سر ورق
قطعہ
نوید عشرت
فطرت کی شاعری
آنم کہ من دانم
محراب
نعت
تضمین
نعت
ذوقِ نظر کو جلوۂ بے تاب لے گیا
اگر بھولے سے میں کچھ کہہ گیا ہوں
دل سے تکلیفِ غم یار بھلا دی جائے
نگاہِ حسن کی تاثیر بن گیا شاید
خود اپنی سطح سے کتنے بلند ہوتے ہیں
بے تعلق رہ کے دنیا سے گزر جانا پڑا
فریبِ ہوش و خرد جب سے کھا گیا ہوں
رہے گی ان حسیں آنکھوں میں اپنی داستاں برسوں
بزعم آگہی کچھ لوگ انجانے بھی ہوتے ہیں
ابتدا ہونے سے پہلے انتہا کرتے ہیں لوگ
انتخابِ نگہِ شوق کی مشکل بھی نہیں
ننگ میخانہ سہی میکدہ بردوش سہی
سرحدِ غم سے گزرنے کا نشاں اور سہی
خفا مجھ سے اگر تو ساقیٔ میخانہ نہ ہو جائے
نئے جہاں میں پرانی شراب لے آئے
ہم کہاں گم ہو گئے ذہنی اجالوں کے لئے
بہار بن کے جو دورِ خزاں سے گزرے گا
بعد مدت کے خیالِ مے و مینا آیا
گزر چکے قافلے جنوں کے فضامیں گرد وغبار سا ہے
کبھی وہم و گماں کو مدعائے دل نہیں ملتا
تھرتھرائی ہیں ظلمت کی پرچھائیاں مژدہ احساسِ قلب و نظر کیلئے
سکوں سے متصل ہے اب طبیعت انقلابوں کی
ہوئی جنبش اسیرِ آرزو کے جسم بے جاں کو
بڑھ رہی ہیں ادھیروں کی گہرائیاں ہر طرف۔۔۔۔۔
قصۂ غم ہے زندگانی تک
کتنا حیرت زا سنہرا خواب ہے میرے لئے
کرم کے نام پہ ان کا عتاب چاہتے ہیں
آنکھوں میں اضطراب مے و جام رہ گیا
دامنِ حسن میں ہر اشکِ تمنا رکھ دو
جب بھی تمہیں خود اپنے ستم یاد آئیں گے
ماضی کے التفات و کرم بھول جایئے
مجھے درسِ عمل دیتی ہے دنیا
حسنِ فطرت کے امیں قاتلِ کردار نہ بن
یہ تعلق ہے ازل ہی سے تصادم آشنا
حقیقت میں نگاہوں میں ہو اک افسانہ ہو جائے
بزم تخیل سے حرفِ اظہار تک ہم تمنا رہے پھر دعا بن گئے
موجِ طوفاں دے رہی ہے مژدۂ ساحل مجھے
چشمِ فطرت کو تم آئینہ بنالو اپنا
ان کا منشا ہے نہ پھیلے خس و خا شاک میں آگ
گلاب سرخ ہو پیلا، سفید ہو کہ سیاہ
اتنے حسین یہ مرے شام و سحر نہ تھے
تغیرات جہاں نے ایسا نظام بدلا ہے زندگی کا
آپ کا جس کو غم نہیں ہوتا
زندگی کیا موت کا بھی اس کو عرفاں ہو گیا
منزلیں گم ہیں راستہ بھی نہیں
تصور میں جمالِ روئے تاباں نے کے چلتا ہوں
ہو جن میں جوہرِ قابل انہیں اعزاز دیتی ہے
نگاہِ شوق کو مانوسِ جلوہ کر لیا ہوتا
رات میں پچھلے پہر جب بھی دعا مانگی ہے
یہ نہیں کثرتِ آلام سے جل جاتے ہیں
مت پوچھ کہ کیا مجھ کو مسیحا نظر آیا
دل کی بے تابی یہاں تک آگئی
اس حال میں جینے سے تو انکار نہیں ہے
پیمبر مرگ و زیست بنکر بقدرِ پر واز چل رہی ہے
میں نے غم ان سے خریدے ہیں جوانی دے کر
گلشن میں پھول سن لے جیسے کلی کی آہٹ
دامنِ حرص میں دنیا جو سنبھالے ہوں گے
