گزارش
گلہ اور ان کا گلہ اے دل فگار نہیں
مجھ کو ہلاک جلوۂ سر شار دیکھ کر
وفا سے میں تو جفا سے وہ شر مسار نہیں
سروردل میں نہیں آنکھ میں خمار نہیں
جلوہ گر تو ہی جو اے رشک مہ کامل نہیں
جہان عشق میں ضرب الشل ہے گفتگو میری
حقیقت بے نیاز کفر ودیں معلوم ہوتی ہے
عشق کیا ہے ادب آموز فنا ہو جانا
دیکھتے سب ہیں رخ عاشق دلگیر کا رنگ
دل مائل فریاد ہے معلوم نہیں کیوں
سر گشتگان شوخیٔ گفتار کیا کریں
نہ ہو لطف بیداد بھی کم نہیں
یہ تو نہیں کہ حال پہ میرے نظر نہیں
پہلا سا جذب تجھ میں اب اے چشم تر نہیں
نکلتے ہیں وہ پہلو خود نہ تھا جن کا گماں مجھکو
نگہ شوق کو یوں آئینہ سا مانی دے
بات نکلی منھ سے آفت ہو گئی
خواب غفلت کی گرانی ہے دہی
منسوب تجھ سے ہوئی کج کلاہی
ان انکھڑیوں کی مستی افسانہ کہہ رہی ہے
کہیں نہ دیکھ لے کوئی ارے سنبھل سنبھل کے دیکھ
ابھی جیتے کچھ اور مر جانے والے
خموشی بھی تکو ہش ہے تو پھر ضبط فغاں کیوں ہو
ہے وصل مگر پھر بھی وہی تشنہ لبی ہے
محبت کس لئے آسودۂ غم ہوتی جاتی ہے
وہ جلد جلد بدلتا ہوا زمانہ ہے
نہیں کہنے کی بات کیا کہئے
صد شکر درد الفت اک درد بے دوا ہے
پھول میں جیسے رنگ دیوانہ رہے
مقصود زندگی کا بیداری خودی ہے
نقش پا یاسمن سے بہتر ہے
تیری حسرت میں ہر تار نظر شمع فروزاں ہے
تیرے دہن کی بات چسمن میں جو چل گئی
نگاہ ناز تیری فتنہ سامانی نہیں جاتی
صبح بہار گل نہ ہوائے چمن میں ہے
کچھ دیر فکر عالم بالا کی چھوڑ دے
شوق نے رسوا کیا اور خود بھی رسوا ہوگیا
یاد ہے یاد ہے حجاب ترا
لذت سے دونوں خالی جینا ہو خواہ مرنا
عشوۂ کامیاب نے مارا
کبھی گلوں سے نشیمن جو چھا کے دیکھ لیا
نشۂ شوق ہے بے رنج خمار آج کی رات
اعادہ وعدے کا بے مہر بار بار نہ کر
چاہا حریف جلوہ تو ہونا بہارنے
وہ دل ہی کیا جو دید کا ساماں نہ کرسکے
تہہ میں ہر اک راز کے اک یہ بھی راز ہے
کیا زمانہ تھا کہ جب تم مجھکو مضطر دیکھتے
عرض نیاز سلسلۂ جنبان ناز ہے
دم الٹتا ہے کبھی جی پہ بنی ہوتی ہے
کچھ آنکھوں ہی آنکھوں میں کہہ جانے کو کیا کہئے
یوں دل ہے شوق شرح تمنالئے ہوئے
تصور میں ان کے سحر ہو رہی ہے
آغاز محبت کی لذت انجام میں پانا مشکل ہے
غم نہیں عشرت جاوید کا پیغام ابھی
جوش کھا اور کہ سودا ہے ترا خام ابھی
شاد تو کیا برباد کرو گے
محبت کا ہوگا اثر ہوتے ہوتے
دل کہ ہلاک شوق تھا اب ہے حسن کی دنیا کیا کہتا
دیکھ لے تجھکو اتنی تاب کہاں
بیکس کی طرف غصّے کی نظر انسان کا دل تھا ٹوٹ گیا
پھر آئی بوئے مستانہ کسی کی
حجاب رنگ وبو ہے اور میں ہوں
ساحل سے بے نیاز ہوا جارہا ہوں میں
دل گیا بے قراریاں نہ گئیں
وہ اک نگاہ محبت شراب آلودہ
