارا سا
کبھی جو پہنے ہے پھولوں کا وہ گندھا گہنا
شیشۂ توبہ ہمارا جو کبھو ٹوٹ گیا
بس کہ دیوانہ ترا شوریدہ زیر خاک تھا
کل جو میں مجلس خوباں کا نظارا مارا
ہر چند امردوں میں ہے اک راہ کا مزا
جس دن ترے کوچے سے سفر اپنا ہوا تھا
قہر ہے اس کفک دست حنائی کی ادا
نت اپنے حسن کا وہ طالب نظر ہی رہا
رات مہندی سے جو اس گل کی رخ زرد بھرا
کل جو میں کچھ اس سے اپنا درد تنہائی کہا
جی سے نہیں بسر تا اک پل خیال تیرا
اس پری رو نے لگائی شب جو مردانی حنا
اے غم زدہ ضبط کرکے چلنا
کوئی محبوب لگاوے تو ہے محبوب حنا
گر ہمارے زخم پر ٹک رکھ دیا مرہم تو کیا
تھے جو حجاب اٹھ گئے روم و فرنگ مل گیا
یوں خاک میں فلک مجھے تونے ملا دیا
جب سے ہوئی ہے اس کو غیروں سے راہ پیدا
الفت سے تیرے دل میں ہو کیوں نہ راہ پیدا
اک دن جو پڑا نرگس شب رنگ میں کیڑا
حال دل شوریدہ میں دامان پہ لکھا
یہ لال ہے فندق کا ترے انگ میں کیڑا
ہے غم کا دھنسا یہ جو دل تنگ میں کیڑا
جاں اپنی توڑتا ہے کوئی جاں بہ لب حنا
یہ خوب رو لگاتے نہیں بے سبب حنا
لگائی پوروں پہ اس نے گنڈیری دار حنا
باطن میں اس کو مجھ سے سروکار ہی رہا
وہ کافر جس گھڑی پہنے گلے میں ہار پھولوں کا
سلوک دیکھ کے حیراں ہوں تیغ قاتل کا
وہ قد ہے کہ یارب قیامت کا ٹکڑا
عاشق ترا صنم شب فرقت میں مر گیا
آہ ہمراز کون ہے اپنا ؟
ہر چند کہ تھا قابل دیدن بدن اس کا
ہے دل پہ نمک پاش لب خندہ زن اس کا
جس طرح دل میں مرے ہے یہ محبت پیدا
چاہے ہے جس جگہ ہو دیدار چشم پیدا
آنکھیں وہیں بھر آئیں جس دم خیال گزرا
وہ آرزو نہ رہی اور وہ مدعا نہ رہا
میں خیال زلف نگار سے شب ہجر میں جو دو چار تھا
پس قافلہ جو غبار تھا کوئی اس میں ناقہ سوار تھا
ذقن رخسار لب بینی ہے زیبا حال چاروں کا
اس کوچے کی طرف تھا شب جو دنگا آگ کا
کب بوسہ چیں ہوئی وہ رخ گل سے اے صبا
کر تو ہی رفتگی مرے قاتل سے اے صبا
دریا پہ وہ رخ جوں شب مہتاب میں چمکا
جوں اشک کا موتی شب مہتاب میں چمکا
زینت گوش یار ہے سبزا
تمہاری میٹھی چاہت نے تو اپنا جی جلا ڈالا
لعل جاں بخش نے جب رنگ سخن دکھلایا
نہانے میں بھی ہے اس کو حجاب در تہ آب
ردیف ب
عاشق نہ ہم نہ ہم کو تمناے نقش حب
دوکان مے فروش پہ گر آئے محتسب
خوش طالعوں کو ہووے مبارک پلنگ و خواب
وہ صحبتیں ہیں اب نہ وہ راتیں نہ جنگ و خواب
بوند آنسو کی سر مژگاں پہ کم آتی ہے اب
نے نسیم اس کو سے نے باد شمال آتی ہے اب
ہوئی اشکوں سے تر یکسر ہماری آستیں صاحب
اب مجھ کو گلے لگاؤ صاحب
جس تس کو نہ منہ دکھاؤ صاحب
جب سے صانع نے بنایا ہے جہاں کا بہروپ
ردیف پ
دریاے عاشقی میں جو تھے گھاٹ گھاٹ سانپ
لائی ہمیں یہ پیام حسرت
ردیف ت
