میں ایک عمر سے جبر تعینات میں ہوں
محمود ایاز
دل اکیلا ہے بہت لالہ صحرا کی طرح
مظہر امام
یہ کھیل بھول بھلیاں میں ہم نے کھیلا بھی
مظہر امام
اس سے ملے نہ تھے تو زمانے سے کب ملے
مظہر امام
اس طرح اب سرِ منظر آؤں
مظہر امام
ہونٹوں پہ درختوں کے مناجات نہیں تھی
مظہر امام
تیر کی طرح اترتا تھا دھواں سینے میں
باقر مہدی
ہم پہ احسان نہ کر شمع جلال کر بابا
عرفان صدیقی
سفر کیا ہے عجب اہتمام کرتے ہوئے
عرفان صدیقی
رات بھر جمع ہوئے شہرِ گریزاں والے
عرفان صدیقی
جس دل کو لذتِ سخن آرائی چاہیے
عرفان صدیقی
کسی کے ظاہر وباطن میں کچھ تضاد نہ تھا
غلام حسین ساجد
بہت دنوں سے ہوا وہوس نہیں مرے ساتھ
غلام حسین ساجد
رکھی ہے اس کی شب وروز کی خبر میں نے
غلام حسین ساجد
پکارتا ہے کوئی آشنا مجھے پھر سے
غلام حسین ساجد
یہی نگر تھا اسی طرح کی زمیں شاید
غلام حسین ساجد
یہ اور بات مجھے مل نہیں سکا سایہ
غلام حسین ساجد
ہنسے ہوں گے کبھی ناکامیوں پر رو چکے ہوں گے
غلام حسین ساجد
وجود ایک حقیقت ہے خواب ہونے تک
غلام حسین ساجد
راہ تکتا ہوں فروغِ صبح تک اک خواب میں
غلام حسین ساجد
پاؤں پڑتے ہیں کہیں اور کہیں رکھتا ہوں
غلام حسین ساجد
دل سے اتر کے موجِ غم آنکھوں پہ چھا رہی ہے کیوں
غلام حسین ساجد
زبان زد مرا ایمان ہر طرح ظاہر
کرشن کمار طور
جو چہرے سے بت ہیں وہ حکمِ سفر کے سامنے ہیں
کرشن کمار طور
کشادگی پہ کہاں ساعت اثر ہر روز
کرشن کمار طور
ایقان ثواب میں نظر آیا
کرشن کمار طور
سکوتِ شاہ میں جبرِ فقیر دیکھتے ہیں
کرشن کمار طور
سمجھ رہے ہیں جو تقصیر کرنا چاہتے ہیں
کرشن کمار طور
ہے کس کا نقشِ کف پا بھلا ستارۂ شام
کرشن کمار طور
ہے اب جنوں میں فقط اک حرفِ سادہ تحفۂ نایاب
کرشن کمار طور
ہر بے سبیل لمحے میں دنیا بھی کوئی ہے
چندر پرکاش شاد
طوفان میں بکھرتا رہتا ہوں کترن کترن
چندر پرکاش شاد
ابھی ساحلوں میں نہ دیکھ اپنی برابری
چندر پرکاش شاد
کبھی تو آئے ہوئے ماہ وسال بھی دیکھو
چندر پرکاش شاد
کم سے کم اپنا بھرم تو نہیں کھویا ہوتا
راشد آزر
میرے سبب سے تم پہ جو الزام دھر گئے
راشد آزر
نظارے گھر کے بڑے سبز بخت ہوتے تھے
ذکی بلگرامی
آنکھوں کی گہری جھیل میں اک خواب دفن ہے
ذکی بلگرامی
آئینہ بن کے تک رہا ہوں میں
ذکی بلگرامی
شجر کی طرح گھنی چھاؤں میں بٹھاتے ہیں
ذکی بلگرامی
ہم نہ ہوں گے تو کوئی اور یہاں ہوئے گا
ذکی بلگرامی
اندھیری شب میں جگنوں دیکھتا ہوں
احسن رضوی
درختوں پر ابھی پتے بہت ہیں
