سرورق
بلبل ہوں بوستان جناب میر کا
لہا اوسکو جہانمیں غل ہے جسکی آمدآمد کا
مرا سینہ ہی مشرق آفتاب داغ ہجر انکا
جسجکہ ہے حسن فوراً قدردان پیدا ہوا
کل فشان عکس ہوا کسکی رخ رنگین کا
مہدیسی ہے شعلہ قدم اوس رشک پری کا
زلف سی کیجو شانہ کو نہ زنہار جدا
خلق کی تسخیر کو ہر نقش پا افسون ہوا
اپنی ابروآینہ میں دیکھکر بسمل ہوا
روی جانان کا تصور میں جو نظارا ہوا
سبزۂ خط لوری کا لو پز نمایان ہولیا
لیا کہیں مرک احبا میں جو ہمکو غم ہوا
کل شب خوقیمتیں اک ماتم کن عالم ہوا
لیا اثر میری سیہ بختے کی آکی نور کا
روی جانان پہ ہوا خط معبر پیدا
ماہ نوسی جو وہ خورشید مقابل ہوکا
لوئی غار تکر نہیں یوانونکی اسبابکا
پہر قیامت زاہوا ہلتا لب خاموش کا
دل سی لونکامین کام رہبر کا
اسی سی رنک ہی کل کا اسی سی نشہ ہی مل کا
لبریز اسکی ہاتہی مین ساغر شراب کا
پریونکو عمل سی مین تسخیر نہیں کرتا
دل میں ساکن ہی خیال اک بت بی پروا کا
لب ہوا محتاج خلق اپنا کسی خونریز کا
سیکڑوں آہیں لڑوں پر ذکر کر کیا آوار کا
رات ایسا انتظار یار میں بیتا تھا
لوح محفوظ اک نکینہ ہی علی کی نام کا
دی دوپپٹہ تو اپنا ململ کا
لو وہ دل ہے جو محورخ جاناں نہ ہوا
سر پر پہاڑ اونکی نہ ای آسماں گرا
جیسی کلدام اسنے دیکھا ہے مری صیّاد کا
سرو پر سایہ پڑا تیرا وہ موزوں ہوکیا
آج دعویٰ اسکی یکتا ئیکا باطل ہو کیا
رات بہر جو سامنے آنکھوں کی وہ مہ پارہ تھا
ہے دل سوز انمیں طور اسکی تجلی کاہ کا
نہ جانسوزغم کیسوی جاناں ہوتا
پوچھتا اشک اکر کو شہ داماں ہوتا
معطر اسکی نہانی سی بسکہ آب ہوا
سرو مثل جادہ ہے پامال تری حال کا
دور حسن یارنی عالم دکھا یا کال کا
تونی شہباز نکہ کو جواد ہر چھوڑ دیا
جب خرام ناز کو توای پری پیکر اٹھا
ماجرا ہر بحر میں ہے چشم در یا بار کا
وحشت دل ہوں میں دیوانہ تری تاثیر کا
خضر کو اسنے پامردیکے اکی لنک ٹھرایا
خصر کو اسنے پامردیکی اکک لنک ٹھرایا
تونزاکتسی گلستاں تک جو رخصت مانگتا
تونزاکتسی گلستاں تک جو رخصت مانکتا
پس جمازہ لیلی یہہ کہتا ہی جرس دل کا
پس جمازۂ لیلی یہہ کہتا ہی حرس دل کا
پڑا عکس آبجو مین خنجرا بروے قاتل کا
پڑا عکس آبجو میں حنجر ابروی قاتل کا
باغمیں روندی بہت پہو لونلی خرمن زیر پا
باغمیں روندی پہولونلی خرمن زیرپا
ضعف ہی راہ طلب میں جیسی وا منکیر پا
ضعف ہی راہ طلب میں جیسی وامنکیر پا
سمجھکی خس نہ مجھی کو جہاں نے پاک کیا
سمجھکی خس نہ مجھی کو جہاں نے پاک کیا
پانؤنکو دیوار زندان میرا دامن ہوکیا
پاؤں کو دیوار زنداں میرا دامن ہو کیا
پیشتر سر سی یہاں ہوتی ہیں سامان پیدا
پیشتر سر سے یہاں ہوتی ہیں ساماں پیدا
غلط کہتی ہیں اس رخکا ہوا خط بیزقم پیدا
غلط کہتی ہیں اس رخ کا ہوا خط بیزقم پیدا
مین کرزنینت فتراک کے قابل ہوتا
طرف زیست میں جاں باختہ مائل نہ ہو
مین اکر زینت فتر اک ٹے قابل ہوتا
کاوشیں اب تک چلی جاتی ہیں گو میں مرگیا
کاوشیں اب تک چلی جاتی ہیں گو میں مرگیا
خوب سانظارۂ قاتل تہ خنجر کیا
دم ہی بنداگی تری تیغ صفا ہانی کا
خوب سانظارۂ قاتل تہ خنجر کیا
دم ہی نبدا گی تیری تیغ صفا ہائی کا
ساتھ اپنی جو مجھی یارنی سونی ندیا
ساتھ اپنی جو مجھی یار نے سونے نہ دیا
اثر خون جگر میں کیا ہے اب زندگانی کا
اثر خون جکر میں کیا ہے آب زند کانی کا
یہ تو رہی رویٔ مہ حسیں کا کہ ہو خجل چاند چودہویں کا
یہ نور ہی روئی امہ جبیں کا کہ ہو خجل چاند چودھویں کا
جو دل ہی ٹوٹ کیا کیا ہوں شعر تر پیدا
جو دل ہے ٹوٹ کیا کیا ہوں شعرر پیدا