تھی اس نسبت سے ہم کو ساتھ اس کے روز شب نسبت
مت تار زلف جان دلا ! تار عنکبوت
زخم دل کو نہ کیا تم نے رفو ایک بھی رات
چشم آفت و طرز نگہ سرمیٔ آفت
بوٹا سا وہ قد تس پہ وہ رفتار قیامت
مژگاں پہ جب رکھے ہے وہ مخمور پشت دست
یاں بھی جو بعد سال کبھی آئے ہے بسنت
جب نبی صاحب میں کوہ و دشت سے آئی بسنت
آہ دیکھی تھی میں جس گھر میں پری کی صورت
مژدۂ فصل جنوں مستوں کو پھر لائی بسنت
یا تھی ہوس وصال دن رات
دل آتش غم سے داغ تھا رات
ردیف ٹ
آنکھیں ہین جوش اشک سے پنگھٹ
بس کہ ہیں اس شاہد پنہاں کے جلوے بھانت بھانت
لب شیروں کی اس نے دے کر چاٹ
چاند سے مکھڑے کو رکھا ہے چھپا ہم سے عبث
ہو گئی برباد دم میں محنت مانی عبث
ردیف ث
ردیف ج
تاریکی میں کرتی نہیں کچھ کام نظر آج
واں شور حسن برسر جولاں گری ہے آج
اینڈنا اپنا کبھی مجھ کو جو دکھلاے ہے موج
اپنے جوبن کی جو وہ بحر کو دکھلائے ہے موج
ردیف چ
تم نے کچھ فرق کیا جس سے ملاقات کے بیچ
ہوتی ہے وا زبان جب اس کی سخن کے بیچ
تھا مقدر میں نہ مرنا قدم یار کے بیچ
طاقت اٹھنے کی ہے کب اپنے تن زار کے بیچ
مطلب زبون و خواہش زلف دو تا کپیچ
کھائے جاتا ہے ہمیں مصحفی دن رات کا سوچ
ردیف ح
کریں تھے ہم بھی جگر چاک سے نظارۂ صبح
میں ہوں شب فراق ہے اور انتظار صبح
شب میں واں جاؤں تو جاؤں کس طرح
کوٹھے پہ تو آمیں ترے قربان کسی طرح
ہوتی ہی نہیں اس سے ملاقات کسی طرح
دیر کے بعد فلک تو نے دکھایا رخ صبح
سودۂ گرہو شبنم سے بنایا رخ صبح
اس کی رعنائی کے کب سامنے آیا رخ صبح
ہوا نہ ہاتھ میرا تجھ بن آشناے قدح
ردیف خ
لڑانے وہ گیا تھا کیا کہیں سرخ
دیکھتے ہی بہار سبز و شخ
چھینٹیں دامن پر ہیں کچھ کچھ ہاتھ کچھ رخسار سرخ
ردیف د
پھرا کرے تری زلف میں جب کہ شانۂ باد
کرتا ہے بعد مرگ کوئی کب کسی کو یاد
لے کے کاغذ جو واں گیا قاصد
اب تلک جو نہیں پھرا قاصد
طالع نے کیا لا کے ہمیں جب سے قفس بند
دکھا نہ اے فلک بے مدار پست و بلند
ہوا یہ رقص میں شب دست یار پست و بلند
شب کو آنکلے گروہ گاتے کھنڈ
ردیف ڈ
ہے مری آہ کو اس قامت آزاد پہ لاڈ
ردیف ذ
جوں ہووے منقش خط گلزار سے کاغذ
جب آیا ہے ہم کو کسی سرکار سے کاغذ
اے دل سراغ دلبر طناز پھر بھی کر
ردیف ر
میں جھیلوں ہوں اس میگ دمبر کی ٹکر
باندھ صیاد نہ یوں بلبل دلگیر کے پر
بنایا ایک کافر کے تئیں اس دم میں دو کافر
چین آتا ہی نہیں مجھ کو ذار بستر پر
خراشیدن کے ساتھ آیا دل بیتاب ناخن پر
جانے کا پتا اپنے بناتے ہو کہیں اور
موقوف اور باتیں سب رکھیں یار ہی پر
جانا نہ تھا میں تم کو جفا کار اس قدر
یا نہ نکلے تھا کبھی چشم سے قطرا باہر
گزارا قیس کا جس دم ہوا لیلیٰ کی تربت پر
پڑھ نہ اے ہم نشیں ! وصال کا شعر