ذوق الم ہے مائل فریاد ان دنوں
دل ماسوائے دوست سے بیگانہ چاہیئے
ہر نقش آرزد کو مٹاتے چلے گئے
وہی منزل سے واقف ہے وہی آداب منزل سے
چمن چمن لئے پھرتی ہے بوئے یار مجھے
تجلیات کا عالم تری نقاب میں ہے
یاد تری مئے سر جوش ہوئی جاتی ہے
رہے جو ہوش تو وہ جان جاں نہیں ملتا
زباں زباں نہ رہی اور بیاں بیاں نہ رہا
یہ کون سا طریق ہے ظالم خطاب کا
جلوہ دکھا کے چھپتی ہے قوس قزح ہنوز
مٹے ہوؤوں کے مٹانے کا اہتمام کیا
پاس تھا اک دل ہجر کا مارا
یاد آگیا پھر اک بت رعنا غضب غضب
سراپا بطرز نو
اک تشنہ کام شوق کی حسرت بھیر نظر
کچھ ان کا ہوش اور نہ اپنی خبر ہے آج
ماسوائے ذوق غم شاید نہ تھا کچھ دل کے پاس
غم حرماں کی قسم جان پرار ماں کی قسم
مسلسل
فکر کی پستی تھی جس کو آسماں سمجھا تھا میں
جادۂ ہستی بجز پالغز مستانہ نہیں
اشک گل رنگ نثار غم جانا نہ کریں
اتنی فرصت ہی کہاں ڈھونڈے جو ویرانہ کہیں
وہ نغمہ مطرب کہ زندگی کو جو سر بسر اضطراب کردے
محبت ہے سرمایۂ زندگانی
نوید وصل یار آئے نہ آئے
اک چھلکتا ہوا جام آنکھ ملا کر ساقی
چشمک برق نہ پرواز شرر ہوتی ہے
خود ہی اس بزم سے اٹھ آئے ہیں جائے نہ بنے
جب سے تری مرضی مجھے معلوم ہوتی ہے
رو داد محبت نہیں اب اس کے سوایاد
بس ایک شوق تھا جو شوق کے مقابل تھا
چلا چل محبت بھرے دل چلا چل
میں ہوں اور تیری محبت ہے محبت کی قسم
ہزار جلوے نو بنو لئے ہوئے کنار یں
قابل عفو ستمگر کی جفائیں نکلیں
نہ شرح شوق نہ تسکین جان زار میں ہے
حال وہ پوچھے بھی کہا بھی جائے
کیا یہ سچ ہے کہ نئی طرز جفا سے پہلے
رحم پر غیر کے جینا کیسا
سوتے میں ہوتے ہیں اس رخ کے نظارے کیاکیا
تجھے دیکھ کر اب جدھر دیکھتا ہوں
گھٹنے لگا ہے دم ترا شکوہ کئے بغیر
گماں ہے جس پہ نہ جانے ہے کب کا دار محن
خیال دوست چمن ساز انتظار رہے
رخصت ہوئے ستارے ایک آہ سرد بھر کے
ہجوم رنج وبلا میں بھی مسکرائے جا
اس لب جاں بخش پر اپنا بھی نام آہی گیا
وہ آیا مست و بیتا با نہ آیا
سونی پڑی ہے بزم تماشا ترے بغیر
تڑپنا زیر شمشیر ستم رہ رہ کے بسمل کا
عافیت دشمن ہے تو اور آرزو بیگانہ ہم
اہل ہوس سے ہوش کی منزلیں ملی ہوئیں نہیں
منزل سےآشنا ہیں نہ جذب رسا سے ہم
عشق کی گرمی بازار کہاں سے لاؤں
دامن ہے دریدہ نہ گریباں ہے دریدہ
ہر چند کلیجا پھنکتا ہے ساقی سے تقاضا کون کرے
تیرے کشتوں کے منھ جب آئی ہے
شکار بے اثری ہے دعائے نیم شبی
بہت حسین ہے مانا ستارۂ سحری
اک رنگ کا طوفاں اٹھا ہے ساقی کی نظر پڑ جانے سے
پستی نظر میں ہے نہ بلندی نظر میں ہے
وہ مست دیدۂ خوننا بہ افشاں
حیات اک موج سحر بیکراں معلوم ہوتی ہے
اگر چہ رہ گئی جو بات تھی سنانے کی
