Sign up and enjoy FREE unlimited access to a whole Universe of Urdu Poetry, Language Learning, Sufi Mysticism, Rare Texts
یہ رہی دنیا کہ اب پسپا ہے مسمار ہے جو
نحیف سی صدا سہی اثر ہوا
کہیں کسی جنوں کا جو اسیر ہو کے رہ گیا
زیاں گر کچھ ہوا تو اتنا جتنا سود ہوتا ہے
بس ایک بار فقط ایک بار کم سے کم
یہ کہو یہ نہ کہو ایسے کہو ایسے نہیں
اب تک جو بقایا ہے ادا کردو سبھی اب
اہم آنکھیں ہیں یا منظر کھلے تو
دیکھا دیکھا جو کہا تھا ہوا آخر دیکھا
کہیں جورتی بھر آس ہوتی، خموشی کیوں اختیار کرتے
شرف بھی ضبط کا حاصل کل اختیار کے ساتھ
تو صاحب یوں ہوا چاہا ہوا تو ہو نہیں پایا
سن سنا کر کچھ کبھی کچھ لکھ لکھا کر
تجھ کو تیری ہی قسم کیا میں غلط ہوں بتلا
جیتے جی تج دیں مگر اتنا جگر ہے کب بھلا
کہیں کھپائے بنا تم اپنے کو چین سے مر سکو گے کیا
نرالا عجب تک چڑھا آدمی ہوں
کبھی بھنور تھی جو اک یاد اب سنامی ہے
کیا خاک ہاتھ اائے بھلا اپنی خاک سے
لفظ ومعنی کے قرینے کہ بیاں کی تہذیب
مانو نہ مانو اس بازی میں دونوں ہی کی مات ہوئی
آنکھوں کی بھی کوئی زباں ہے ہاں ہاں ہے
کہیں جو سوچ لے کوئی زباں نکل آئے
مکین بہتوں میں اور بہتوں کے مکاں بھی رہے
ہے کارساز بڑا ہی اگر مگر میرا
دشمنی یاری کرے گا اسی ڈھب کی وہ تو
دیکھ سکتا ہی نہیں کوئی بھی دوبارہ بدن
فی سبیل اللہ کیا شے ہے کوئی سمجھائے تو
اب تو اپنے تک ہی ہر اک بات رکھنی چاہئے
This may improve readability of textual content and reduce power consumption on certain devices.Experiment at will.
AUTHORشمیم عباس
YEAR2013
CONTRIBUTORشمیم عباس
PUBLISHER قلم پبلی کیشنز، ممبئی
پر کھلے تو شمیم عباس
Page #1
Ebook Title
نام
ای-میل
تبصره
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