ایشب غم اب نہیں اسکی سواتدبیر خواب
ایشب غم اب نہیں اسکی سواتدبیر خواب
ہے مری مستی کو عشق ساقی کو ثر شراب
ہی مری مستی کو عشق ساقی کوثر شراب
لیا تری الفت میں ہیں اک نالہای عندلیب
کیا تری الفت میں ہیں اک نالہای عندلیب
کرمژہ اس رشک کلکی دیکھ پائی عندلیب
لرمژہ اس رشک کلکی دیکھ پای عندلیب
کر تری دست حیائی دیکھ پاے عندلیب
گر تری دست حنائی دیکھ پاے عندلیب
دشمن جاں ہے ہمارا پاسباں کوئی دوست
دشمن جاں ہے ہمارا پاسباں کوے دست
اس چمن میں ہیں بے شمار درخت
اس چمن میں ہیں بے شمار دخست
ہے ترا قددہ پاید اردرخْت
ہے ترا قد وہ پایدار درخت
زلفیں شاخیں ہیں قدیار درخت
زلفیں شاخیں ہیں قدیاردرخت
تن پرورونکی شغل میں کھوتا ہے جان عبث
اس کل کی کان کو نہیں زیور کی احتیاج
کیوں دکھائی اے فلک بے یار صبح
ہے برنک کل سراپا وہ بت خونخوار سرخ
یار آیا تو ہوی دیں ناکام سفید
رکھیو سواد خط رخ رشک قمر سی دور
جیتے جی جاوںمیں کیونکر کوے جاناں چھوڑکر
گنتا ہوں سر کو بوجھ میں ناکام دوش پر
زندا نہیں بہی کوچہ ترا اے یار آتا ہے نظر
بے خطر یوں ہاتھ دوڑاتا ہوں زلف یار پر
بدنما کپڑے ہیں مجھ وحشی کی جسم زار پر
غش مجھے آیا جو میں پہنچا در دلدار پر
آنکھ جیسی پڑگئی موی میاں یار پر
عاشق ومعشوق سب مرتے ہیں میرے یار پر
تاثیر زلف سے ہے خط روی یار سبز
اس قدر زیر فلک ایسرو کل اندام رقص
رکھتی ہیں کل عشق رخ شوق قد جانا نہ سمع
ساق جاناں دیکھ کر بنتی ہے خود پروانہ شمع
ایسا پروانہ زمانہ میں کبھی دیکھا نہ شمع
وصل میں تھی رونق محفل تو اائی چنک وشمع
عریانی جنوں میں میری کام آئی داغ
دیکھی نہیں جہاں میں مثل نکاہ یار تیغ
جس مکاں میں ہوتری رخسار کاروش چراغ
سنبل شکبونکی جا دیکھی شب تار فراق
برنگ کل مجھے کیا چاہئے گریباں چاک
کیا اسیر یمیں کریں شکوہ ترا صیاد ہم
بند آتا ہے نظر جاتی ہیں سو سو بار ہم
ماہ نو ہے مثل ابرو لیکن ادسکارو نہیں
زورہے کرمئے بازار تریکوچہ میں
قامت یار کو ہم یاد کیا کرتے ہیں
ہیں عجب رنگ کی وحشت تری دیوانہ بیں
خون کفک سے رنگ رک کل ہے خارمیں
کھلکر موا ہوں حسرت دادان ملیر میں
سر رگڑوں آسماں بت نازمیں سے میں
بھرا رہتا ہے خون دل ہمیشہ دیدہ ترمیں
یہاں ازل سے داغ سودا ہے دل اکاہ میں
بے سبب کیونکر کہوں ہر کل ہے خنداں غمیں
جو بیگینا ہے ہیں اونکا بھی خون حرام نہیں
بساؤں نافہ مشک ختن مو باف کیسو میں
دل بیتا بسی ہے پیچ وتاب انجان کیسو میں
مومین جو ہر ایک تیغ ابروی خمدار میں
دیکھا لی جوڑا بسنتی جب وہ جسم یار میں
ہے ستارہ ذود نب یارخ ہے زلف یار میں
دشت وحشت میں مجھے فکر تن عریاں نہیں
کیوں نفس داغ جنوں پر آج مسک افساں نہیں
پہنچا سنا پراوسکی ابھی میرا سرکہاں
غیر کو ثر کسی دربا کا میں سیاح نہیں
کوئی اے سفاک ایسا ناتواں ہوں میں
سو اے فکر زمانی رسم و راہ نہیں
مرد وارستہ کہیں قید مکاں کرتا نہیں
سربکف پھرتا ہوں میں لیکن کوئی قاتل نہیں
کیا بحر حسن کی ہے کمر ہیچ و تاب میں
عکس اوسکی زلف کا نہیں جام تیرمیں
اوس کلکی شکل پھرتی ہے چشم پر آب میں
مرگیا میں بیقراری سے اوسے کچھ غم نہیں
صبح فرقت تیر کیمیں شام سے کچھ کم نہیں
ہے عرق آلودہ رچرزلف جاناں غم نہیں
مشرق خور شید تیری نور سے ہے در نہیں
چیں دنیا میں زمیں سے تا فلک دم بھر نہیں
ہمارے کیف سزاوار احتساب نہیں
جان بلب ہے دل مرا اوس زلف عنبر فامیں
کبھی ملجاے خدا اسکی مجھی یاس نہیں
دل پر داغ آویزاں ہیں اوسکی زلف تیچان میں
ایجنوں کوئی جر ضعف کلو کیر نہیں
متکئی نقش حیات اور اوسے تاثیر نہیں