کیا آج دل ڈھلا ہے ان تاک مذہبوں پر
لٹ گیا جاتے ہی اس کے تاب اور طاقت کا گھر
ردیف ش
آئے تھے ہم یاں تو سامان خدائی دیکھ کر
یا دیکھتے تھے ہر دم پردہ اٹھا اٹھا کر
ستم اتنا نہ کر ظالم ! تو ہم پر
غور سے دیکھے کوئی کس کس کے ہے ست کا ظہور
آخر ہوا وہ حسن یہ زیر نقاب خوار
پڑے بال بھیگے ہوئے جب کمر پر
دل آیا خدا جانے کس عشوہ گر پر
مرے خط کو پھینک آئے قاتل کے در پر
یہ رنگ پاں نہیں ترے لعل کبود پر
ہو آشناے غفلت چشم پر آپ کیونکر ؟
پونچھے وہ آکے میری چشم پر آب کیوں کر ؟
حال دل بے قرار ہے اور
پہلو میں رہ گیا یوں دل تڑپ تڑپ کر
اے آہ اس کے دل میں تو ہر گز اثر نہ کر
پاؤں دامن سے رہے ہاتھ گریباں سے دور
نالہ مرا پھرتا تھا دواں کوہ کے اوپر
پھرتے ہوں جہاں لالہ رخاں کوہ کے اوپر
جنھوں کی تختۂ گل کا تھا رنگ چھاتی پر
خوش صفیروں کا ہے ازبس ان دنوں بازار تیز
عشوے نے اس کے جب سے کدایا سمند ناز
ردیف ز
سان پر رکھوا کے کی ہے اس نے پھر تلوار تیز
غم کھا گیا تمام مرے استخواں کا مغز
واں دست غیر اس کے ہے طوق گلو ہنوز
تصویر کا اس شوخ کی کاغذ پہ ہر انداز
شب دیکھ تبسم کا ترے زیر لب انداز
ردیف س
ساتھ اپنے لے گیا گل وگلزار کی ہوس
دل صد پارہ مرا میر کے قابل ہے ہنوز
مجھ سے اک بات کیا کیجیے بس
بھلا وہ بیٹھ سکے کیونکہ بے خلل ہم پاس
کیا خاک کر سکیں گے بتوں کے بدن کو مس
خلوت میں تو ہے غیروں سے واں یار ہم آغوش
شب میں حیراں رہ گیا دیکھ اس کے بسمل کی تلاش
ہر سر مو ہے ترا اے بت رعنا ! دل کش
عاشق کے روبرو ہو سو ایسا نہیں وہ شخص
ردیف ص
وہ دن گئے کہ میں رکھتا تھا بے قرار تخلص
گل دست بخیل و خار بے فیض
ردیف ض
دیکھتا کیوںکہ میں تپ میں بت خونخوار کی نبض
ردیف ط
جب اپنا ہو نہ نالۂ آتش فشاں پہ ضبط
شاید کہ کسی اور سے واں تم نے کیا ربط
بھیجے میں لکھ لکھ کے جو اس کو خطوط
ہم فقیروں کی ہے حصیر بساط
بھیجا تھا میں جو اس کو لکھا ہم نشیں سے خط
ردیف ظ
رکھنے دیا نہ ہم کو قدم لالہ زار میں
کافر ہے اگر رشتۂ زنار سے محظوظ
جو جو کہ صنم مجھ سے تری خوردی میں تھے ربط
جو عیش میں ہیں ہے انہیں سیر چمن کا حظ
ردیف ع
وہیں تھے شاخ گل پر گل جہاں جمع
اٹھا بیٹھے ہیں سب دوا سے توقع
پیدا ہے تف آہ سے سوز جگر شمع
ہوں زیر خاک بھی میں تغافل سے پرے داغ
دل ہے مری بغل میں وہ مثل شرارہ داغ
ردیف غ
دوستو ! کیونکہ نہ ہو حال مرا جاے دریغ
لگے کرنے تم ہم سے نفرت دریغ
ردیف ف
نہ تھا کوچ میں اپنے چنداں توقف
بات تو کیجیے اس سے کہ ہو کچھ بات کا لطف
بکتے ہیں شہر میں گل بے خار ہر طرف
یوں قفس سے میں چلا ہو کے چمن کا مشتاق
ردیف ق
قسمت میں تھی لکھی جو بلاے شب فراق
دل میں اس کے مدعی کا عشق
