سرورق
تقریظ
مقدمہ
دیباچہ
فہرست کلام
حمد
ہے قلم شکر الٰھی میں ثنا گر میرا
نعت حضرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
لاکھ آوارہ رہے یہ دل مضطر میرا
یہ وہ شب ہے ہوا ہے اسمیں وہ حیر البشر پیدا
ظلم وبیداد وستم آپ کو کب یاد آیا
ترے کوچہ کو بھولونگا بھلا کیا
سر محشر جو وہ بت جلوہ گر تھا
کبھی بیتابی دل سے میں پریشاں نہ ہوا
انکار ہوچکا بس اب انکا ہو چکا
تاقیامت نہ وفا آپ کا وعدہ ہوگا
شوق جب دشت طلب میں مرارہبر ہوگا
کیا کہوں عشق میں کیا کیا نہ ہوا کیا ہوگا
کمسنی می ںیہ غضب ہے جب جواں ہو جائیگا
وہ چارہ ساز کبھی چارہ گر اگر ہوتا
جبتک میں رضا سے تری باہر نہیں ہوتا
زباں پر ہے ان کی فسانہ کسی کا
آشنا پھر اس ستم ایجاد کا کیونکر ہوا
وعدہ میں دھرا طاق پہ قرآن رہیگا
کچھ امتحاں کا نتیجہ برا بھلا نہ ہوا
تونے کیوں ضعف میں اے درد جگر چھوڑدیا
عجب کچھ یاس میں میں مورد غم شام ہجراں تھا
کاہے کو نالہ ہمارا بے اثر ہونے لگا
جسنے درپردہ بھی تجھ کو کبھی ایجان دیکھا
رنج سا ہے رنج صبح وشام کا
ستم اٹھانے کا جب انکے حق ادا نہ ہوا
بیٹھے بٹھائے مجھے کیا ہوگیا
میرے رہنے کیلئے آبادی و ویرانہ کیا
تجکو کچھ بھی ہے خیال اس عاشق دلگیر کا
یہ مرا دل مرا جگر تو ہوا
مزہ ایسا ملا مجکو بتوں سے دل لگا نیکا
جسے جانتے تھے مرنا وہ خیال وخواب نکلا
پاس ان کے شکوۂ پیکان مژگان لے چلا
مزہ دیتا ہے کیا کیا آپ کا یہ مہرباں کہنا
عشق میں چاہیے یہ کر جانا
لیکے دل کیا کہوں غمزے نے ترے کیا چھوڑا
کب خیال چشم جادوفن گیا
جلوہ گر لاکھ طرح سے ہو فلک پر مہتاب
ردیف ب
یارسول عربی حامل قرآن ہیں آپ
ردیف پ
بڑھ گیا کیا کشش دلمیں اتر آپ سے آپ
بیٹھ کر یوں چار میں کہتا ہے کوئی دلکی بات
ردیف ت
نعت حضرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ردیف ث
شکل سے پہچان لیں جب لوگ سارے دل کی بات
رنج سے اب فایدہ کیا ہے مرا ماتم عبث
ردیف ج
دیکھا دیکھا آپ کا دیکھا مزاج
شمعروروشن کا یگا غیر کا کا شانہ آج
پھر داغ کی طلب ہے دل پر محن کو آج
ردیف چ
روز ہوتی اک قیامت روز محشر چار پانچ
کب نظر آئی شب ہجراں مجھے تصویر صبح
ردیف ح
ملنے کے آتی گھڑی آتی وہ کیونکر تاریخ
زلف ہٹنے کو ہے آئیگا نظر یار کا رخ
ردیف خ
برسربام اگر رشک قمر می آید
ردیف د
جو گزرے گا کبھی کوچہ سے تیرے دلربا ہوکر
کام آیا نہ کسی کا تعویذ
ردیف ذ
ردیف ر
قرار وصبر دل سے ہوگئے رخصت خفا ہوکر
چرخ کرتا ہے ستم اہل قویٰ کو دیکھکر
بڑی آفت مچائی ہے مقام دل ستاں ہوکر
میرے مونس مرے غمخوار دل وجاں ہوکر
دعویٰ نہیں درم کا مجھے روز گار پر
ہیں جان کے درپے دل دیوانہ جلا کر
ذبح بھی کرتا ہے اور کہتا ہے فریاد نہ کر