قابل روح سبک رو بدن پیر نہیں
جبسے کہ تبون سے آشنا ہوں
اس ابر میں یارسے جدا ہوں
اکیا تھا رات کیا وہ ماہ کامل خونمیں
زینت فتراک ہونیکی لئے آمادہ ہوں
صنم کوچہ تراہے اور میں ہوں
سب ہمارے لیے زنجیر لئے پھرتی ہیں
دل اوسکو دیا مینے تقصیر اسے کہتی ہیں
دل میں پوشیدہ تپ عشق تباں رکھتی ہیں
نیر رہا ہے کھڑا وہ بت شنک آب میں
غم شبیر میں وروکی کروں تر دامن
ہے دلا کسکو و دام اس کردش افلاک میں
روح کو آرام دم بھر باغ رضواں میں نہیں
باغباں ممنوں تری ہم اس گلستاں میں نہیں
ہماری آہ وہ سنکر جو واہ کرتی ہیں
جان ہم تجھ پہ دیا کرتی ہیں
جب وہ مسجد میں ادا کرتی ہیں
رفعت کبھی کسی کی گوارا یہاں نہیں
سر سبز سبزہ ہو جو ترا پایمال ہو
صبح کی ہوتی ہے ہر گز نہیں جینا مجھ کو
بستر خواب پہ تو یاد جو آیا مجھ کو
ہجر میں آنکھیں یہ لائیں جوش پر خونناب کو
مرک عیسی ہے تری چشم کی بیماروں کو
سر کشے اور ہواب کسکی کوارا مجھ کو
باغمیں دیکھا جو سر وقامت صیاد کو
مرا وصال کا کیا کر فراق یار نہ ہو
اہل حرفہ ہیں جو بت اونکا خریدار نہ ہو
نہ جنوں میں بھی کہا بخت نے عریاں مجھ کو
نہیں آہیں رہا کہینچوں جو میں ہر ایک آہن کو
لگا دی شعلۂ عارضی کروہ اک گلشن کو
رسائی ہے متاع حسن تک کب دوست دشمن کو
بے ثباتی ہے نہایت حسن بے ناموس کو
رسا اوج حقیقت پر کروں اب عشق یازیکو
میں جو روؤں خرمن ماہ درخشاں سبز ہو
تیز ہر دم کرتی ہے تیغ نگاہ یار کو
حق نے پہلی بار سے پیدا کیا اغیار کو
چاہیے نقد دل عشاق زلف یار کو
تشنگی میں کر مرا حلق اے سکندر خشک ہو
مہر تابان جانتا ہے ہر بشر آئینہ کو
نہ لائی عالم بالاسے کیوں طوبی کی مضمون کو
غضب ہے سروباندھا اوس پریکی قد کلکوں کو
لگایا آپ تپھراوسنی مجھ شور یدہ مجنوں کو
درازی یاد دلواتی ہے اوس زلف برپشیاں کو
قطع کرتا نا توانی میں عصا سے راہ کو
اوس شعلہ روسی عشق ہے چشم پر آب کو
دی آگ اوسنے پر تور خسی شرا ب کو
کرم تم کتنا کرو اپنی سمندر ناز کو
کیا مری آغوش سے وحشت ہے اوس لے پیر کو
دیکھ اپنی روی آتشناک کی تاثیر کو
بھولی نہ بعد مرک بھی ہم رقص یار کو
ہیں اشک میری آنکھوں میں قلزم سے زیادہ
دیدہ اعمی ہوئی روشن تری تنویری
کیا عجب سو دای زلف یار کی تاثیر سے
جل اوٹھا باغ اوسکی برق حسن کی تاثیر سے
پریرودیرسی اس سوچمن ساراز ہانا ہے
ہمیشہ زیر باراپنی محبت میں زمانا ہے
اجل سر پر کھڑی ہے خواب غفلتمیں زمانا ہے
یہ آدمی ہے کہ برسوں جمال رہتا ہے
پھری ہیں جام مے لبریز شبنم ساغر کل ہے
ٹھوکر ایک پائی حنائی سے لگایا چاہئیے
کوں سا خورشید آج اپنا چراغ خانہ ہے
باعث کریہ خیال نرکس مستانہ ہے
اوں لبون کے یاد میں داغ دل دیوانہ ہے
لالۂ وکل کا جوش ہے بلبلوں کا خروش ہے
آتش عشق وہ ہے جسمیں سمندر جلجاے
تیشہ لافرہاد یہاں سر بھی بدن پر بار ہے
سامنے آنکھوں کے اب دنرات اوسکا حال ہے
طور سے بھی اپنے وادی میں زیادہ نور ہے
جواوٹھائی ناز محبوب اوس جواں میں زور ہے
خیال یار میں دل شادماں ہے
ہمارا ہر نفس اک باد باں ہے
قیامت پایمال جلوہ رفتار دلبر ہے
جی میں ہے خاربیاباں جا مرے نہ کان دیکھئیے
جلوہ کاہ اوسکا ازلسی بہ دل بیتاب ہے
خاک اوڑوائی کیا جنگل میں آواز مجھے
نہیں پہنچتی جو نالی بھی ہمصفیروں کی
کوئی پروانہ ہے یا میرا دل مشتاق ہے
آکے آنکھوں کی تصور میں وہ کل رخسار ہے
داغ دل چمکا خیال عارض پر نورسے
نہ فقط چاہ مجھے قامت دلدار کی تھی
آتے آتے کیوں نہ الٹے پاوں بھاگے دور سے
تھی محبت شعلہ ہائے عارض پر نورسے
زار انتظار خط نے کیا اسقدر مجھے