وہاں رہا اس کو آرسی کا عشق
مزہ کچھ اس میں نہیں گر ملا کبھی معشوق
ردیف ک
کر سکے جس سے نہ دور مہ افلاک سلوک
ہم سے کرتے تھے کبھی دیدۂ نمناک سلوک
ہوا پیری میں یوں اپنا بدن خشک
گر ہم سے نہ ہو وہ دل ستاں ایک
عید کو تونے پہن کر جو دکھائی پوشاک
اس نے سو ہی جو کبھی اپنی رنگائی پوشاک
جانے دے ٹک چمن میں مجھے اے صبا ! سرک
مژگاں کو جاے خوں ہو رود ارس مبارک
چاہا کروں میں اٹھ کے عرق کو جبیں سے پاک
لبریز شکوہ بیٹھے ہیں دل سے زباں تلک
کیونکر کرے اب اس کو دل بے قرار ترک
ردیف گ
ڈرتے ہیں رزق تنگ سے کب وہ خدا کے لوگ
ہیں نظر دوختۂ دولت دنیا ہم لوگ
ہو مبارک تجھ کو اے دل ! نخل مرجاں کا پلنگ
دولت فقر و فنا سے ہیں تونگر ہم لوگ
دیا یہ چشم کو میں وقت خوں فشانی رنگ
دیدۂ تر سے رکھی یوں دل کافر پہ آگ
مجھ سے ادا کی اس نے فریبندگی کی چال
ردیف ل
آج خوں ہو کے ٹپک پڑنے کے نزدیک ہے دل
او میاں بانکے ہے کہاں کی چال
جبیں سے اپنی مل اک دن میں خاک آستان دل
بانکا بنا پھرے ہے ہر روز و شب مرا دل
چاہت کے ڈھنگ اگر چہ جانے تھا سب مرا دل
ہاں جیتے جی تو دوری یاراں نہیں قبول
اس کے لب دم بہ دم نہ مس کر دل
چن کے گلشن سے جب اس گل نے رکھے کان میں پھول
کرکے شب کلک تصویر سے میں تحریر کا ڈول
کب ہوا ہم سے سراپا تو ترے تن کا مول
مے پی کے نشے میں ہو بدمست مرا غافل
گھر سے اپنے جو دیا اس نے ہمیں رات نکال
جو نہال تازہ کھاتا ہے لچک جوں شاخ گل
کیوں کروں آرزوے زلف دوتا کیا حاصل ؟
ردیف م
مکھڑے پہ ہے از بس کہ ترے نور کا عالم
گھر کو عاصی کے میاں اپنا ہی گھر سمجھو تم
وہ بت شوخ بٹھا کر کے قطار مردم
ہر چند کہ وہ جواں نہیں ہم
لب نہ حرف آشنا کریں گے ہم
کھا تیر نگہ اس کا جو یک بار گرے ہم
خاکسارانہ رہیں کیوں نہ ملے خاک میں ہم
یوں کہیے تو گھوڑے سے کئی بار گرے ہم
جوں باد صبا آتے ہی گلشن سے چلے ہم
کس آتش سوزاں کے لگے رات گلے ہم
کچھ ان دنوں ہے اس رشک ماہ کا عالم
پیش پا اس کے ہوئے ہیں جو کئی بسمل تمام
آنکھیں آ مل مل گئے جو اس پہ صاحب دل تمام
کم نہ سمجھو جسم انساں ہے سراپا دل تمام
سوزک اٹھا چکے فلک چنبری سے ہم
آنکھیں لڑاتے رہتے ہیں حور و پری سے ہم
ردیف ن
اپنا رفیق و آشنا غیر خدا کوئی نہیں
کیا خط و کتابت اسے تحریر کریں ہم
یہ دل وہ شیشہ ہے جھمکے ہے وہ پری جس میں
دل مفت میں اسیر بلا ہو تو کیا کروں ؟
رستے میں اس کے لاکھوں نت باندھے صف کھڑے ہیں
نرگس باغ اگر دیکھے وہ مخمور آنکھیں
ہیں تری سحر سامری آنکھیں
بھری آتی ہیں ہر گھڑی آنکھیں
چہرے کی تیرے دیکھ کے پیارے ! صفائیاں
ہم دل کو لیے بر سر بازار کھڑے ہیں
نہ سمجھو تم کہ میں دیوانہ ویرانے میں رہتا ہوں