اک فقط میں ہے نہیں وہ بھی پشیماں ہوگا
کیسا چمن کہاں کے گل کس کی خزاں بہار کیا
اثر آنکھ اب تک خماری نہیں
ہوش میں اپنے رہو درد ہے دیوانے کا
نامرادی کے سوا اور کچھ اب یاد نہیں
نسیم سبک بار سے کھیلتا ہوں
کون کہتا ہے کوئی عہد کہ پیمان کرو
چلا آتا ہے اک مست شباب آہستہ آہستہ
بدلتی نور میں کیونکر ہے ظلمت دیکھتے جاؤ
بدلتا ہے زمانے کا نظام آہستہ آہستہ
کیا وہی تم ہو کہ جب مجھکو پریشاں دیکھتے
یاد آیا میکہ دل تھا گلفروش آرزو
قطعہ ہم طرح غزل
تصور میں ہے تیرے کیف جبتک جان جاں باقی
دنیائے رنگ وبو تہ داماں لئے ہوئے
انداز سینہ چاکیٔ وحشت نہ پوچھئے
خودی کو دے کے تمنائے بیخودی میں نے
آپ کی یاد سے تسکین تو کیا ہوتی ہے
آنکھیں دکھا رہا ہے ہر اک نقش پا مجھے
تری شوخی کا آئینہ نظر معلوم ہوتی ہے
دل درد محبت سے جو بیگانہ رہے گا
بجز ان کے نہ سمجھے کوئی مطلب تھا یہی اپنا
کس کی نگاہ شوق سے شرمارہے ہو تم
جو بات نہ تھی کہنے کی اس سے وہ کہی ہے
تری بزم سے جو اٹھےیوہیں بار بار آے
بہکی بہکی ہے چال قاتل کی
حجاب میں جو کشش ہے حجاب کیا جانے
بہار ہے ترے عارض سے لو لگا ئے ہوئے
ناگاہیں اور منظر اور صورت اور ہوجاتی
یہ دیکھنے کی خوشی عیش رائگاں نہ بنے
اس آستاں کی راہ نہ پائیں تو کیا کریں
دل میں جو سوز ہے وہ شمع فروزاں میں نہیں
نہ تم بدلے نہ دل بدلا نہ رنگ آسماں بدلا
بدلیں وہ لاکھ باز زباں کچھ نہ پوچھئے
درد محبت خون تمنا تجھ میں ملا کر دیکھیں گے
تمنا تھی کہ ان سے درد دل کی داستاں کہتے
کسی نے حال جب پوچھا تو یہ حالت ہوئی اپنی
نہ دیکھنے کی طرح ہم نے زندگی دیکھی
ہزار پردوں میں وہ جلوہ آشکار تو ہے
یہ وقت وہ نہیں کہ نشیمن بچائیے
یہ تو نہیں کہ حسرت حاصل نہیں رہی
زندگی کو زندگی پر ناز ہونا چاہیئے
جس دل پہ تھا گمان کہ ویرانہ ہوگیا
کیا شکوہ سنج ہو ستم روز گار کا
جلوہ نقاب شاہد مستور ہوگیا
موت سے زندگی کا چھین موت کو زندگی بنا
نگار خانۂ حسن وجمال ہو جاتا
وہ زندگی کی حلاوت سے دور رہتے ہیں
شور کرتا ہے جرس عزم سفر ہونے تک
وہی ہیں ہم وہی تم ہو وہ روزگار کہاں
تم سے حسین کم ہیں مگر ہیں کہیں کہیں
منزل کا اعتبار بڑھاتے چلے چلو
بہار دیدۂ خوننابہ افشاں دیکھتے جاؤ
آفت میں پڑگئے دل آفت نشاں کے ساتھ
داستان غم دل اس کو سنائی نہ گئی
آہ سے جب دل میں ڈوبے تیرا بھارے جائیں گے
ہجوم باس وغم بے حساب کیا معنی
ہم اسیروں کی فغاں کا یہ اثر ہوتا ہے
فکر کیوں ثابت کوئی تقصیر ہونا چاہیئے
متفرق
حسن کی نیرنگ سازی کا یہی ہے مدعا
دور ہے انسانیت کے اوج کی منزل ابھی
ہر اک ذرّے میں اک دنیا بسی دیکھی نہیں جاتی