دل و نظر کا تقاضہ سمجھ لیا میں نے
زندگی سے زندگی کا فاصلہ کم کر دیا
نعت شریف
اک پر توِ جلالِ خودی چھوڑ جائیں گے
آتشِ عشق کا اظہار ضروری تو نہیں
آرزوئے وفا کا کیا ہوتا
میں ترے غم سے گریزاں ہوں گریزاں ہی سہی
اپنے ماضی کے نغموں کو چھیڑ کے دل کے تاروں پر
قتل کے بعد یہ مقتل میں صدا دی جائے
دل سے تو دھوان اٹھتا ہے مگر آنکھوں نے تقاضا چھوڑ دیا
پھولوں کی خبر کیا ہے جو گلشن میں پڑے ہیں
خرامِ موجِ دریا پر رقیبا نہ نہیں اٹھی
اعتبار نگۂ شوق مرے دل سے اٹھا
ہاتھ میں اپنے قلم ہی تھا کہ پیمانہ تھا
میری تاریک نگاہی پہ یہ احساں رکھئے
تعاقب نکر میرے ماحول میرا، مسافر ہوں میں تیری منزل نہیں ہوں
صرف اسلوبِ نگارش ہی کا ماہر نکلا
ضبطِ گریہ سے جو آنسو زہر پارے بن گئے
تبسم پردہ دارِ غم رہے گا
لا کے دامن میں یہ ہنگامہ الا کیا ہے
جن کی حقیقیت صرف گماں ہے کتنے لمبے سائے ہیں
مانا وہ ناشناسِ ادائے نظر بھی ہیں
آئینہ خیال میں عکسِ جمالِ یار کھینچ
ہر نفس ہے تپشِ سوز دروں کیا کم ہے
مانا مرے مزاج میں شائستگی نہیں
سہاروں کو منزل سمجھ لینے والے سہارے تری زندگی چھین لیں گے
دیکھو اگر نگاہِ حقیقت شناس ہے
لذتِ انتظار میں شرطِ وصال رہ نہ جائے
میری حیاتِ عشق کا حاصل سمجھ کے لوگ
جادۂ زیست میں بس آپ کا غم مانگے ہے
تا عمر ابد ماہی بے آب رہا ہے
کلی اداس ہے پھولوں کی آنکھ پر نم ہے
حسنِ فطرت سے جب آگہی ہو گئی
منزلوں کے قریں قافلے لٹ گئے رہنما اپنی دھن گنگناتے رہے
میں نے تری جانب ابھی دیکھا تو نہیں ہے
رنگینیٔ جمال ہے حسنِ خیال تک
ہوش و خرد سے بیگانہ اور صورت سے دیوانہ بھی
کوئی رہ سکے گا نہ تشنہ لب کہ سبھی کو دعوتِ عام ہے
ربابِ الفت یہ آج فطرت یہ کس نے چھیڑی ہے راگنی سی
تصور میں مرے جاں سوزی پروا نہ آتی ہے
ترکِ تعلقات کا انداز دیکھئے
سوزِ فراق کیفِ رفاقت سے کم نہیں
تم انجمنِ غیر میں یا اور کہیں ہو
اک مدعائے چشمِ مشیت کہیں جسے
پابندیٔ آداب گلستاں کے لئے ہیں
نہ خزاں کے دور سے واسطہ نہ پیامِ فصل بہار سے
دل تو رو دیتا ہے لیکن آنکھ تر ہوتی نہیں
شدت درد ہے ہونٹوں پہ فغاں تک بھی نہیں
خورشید ابھر آیا سرِ بام زیادہ
دیدۂ دل میں اپنے راہ نہ دو
یہ عہد کرو اِذن تگ و تاز نہ دوگے
صرف تخیل پہ بنیادِ یقیں رکھتے ہیں
اک طاق آرزو میں سجایا گیا ہوں میں
چٹکی جو گلستاں میں کلی جام بن گئی
ان کی محفل اور فطرت کی نظر نا آشنا
متفرق اشعار
تقریظ
قطعاتِ تقریظ
AUTHORफ़ितरत अंसारी
YEAR1982
CONTRIBUTORअरजुमन्द आरा
PUBLISHER बज़्म-ए-उर्दू अदब, सिकंदराबाद
AUTHORफ़ितरत अंसारी
YEAR1982