ابھی ہم قید ہیں کو روح چھوٹے مجلس تنسے
دل مرا مرک شب فرقت میں ایسا شاد ہے
شبلیہ قامت موزوں مرا ہرایک مصرع ہے
روش جو عکس رخ سے یہ جام شراب ہے
فکر سے میں نہیں خالی غم جاناں میں کبھی
دہر میں غرق گنہ کون مراثانی ہے
بہر وحشت لا مکاں کا چاہئے میداں مجھے
اک مرا تابوت یاروں کو وبال دوش ہے
شان آکی خاکسار کی سرکش کی کب رہی
عاشق کی سعادت ہے جو سراسکا جھکا ہے
باد کی ماتد ساقی لے اڑا پانی مجھے
تیرے کلکوں ہیں اے رنگیں ادا باد بہار سے
جبتلک گردش ہے اس کو اک جہاں گردش میں ہے
چہرہ ہوا ہے غیرت کل آفتاب سے
یہ جسم زار ہہے حرکت پیرہن میں ہے
لغرش اس وادی میں ماے خضر کو ہرم کا ہے
شق گروں بنیہ کوتاداغ نمایاں ہووے
کر تری تاب کمر کرتی ہے ہے بیتاب مجھے
کچھ عدم کا بھی خیال ایدل تجھے یہاں چاہئے
اے شیخ وکبر سبحہ وزنار توڑئی
ظلم جو کرتا ہے تو ہے توڈرتا نہیں انجام سے
نہ چھتی بعد فنا کوچۂ جاناں ہم سے
نہ تھے پھر ان سے فقط دامان طفلاں ہوگئی خالی
ہم صفیر اس ما غکی کیسی ہو انا سازہے
شعر لکھنے میں جو یاد اسکا خرام ناز ہے
جسم کو جمی ہے کران سینہ کوہی دل بہارے
مائل سوے ہجودیہ تیری حضور ہے
لڑکیا ہے مری آغوش کو جاناں خالی
اہل فنالی ساتھ جو ہے سرفراز ہے
فریب غری نے مجھو کو لاکوئی جانانسی
دو چار حزیں پہنچی اکر اور بھی ہم سے
مشتاق سب ہیں رسی افرون بلالکی
جو تری سامنی آجائی وہ شیدا ہووے
بجا ہے کروصال غیار کو ہے مجھ ہجران ہے
فرقت ساقیمین خم تنور طوفاں خیز ہے
ایسی ہم آماجگاہ تیر مژگان ہو لئے
جان کنی بھی سہکی ہے اے کوہ کن استاد سے
بیستوں پر جا کی تکرکیوں نہ لیں فرماوسی
سبز آئینہ نہیں عکس خط صیاد سے
فراق میں ہے دم تیغ موج آب مجھے
وصل کی دولت جذب دل نیتیا لسے
چشم جاناں اور ہے چشم غزالاں اور ہے
غیر نے آکی چھڑایا در جاناں مجھ سے
دلا فصل بھاری ہے حنوز ان رابع مسکون ہے
مری محمل نشیں کے آکے لیلیٰ کا جو مفتون ہے
نوسن عمرروان ایسا ہے کر چالاک ہے
گلشن عالم بین کیا دشت جنوں چالاک ہے
دشت وحشتمین نہ میری جسم پر پوشاک ہے
ہے بجا کر خط غباروی آتشاک ہے
جو غزل ہے اس میں مضمون دل مایوس ہے
کسی نے تیر دزدیدہ نگہ سے دل کو مارا ہے
فرقت ہوے جو صبح کو اک رشک ماہ سے
مجھ کو فرقت کی اسیر یسی رہائی ہوتی ہے
خون چکاں دل کی حکایت ہے بیان کیا کیجے
پاس یار جانی ہے بادہ ارغوانی ہے
کیا سیا ہے اور سرخ لالہ وار آنکھوں میں ہے
آئینہ دیکھے تمنا ہو جسے دیدار کی
ہے محبت سب کو اسکی ابروی خمدار کے
ہوئی محفل کی محفل قتل تیغ ناز قابل سے
ہوا میں لوٹ تے ہیں خاک پر کل آج لسملبسی
یہاں قل کا پیالہ ہے وہاں میکے پیالی ہے
کس درجہ ہے ؔظالم تری رفتار میں کرمی
سواد ہے مجھ کو عشق خط سبزہ رنگ سے
نہر عسل جنان وانہار لبن
خسروہند ابوالفتح معین الدین است
حضرت پاد شاہ شاہنشاہ
حکومت بنو شیروان زمان
چون عظیم الشان جلیل الشان سپر
جناب ابو الفتح نوشیروان
ظل سبحان غیرت نو شیروان
صدوسی جشن کرہ سال مبارک شدت
عید اضحی بہ شہنشاہ مبارکباشد
یہ شنہنشاہ زمان تاج ور کشور ہند
یہ بادشاہ انور شیروان عادل ہے
جشن شاہی صدوسی سال مبارکباشد
عرش برین سے بھی کہیں اعلا مقام ہے
ورائے ابوالفتح سلطان غازی
چون شاہ زمن صاحب خود وانصاف
بحمد اللہ کہ بااقبال و دولت
نشاط ختنۂ سید علی خان
بلرزامحمد تقی خاں الٓہی
سردست خان ذیشان جو رسید زخمی ارتیغ
تاریخ وفات مرشد دوران مجتھد کربلاے شاہ شہیدان
تاریخ فوت علی مرزا افروزند مرزائی بیک
بدار الطبیع چون دیوان ناسخ
سرورق
بلبل ہوں بوستان جناب میر کا