غمزے ترے ستم کے ہیں اور میں بلا کے ناز
ردیف ز
کبھی مجنوں کبھی قاصد کبھی شیدا بنکر
منظور ہے کہ دہر میں رکھوں اماں ہنوز
ردیف س
کیسے ممکن ہورسائی مری اب یار کے پاس
ردیف ص
دل میں ہے مرے تری بھری حرص
ردیف ش
دیکھئیے چشم فتنہ گر کی تلاش
ردیف ض
دہان مہر ولب قمر سے سناؤنگا داستان عارض
ردیف ط
جی بہلتا ہے مجبت میں کہیں ہمدم غلط
اچھا کیوں نہ تم نے کیا پیار کا لحاظ
ردیف ظ
داغ فرقت کا ہے روشن یا مرے دلپر چراغ
دیتا ہے مشک زلف معنبر کی اطلاع
ردیف غ
ردیف ع
ردیف ف
نہ دیکھے حور کو دیکھے نہ وہ پری کی طرف
ردیف ق
کیا کہے کس سے کہے حال اپنا نا کام فراق
ردیف ک
نہیں ہے میری آنہوں میں دہواں تک
الٰہی کب کی میرے دل میں تھی آگ
مرا تو آپ تھا ظلم آشنا دل
ردیف ل
ردیف گ
چل رہی ہے وہ ہوائے درد دل
ردیف م
کچھ دل ناداں کو بہلائیں گے ہم
میری شب فراق تو کر گئی کا رہائے دل
کج ادائی سے تری اے جان جاں سمجھے تھے ہم
کونسا دل ہے کہ جو تیرا طلبگار نہیں
دل کو لگا کے اک بت نا آشنا سے ہم
ردیف ن
وہ برہمنا ہوں مرے دوش پہ زنار نہیں
شہرت تمھارے ظلم وستم کی کہاں نہیں
ہم انھیں رشک حور کہتے ہیں
تو نہ کہہ بہر خدا ناخن تدبیر نہیں
خوگر جو رہوں میں رنج سے بیزار نہیں
تمگر سے طلب ہم رخصت بیداد کرتے ہیں
کیونکر کہوں کہ کوئی مرا دل ربا نہیں
دل میں رہتا ہے مرے وہ مہ کنعاں برسوں
مانند میرے اہل زمیں اور بھی تو ہیں
عیش و راحت طلبی اس دل نالاں میں نہیں
افلاک نصیبوں سے مرے بر سر کیں ہیں
مجھے اس بت نے ہی کردیا باتوں ہی باتوں میں
اداوغمزے تیرے تیر خنجر ہوتے رہتے ہیں
شب فراق ہے میں دل کو اضطراب نہیں
ان بتوں میں جو ہے خدا میں نہیں
خلوتیں غیر سے ہوئیں تو نہیں
ہوئی بت پرستی میں نادانیاں ہیں
گلۂ جور نہ کچھ شکوۂ بیداد کروں
ٹھوکر سے تیری کیا تہ وبالا جہاں نہیں
ادھر احباب ہیں دم میں ادھر اغیار باتوں میں
نالہ نہ ہو فغاں نہ ہوا اور چشم تر نہ ہو
نعت حضرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ظہور نور مطلق مظہر ذات خدا تم ہو
ان کی یہ تیغ ادا تیر نظر دیکھیں تو
اس بیوفا کا وصل میسر کبھی تو ہو
اس مچلنے سے تو حاصل نہیں اے حضرت دل
امید وصل وجہہ زیست تھی غم کھانیوالے کو
عیاں کرتا ہے عالم میں مرا آہ وفغاں مجھکو
وعدۂ وصل عدو آج وفا ہو کہ نہ ہو
دنیا میں کوئی مائل زلف دو تانہ ہو
تمھارا خط الفت غیر کے ہاتھوں سے پہنچا ہو
حال اس دل کا کیوں کہیں سے سنو
کچھ تو ٹہرو ابھی آئے ہو تو جاتے کیوں ہو
اذیتیں کتنی سب سے پہنچیں بتوں سے کیا اک جہاں سے ہم کو
ردیف ھ
دیکھا ہے یہ جذب دل نخچیر ہمیشہ
ردیف ی
نعت حضرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اب تو وحشی کردیا فرقت نے مجھ کو یار کی