دم غنیمت ہے کہ وقت خوش دلی ملتا نہیں
ہر مژہ میں وہیں موتی سے پرو دیتا ہے
تجھ بن تو کبھی گل کے تئیں بو نہ کروں میں
مانا میں ساتھ اشک کے لخت جگر نہ ہوں
عاشق کہیں ہیں جن جو وہ بے ننگ لوگ ہیں
ہے دل وحشی مرا اس زلف کی تسخیر میں
ہر دم آتے ہیں بھرے دیدۂ گریاں تجھ بن
وے جو غرفے سے سر نکالتے ہیں
رہے ہم اس شفادانی پہ رنجوری کے عالم میں
آ رہتی ہیں ہزاروں تصویر خوب رویاں
یک نالۂ عاشقانہ ہے یاں
سب چاہتے ہیں یہ کہ کچھ آثار یاں رہیں
کیونکر کہوں میں مجھ کو تری آرزو نہیں
سینہ ہے پرزے پرزے جامے رفو نہیں یاں
جو ملے دل سے ہیں کب تجھ سے جدا ہوتے ہیں
ملنے کے بیچ وعدہ و اقرار کچھ نہیں
کوچے سے اس کے جب کبھی اٹھ کر چلا ہوں میں
یا وہ غارت گر جاں آئے کہیں
جی چاہتا ہے جس کو وہ آگاہ ہی نہیں
ڈھنگ سارے اس میں محبوبی کے ہیں
بن بن نہ پھرے سبزۂ صحرا کے دنوں میں
اپنے پہلو میں نہ دیکھا ہم نے خنجر ایک دن
مہندی سے پر ہیں اک تو تری ساری انگلیاں
چھلوں سے اس کے کیوں نہ لگیں پیاری انگلیاں
نہ بوسے کی طمع نے کچھ خیال خام رکھتے ہیں
جو جو ستم ہوئے ہیں مجھ پر میں جانتا ہوں
مہندی لگے میں دیکھے کس گل کے لال ناخن
بوس و کنار و لطف و عطا اور کچھ نہیں
جن راتوں میں ملنے کی سو طرح کی تھیں گھاتیں
اتنی ہے کہاں طاقت جو یار کے گھرجاویں
نیلم ہیں دھرے گویا طاق خم ابرو میں
پیچہ بر پیچ جواناں سلح شور ہوں میں
اٹھ کے کوچے سے ترے جان میں کیوں جاؤں کہیں
اس کے ملنے کی کوئی بات تو ٹھہراؤں کہیں
بعد مدت کے جو آیا رات دلبر خواب میں
نہ یہ رنگیں بٹیریں ہیں پری زادوں کے پنجوں میں
وہی راتیں آئیں وہی زاریاں
آنکھوں کو پھوڑ ڈالوں یا دل کو توڑ ڈالوں
جو پری بھی روبرو ہو تو پری کو میں نہ دیکھوں
ہم جن کے در کے اوپر دھونی لگا رہے ہیں
کیا میں جاتا ہوں صنم ! چھٹ ترے در اور کہیں؟
پہلے جب شکووں کی دو باتیں ہوئیں
واں لال پھڑکتا ہے امیروں کے قفس میں
کس دم مزاج ناز بتاں خشمگیں نہیں ؟
نہ چھوٹے قید سے ہم سیر لالہ زار کے دن
عارض پہ ترے زلفیں یہ کالی کالیاں ہیں
طرز سخن میں اس نے طرزیں نکالیاں ہیں
کہے ہے کون فقط ایک مصحفی سے ملو
ردیف و
پاس آکر مرے پہلو سے الگ بیٹھتے ہو
پردے پردے ہی میں کیا لطف جلانا ہم کو
وعدوں ہی پہ ہر روز مری جان ! نہ ٹالو
ان کے کوچے ہی کی خوش آتی ہے جا کچھ ہم کو
پردے میں دیکھ ظالم ! مجھ کو چھپا نہ کر تو
تم یہ اکڑ کسی سے اللہ کیوں رکھو ہو
کیا کیا بدن صاف نظر آتے ہیں ہم کو
بے صرفہ جو آنکھوں سے چلے آتے ہیں آنسو
کیا دخل کسی سے مرض عشق شفا ہو
وہ نہیں آج صنم تیرے گریبان کی بو
تنہا نہ وہ ہاتھوں کی حنا لے گئی جی کو
جہانیاں کو ذرا بھی جب اپنا پاس نہ ہو