احسن رضوی
بدلتے موسموں کی بات کرنا
احسن رضوی
بچھڑ جانے کا موسم دیکھنا ہے
احسن رضوی
سنا تھا وقت مرہم ہے مگر ایسا نہیں لگتا
احسن رضوی
خوف سے بچنے کی خواہش کرتے
حامدی کاشمیری
حرف تن پر ابھارا کر لیں گے
حامدی کاشمیری
دکھائی دینے کے اور دکھائی نہ دینے کے درمیان سا کچھ
عبدالاحد ساز
مزاجِ سیل طلب اپنی رخصتیں مانگے
عبدالاحد ساز
اک تماشا ہے مرا راہ گزر میں رہنا
عبدالاحد ساز
درخت، روح کے جھومے، پرندے گانے لگے
عبدالاحد ساز
یہ زندہ رہنے کا موسم گزرنہ جائے کہیں
اسعد بدایونی
مری طرف بھی تنی ہے کمانِ غم زدگاں
اسعد بدایونی
ترے چراغ بھی اچھے ہیں، گھر بھی اچھا ہے
اسعد بدایونی
زمیں کے جسم پہ عیارِ غم اٹھاتے ہیں
اسعد بدایونی
سب یقینوں پہ مسلط تھا گماں راستے بھر
اسعد بدایونی
ہم فقط لقمۂ ترا اور شکم جانتے ہیں
اسعد بدایونی
نہ عرشِ خواب نہ فرشِ گماں بناتے ہیں
اسعد بدایونی
شجر پہ جب بھی شگوفہ دکھائی دیتا ہے
اسعد بدایونی
حشر کرنا ہے بپا یار کے جاتے جاتے
اسعد بدایونی
منسوخ صحیفوں سے عبادت نہیں ہوتی
اسعد بدایونی
یہ جہاں خوب ہے، سب اس کے نظارے اچھے
مہتاب حیدر نقوی
اسے سنائیں کہ خود سنیں ترانۂ دل
مہتاب حیدر نقوی
اگر کوئی خلش جاوداں سلامت ہے
مہتاب حیدر نقوی
ایک طوفان کا سامان بنی ہے کوئی چیز
مہتاب حیدر نقوی
نہیں کہ دولت فہم وذکا نہیں رکھتے
سراج اجملی
کیا سوچتے رہے ہو یہ تصویر بنا کر کے
سراج اجملی
رد رنج وملال کرنا کیا
سراج اجملی
کیسی وباتھی کوئی دعا ہی نہیں چلی
سراج اجملی
نہ ٹھہری پاؤں تک بن خاک کل شب
عشرت ظفر
دشتِ بے سمت وکراں ہیں مجھ میں
عشرت ظفر
افق کوئی نہ ملے گا کسی کہانی میں
عشرت ظفر
منتخب اس نے جو کی تشنہ لبی میرے لیے
عشرت ظفر
میں اپنی صبح رکھتا ہوں اور اپنی شام رکھتا ہوں
ابرار احمد
تم جس جگہ نہ ہو وہیں دیکھا کریں گے ہم
ابرار احمد
دل میں اب یہ ملال رہتا ہے
ابرار احمد
جو بھی کچھ ہے کہیں دھوکا ہی نہ ہو
ابرار احمد
کوئی سرشاری سی سرشاری ہے
ابرار احمد
سطحِ نظر پہ مہرِ مسورا تار دے
راحت حسن
اب کے تو کمال ہو گیا ہے
راحت حسن
مت پوچھ کہ کیا ہے کیانہیں ہے
راحت حسن
مانوسِ عذاب ہو رہے ہیں
راحت حسن
اک خواب پسِ جنوں ہوگا
راحت حسن
بے شرر کب سروسامانی خس روشن ہے
راحت حسن
جب سے طوفان نے طائر کی وکالت کی ہے
راحت حسن
عرسِ جاں سنتا ہوں میں کس کی زبانی بار بار
راحت حسن
رقیب ومدگار عالی مرے
راحت حسن
رسائی میرے فسانے کی کو بہ کوتو نہیں