لہا اوسکو جہانمیں غل ہے جسکی آمدآمد کا
مرا سینہ ہی مشرق آفتاب داغ ہجر انکا
جسجکہ ہے حسن فوراً قدردان پیدا ہوا
کل فشان عکس ہوا کسکی رخ رنگین کا
مہدیسی ہے شعلہ قدم اوس رشک پری کا
زلف سی کیجو شانہ کو نہ زنہار جدا
خلق کی تسخیر کو ہر نقش پا افسون ہوا
اپنی ابروآینہ میں دیکھکر بسمل ہوا
روی جانان کا تصور میں جو نظارا ہوا
سبزۂ خط لوری کا لو پز نمایان ہولیا
لیا کہیں مرک احبا میں جو ہمکو غم ہوا
کل شب خوقیمتیں اک ماتم کن عالم ہوا
لیا اثر میری سیہ بختے کی آکی نور کا
روی جانان پہ ہوا خط معبر پیدا
ماہ نوسی جو وہ خورشید مقابل ہوکا
لوئی غار تکر نہیں یوانونکی اسبابکا
پہر قیامت زاہوا ہلتا لب خاموش کا
دل سی لونکامین کام رہبر کا
اسی سی رنک ہی کل کا اسی سی نشہ ہی مل کا
لبریز اسکی ہاتہی مین ساغر شراب کا
پریونکو عمل سی مین تسخیر نہیں کرتا
دل میں ساکن ہی خیال اک بت بی پروا کا
لب ہوا محتاج خلق اپنا کسی خونریز کا
سیکڑوں آہیں لڑوں پر ذکر کر کیا آوار کا
رات ایسا انتظار یار میں بیتا تھا
لوح محفوظ اک نکینہ ہی علی کی نام کا
دی دوپپٹہ تو اپنا ململ کا
لو وہ دل ہے جو محورخ جاناں نہ ہوا
سر پر پہاڑ اونکی نہ ای آسماں گرا
جیسی کلدام اسنے دیکھا ہے مری صیّاد کا
سرو پر سایہ پڑا تیرا وہ موزوں ہوکیا
آج دعویٰ اسکی یکتا ئیکا باطل ہو کیا
رات بہر جو سامنے آنکھوں کی وہ مہ پارہ تھا
ہے دل سوز انمیں طور اسکی تجلی کاہ کا
نہ جانسوزغم کیسوی جاناں ہوتا
پوچھتا اشک اکر کو شہ داماں ہوتا
معطر اسکی نہانی سی بسکہ آب ہوا
سرو مثل جادہ ہے پامال تری حال کا
دور حسن یارنی عالم دکھا یا کال کا
تونی شہباز نکہ کو جواد ہر چھوڑ دیا
جب خرام ناز کو توای پری پیکر اٹھا
ماجرا ہر بحر میں ہے چشم در یا بار کا
وحشت دل ہوں میں دیوانہ تری تاثیر کا
خضر کو اسنے پامردیکے اکی لنک ٹھرایا
خصر کو اسنے پامردیکی اکک لنک ٹھرایا
تونزاکتسی گلستاں تک جو رخصت مانگتا
تونزاکتسی گلستاں تک جو رخصت مانکتا
پس جمازہ لیلی یہہ کہتا ہی جرس دل کا
پس جمازۂ لیلی یہہ کہتا ہی حرس دل کا
پڑا عکس آبجو مین خنجرا بروے قاتل کا
پڑا عکس آبجو میں حنجر ابروی قاتل کا
باغمیں روندی بہت پہو لونلی خرمن زیر پا
باغمیں روندی پہولونلی خرمن زیرپا
ضعف ہی راہ طلب میں جیسی وا منکیر پا
ضعف ہی راہ طلب میں جیسی وامنکیر پا
سمجھکی خس نہ مجھی کو جہاں نے پاک کیا
سمجھکی خس نہ مجھی کو جہاں نے پاک کیا
پانؤنکو دیوار زندان میرا دامن ہوکیا
پاؤں کو دیوار زنداں میرا دامن ہو کیا
پیشتر سر سی یہاں ہوتی ہیں سامان پیدا
پیشتر سر سے یہاں ہوتی ہیں ساماں پیدا
غلط کہتی ہیں اس رخکا ہوا خط بیزقم پیدا
غلط کہتی ہیں اس رخ کا ہوا خط بیزقم پیدا
مین کرزنینت فتراک کے قابل ہوتا
طرف زیست میں جاں باختہ مائل نہ ہو
مین اکر زینت فتر اک ٹے قابل ہوتا
کاوشیں اب تک چلی جاتی ہیں گو میں مرگیا
کاوشیں اب تک چلی جاتی ہیں گو میں مرگیا
خوب سانظارۂ قاتل تہ خنجر کیا
دم ہی بنداگی تری تیغ صفا ہانی کا
خوب سانظارۂ قاتل تہ خنجر کیا
دم ہی نبدا گی تیری تیغ صفا ہائی کا
ساتھ اپنی جو مجھی یارنی سونی ندیا
ساتھ اپنی جو مجھی یار نے سونے نہ دیا
اثر خون جگر میں کیا ہے اب زندگانی کا
اثر خون جکر میں کیا ہے آب زند کانی کا
یہ تو رہی رویٔ مہ حسیں کا کہ ہو خجل چاند چودہویں کا
یہ نور ہی روئی امہ جبیں کا کہ ہو خجل چاند چودھویں کا
جو دل ہی ٹوٹ کیا کیا ہوں شعر تر پیدا
جو دل ہے ٹوٹ کیا کیا ہوں شعرر پیدا
ایشب غم اب نہیں اسکی سواتدبیر خواب