ہمارے دل کی دوا جب مسیح پاس نہ ہو
ظلمت شب ہجر کی آفات ہے اور تو
گو خنجر بیداد فلک تیختہ دم ہو
دم ناک میں آتا ہے تب تم کہیں آتے ہو
انداز میں ٹھوکر کے مردوں کو جلاتے ہو
فکر خواری کشان چند کرو
مت طوق گریباں کو گلوگیر بناؤ
ردیف ہ
دل میں چمک اٹھتی ہے نصیحت سے زیادہ
غیر سے تم راہ رکھو ہم کو دو چھچکار واہ
نزدیک ا س کے اے دل بے صبر جا تو بیٹھ
بہت سے بحر محبت میں ہم نے مارے ہاتھ
جس راہ سے وہ قاتل گزرا ہے تیغ بستہ
گلشن میں ہوا سے جو کھلا یار کا سینہ
شب کھل گئی جو طرہ دلدار کی گرہ
اٹھتا ہے شاخ گل سے کوئی آشیاں کا بوجھ
حسن بدن ہے اس کا جو مانوس آبلہ
ہے کس کی شمع حسن پہ مانوس آبلہ ؟
کعبے کرے تھا جن کا قدم بوس آبلہ
جاؤ جی ہم کو آرزو نہیں کچھ
نرگس باغ سے مانگے ہے گرو آپ کی آنکھ
چستی سے تو کمر پے رفع گزند باندھ
زیں چرم شیر کا تو بہ پشت سمند باندھ
ہم قلہ ہے ہم سمند ہے یہ
اے آہ دست بدعت چرخ پرند باندھ
آکے مہندی نے لگایا یہ تری مشت پہ قفل
میلان طبیعت نہ مرا گل کی طرف ہے
ردیف ی
گر پاس مرا کچھ بھی ہو محبوب کو میرے
آپ جب ترک محبت کیجیے
لکنت کرے ہے ہر دم منہ میں زباں جرس کی
تم اس سے خوش ہو جس سے تمہاری بنی رہے
جو دیکھ کے صورت کو تری جی سے گزر جائے
یاں مجھ پہ جدائی میں جو گزرے سو گزر جائے
داد خواہوں کی ترے کو میں دہائی کب تھی
شب وہ آیا تھا لگا کرکے دوا آنکھوں سے
کل اس کے ہاتھ میں جو عنان سمند تھی
جن دنوں خون جگر ہی پہ معاش اپنی تھی
فرشتہ دیکھ کے تجھ کو نہ چشم بند کرے
جو بام سے وہ پری رو نہ سر بلند کرکے
فغاں کروں تو کوئی میرے منہ کو بند کرے
مسی نہیں وہ دانتوں پر انگشت کے تلے
جس رستے سے وہ رشک پری ہو کے چلے ہے
اس سے جب وقت ملاقات بگڑ جاتی ہے
میری می تونے گل سے نہ گر اے صبا ! کہی
سیر چمن میں تم سے کرے غیر ہم رہی
شب ہم کو جو اس کی دھن رہی ہے
مطرب بچہ گر لب کا فسوں تان میں پھونکے
جب آگ محبت کی دل و جان میں پھونکے
گرے جو اس کی نظر سے تو پھر کہاں کے ہوئے
اگرچہ تجھ سا زمانے میں دلبر کم ہے
تو جو کہتا ہے میں گھر جاؤں یہ گھر کس کا ہے
ابرو کے ترے خم سے ہے کیلے کی زندگی
شاد کس روز ترے حلقۂ زنجیر میں تھے
کبریائی کی ادا تجھ میں ہے
کیا قتل اک جہاں چین جبیں سے
چاہے یون کہ میاں ! مجھ کو سلاسا دیجے
ذرۂ خاک آفتاب آسماں ہو جائے ہے
کب کرنے دے ہے گردش افلاک زندگی
گر مجھ کو شکار وصل کیجے
پہلو میں جیسے دل کو کوئی مسل گیا ہے
ہم لوگ کہ امید وفا رکھتے ہیں تجھ سے
دل تو کنارہ کر گیا آرزوے وصال سے
مطبخ عشق میں آگ آٹھ پہر جلتی ہے
نہ دوں جان کیونکر میں چاہت پر اس کی
گر بچ بھی رہا کوئی چتون کے اشارے سے