راحت حسن
آپ بھی مطمئن ہوں میں، غیر بھی شاد ہو چکا
راحت حسن
بھٹکتی پھرتی ہے دن رات دربہ در تنہا
خالد سرفراز
وقت کا کیا ہے کہ وہ دشمنِ جانی ہے بہت
خالد سرفراز
رات کو صبح دے لفظوں کو معانی دےدے
خالد سرفراز
اس سبب سے تری آرزو زیادہ ہے
خالد سرفراز
شعلہ کبی شبنم، کبھی پتھر مری آنکھیں
خالد سرفراز
نہ چاند کا نہ ستاروں، نہ آفتاب کا ہے
خالد سرفراز
سیاہ رات کے بدن پہ داغ بن کے رہ گئے
عالم خورشید
غلط یہ بات ہے روشن کہیں دماغ نہیں
عالم خورشید
کیا ہوا وہ نیلگوں سا آسماں پھیلا ہوا
عالم خورشید
ہر گھڑی اک یہی احساسِ زیاں رہتا ہے
عالم خورشید
ہتھیلی کی لکیروں میں اشارہ اور ہے کوئی
عالم خورشید
زوال میں رہا دل نشیں نظارا مرا
عالم خورشید
کبھی کچھ چمکتا ساتہہِ آب نظر تو آئے
عالم خورشید
سیاہیوں کو نگلتا ہوا نظر آیا
عالم خورشید
کھڑے ہیں دیر سے احباب دیکھنے کے لیے
عالم خورشید
اٹھائے سنگ کھڑے ہیں سبھی ثمر کےلیے
عالم خورشید
جس کی دوری وجہ غم ہو جاتی ہے
عالم خورشید
دیکھ رہا ہے دریا بھی حیرانی سے
عالم خورشید
عالم جیون کھیل تماشا دانائی نادانی ہے
عالم خورشید
ہیچ نظر آتی ہے دنیا پاگل دل کے آگے
عالم خورشید
ترے جیسا کوئی بھوکا کوئی پیاسا نہیں تھا
عالم خورشید
میں جس جگہ بھی رہوں گا وہیں پہ آئے گا
عالم خورشید
بہہ رہا تھا ایک دریا خواب میں
عالم خورشید
نیند پلکوں پہ دھری رہتی تھی
عالم خورشید
یاد کرتے ہو مجھے کیا دن نکل جانے کے بعد
عالم خورشید
چاشنی گفتار کی تلخی میں ڈھل جانے سے قبل
عالم خورشید
وہ خوف ہے کہ حواس اپنے کھوئے جاتے ہیں
عالم خورشید
کسی صورت سیاہی میں کمی ہوتی نہیں ہے
عالم خورشید
چھوٹی سی ایک بات نے رسوائی کی مری
عالم خورشید
ایک عجب سی دنیا دیکھا کرتا تھا
عالم خورشید
ہاتھ پکڑ لے اب بھی تیرا ہو سکتا ہوں میں
عالم خورشید
اس کو آباد بہ انداز دگر رہنے دے
میر ہاشم
اب دستِ صبا پھر دیکھیے کب یاں لاتی ہے
علی ظہیر
اس کے انداز میں تھا حسن اثر سے پہلے
علی ظہیر
زندگی کرنے کے حیلے نہ بہانے آئے
ظفر مہدی
میں خود کو آزمانا چاہتا ہوں
ظفر مہدی
تابشِ چشمِ تر میں رہتے ہیں
ظفر مہدی
یہ جو فطرت میں خاکساری ہے
ظفر مہدی
بہت ویرانیاں ہوتے ہوئے آباد ہو جانا
ظفر مہدی
ملے جو خواب میں بتعبیر آشنا ہم سے
ظفر مہدی
میرے قبضے میں لب کشائی ہے
ظفر مہدی
گھر جو لوٹے تو ملے غیر کے سامانوں میں
شکیب ایاز
تمام عمر مسائل لیے سفر میں رہا
شکیب ایاز