منظور نہیں رنج کو راحت مرے دلکی
رشک گل کرلے ذرا تو سیر اس گلزار کی
تری صورت کی یہ صورت کبھی پہلے تو نہ تھی
کھل گیا راز ترا ہوگئی شہرت تیری
پوچھا کبھی نہ تونے نہ تجھ تک خبر گئی
شب وصل دشمن نزاکت کسی کی
زلف مشکیں ورسا اور مرا کیا لے گی
چھپ سکے گی بھلا لگی دل کی
شام ہجراں جو کٹی صبح قیامت آئی
حسن دالا ہوا کرے کوئی
ملی اتنے سے دل کو کیسی سمائی
آج جھگڑا ہوچکا ختم ان سے الفت ہو چکی
جھوٹا نہیں ہے قصّہ غم اک سر موبھی
شکایت کے لئے جورو جفا کی
ہے نور الہی کی جلوہ فگنی تم سے
ردیف ے
نعت حضرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اب غرض مئے سے نہ مینا سے نہ پیمانے سے
ساجد بنائے کیوں نہ ترا نقش پا مجھے
کچھ دعا میں اب میری شاید اثر آنیکو ہے
تم اگر چاہو تو مشکل مری آساں ہو جائے
دشمن کا بن گیا ہے گھر آنکھونکے سامنے
قتل عشاق مقرر ہے خدا خیر کرے
صرف وعدہ نہ ہوسکا تم سے
نکل جائے گا غم قلب حزیں سے
اور کیا صبر و وفا تجھ کو ستمگر چاہیے
اس بت بدمست کا عہد شباب آنیکو ہے
اس ستمگر سے دل اغیار بھی کب شاد ہے
اس صبر وتحمل سے یہ آیا مرے آگے
محفل اغیار میں جو جام زر گردش میں ہے
ستم کے آثار دوست دشمن مری لحد پر نہ دیکھ لینگے
تھی بہت دن سے تلاش دل بیمار مجھے
تمھارے شکوۂ بیداد کو چھپانہ سکے
وہ جو کمبخت دریار کے درباں ہونگے
ادھر ہیں بتکدے والے ادھر اہل حرم تیرے
خوب ہے خوب آڑاے شب فرقت کے مزے
زامندگی کا وصف تو میری نظر میں ہے
اچھی ہو یا بری ہو تمہاری خبر ملے
جو غار تگر جان ہے وہ دل یہی ہے
اس عشق کے صدمے تو نہ اٹھیں گے کسی کے ساتھ
غفلت ہستی ثبوت حال زار خواب ہے
کیا اقربا دماغ مرا کھائے جائینگے
فقط تم تو صورت دکھا کر گئے
میرے دل کی لگی وہ کیا جانے
چین وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
آیا ہے ابر گہر کر بس اب شراب آئے
آْج کچھ ایسے موثر مرے نالے نکلے
کہا ہمنے ہمی ںہی حسن ایسا دیکھنے والے
چا فتنہ نہیں تو پھر کیا ہے
وصل کی رات وہ صحبت مجھے یاد آتی ہے
ہم اگتا گئے رنج وغم سہتے سہتے
ان بتونکی اگر خدائی ہے
تانکنا اس کا کیسے خالی ہے
تم کو میں جانوں دل مرا جانے
عاشقی میں بھلا برا کیا ہے
بچیں گے کبتک ہمارے ہاتھونسے آپ شرم وحجاب کرکے
وصال میں وہ کہاں دہن جو انتظار میں ہے
جب وہ ہم سے ملے جلے نکلے
دو بدو ان سے حوصلے نکلے
ترے گیسوؤں پر فدا ہونیوالے
بہت دشوار ہے سودائے زلف خم بخم نکلے
کچھ ایسی بات نکلی ہے زباں سے
متفرق اشعار
ٹھمریاں
مثلث ومخمس وغیرہ
مبارک بادی
قطعات تاریخی متعلقہ طباعت دیوان لطف سخن
ذوقی جناب مولوی سیّد حسین صاحب
YEAR1941
CONTRIBUTORरेख़्ता
PUBLISHER आज़म स्टीम प्रेस, हैदराबाद
YEAR1941
CONTRIBUTORरेख़्ता