سوال آپ کرنا جواب آپ دینا
اک بے وفا پہ جان کو وارے چلے گئے
مقصود زندگی نہیں حب وطن ابھی
ہجوم نالہ وہنگامۂ وفغاں لے کر
تصویر محبت دل دیوانہ بنے گا
حد صبر وضبط سے اکدن گزر جانا بھی ہے
خوشی دائمی ہے نہ غم جاودانہ
فریب شوق دم انتظار دیکھا ہے
مبہم سی اک خلش ہی دل ناتواں رہے
نکہت میں رنگ رنگ میں مستی شراب کی
شمع بجھی سحر ہوئی بزم تمام ہوچکی
ادھر وہ پرسش تباہ کرنہ سکے
پردے میں انتظار کے اک فتنہ گر بھی ہے
یہ عالم نہیں ہے وہ عالم نہیں ہے
بحمد اللہ قوی تر ہمت دل ہوتی جاتی ہے
اک ایسا دور بھی اے ساقیٔ میخانہ ہو جائے
کیا دیکھ کے تم کو گل ہی فقط نکہت سے بہلنا بھول گئے
گزشتہ عیش کے ہم ہیں امیدوار ابھی
اک ہوا ایسی بھی چل کر رہ گئ
خود اپنی تلاش میں گم ہو جا یہ ذوق طلب کا حاصل ہے
آنکھ میں اشک ندامت ڈبڈبا کر رہ گئے
ٹپک پڑتے ہیں آنسو دل سے اٹھتا ہے دھواں اب تک
شورش عشق کا جو تھا وہی عنواں ہے ابھی
جہاں ہے ظلمت کا دور دورہ یہ وہم ہے روشنی ملے گی
یہیں تک بس رسائی عقل کی معلوم ہوتی ہے
نہ ہم اپنے نہ دل اپنا نہ وہ آرام جاں اپنا
محبت میں اسی کا نام ہے کچھ کام کر جانا
لاکھ صدمے اٹھائیں گے ہم لوگ
بقدر ہوش ہے غفلت کسی کو کیا معلوم
گلشن میں جب کہیں کوئی جائے اماں نہ ہو
اک بیوفا کو ہم نے جس وقت دل دیا تھا
شوق بے سروپا کا اب یہ ساز ساماں ہے
بیگانگی کی تم سے شکایت نہیں مجھے
اے یاد چمن کیا اس کے سوا ہم سوختہ ساماں دیکھیں گے
تری نگاہ نے کیا کہہ دیا خدا جانے
تری در کے جب سے گدا ہو گئے ہم
اک شرارہ پریدہ کے مانند
کچھ نشیمن تو گلوں سے چھا گئے
سر جھکا کر کچھ کہا شرماگئے
حسرت ہے نگاہ ناز کا بھی نازک سا اشار ہو جائے
شاہد گلعذارارے توبہ
ماضی کی طرف دیکھ نہ فردا پہ نظر کر
بھولے افسانے وفا کے یاددلواتے ہوئے
چپکے سے نام لے کے تمھارا کبھی کبھی
آزاد ہو کے دام گہہ خیرو شر سے ہم
جو آرزونہ ہو تیری تو آرزو کیا ہے
کیا جانے ابکے بچھڑے ملیں گے بھی یا نہیں
عاشقی نشۂ سرشار ہوئی جاتی ہے
جب تک لہو میں دل کا سفینہ رواں نہ تھا
آئی بہار تو بھی ساغر کشاں چلا آ
تیرے دیوانے کا انداز پریشاں دیکھا
کون ہوا زخمر زن ساز دل
ساغر اٹھالیا کبھی مینا اٹھا لیا
پھر اہے تیری جستجو میں اک جہاں کہاں کہاں
ادھر دل پہ بجلی گرائی ادا نے
اب اس طرح دل غمکش ہمیں ستاتا ہے
کہنے کو میکش بہت وہ بزم رندانہ کہاں
کہیں لینے جانا ہے بے جرم خواری
قفس میں کچھ خبر گلستاں نہیں معلوم
کس طرح کھلتے ہیں نغموں کے چمن سمجھا تھا میں
عرض نیاز عشق کا سودا لئے ہوئے
پھوٹیں گے انقلاب کے دھارے نئے نئے
بے قراری کبھی قرار میں ہے
متفرقات
گزارش
گلہ اور ان کا گلہ اے دل فگار نہیں