صدائے گل فروشاں مجھ کو گھر جانے کو کہتی ہے
شکیب ایاز
فقیر ومست کا دنیا میں اب ٹھکانا کیا
شکیب ایاز
فصیلِ شہر پہ ستار کس فقیر کی ہے
شکیب ایاز
تجویز کچھ عجیب سی مجھ کو سزا ہوئی
شکیب ایاز
خود پہ رووَں تو وہی عکسِ دگر جلتا ہے
عالم پرویز
جاڑے کی سرد رات میں ٹھٹھرا ہوا ملا
عالم پرویز
وہ جو خاموشی کی تصویر بنا رہتا ہے
عالم پرویز
ملتے ہین نقشِ پانقشِ پا نہیں ملتا
شہپر رسول
حرفِ عیاں کی راہ سے جب میں حرفِ حذف گزرتا ہوں
شہپر رسول
میرے لفظوں پر نہ جا آرا لَشِ گفتار دیکھ
تنہا تماپوری
بات کچھ یوں ہے کہ یہ خوف کا مرکز تو نہیں
تنہا تماپوری
اسے جینے کا لالچ ہے نہ مرنے ہی سے ڈرتا ہے
تنہا تماپوری
خیال وخواب کی دنیا کو چال آئے ہیں
معراج رعنا
خواہشِ انجمن آرائی بہت ہوتی ہے
معراج رعنا
مرے درون سے تیرا بروں کشادہ نہیں
معراج رعنا
لباسِ گرد میں مدفوں تہہ زمیں نکلے
معراج رعنا
اور کچھ بھی نہیں اس کے سوا چاہتے ہیں
طارق متین
پھر سے دل میں تری یادوں کا اجالا ہوا ہے
طارق متین
اپنی حرمت کے طلب گار ہوئے ہیں ہم لوگ
طارق متین
دل اپنا نور سے آباد رکھنا چاہتا ہوں
طارق متین
محبت کے شجر میں دشمنی کا پھل نہیں ہوتا
طارق متین
انداز ہی کچھ سب سے نرالا ہے ہمارا
طارق متین
قعرِ گم نامی سے نکلے تو خبر میں آئے
طارق متین
امن کے شہر میں ہے ظلم کا بازار چلو گھر لوٹیں
ستار صدیقی
ناوَ ڈوبتی رہی دھیرے دھیرے وقت کی
فاطمہ تاج
کچھ گمانِ آرزو، کچھ وفا کے واہمے
فاطمہ تاج
آئینے تو دیکھے ہیں چہرہ بھی کبھی دیکھیں
فاطمہ تاج
نغمۂ دل مرے ہونٹوں پہ جو آتا ہی نہیں ہے
فاطمہ تاج
بس ایک وعدۂ یوم نجات ہے میں ہوں
عین تابش
گر سلوک اس کو عداوت کی طرح چاہیے تھا
عین تابش
جیسے مل جاتا ہے خاتم کو نگیں مل جائیں گے
عین تابش
گرچہ موجود ہے لیکن تو کہیں کھو گیا ہے
عین تابش
نہ کھلا باغِ تجلی نہ سجی بزمِ خیال
عین تابش
غمِ حیات، کہاں تک تجھے مناؤں میں
مظہر محی الدین
جانے کے بعد
جوگیندر پال
بھائی جان کی کہانی
قیوم راہی
توفیق
رشید امجد
بھاشا
عبدالصمد
دوسرے آدمی کی صورت
ناصر بغدادی
خزاں زدہ
انور قمر
سایہ
پرویز محسن
تہذیب وتمدن
تقی حسین خسرو
پُرسہ
قدیر زماں
نجات
بیگ احساس
اعتماد شکنی
منیر الدین احمد
اعلانوں بھرا شہر
سلیم آغا قزلباش
سرنگ کے بعد کا اندھیرا
شاہد اختر
اگست 25۔1983
جارج لوئی بور خیز/ ترجمہ: حیدر جعفری
مسجد کی کبوتری (تلگو کہانی)
دادا دھیات/ ترجمہ: حیدر جعفری سید
یہودی بیوی
برتولت بریخت/ ترجمہ: حیدر جعفری سید