ایشب غم اب نہیں اسکی سواتدبیر خواب
ہے مری مستی کو عشق ساقی کو ثر شراب
ہی مری مستی کو عشق ساقی کوثر شراب
لیا تری الفت میں ہیں اک نالہای عندلیب
کیا تری الفت میں ہیں اک نالہای عندلیب
کرمژہ اس رشک کلکی دیکھ پائی عندلیب
لرمژہ اس رشک کلکی دیکھ پای عندلیب
کر تری دست حیائی دیکھ پاے عندلیب
گر تری دست حنائی دیکھ پاے عندلیب
دشمن جاں ہے ہمارا پاسباں کوئی دوست
دشمن جاں ہے ہمارا پاسباں کوے دست
اس چمن میں ہیں بے شمار درخت
اس چمن میں ہیں بے شمار دخست
ہے ترا قددہ پاید اردرخْت
ہے ترا قد وہ پایدار درخت
زلفیں شاخیں ہیں قدیار درخت
زلفیں شاخیں ہیں قدیاردرخت
تن پرورونکی شغل میں کھوتا ہے جان عبث
اس کل کی کان کو نہیں زیور کی احتیاج
کیوں دکھائی اے فلک بے یار صبح
ہے برنک کل سراپا وہ بت خونخوار سرخ
یار آیا تو ہوی دیں ناکام سفید
رکھیو سواد خط رخ رشک قمر سی دور
جیتے جی جاوںمیں کیونکر کوے جاناں چھوڑکر
گنتا ہوں سر کو بوجھ میں ناکام دوش پر
زندا نہیں بہی کوچہ ترا اے یار آتا ہے نظر
بے خطر یوں ہاتھ دوڑاتا ہوں زلف یار پر
بدنما کپڑے ہیں مجھ وحشی کی جسم زار پر
غش مجھے آیا جو میں پہنچا در دلدار پر
آنکھ جیسی پڑگئی موی میاں یار پر
عاشق ومعشوق سب مرتے ہیں میرے یار پر
تاثیر زلف سے ہے خط روی یار سبز
اس قدر زیر فلک ایسرو کل اندام رقص
رکھتی ہیں کل عشق رخ شوق قد جانا نہ سمع
ساق جاناں دیکھ کر بنتی ہے خود پروانہ شمع
ایسا پروانہ زمانہ میں کبھی دیکھا نہ شمع
وصل میں تھی رونق محفل تو اائی چنک وشمع
عریانی جنوں میں میری کام آئی داغ
دیکھی نہیں جہاں میں مثل نکاہ یار تیغ
جس مکاں میں ہوتری رخسار کاروش چراغ
سنبل شکبونکی جا دیکھی شب تار فراق
برنگ کل مجھے کیا چاہئے گریباں چاک
کیا اسیر یمیں کریں شکوہ ترا صیاد ہم
بند آتا ہے نظر جاتی ہیں سو سو بار ہم
ماہ نو ہے مثل ابرو لیکن ادسکارو نہیں
زورہے کرمئے بازار تریکوچہ میں
قامت یار کو ہم یاد کیا کرتے ہیں
ہیں عجب رنگ کی وحشت تری دیوانہ بیں
خون کفک سے رنگ رک کل ہے خارمیں
کھلکر موا ہوں حسرت دادان ملیر میں
سر رگڑوں آسماں بت نازمیں سے میں
بھرا رہتا ہے خون دل ہمیشہ دیدہ ترمیں
یہاں ازل سے داغ سودا ہے دل اکاہ میں
بے سبب کیونکر کہوں ہر کل ہے خنداں غمیں
جو بیگینا ہے ہیں اونکا بھی خون حرام نہیں
بساؤں نافہ مشک ختن مو باف کیسو میں
دل بیتا بسی ہے پیچ وتاب انجان کیسو میں
مومین جو ہر ایک تیغ ابروی خمدار میں
دیکھا لی جوڑا بسنتی جب وہ جسم یار میں
ہے ستارہ ذود نب یارخ ہے زلف یار میں
دشت وحشت میں مجھے فکر تن عریاں نہیں
کیوں نفس داغ جنوں پر آج مسک افساں نہیں
پہنچا سنا پراوسکی ابھی میرا سرکہاں
غیر کو ثر کسی دربا کا میں سیاح نہیں
کوئی اے سفاک ایسا ناتواں ہوں میں
سو اے فکر زمانی رسم و راہ نہیں
مرد وارستہ کہیں قید مکاں کرتا نہیں
سربکف پھرتا ہوں میں لیکن کوئی قاتل نہیں
کیا بحر حسن کی ہے کمر ہیچ و تاب میں
عکس اوسکی زلف کا نہیں جام تیرمیں
اوس کلکی شکل پھرتی ہے چشم پر آب میں
مرگیا میں بیقراری سے اوسے کچھ غم نہیں
صبح فرقت تیر کیمیں شام سے کچھ کم نہیں
ہے عرق آلودہ رچرزلف جاناں غم نہیں
مشرق خور شید تیری نور سے ہے در نہیں
چیں دنیا میں زمیں سے تا فلک دم بھر نہیں
ہمارے کیف سزاوار احتساب نہیں
جان بلب ہے دل مرا اوس زلف عنبر فامیں
کبھی ملجاے خدا اسکی مجھی یاس نہیں
دل پر داغ آویزاں ہیں اوسکی زلف تیچان میں
ایجنوں کوئی جر ضعف کلو کیر نہیں
متکئی نقش حیات اور اوسے تاثیر نہیں
قابل روح سبک رو بدن پیر نہیں