مجھ کو ہلاک جلوۂ سر شار دیکھ کر
وفا سے میں تو جفا سے وہ شر مسار نہیں
سروردل میں نہیں آنکھ میں خمار نہیں
جلوہ گر تو ہی جو اے رشک مہ کامل نہیں
جہان عشق میں ضرب الشل ہے گفتگو میری
حقیقت بے نیاز کفر ودیں معلوم ہوتی ہے
عشق کیا ہے ادب آموز فنا ہو جانا
دیکھتے سب ہیں رخ عاشق دلگیر کا رنگ
دل مائل فریاد ہے معلوم نہیں کیوں
سر گشتگان شوخیٔ گفتار کیا کریں
نہ ہو لطف بیداد بھی کم نہیں
یہ تو نہیں کہ حال پہ میرے نظر نہیں
پہلا سا جذب تجھ میں اب اے چشم تر نہیں
نکلتے ہیں وہ پہلو خود نہ تھا جن کا گماں مجھکو
نگہ شوق کو یوں آئینہ سا مانی دے
بات نکلی منھ سے آفت ہو گئی
خواب غفلت کی گرانی ہے دہی
منسوب تجھ سے ہوئی کج کلاہی
ان انکھڑیوں کی مستی افسانہ کہہ رہی ہے
کہیں نہ دیکھ لے کوئی ارے سنبھل سنبھل کے دیکھ
ابھی جیتے کچھ اور مر جانے والے
خموشی بھی تکو ہش ہے تو پھر ضبط فغاں کیوں ہو
ہے وصل مگر پھر بھی وہی تشنہ لبی ہے
محبت کس لئے آسودۂ غم ہوتی جاتی ہے
وہ جلد جلد بدلتا ہوا زمانہ ہے
نہیں کہنے کی بات کیا کہئے
صد شکر درد الفت اک درد بے دوا ہے
پھول میں جیسے رنگ دیوانہ رہے
مقصود زندگی کا بیداری خودی ہے
نقش پا یاسمن سے بہتر ہے
تیری حسرت میں ہر تار نظر شمع فروزاں ہے
تیرے دہن کی بات چسمن میں جو چل گئی
نگاہ ناز تیری فتنہ سامانی نہیں جاتی
صبح بہار گل نہ ہوائے چمن میں ہے
کچھ دیر فکر عالم بالا کی چھوڑ دے
شوق نے رسوا کیا اور خود بھی رسوا ہوگیا
یاد ہے یاد ہے حجاب ترا
لذت سے دونوں خالی جینا ہو خواہ مرنا
عشوۂ کامیاب نے مارا
کبھی گلوں سے نشیمن جو چھا کے دیکھ لیا
نشۂ شوق ہے بے رنج خمار آج کی رات
اعادہ وعدے کا بے مہر بار بار نہ کر
چاہا حریف جلوہ تو ہونا بہارنے
وہ دل ہی کیا جو دید کا ساماں نہ کرسکے
تہہ میں ہر اک راز کے اک یہ بھی راز ہے
کیا زمانہ تھا کہ جب تم مجھکو مضطر دیکھتے
عرض نیاز سلسلۂ جنبان ناز ہے
دم الٹتا ہے کبھی جی پہ بنی ہوتی ہے
کچھ آنکھوں ہی آنکھوں میں کہہ جانے کو کیا کہئے
یوں دل ہے شوق شرح تمنالئے ہوئے
تصور میں ان کے سحر ہو رہی ہے
آغاز محبت کی لذت انجام میں پانا مشکل ہے
غم نہیں عشرت جاوید کا پیغام ابھی
جوش کھا اور کہ سودا ہے ترا خام ابھی
شاد تو کیا برباد کرو گے
محبت کا ہوگا اثر ہوتے ہوتے
دل کہ ہلاک شوق تھا اب ہے حسن کی دنیا کیا کہتا
دیکھ لے تجھکو اتنی تاب کہاں
بیکس کی طرف غصّے کی نظر انسان کا دل تھا ٹوٹ گیا
پھر آئی بوئے مستانہ کسی کی
حجاب رنگ وبو ہے اور میں ہوں
ساحل سے بے نیاز ہوا جارہا ہوں میں
دل گیا بے قراریاں نہ گئیں
وہ اک نگاہ محبت شراب آلودہ
ذوق الم ہے مائل فریاد ان دنوں