ڈھلتی دھوپ کی چھاؤں
غلام جیلانی
چوتھی دیوار
انل ٹھکر
ناچ راجا ناچ
زبیر رضوی
مہندر بھلّہ
ادارہ
ایک شوہر کے نوٹس
مہندر بھلّہ/ ترجمہ: حیدر جعفری سید
YEAR2003
CONTRIBUTORShamim Hanafi,Farhat Ehsas
PUBLISHER Maktaba Sher-o-Hikmat, Hyderabad
YEAR2003
CONTRIBUTORShamim Hanafi,Farhat Ehsas
PUBLISHER Maktaba Sher-o-Hikmat, Hyderabad
میں ایک عمر سے جبر تعینات میں ہوں
محمود ایاز
دل اکیلا ہے بہت لالہ صحرا کی طرح
مظہر امام
یہ کھیل بھول بھلیاں میں ہم نے کھیلا بھی
مظہر امام
اس سے ملے نہ تھے تو زمانے سے کب ملے
مظہر امام
اس طرح اب سرِ منظر آؤں
مظہر امام
ہونٹوں پہ درختوں کے مناجات نہیں تھی
مظہر امام
تیر کی طرح اترتا تھا دھواں سینے میں
باقر مہدی
ہم پہ احسان نہ کر شمع جلال کر بابا
عرفان صدیقی
سفر کیا ہے عجب اہتمام کرتے ہوئے
عرفان صدیقی
رات بھر جمع ہوئے شہرِ گریزاں والے
عرفان صدیقی
جس دل کو لذتِ سخن آرائی چاہیے
عرفان صدیقی
کسی کے ظاہر وباطن میں کچھ تضاد نہ تھا
غلام حسین ساجد
بہت دنوں سے ہوا وہوس نہیں مرے ساتھ
غلام حسین ساجد
رکھی ہے اس کی شب وروز کی خبر میں نے
غلام حسین ساجد
پکارتا ہے کوئی آشنا مجھے پھر سے
غلام حسین ساجد
یہی نگر تھا اسی طرح کی زمیں شاید
غلام حسین ساجد
یہ اور بات مجھے مل نہیں سکا سایہ
غلام حسین ساجد
ہنسے ہوں گے کبھی ناکامیوں پر رو چکے ہوں گے
غلام حسین ساجد
وجود ایک حقیقت ہے خواب ہونے تک
غلام حسین ساجد
راہ تکتا ہوں فروغِ صبح تک اک خواب میں
غلام حسین ساجد
پاؤں پڑتے ہیں کہیں اور کہیں رکھتا ہوں
غلام حسین ساجد
دل سے اتر کے موجِ غم آنکھوں پہ چھا رہی ہے کیوں
غلام حسین ساجد
زبان زد مرا ایمان ہر طرح ظاہر
کرشن کمار طور
جو چہرے سے بت ہیں وہ حکمِ سفر کے سامنے ہیں
کرشن کمار طور
کشادگی پہ کہاں ساعت اثر ہر روز
کرشن کمار طور
ایقان ثواب میں نظر آیا
کرشن کمار طور
سکوتِ شاہ میں جبرِ فقیر دیکھتے ہیں
کرشن کمار طور
سمجھ رہے ہیں جو تقصیر کرنا چاہتے ہیں
کرشن کمار طور
ہے کس کا نقشِ کف پا بھلا ستارۂ شام
کرشن کمار طور
ہے اب جنوں میں فقط اک حرفِ سادہ تحفۂ نایاب
کرشن کمار طور
ہر بے سبیل لمحے میں دنیا بھی کوئی ہے
چندر پرکاش شاد
طوفان میں بکھرتا رہتا ہوں کترن کترن
چندر پرکاش شاد
ابھی ساحلوں میں نہ دیکھ اپنی برابری
چندر پرکاش شاد
کبھی تو آئے ہوئے ماہ وسال بھی دیکھو
چندر پرکاش شاد
کم سے کم اپنا بھرم تو نہیں کھویا ہوتا