جبسے کہ تبون سے آشنا ہوں
اس ابر میں یارسے جدا ہوں
اکیا تھا رات کیا وہ ماہ کامل خونمیں
زینت فتراک ہونیکی لئے آمادہ ہوں
صنم کوچہ تراہے اور میں ہوں
سب ہمارے لیے زنجیر لئے پھرتی ہیں
دل اوسکو دیا مینے تقصیر اسے کہتی ہیں
دل میں پوشیدہ تپ عشق تباں رکھتی ہیں
نیر رہا ہے کھڑا وہ بت شنک آب میں
غم شبیر میں وروکی کروں تر دامن
ہے دلا کسکو و دام اس کردش افلاک میں
روح کو آرام دم بھر باغ رضواں میں نہیں
باغباں ممنوں تری ہم اس گلستاں میں نہیں
ہماری آہ وہ سنکر جو واہ کرتی ہیں
جان ہم تجھ پہ دیا کرتی ہیں
جب وہ مسجد میں ادا کرتی ہیں
رفعت کبھی کسی کی گوارا یہاں نہیں
سر سبز سبزہ ہو جو ترا پایمال ہو
صبح کی ہوتی ہے ہر گز نہیں جینا مجھ کو
بستر خواب پہ تو یاد جو آیا مجھ کو
ہجر میں آنکھیں یہ لائیں جوش پر خونناب کو
مرک عیسی ہے تری چشم کی بیماروں کو
سر کشے اور ہواب کسکی کوارا مجھ کو
باغمیں دیکھا جو سر وقامت صیاد کو
مرا وصال کا کیا کر فراق یار نہ ہو
اہل حرفہ ہیں جو بت اونکا خریدار نہ ہو
نہ جنوں میں بھی کہا بخت نے عریاں مجھ کو
نہیں آہیں رہا کہینچوں جو میں ہر ایک آہن کو
لگا دی شعلۂ عارضی کروہ اک گلشن کو
رسائی ہے متاع حسن تک کب دوست دشمن کو
بے ثباتی ہے نہایت حسن بے ناموس کو
رسا اوج حقیقت پر کروں اب عشق یازیکو
میں جو روؤں خرمن ماہ درخشاں سبز ہو
تیز ہر دم کرتی ہے تیغ نگاہ یار کو
حق نے پہلی بار سے پیدا کیا اغیار کو
چاہیے نقد دل عشاق زلف یار کو
تشنگی میں کر مرا حلق اے سکندر خشک ہو
مہر تابان جانتا ہے ہر بشر آئینہ کو
نہ لائی عالم بالاسے کیوں طوبی کی مضمون کو
غضب ہے سروباندھا اوس پریکی قد کلکوں کو
لگایا آپ تپھراوسنی مجھ شور یدہ مجنوں کو
درازی یاد دلواتی ہے اوس زلف برپشیاں کو
قطع کرتا نا توانی میں عصا سے راہ کو
اوس شعلہ روسی عشق ہے چشم پر آب کو
دی آگ اوسنے پر تور خسی شرا ب کو
کرم تم کتنا کرو اپنی سمندر ناز کو
کیا مری آغوش سے وحشت ہے اوس لے پیر کو
دیکھ اپنی روی آتشناک کی تاثیر کو
بھولی نہ بعد مرک بھی ہم رقص یار کو
ہیں اشک میری آنکھوں میں قلزم سے زیادہ
دیدہ اعمی ہوئی روشن تری تنویری
کیا عجب سو دای زلف یار کی تاثیر سے
جل اوٹھا باغ اوسکی برق حسن کی تاثیر سے
پریرودیرسی اس سوچمن ساراز ہانا ہے
ہمیشہ زیر باراپنی محبت میں زمانا ہے
اجل سر پر کھڑی ہے خواب غفلتمیں زمانا ہے
یہ آدمی ہے کہ برسوں جمال رہتا ہے
پھری ہیں جام مے لبریز شبنم ساغر کل ہے
ٹھوکر ایک پائی حنائی سے لگایا چاہئیے
کوں سا خورشید آج اپنا چراغ خانہ ہے
باعث کریہ خیال نرکس مستانہ ہے
اوں لبون کے یاد میں داغ دل دیوانہ ہے
لالۂ وکل کا جوش ہے بلبلوں کا خروش ہے
آتش عشق وہ ہے جسمیں سمندر جلجاے
تیشہ لافرہاد یہاں سر بھی بدن پر بار ہے
سامنے آنکھوں کے اب دنرات اوسکا حال ہے
طور سے بھی اپنے وادی میں زیادہ نور ہے
جواوٹھائی ناز محبوب اوس جواں میں زور ہے
خیال یار میں دل شادماں ہے
ہمارا ہر نفس اک باد باں ہے
قیامت پایمال جلوہ رفتار دلبر ہے
جی میں ہے خاربیاباں جا مرے نہ کان دیکھئیے
جلوہ کاہ اوسکا ازلسی بہ دل بیتاب ہے
خاک اوڑوائی کیا جنگل میں آواز مجھے
نہیں پہنچتی جو نالی بھی ہمصفیروں کی
کوئی پروانہ ہے یا میرا دل مشتاق ہے
آکے آنکھوں کی تصور میں وہ کل رخسار ہے
داغ دل چمکا خیال عارض پر نورسے
نہ فقط چاہ مجھے قامت دلدار کی تھی
آتے آتے کیوں نہ الٹے پاوں بھاگے دور سے
تھی محبت شعلہ ہائے عارض پر نورسے
زار انتظار خط نے کیا اسقدر مجھے
ابھی ہم قید ہیں کو روح چھوٹے مجلس تنسے