دل ماسوائے دوست سے بیگانہ چاہیئے
ہر نقش آرزد کو مٹاتے چلے گئے
وہی منزل سے واقف ہے وہی آداب منزل سے
چمن چمن لئے پھرتی ہے بوئے یار مجھے
تجلیات کا عالم تری نقاب میں ہے
یاد تری مئے سر جوش ہوئی جاتی ہے
رہے جو ہوش تو وہ جان جاں نہیں ملتا
زباں زباں نہ رہی اور بیاں بیاں نہ رہا
یہ کون سا طریق ہے ظالم خطاب کا
جلوہ دکھا کے چھپتی ہے قوس قزح ہنوز
مٹے ہوؤوں کے مٹانے کا اہتمام کیا
پاس تھا اک دل ہجر کا مارا
یاد آگیا پھر اک بت رعنا غضب غضب
سراپا بطرز نو
اک تشنہ کام شوق کی حسرت بھیر نظر
کچھ ان کا ہوش اور نہ اپنی خبر ہے آج
ماسوائے ذوق غم شاید نہ تھا کچھ دل کے پاس
غم حرماں کی قسم جان پرار ماں کی قسم
مسلسل
فکر کی پستی تھی جس کو آسماں سمجھا تھا میں
جادۂ ہستی بجز پالغز مستانہ نہیں
اشک گل رنگ نثار غم جانا نہ کریں
اتنی فرصت ہی کہاں ڈھونڈے جو ویرانہ کہیں
وہ نغمہ مطرب کہ زندگی کو جو سر بسر اضطراب کردے
محبت ہے سرمایۂ زندگانی
نوید وصل یار آئے نہ آئے
اک چھلکتا ہوا جام آنکھ ملا کر ساقی
چشمک برق نہ پرواز شرر ہوتی ہے
خود ہی اس بزم سے اٹھ آئے ہیں جائے نہ بنے
جب سے تری مرضی مجھے معلوم ہوتی ہے
رو داد محبت نہیں اب اس کے سوایاد
بس ایک شوق تھا جو شوق کے مقابل تھا
چلا چل محبت بھرے دل چلا چل
میں ہوں اور تیری محبت ہے محبت کی قسم
ہزار جلوے نو بنو لئے ہوئے کنار یں
قابل عفو ستمگر کی جفائیں نکلیں
نہ شرح شوق نہ تسکین جان زار میں ہے
حال وہ پوچھے بھی کہا بھی جائے
کیا یہ سچ ہے کہ نئی طرز جفا سے پہلے
رحم پر غیر کے جینا کیسا
سوتے میں ہوتے ہیں اس رخ کے نظارے کیاکیا
تجھے دیکھ کر اب جدھر دیکھتا ہوں
گھٹنے لگا ہے دم ترا شکوہ کئے بغیر
گماں ہے جس پہ نہ جانے ہے کب کا دار محن
خیال دوست چمن ساز انتظار رہے
رخصت ہوئے ستارے ایک آہ سرد بھر کے
ہجوم رنج وبلا میں بھی مسکرائے جا
اس لب جاں بخش پر اپنا بھی نام آہی گیا
وہ آیا مست و بیتا با نہ آیا
سونی پڑی ہے بزم تماشا ترے بغیر
تڑپنا زیر شمشیر ستم رہ رہ کے بسمل کا
عافیت دشمن ہے تو اور آرزو بیگانہ ہم
اہل ہوس سے ہوش کی منزلیں ملی ہوئیں نہیں
منزل سےآشنا ہیں نہ جذب رسا سے ہم
عشق کی گرمی بازار کہاں سے لاؤں
دامن ہے دریدہ نہ گریباں ہے دریدہ
ہر چند کلیجا پھنکتا ہے ساقی سے تقاضا کون کرے
تیرے کشتوں کے منھ جب آئی ہے
شکار بے اثری ہے دعائے نیم شبی
بہت حسین ہے مانا ستارۂ سحری
اک رنگ کا طوفاں اٹھا ہے ساقی کی نظر پڑ جانے سے
پستی نظر میں ہے نہ بلندی نظر میں ہے
وہ مست دیدۂ خوننا بہ افشاں
حیات اک موج سحر بیکراں معلوم ہوتی ہے
اگر چہ رہ گئی جو بات تھی سنانے کی