راشد آزر
میرے سبب سے تم پہ جو الزام دھر گئے
راشد آزر
نظارے گھر کے بڑے سبز بخت ہوتے تھے
ذکی بلگرامی
آنکھوں کی گہری جھیل میں اک خواب دفن ہے
ذکی بلگرامی
آئینہ بن کے تک رہا ہوں میں
ذکی بلگرامی
شجر کی طرح گھنی چھاؤں میں بٹھاتے ہیں
ذکی بلگرامی
ہم نہ ہوں گے تو کوئی اور یہاں ہوئے گا
ذکی بلگرامی
اندھیری شب میں جگنوں دیکھتا ہوں
احسن رضوی
درختوں پر ابھی پتے بہت ہیں
احسن رضوی
بدلتے موسموں کی بات کرنا
احسن رضوی
بچھڑ جانے کا موسم دیکھنا ہے
احسن رضوی
سنا تھا وقت مرہم ہے مگر ایسا نہیں لگتا
احسن رضوی
خوف سے بچنے کی خواہش کرتے
حامدی کاشمیری
حرف تن پر ابھارا کر لیں گے
حامدی کاشمیری
دکھائی دینے کے اور دکھائی نہ دینے کے درمیان سا کچھ
عبدالاحد ساز
مزاجِ سیل طلب اپنی رخصتیں مانگے
عبدالاحد ساز
اک تماشا ہے مرا راہ گزر میں رہنا
عبدالاحد ساز
درخت، روح کے جھومے، پرندے گانے لگے
عبدالاحد ساز
یہ زندہ رہنے کا موسم گزرنہ جائے کہیں
اسعد بدایونی
مری طرف بھی تنی ہے کمانِ غم زدگاں
اسعد بدایونی
ترے چراغ بھی اچھے ہیں، گھر بھی اچھا ہے
اسعد بدایونی
زمیں کے جسم پہ عیارِ غم اٹھاتے ہیں
اسعد بدایونی
سب یقینوں پہ مسلط تھا گماں راستے بھر
اسعد بدایونی
ہم فقط لقمۂ ترا اور شکم جانتے ہیں
اسعد بدایونی
نہ عرشِ خواب نہ فرشِ گماں بناتے ہیں
اسعد بدایونی
شجر پہ جب بھی شگوفہ دکھائی دیتا ہے
اسعد بدایونی
حشر کرنا ہے بپا یار کے جاتے جاتے
اسعد بدایونی
منسوخ صحیفوں سے عبادت نہیں ہوتی
اسعد بدایونی
یہ جہاں خوب ہے، سب اس کے نظارے اچھے
مہتاب حیدر نقوی
اسے سنائیں کہ خود سنیں ترانۂ دل
مہتاب حیدر نقوی
اگر کوئی خلش جاوداں سلامت ہے
مہتاب حیدر نقوی
ایک طوفان کا سامان بنی ہے کوئی چیز
مہتاب حیدر نقوی
نہیں کہ دولت فہم وذکا نہیں رکھتے
سراج اجملی
کیا سوچتے رہے ہو یہ تصویر بنا کر کے
سراج اجملی
رد رنج وملال کرنا کیا
سراج اجملی
کیسی وباتھی کوئی دعا ہی نہیں چلی
سراج اجملی
نہ ٹھہری پاؤں تک بن خاک کل شب
عشرت ظفر
دشتِ بے سمت وکراں ہیں مجھ میں
عشرت ظفر
افق کوئی نہ ملے گا کسی کہانی میں
عشرت ظفر
منتخب اس نے جو کی تشنہ لبی میرے لیے
عشرت ظفر
میں اپنی صبح رکھتا ہوں اور اپنی شام رکھتا ہوں
ابرار احمد
تم جس جگہ نہ ہو وہیں دیکھا کریں گے ہم
ابرار احمد
دل میں اب یہ ملال رہتا ہے
ابرار احمد
جو بھی کچھ ہے کہیں دھوکا ہی نہ ہو
ابرار احمد
کوئی سرشاری سی سرشاری ہے
ابرار احمد
سطحِ نظر پہ مہرِ مسورا تار دے