دل مرا مرک شب فرقت میں ایسا شاد ہے
شبلیہ قامت موزوں مرا ہرایک مصرع ہے
روش جو عکس رخ سے یہ جام شراب ہے
فکر سے میں نہیں خالی غم جاناں میں کبھی
دہر میں غرق گنہ کون مراثانی ہے
بہر وحشت لا مکاں کا چاہئے میداں مجھے
اک مرا تابوت یاروں کو وبال دوش ہے
شان آکی خاکسار کی سرکش کی کب رہی
عاشق کی سعادت ہے جو سراسکا جھکا ہے
باد کی ماتد ساقی لے اڑا پانی مجھے
تیرے کلکوں ہیں اے رنگیں ادا باد بہار سے
جبتلک گردش ہے اس کو اک جہاں گردش میں ہے
چہرہ ہوا ہے غیرت کل آفتاب سے
یہ جسم زار ہہے حرکت پیرہن میں ہے
لغرش اس وادی میں ماے خضر کو ہرم کا ہے
شق گروں بنیہ کوتاداغ نمایاں ہووے
کر تری تاب کمر کرتی ہے ہے بیتاب مجھے
کچھ عدم کا بھی خیال ایدل تجھے یہاں چاہئے
اے شیخ وکبر سبحہ وزنار توڑئی
ظلم جو کرتا ہے تو ہے توڈرتا نہیں انجام سے
نہ چھتی بعد فنا کوچۂ جاناں ہم سے
نہ تھے پھر ان سے فقط دامان طفلاں ہوگئی خالی
ہم صفیر اس ما غکی کیسی ہو انا سازہے
شعر لکھنے میں جو یاد اسکا خرام ناز ہے
جسم کو جمی ہے کران سینہ کوہی دل بہارے
مائل سوے ہجودیہ تیری حضور ہے
لڑکیا ہے مری آغوش کو جاناں خالی
اہل فنالی ساتھ جو ہے سرفراز ہے
فریب غری نے مجھو کو لاکوئی جانانسی
دو چار حزیں پہنچی اکر اور بھی ہم سے
مشتاق سب ہیں رسی افرون بلالکی
جو تری سامنی آجائی وہ شیدا ہووے
بجا ہے کروصال غیار کو ہے مجھ ہجران ہے
فرقت ساقیمین خم تنور طوفاں خیز ہے
ایسی ہم آماجگاہ تیر مژگان ہو لئے
جان کنی بھی سہکی ہے اے کوہ کن استاد سے
بیستوں پر جا کی تکرکیوں نہ لیں فرماوسی
سبز آئینہ نہیں عکس خط صیاد سے
فراق میں ہے دم تیغ موج آب مجھے
وصل کی دولت جذب دل نیتیا لسے
چشم جاناں اور ہے چشم غزالاں اور ہے
غیر نے آکی چھڑایا در جاناں مجھ سے
دلا فصل بھاری ہے حنوز ان رابع مسکون ہے
مری محمل نشیں کے آکے لیلیٰ کا جو مفتون ہے
نوسن عمرروان ایسا ہے کر چالاک ہے
گلشن عالم بین کیا دشت جنوں چالاک ہے
دشت وحشتمین نہ میری جسم پر پوشاک ہے
ہے بجا کر خط غباروی آتشاک ہے
جو غزل ہے اس میں مضمون دل مایوس ہے
کسی نے تیر دزدیدہ نگہ سے دل کو مارا ہے
فرقت ہوے جو صبح کو اک رشک ماہ سے
مجھ کو فرقت کی اسیر یسی رہائی ہوتی ہے
خون چکاں دل کی حکایت ہے بیان کیا کیجے
پاس یار جانی ہے بادہ ارغوانی ہے
کیا سیا ہے اور سرخ لالہ وار آنکھوں میں ہے
آئینہ دیکھے تمنا ہو جسے دیدار کی
ہے محبت سب کو اسکی ابروی خمدار کے
ہوئی محفل کی محفل قتل تیغ ناز قابل سے
ہوا میں لوٹ تے ہیں خاک پر کل آج لسملبسی
یہاں قل کا پیالہ ہے وہاں میکے پیالی ہے
کس درجہ ہے ؔظالم تری رفتار میں کرمی
سواد ہے مجھ کو عشق خط سبزہ رنگ سے
نہر عسل جنان وانہار لبن
خسروہند ابوالفتح معین الدین است
حضرت پاد شاہ شاہنشاہ
حکومت بنو شیروان زمان
چون عظیم الشان جلیل الشان سپر
جناب ابو الفتح نوشیروان
ظل سبحان غیرت نو شیروان
صدوسی جشن کرہ سال مبارک شدت
عید اضحی بہ شہنشاہ مبارکباشد
یہ شنہنشاہ زمان تاج ور کشور ہند
یہ بادشاہ انور شیروان عادل ہے
جشن شاہی صدوسی سال مبارکباشد
عرش برین سے بھی کہیں اعلا مقام ہے
ورائے ابوالفتح سلطان غازی
چون شاہ زمن صاحب خود وانصاف
بحمد اللہ کہ بااقبال و دولت
نشاط ختنۂ سید علی خان
بلرزامحمد تقی خاں الٓہی
سردست خان ذیشان جو رسید زخمی ارتیغ
تاریخ وفات مرشد دوران مجتھد کربلاے شاہ شہیدان
تاریخ فوت علی مرزا افروزند مرزائی بیک
بدار الطبیع چون دیوان ناسخ
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.