اک فقط میں ہے نہیں وہ بھی پشیماں ہوگا
کیسا چمن کہاں کے گل کس کی خزاں بہار کیا
اثر آنکھ اب تک خماری نہیں
ہوش میں اپنے رہو درد ہے دیوانے کا
نامرادی کے سوا اور کچھ اب یاد نہیں
نسیم سبک بار سے کھیلتا ہوں
کون کہتا ہے کوئی عہد کہ پیمان کرو
چلا آتا ہے اک مست شباب آہستہ آہستہ
بدلتی نور میں کیونکر ہے ظلمت دیکھتے جاؤ
بدلتا ہے زمانے کا نظام آہستہ آہستہ
کیا وہی تم ہو کہ جب مجھکو پریشاں دیکھتے
یاد آیا میکہ دل تھا گلفروش آرزو
قطعہ ہم طرح غزل
تصور میں ہے تیرے کیف جبتک جان جاں باقی
دنیائے رنگ وبو تہ داماں لئے ہوئے
انداز سینہ چاکیٔ وحشت نہ پوچھئے
خودی کو دے کے تمنائے بیخودی میں نے
آپ کی یاد سے تسکین تو کیا ہوتی ہے
آنکھیں دکھا رہا ہے ہر اک نقش پا مجھے
تری شوخی کا آئینہ نظر معلوم ہوتی ہے
دل درد محبت سے جو بیگانہ رہے گا
بجز ان کے نہ سمجھے کوئی مطلب تھا یہی اپنا
کس کی نگاہ شوق سے شرمارہے ہو تم
جو بات نہ تھی کہنے کی اس سے وہ کہی ہے
تری بزم سے جو اٹھےیوہیں بار بار آے
بہکی بہکی ہے چال قاتل کی
حجاب میں جو کشش ہے حجاب کیا جانے
بہار ہے ترے عارض سے لو لگا ئے ہوئے
ناگاہیں اور منظر اور صورت اور ہوجاتی
یہ دیکھنے کی خوشی عیش رائگاں نہ بنے
اس آستاں کی راہ نہ پائیں تو کیا کریں
دل میں جو سوز ہے وہ شمع فروزاں میں نہیں
نہ تم بدلے نہ دل بدلا نہ رنگ آسماں بدلا
بدلیں وہ لاکھ باز زباں کچھ نہ پوچھئے
درد محبت خون تمنا تجھ میں ملا کر دیکھیں گے
تمنا تھی کہ ان سے درد دل کی داستاں کہتے
کسی نے حال جب پوچھا تو یہ حالت ہوئی اپنی
نہ دیکھنے کی طرح ہم نے زندگی دیکھی
ہزار پردوں میں وہ جلوہ آشکار تو ہے
یہ وقت وہ نہیں کہ نشیمن بچائیے
یہ تو نہیں کہ حسرت حاصل نہیں رہی
زندگی کو زندگی پر ناز ہونا چاہیئے
جس دل پہ تھا گمان کہ ویرانہ ہوگیا
کیا شکوہ سنج ہو ستم روز گار کا
جلوہ نقاب شاہد مستور ہوگیا
موت سے زندگی کا چھین موت کو زندگی بنا
نگار خانۂ حسن وجمال ہو جاتا
وہ زندگی کی حلاوت سے دور رہتے ہیں
شور کرتا ہے جرس عزم سفر ہونے تک
وہی ہیں ہم وہی تم ہو وہ روزگار کہاں
تم سے حسین کم ہیں مگر ہیں کہیں کہیں
منزل کا اعتبار بڑھاتے چلے چلو
بہار دیدۂ خوننابہ افشاں دیکھتے جاؤ
آفت میں پڑگئے دل آفت نشاں کے ساتھ
داستان غم دل اس کو سنائی نہ گئی
آہ سے جب دل میں ڈوبے تیرا بھارے جائیں گے
ہجوم باس وغم بے حساب کیا معنی
ہم اسیروں کی فغاں کا یہ اثر ہوتا ہے
فکر کیوں ثابت کوئی تقصیر ہونا چاہیئے
متفرق
حسن کی نیرنگ سازی کا یہی ہے مدعا
دور ہے انسانیت کے اوج کی منزل ابھی
ہر اک ذرّے میں اک دنیا بسی دیکھی نہیں جاتی
سوال آپ کرنا جواب آپ دینا