PUBLISHER आज़म स्टीम प्रेस, हैदराबाद
سرورق
تقریظ
مقدمہ
دیباچہ
فہرست کلام
حمد
ہے قلم شکر الٰھی میں ثنا گر میرا
نعت حضرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
لاکھ آوارہ رہے یہ دل مضطر میرا
یہ وہ شب ہے ہوا ہے اسمیں وہ حیر البشر پیدا
ظلم وبیداد وستم آپ کو کب یاد آیا
ترے کوچہ کو بھولونگا بھلا کیا
سر محشر جو وہ بت جلوہ گر تھا
کبھی بیتابی دل سے میں پریشاں نہ ہوا
انکار ہوچکا بس اب انکا ہو چکا
تاقیامت نہ وفا آپ کا وعدہ ہوگا
شوق جب دشت طلب میں مرارہبر ہوگا
کیا کہوں عشق میں کیا کیا نہ ہوا کیا ہوگا
کمسنی می ںیہ غضب ہے جب جواں ہو جائیگا
وہ چارہ ساز کبھی چارہ گر اگر ہوتا
جبتک میں رضا سے تری باہر نہیں ہوتا
زباں پر ہے ان کی فسانہ کسی کا
آشنا پھر اس ستم ایجاد کا کیونکر ہوا
وعدہ میں دھرا طاق پہ قرآن رہیگا
کچھ امتحاں کا نتیجہ برا بھلا نہ ہوا
تونے کیوں ضعف میں اے درد جگر چھوڑدیا
عجب کچھ یاس میں میں مورد غم شام ہجراں تھا
کاہے کو نالہ ہمارا بے اثر ہونے لگا
جسنے درپردہ بھی تجھ کو کبھی ایجان دیکھا
رنج سا ہے رنج صبح وشام کا
ستم اٹھانے کا جب انکے حق ادا نہ ہوا
بیٹھے بٹھائے مجھے کیا ہوگیا
میرے رہنے کیلئے آبادی و ویرانہ کیا
تجکو کچھ بھی ہے خیال اس عاشق دلگیر کا
یہ مرا دل مرا جگر تو ہوا
مزہ ایسا ملا مجکو بتوں سے دل لگا نیکا
جسے جانتے تھے مرنا وہ خیال وخواب نکلا
پاس ان کے شکوۂ پیکان مژگان لے چلا
مزہ دیتا ہے کیا کیا آپ کا یہ مہرباں کہنا
عشق میں چاہیے یہ کر جانا
لیکے دل کیا کہوں غمزے نے ترے کیا چھوڑا
کب خیال چشم جادوفن گیا
جلوہ گر لاکھ طرح سے ہو فلک پر مہتاب
ردیف ب
یارسول عربی حامل قرآن ہیں آپ
ردیف پ
بڑھ گیا کیا کشش دلمیں اتر آپ سے آپ
بیٹھ کر یوں چار میں کہتا ہے کوئی دلکی بات
ردیف ت
نعت حضرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ردیف ث
شکل سے پہچان لیں جب لوگ سارے دل کی بات
رنج سے اب فایدہ کیا ہے مرا ماتم عبث
ردیف ج
دیکھا دیکھا آپ کا دیکھا مزاج
شمعروروشن کا یگا غیر کا کا شانہ آج
پھر داغ کی طلب ہے دل پر محن کو آج
ردیف چ
روز ہوتی اک قیامت روز محشر چار پانچ
کب نظر آئی شب ہجراں مجھے تصویر صبح
ردیف ح
ملنے کے آتی گھڑی آتی وہ کیونکر تاریخ
زلف ہٹنے کو ہے آئیگا نظر یار کا رخ
ردیف خ
برسربام اگر رشک قمر می آید
ردیف د
جو گزرے گا کبھی کوچہ سے تیرے دلربا ہوکر
کام آیا نہ کسی کا تعویذ
ردیف ذ
ردیف ر
قرار وصبر دل سے ہوگئے رخصت خفا ہوکر
چرخ کرتا ہے ستم اہل قویٰ کو دیکھکر
بڑی آفت مچائی ہے مقام دل ستاں ہوکر
میرے مونس مرے غمخوار دل وجاں ہوکر
دعویٰ نہیں درم کا مجھے روز گار پر
ہیں جان کے درپے دل دیوانہ جلا کر