راحت حسن
اب کے تو کمال ہو گیا ہے
راحت حسن
مت پوچھ کہ کیا ہے کیانہیں ہے
راحت حسن
مانوسِ عذاب ہو رہے ہیں
راحت حسن
اک خواب پسِ جنوں ہوگا
راحت حسن
بے شرر کب سروسامانی خس روشن ہے
راحت حسن
جب سے طوفان نے طائر کی وکالت کی ہے
راحت حسن
عرسِ جاں سنتا ہوں میں کس کی زبانی بار بار
راحت حسن
رقیب ومدگار عالی مرے
راحت حسن
رسائی میرے فسانے کی کو بہ کوتو نہیں
راحت حسن
آپ بھی مطمئن ہوں میں، غیر بھی شاد ہو چکا
راحت حسن
بھٹکتی پھرتی ہے دن رات دربہ در تنہا
خالد سرفراز
وقت کا کیا ہے کہ وہ دشمنِ جانی ہے بہت
خالد سرفراز
رات کو صبح دے لفظوں کو معانی دےدے
خالد سرفراز
اس سبب سے تری آرزو زیادہ ہے
خالد سرفراز
شعلہ کبی شبنم، کبھی پتھر مری آنکھیں
خالد سرفراز
نہ چاند کا نہ ستاروں، نہ آفتاب کا ہے
خالد سرفراز
سیاہ رات کے بدن پہ داغ بن کے رہ گئے
عالم خورشید
غلط یہ بات ہے روشن کہیں دماغ نہیں
عالم خورشید
کیا ہوا وہ نیلگوں سا آسماں پھیلا ہوا
عالم خورشید
ہر گھڑی اک یہی احساسِ زیاں رہتا ہے
عالم خورشید
ہتھیلی کی لکیروں میں اشارہ اور ہے کوئی
عالم خورشید
زوال میں رہا دل نشیں نظارا مرا
عالم خورشید
کبھی کچھ چمکتا ساتہہِ آب نظر تو آئے
عالم خورشید
سیاہیوں کو نگلتا ہوا نظر آیا
عالم خورشید
کھڑے ہیں دیر سے احباب دیکھنے کے لیے
عالم خورشید
اٹھائے سنگ کھڑے ہیں سبھی ثمر کےلیے
عالم خورشید
جس کی دوری وجہ غم ہو جاتی ہے
عالم خورشید
دیکھ رہا ہے دریا بھی حیرانی سے
عالم خورشید
عالم جیون کھیل تماشا دانائی نادانی ہے
عالم خورشید
ہیچ نظر آتی ہے دنیا پاگل دل کے آگے
عالم خورشید
ترے جیسا کوئی بھوکا کوئی پیاسا نہیں تھا
عالم خورشید
میں جس جگہ بھی رہوں گا وہیں پہ آئے گا
عالم خورشید
بہہ رہا تھا ایک دریا خواب میں
عالم خورشید
نیند پلکوں پہ دھری رہتی تھی
عالم خورشید
یاد کرتے ہو مجھے کیا دن نکل جانے کے بعد
عالم خورشید
چاشنی گفتار کی تلخی میں ڈھل جانے سے قبل
عالم خورشید
وہ خوف ہے کہ حواس اپنے کھوئے جاتے ہیں
عالم خورشید
کسی صورت سیاہی میں کمی ہوتی نہیں ہے
عالم خورشید
چھوٹی سی ایک بات نے رسوائی کی مری
عالم خورشید
ایک عجب سی دنیا دیکھا کرتا تھا
عالم خورشید
ہاتھ پکڑ لے اب بھی تیرا ہو سکتا ہوں میں
عالم خورشید
اس کو آباد بہ انداز دگر رہنے دے
میر ہاشم
اب دستِ صبا پھر دیکھیے کب یاں لاتی ہے
علی ظہیر
اس کے انداز میں تھا حسن اثر سے پہلے
علی ظہیر
زندگی کرنے کے حیلے نہ بہانے آئے
ظفر مہدی