نہ وہ وعدۂ سر راہ ہے نہ وہ دوستی نہ نباہ ہے
سراسر خجلت و شرمندگی ہے
بس دیکھتے ہی ہم تری صورت کو مرگئے
تنہا نہ تاب زلف دوتا جی کو بھا گئی
آئے جب اک نئی ہی ادا تم دکھا گئے
مری الفت ہے اس کے دل میں اس کی میرے دل میں ہے
پاؤں میں قیس کے زنجیر بھلی لگتی ہے
آیا ہے دیر واں سے خط لے کے جب گیا ہے
دیکھو ہی مت ادھر کو ایسی ہی گر حیا ہے
تسلی ہووے گی قاتل ! تری کیا اک دو چلو سے
اول تو فقط شرمگیں صورت نظر آئی
گر سیر گلستاں کو وہ رشک قمر آوے
دل سمجھے نہ وہ چاند سی صورت نظر آوے
اجی چپ جانے والے تم ہمارے گھر نہیں آتے
اس عشق و جنوں میں یہ گریبان کا ڈر ہے
بارہ سے دو غایب ہوئے دہ ماہ کی ٹھہری
کاش اس دوری سے تو کچھ کھا کے مر جاوے کوئی
گئے وے دن کہ دروازے پہ ہم آکر نکل بیٹھے
اک خوشۂ پرویں سا یہ روے شفق آوے
رکھا نہ مرے داغ پہ کافو کسی نے
کیا کام کیا اے بت مغرور ! کسی نے
دکھلا کے فقط نرگس مخمور کسی نے
سینے کو کیا خانۂ زنبور کسی نے
دیتا ہے گلے سب کے یہ پیر فلک پھانسی
فرصت ملے جو تم کو کسی رات دو گھڑی
حق نے کیا اس کو نازکی دی ہے
کب خوش آوے ہے یہ ہجراں کی شب تار مجھے
شب ہجراں میں میں ملے دیدۂ بیدار مجھے
دیکھ اس نے گھٹا کالی جانے میں شتابی کی
آتے ہی بہار اس نے پوشاک گلابی کی
نیش مژگاں سے ترے ازبس چمن معمور ہے
نامہ آتا ہے نہ قاصد نہ خبر آتی ہے
وہ شرمگیں ہے کوئی غرفے سے جھانکتا ہے
عرق سے چہرہ جب اس زلال میں ڈوبے
کیا صف مژگاں ہی نے برہم کئی دنگل کیے
چلے لے کے سر پر گناہوں کی گٹھری
شوخی کے جو صدقے کوئی ہو جائے کسی کے
چونکا جو شب میں سن کر آواز پا کسی کی
آدمیت سے بھرا ہو جو سراپا آدمی
گو نہ صورت تو دکھا او بت طنّاز اپنی
تو ہی اے شمع ! کچھ اب فکر کر اٹھوا نے کی
کیا کہوں ہائے میں اس شوخ کے شرمانے کی
دلبر کی تمنّاے برو دوش میں مرجائے
بجا ہے کہیے موج آب کو گر آب کی لکڑی
نہ ہو آتش کے قابل کشتی غرقاب کی لکڑی
نہ پٹی سیروے ہیں صندل شاداب کی لکڑی
مجھے نت کرکے بسمل ہی وہ قاتل چھوڑ جاتا ہے
بوسہ نہ ایک لب کا لیا مصحفی نے ہائے
گلبدن پوشوں سے میرا دل سراپا داغ ہے
ترے چاہت بھرے سینے کے صدقے
گردش میں جو ہے کاسۂ افلاک کی مٹی
ملا دے اس بت کافر کو ٹک کہ جی سنبھلے
بے اختیار دل کو کھینچے ہے الفت اس کی
وصل کی شب کا وہ جب تک نہ سر انجام کرے
نے بت ہے نہ سجدہ ہے نے بادہ نہ مستی ہے
طفلی میں یہ تھے اس بت محجوب کے چھلے
مژدہ عشاق کو پہنچے شب تار آتی ہے
دیا نہیں قلق دل پہ اختیار مجھے
اب کے برس چمن میں گر ہم وطن کریں گے
کرتے ہیں چھپ کے سب سے ہم اس کو پیار گاہے
خدا کی قسم پھر تو کیا خیر ہووے
کپڑے بدل کے آئے تھے آگ مجھے لگا گئے
شب فراق نہ کچھ مجھ کو خواب میں گزری