اک بے وفا پہ جان کو وارے چلے گئے
مقصود زندگی نہیں حب وطن ابھی
ہجوم نالہ وہنگامۂ وفغاں لے کر
تصویر محبت دل دیوانہ بنے گا
حد صبر وضبط سے اکدن گزر جانا بھی ہے
خوشی دائمی ہے نہ غم جاودانہ
فریب شوق دم انتظار دیکھا ہے
مبہم سی اک خلش ہی دل ناتواں رہے
نکہت میں رنگ رنگ میں مستی شراب کی
شمع بجھی سحر ہوئی بزم تمام ہوچکی
ادھر وہ پرسش تباہ کرنہ سکے
پردے میں انتظار کے اک فتنہ گر بھی ہے
یہ عالم نہیں ہے وہ عالم نہیں ہے
بحمد اللہ قوی تر ہمت دل ہوتی جاتی ہے
اک ایسا دور بھی اے ساقیٔ میخانہ ہو جائے
کیا دیکھ کے تم کو گل ہی فقط نکہت سے بہلنا بھول گئے
گزشتہ عیش کے ہم ہیں امیدوار ابھی
اک ہوا ایسی بھی چل کر رہ گئ
خود اپنی تلاش میں گم ہو جا یہ ذوق طلب کا حاصل ہے
آنکھ میں اشک ندامت ڈبڈبا کر رہ گئے
ٹپک پڑتے ہیں آنسو دل سے اٹھتا ہے دھواں اب تک
شورش عشق کا جو تھا وہی عنواں ہے ابھی
جہاں ہے ظلمت کا دور دورہ یہ وہم ہے روشنی ملے گی
یہیں تک بس رسائی عقل کی معلوم ہوتی ہے
نہ ہم اپنے نہ دل اپنا نہ وہ آرام جاں اپنا
محبت میں اسی کا نام ہے کچھ کام کر جانا
لاکھ صدمے اٹھائیں گے ہم لوگ
بقدر ہوش ہے غفلت کسی کو کیا معلوم
گلشن میں جب کہیں کوئی جائے اماں نہ ہو
اک بیوفا کو ہم نے جس وقت دل دیا تھا
شوق بے سروپا کا اب یہ ساز ساماں ہے
بیگانگی کی تم سے شکایت نہیں مجھے
اے یاد چمن کیا اس کے سوا ہم سوختہ ساماں دیکھیں گے
تری نگاہ نے کیا کہہ دیا خدا جانے
تری در کے جب سے گدا ہو گئے ہم
اک شرارہ پریدہ کے مانند
کچھ نشیمن تو گلوں سے چھا گئے
سر جھکا کر کچھ کہا شرماگئے
حسرت ہے نگاہ ناز کا بھی نازک سا اشار ہو جائے
شاہد گلعذارارے توبہ
ماضی کی طرف دیکھ نہ فردا پہ نظر کر
بھولے افسانے وفا کے یاددلواتے ہوئے
چپکے سے نام لے کے تمھارا کبھی کبھی
آزاد ہو کے دام گہہ خیرو شر سے ہم
جو آرزونہ ہو تیری تو آرزو کیا ہے
کیا جانے ابکے بچھڑے ملیں گے بھی یا نہیں
عاشقی نشۂ سرشار ہوئی جاتی ہے
جب تک لہو میں دل کا سفینہ رواں نہ تھا
آئی بہار تو بھی ساغر کشاں چلا آ
تیرے دیوانے کا انداز پریشاں دیکھا
کون ہوا زخمر زن ساز دل
ساغر اٹھالیا کبھی مینا اٹھا لیا
پھر اہے تیری جستجو میں اک جہاں کہاں کہاں
ادھر دل پہ بجلی گرائی ادا نے
اب اس طرح دل غمکش ہمیں ستاتا ہے
کہنے کو میکش بہت وہ بزم رندانہ کہاں
کہیں لینے جانا ہے بے جرم خواری
قفس میں کچھ خبر گلستاں نہیں معلوم
کس طرح کھلتے ہیں نغموں کے چمن سمجھا تھا میں
عرض نیاز عشق کا سودا لئے ہوئے
پھوٹیں گے انقلاب کے دھارے نئے نئے
بے قراری کبھی قرار میں ہے
متفرقات
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.