CONTRIBUTORअरजुमन्द आरा
PUBLISHER बज़्म-ए-उर्दू अदब, सिकंदराबाद
سر ورق
قطعہ
نوید عشرت
فطرت کی شاعری
آنم کہ من دانم
محراب
نعت
تضمین
نعت
ذوقِ نظر کو جلوۂ بے تاب لے گیا
اگر بھولے سے میں کچھ کہہ گیا ہوں
دل سے تکلیفِ غم یار بھلا دی جائے
نگاہِ حسن کی تاثیر بن گیا شاید
خود اپنی سطح سے کتنے بلند ہوتے ہیں
بے تعلق رہ کے دنیا سے گزر جانا پڑا
فریبِ ہوش و خرد جب سے کھا گیا ہوں
رہے گی ان حسیں آنکھوں میں اپنی داستاں برسوں
بزعم آگہی کچھ لوگ انجانے بھی ہوتے ہیں
ابتدا ہونے سے پہلے انتہا کرتے ہیں لوگ
انتخابِ نگہِ شوق کی مشکل بھی نہیں
ننگ میخانہ سہی میکدہ بردوش سہی
سرحدِ غم سے گزرنے کا نشاں اور سہی
خفا مجھ سے اگر تو ساقیٔ میخانہ نہ ہو جائے
نئے جہاں میں پرانی شراب لے آئے
ہم کہاں گم ہو گئے ذہنی اجالوں کے لئے
بہار بن کے جو دورِ خزاں سے گزرے گا
بعد مدت کے خیالِ مے و مینا آیا
گزر چکے قافلے جنوں کے فضامیں گرد وغبار سا ہے
کبھی وہم و گماں کو مدعائے دل نہیں ملتا
تھرتھرائی ہیں ظلمت کی پرچھائیاں مژدہ احساسِ قلب و نظر کیلئے
سکوں سے متصل ہے اب طبیعت انقلابوں کی
ہوئی جنبش اسیرِ آرزو کے جسم بے جاں کو
بڑھ رہی ہیں ادھیروں کی گہرائیاں ہر طرف۔۔۔۔۔
قصۂ غم ہے زندگانی تک
کتنا حیرت زا سنہرا خواب ہے میرے لئے
کرم کے نام پہ ان کا عتاب چاہتے ہیں
آنکھوں میں اضطراب مے و جام رہ گیا
دامنِ حسن میں ہر اشکِ تمنا رکھ دو
جب بھی تمہیں خود اپنے ستم یاد آئیں گے
ماضی کے التفات و کرم بھول جایئے
مجھے درسِ عمل دیتی ہے دنیا
حسنِ فطرت کے امیں قاتلِ کردار نہ بن
یہ تعلق ہے ازل ہی سے تصادم آشنا
حقیقت میں نگاہوں میں ہو اک افسانہ ہو جائے
بزم تخیل سے حرفِ اظہار تک ہم تمنا رہے پھر دعا بن گئے
موجِ طوفاں دے رہی ہے مژدۂ ساحل مجھے
چشمِ فطرت کو تم آئینہ بنالو اپنا
ان کا منشا ہے نہ پھیلے خس و خا شاک میں آگ
گلاب سرخ ہو پیلا، سفید ہو کہ سیاہ
اتنے حسین یہ مرے شام و سحر نہ تھے
تغیرات جہاں نے ایسا نظام بدلا ہے زندگی کا
آپ کا جس کو غم نہیں ہوتا
زندگی کیا موت کا بھی اس کو عرفاں ہو گیا
منزلیں گم ہیں راستہ بھی نہیں
تصور میں جمالِ روئے تاباں نے کے چلتا ہوں
ہو جن میں جوہرِ قابل انہیں اعزاز دیتی ہے
نگاہِ شوق کو مانوسِ جلوہ کر لیا ہوتا
رات میں پچھلے پہر جب بھی دعا مانگی ہے
یہ نہیں کثرتِ آلام سے جل جاتے ہیں
مت پوچھ کہ کیا مجھ کو مسیحا نظر آیا
دل کی بے تابی یہاں تک آگئی
اس حال میں جینے سے تو انکار نہیں ہے
پیمبر مرگ و زیست بنکر بقدرِ پر واز چل رہی ہے
میں نے غم ان سے خریدے ہیں جوانی دے کر