تو فراق دیدہ کم ہے تجھے کیا خبر کسی کی
غزل کہنے کا کس کو ڈھب رہا ہے
پھر کر دیے وا روزن ناسور کسی نے
رکھے سر زانو پہ بیٹھا ہے حیا دار کوئی
لیے تھے بوسے جو میں آتشیں عذاروں کے
ناز رفتار ترا بر سر رعنائی ہے
دل پہ کیوں مارے نہ ہر تار سے نشتر کرتی
اب کے بھی سال یوں ہی گئے جان من ! رہے
ترے منہ چھپاتے ہی پھر مجھے خبر اپنی کچھ نہ ذری رہی
قدم اس کا کج ہی پڑا کیا وہی قد کی فتنہ گری رہی
دیکھتے ہی اس کے کل بے اختیاری ہو گئی
اس طرح سے نہ جی کو بھائے کوئی
ہو سبک دنیا سے ترک جسم فانی کیجیے
جی میں ہے اب ترک سوداے فلانی کیجیے
شب کرکے تم جو وعدۂ فردا چلے گئے
آئے تھے میرے گھر سو وہ لڑ کر چلے گئے
زلف اسے اس کی پیشتر عارض رشک ماہ ہے
کھائے تھے ہم نے گل جو حبیبوں کے ہاتھ سے
بس ہم ہیں شب اور کراہنا ہے
ساتھ لگاوٹ کے رکاوٹ بھی ہے
ہر موج آہ سبزۂ آتش رسیدہ ہے
الفت ہی مری تم نے بس جی سے مٹا ڈالی
چھوڑے ہے جب کہ آہ شرر بار پھلجھڑی
جب اپنی گل فشانی پر آتی ہے پھلجھڑی
جوں جوں بہار گل کی دکھاتی ہے پھلجھڑی
نہ کیونکر اس بت صندل جبیں سے دل لپٹے
آیا ہے گر جہاں میں عالم کا دید کرلے
کرکے بناؤ رخ پہ جو اپنے نگاہ کی
جو اس چمن میں نہ عاشق کی داد کو پہنچے
شب درد دل سے اٹھی جو پہلے میں ہوک سی
چھوٹنا ہووے اگر اب کے خریداری سے
خط کے آنے سے ہوے عارض گل فام برے
ہوویں ہم بھیج کے کیوں نامہ و پیغام برے
کاش کہ اس دل بے تاب کو تسکیں ہووے
مارا ہوا اس نرگس فتّاں کا کہاں جائے ؟
پلے میں مشتری بھی اس مہ کے کم تلی ہے
دامن کی اس کے چین جو ساری نکل گئی
ہوا ہے مجھ پہ ستم میری آہ و زاری سے
رباعیات
مخمسات
گو زمانے نے کیا صاحب دیواں مجھ کو
کیوں کر کہوں یہ سوز دل بحر و بر میں ہے
مخمس بر غزل سودا
مخمس در خطاب نواب وزیر الممالک آصف الدولہ مرحوم
اول تو مدح گوے پیمبرؐ ہے مصحفی
آئے تھے دیکھنے کو سراپا چلے گئے
عیسیٔ مریم آپ ہو میرے سے جب شفا طلب
مسدسات ، مسدس ، ترجیع بند
ابنائے روزگار کا کیا ماجرا لکھوں
مسدس حسب حال خود و ابناے زمانہ گوید
کیا میں فرض کہ آتا ہے سر پہ ماہ صیام
مسدس
مثنویات در صفت بکری
یہ جو بکری کی پٹھ ہے اپنے پاس
تاریخ وفات مسماۃ بی بی کلّو بنت بی بولن
قطعات
قطعۂ وفات شخصے است
قطعہ براے مرزا علی حسن
قطعہ بطور عرضی
قطعہ در تہنیت عید مرزا علی حسن
نسخۂ حیدر آباد کی زائد غزلیات
دست قاصد سے خط اس بت نے جولے کر کھولا
شکوہ کب کب مجھے بے رحمیٔ ایام سے تھا
اٹھ کے کوچے سے ترے جان میں کیوں جاؤں کہیں
واں آنکھ تری کرتی ہے روزن کا نظارا
اس عشق و جنوں میں یہ گریبان کا ڈر ہے
فرہنگ
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