ذبح بھی کرتا ہے اور کہتا ہے فریاد نہ کر
غمزے ترے ستم کے ہیں اور میں بلا کے ناز
ردیف ز
کبھی مجنوں کبھی قاصد کبھی شیدا بنکر
منظور ہے کہ دہر میں رکھوں اماں ہنوز
ردیف س
کیسے ممکن ہورسائی مری اب یار کے پاس
ردیف ص
دل میں ہے مرے تری بھری حرص
ردیف ش
دیکھئیے چشم فتنہ گر کی تلاش
ردیف ض
دہان مہر ولب قمر سے سناؤنگا داستان عارض
ردیف ط
جی بہلتا ہے مجبت میں کہیں ہمدم غلط
اچھا کیوں نہ تم نے کیا پیار کا لحاظ
ردیف ظ
داغ فرقت کا ہے روشن یا مرے دلپر چراغ
دیتا ہے مشک زلف معنبر کی اطلاع
ردیف غ
ردیف ع
ردیف ف
نہ دیکھے حور کو دیکھے نہ وہ پری کی طرف
ردیف ق
کیا کہے کس سے کہے حال اپنا نا کام فراق
ردیف ک
نہیں ہے میری آنہوں میں دہواں تک
الٰہی کب کی میرے دل میں تھی آگ
مرا تو آپ تھا ظلم آشنا دل
ردیف ل
ردیف گ
چل رہی ہے وہ ہوائے درد دل
ردیف م
کچھ دل ناداں کو بہلائیں گے ہم
میری شب فراق تو کر گئی کا رہائے دل
کج ادائی سے تری اے جان جاں سمجھے تھے ہم
کونسا دل ہے کہ جو تیرا طلبگار نہیں
دل کو لگا کے اک بت نا آشنا سے ہم
ردیف ن
وہ برہمنا ہوں مرے دوش پہ زنار نہیں
شہرت تمھارے ظلم وستم کی کہاں نہیں
ہم انھیں رشک حور کہتے ہیں
تو نہ کہہ بہر خدا ناخن تدبیر نہیں
خوگر جو رہوں میں رنج سے بیزار نہیں
تمگر سے طلب ہم رخصت بیداد کرتے ہیں
کیونکر کہوں کہ کوئی مرا دل ربا نہیں
دل میں رہتا ہے مرے وہ مہ کنعاں برسوں
مانند میرے اہل زمیں اور بھی تو ہیں
عیش و راحت طلبی اس دل نالاں میں نہیں
افلاک نصیبوں سے مرے بر سر کیں ہیں
مجھے اس بت نے ہی کردیا باتوں ہی باتوں میں
اداوغمزے تیرے تیر خنجر ہوتے رہتے ہیں
شب فراق ہے میں دل کو اضطراب نہیں
ان بتوں میں جو ہے خدا میں نہیں
خلوتیں غیر سے ہوئیں تو نہیں
ہوئی بت پرستی میں نادانیاں ہیں
گلۂ جور نہ کچھ شکوۂ بیداد کروں
ٹھوکر سے تیری کیا تہ وبالا جہاں نہیں
ادھر احباب ہیں دم میں ادھر اغیار باتوں میں
نالہ نہ ہو فغاں نہ ہوا اور چشم تر نہ ہو
نعت حضرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ظہور نور مطلق مظہر ذات خدا تم ہو
ان کی یہ تیغ ادا تیر نظر دیکھیں تو
اس بیوفا کا وصل میسر کبھی تو ہو
اس مچلنے سے تو حاصل نہیں اے حضرت دل
امید وصل وجہہ زیست تھی غم کھانیوالے کو
عیاں کرتا ہے عالم میں مرا آہ وفغاں مجھکو
وعدۂ وصل عدو آج وفا ہو کہ نہ ہو
دنیا میں کوئی مائل زلف دو تانہ ہو
تمھارا خط الفت غیر کے ہاتھوں سے پہنچا ہو
حال اس دل کا کیوں کہیں سے سنو
کچھ تو ٹہرو ابھی آئے ہو تو جاتے کیوں ہو
اذیتیں کتنی سب سے پہنچیں بتوں سے کیا اک جہاں سے ہم کو
ردیف ھ
دیکھا ہے یہ جذب دل نخچیر ہمیشہ
ردیف ی
نعت حضرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اب تو وحشی کردیا فرقت نے مجھ کو یار کی