گلشن میں پھول سن لے جیسے کلی کی آہٹ
دامنِ حرص میں دنیا جو سنبھالے ہوں گے
دل و نظر کا تقاضہ سمجھ لیا میں نے
زندگی سے زندگی کا فاصلہ کم کر دیا
نعت شریف
اک پر توِ جلالِ خودی چھوڑ جائیں گے
آتشِ عشق کا اظہار ضروری تو نہیں
آرزوئے وفا کا کیا ہوتا
میں ترے غم سے گریزاں ہوں گریزاں ہی سہی
اپنے ماضی کے نغموں کو چھیڑ کے دل کے تاروں پر
قتل کے بعد یہ مقتل میں صدا دی جائے
دل سے تو دھوان اٹھتا ہے مگر آنکھوں نے تقاضا چھوڑ دیا
پھولوں کی خبر کیا ہے جو گلشن میں پڑے ہیں
خرامِ موجِ دریا پر رقیبا نہ نہیں اٹھی
اعتبار نگۂ شوق مرے دل سے اٹھا
ہاتھ میں اپنے قلم ہی تھا کہ پیمانہ تھا
میری تاریک نگاہی پہ یہ احساں رکھئے
تعاقب نکر میرے ماحول میرا، مسافر ہوں میں تیری منزل نہیں ہوں
صرف اسلوبِ نگارش ہی کا ماہر نکلا
ضبطِ گریہ سے جو آنسو زہر پارے بن گئے
تبسم پردہ دارِ غم رہے گا
لا کے دامن میں یہ ہنگامہ الا کیا ہے
جن کی حقیقیت صرف گماں ہے کتنے لمبے سائے ہیں
مانا وہ ناشناسِ ادائے نظر بھی ہیں
آئینہ خیال میں عکسِ جمالِ یار کھینچ
ہر نفس ہے تپشِ سوز دروں کیا کم ہے
مانا مرے مزاج میں شائستگی نہیں
سہاروں کو منزل سمجھ لینے والے سہارے تری زندگی چھین لیں گے
دیکھو اگر نگاہِ حقیقت شناس ہے
لذتِ انتظار میں شرطِ وصال رہ نہ جائے
میری حیاتِ عشق کا حاصل سمجھ کے لوگ
جادۂ زیست میں بس آپ کا غم مانگے ہے
تا عمر ابد ماہی بے آب رہا ہے
کلی اداس ہے پھولوں کی آنکھ پر نم ہے
حسنِ فطرت سے جب آگہی ہو گئی
منزلوں کے قریں قافلے لٹ گئے رہنما اپنی دھن گنگناتے رہے
میں نے تری جانب ابھی دیکھا تو نہیں ہے
رنگینیٔ جمال ہے حسنِ خیال تک
ہوش و خرد سے بیگانہ اور صورت سے دیوانہ بھی
کوئی رہ سکے گا نہ تشنہ لب کہ سبھی کو دعوتِ عام ہے
ربابِ الفت یہ آج فطرت یہ کس نے چھیڑی ہے راگنی سی
تصور میں مرے جاں سوزی پروا نہ آتی ہے
ترکِ تعلقات کا انداز دیکھئے
سوزِ فراق کیفِ رفاقت سے کم نہیں
تم انجمنِ غیر میں یا اور کہیں ہو
اک مدعائے چشمِ مشیت کہیں جسے
پابندیٔ آداب گلستاں کے لئے ہیں
نہ خزاں کے دور سے واسطہ نہ پیامِ فصل بہار سے
دل تو رو دیتا ہے لیکن آنکھ تر ہوتی نہیں
شدت درد ہے ہونٹوں پہ فغاں تک بھی نہیں
خورشید ابھر آیا سرِ بام زیادہ
دیدۂ دل میں اپنے راہ نہ دو
یہ عہد کرو اِذن تگ و تاز نہ دوگے
صرف تخیل پہ بنیادِ یقیں رکھتے ہیں
اک طاق آرزو میں سجایا گیا ہوں میں
چٹکی جو گلستاں میں کلی جام بن گئی
ان کی محفل اور فطرت کی نظر نا آشنا
متفرق اشعار
تقریظ
قطعاتِ تقریظ
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।