منظور نہیں رنج کو راحت مرے دلکی
رشک گل کرلے ذرا تو سیر اس گلزار کی
تری صورت کی یہ صورت کبھی پہلے تو نہ تھی
کھل گیا راز ترا ہوگئی شہرت تیری
پوچھا کبھی نہ تونے نہ تجھ تک خبر گئی
شب وصل دشمن نزاکت کسی کی
زلف مشکیں ورسا اور مرا کیا لے گی
چھپ سکے گی بھلا لگی دل کی
شام ہجراں جو کٹی صبح قیامت آئی
حسن دالا ہوا کرے کوئی
ملی اتنے سے دل کو کیسی سمائی
آج جھگڑا ہوچکا ختم ان سے الفت ہو چکی
جھوٹا نہیں ہے قصّہ غم اک سر موبھی
شکایت کے لئے جورو جفا کی
ہے نور الہی کی جلوہ فگنی تم سے
ردیف ے
نعت حضرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اب غرض مئے سے نہ مینا سے نہ پیمانے سے
ساجد بنائے کیوں نہ ترا نقش پا مجھے
کچھ دعا میں اب میری شاید اثر آنیکو ہے
تم اگر چاہو تو مشکل مری آساں ہو جائے
دشمن کا بن گیا ہے گھر آنکھونکے سامنے
قتل عشاق مقرر ہے خدا خیر کرے
صرف وعدہ نہ ہوسکا تم سے
نکل جائے گا غم قلب حزیں سے
اور کیا صبر و وفا تجھ کو ستمگر چاہیے
اس بت بدمست کا عہد شباب آنیکو ہے
اس ستمگر سے دل اغیار بھی کب شاد ہے
اس صبر وتحمل سے یہ آیا مرے آگے
محفل اغیار میں جو جام زر گردش میں ہے
ستم کے آثار دوست دشمن مری لحد پر نہ دیکھ لینگے
تھی بہت دن سے تلاش دل بیمار مجھے
تمھارے شکوۂ بیداد کو چھپانہ سکے
وہ جو کمبخت دریار کے درباں ہونگے
ادھر ہیں بتکدے والے ادھر اہل حرم تیرے
خوب ہے خوب آڑاے شب فرقت کے مزے
زامندگی کا وصف تو میری نظر میں ہے
اچھی ہو یا بری ہو تمہاری خبر ملے
جو غار تگر جان ہے وہ دل یہی ہے
اس عشق کے صدمے تو نہ اٹھیں گے کسی کے ساتھ
غفلت ہستی ثبوت حال زار خواب ہے
کیا اقربا دماغ مرا کھائے جائینگے
فقط تم تو صورت دکھا کر گئے
میرے دل کی لگی وہ کیا جانے
چین وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
آیا ہے ابر گہر کر بس اب شراب آئے
آْج کچھ ایسے موثر مرے نالے نکلے
کہا ہمنے ہمی ںہی حسن ایسا دیکھنے والے
چا فتنہ نہیں تو پھر کیا ہے
وصل کی رات وہ صحبت مجھے یاد آتی ہے
ہم اگتا گئے رنج وغم سہتے سہتے
ان بتونکی اگر خدائی ہے
تانکنا اس کا کیسے خالی ہے
تم کو میں جانوں دل مرا جانے
عاشقی میں بھلا برا کیا ہے
بچیں گے کبتک ہمارے ہاتھونسے آپ شرم وحجاب کرکے
وصال میں وہ کہاں دہن جو انتظار میں ہے
جب وہ ہم سے ملے جلے نکلے
دو بدو ان سے حوصلے نکلے
ترے گیسوؤں پر فدا ہونیوالے
بہت دشوار ہے سودائے زلف خم بخم نکلے
کچھ ایسی بات نکلی ہے زباں سے
متفرق اشعار
ٹھمریاں
مثلث ومخمس وغیرہ
مبارک بادی
قطعات تاریخی متعلقہ طباعت دیوان لطف سخن
ذوقی جناب مولوی سیّد حسین صاحب
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।