میں خود کو آزمانا چاہتا ہوں
ظفر مہدی
تابشِ چشمِ تر میں رہتے ہیں
ظفر مہدی
یہ جو فطرت میں خاکساری ہے
ظفر مہدی
بہت ویرانیاں ہوتے ہوئے آباد ہو جانا
ظفر مہدی
ملے جو خواب میں بتعبیر آشنا ہم سے
ظفر مہدی
میرے قبضے میں لب کشائی ہے
ظفر مہدی
گھر جو لوٹے تو ملے غیر کے سامانوں میں
شکیب ایاز
تمام عمر مسائل لیے سفر میں رہا
شکیب ایاز
صدائے گل فروشاں مجھ کو گھر جانے کو کہتی ہے
شکیب ایاز
فقیر ومست کا دنیا میں اب ٹھکانا کیا
شکیب ایاز
فصیلِ شہر پہ ستار کس فقیر کی ہے
شکیب ایاز
تجویز کچھ عجیب سی مجھ کو سزا ہوئی
شکیب ایاز
خود پہ رووَں تو وہی عکسِ دگر جلتا ہے
عالم پرویز
جاڑے کی سرد رات میں ٹھٹھرا ہوا ملا
عالم پرویز
وہ جو خاموشی کی تصویر بنا رہتا ہے
عالم پرویز
ملتے ہین نقشِ پانقشِ پا نہیں ملتا
شہپر رسول
حرفِ عیاں کی راہ سے جب میں حرفِ حذف گزرتا ہوں
شہپر رسول
میرے لفظوں پر نہ جا آرا لَشِ گفتار دیکھ
تنہا تماپوری
بات کچھ یوں ہے کہ یہ خوف کا مرکز تو نہیں
تنہا تماپوری
اسے جینے کا لالچ ہے نہ مرنے ہی سے ڈرتا ہے
تنہا تماپوری
خیال وخواب کی دنیا کو چال آئے ہیں
معراج رعنا
خواہشِ انجمن آرائی بہت ہوتی ہے
معراج رعنا
مرے درون سے تیرا بروں کشادہ نہیں
معراج رعنا
لباسِ گرد میں مدفوں تہہ زمیں نکلے
معراج رعنا
اور کچھ بھی نہیں اس کے سوا چاہتے ہیں
طارق متین
پھر سے دل میں تری یادوں کا اجالا ہوا ہے
طارق متین
اپنی حرمت کے طلب گار ہوئے ہیں ہم لوگ
طارق متین
دل اپنا نور سے آباد رکھنا چاہتا ہوں
طارق متین
محبت کے شجر میں دشمنی کا پھل نہیں ہوتا
طارق متین
انداز ہی کچھ سب سے نرالا ہے ہمارا
طارق متین
قعرِ گم نامی سے نکلے تو خبر میں آئے
طارق متین
امن کے شہر میں ہے ظلم کا بازار چلو گھر لوٹیں
ستار صدیقی
ناوَ ڈوبتی رہی دھیرے دھیرے وقت کی
فاطمہ تاج
کچھ گمانِ آرزو، کچھ وفا کے واہمے
فاطمہ تاج
آئینے تو دیکھے ہیں چہرہ بھی کبھی دیکھیں
فاطمہ تاج
نغمۂ دل مرے ہونٹوں پہ جو آتا ہی نہیں ہے
فاطمہ تاج
بس ایک وعدۂ یوم نجات ہے میں ہوں
عین تابش
گر سلوک اس کو عداوت کی طرح چاہیے تھا
عین تابش
جیسے مل جاتا ہے خاتم کو نگیں مل جائیں گے
عین تابش
گرچہ موجود ہے لیکن تو کہیں کھو گیا ہے
عین تابش
نہ کھلا باغِ تجلی نہ سجی بزمِ خیال
عین تابش
غمِ حیات، کہاں تک تجھے مناؤں میں
مظہر محی الدین
جانے کے بعد
جوگیندر پال
بھائی جان کی کہانی
قیوم راہی
توفیق
رشید امجد
بھاشا
عبدالصمد
دوسرے آدمی کی صورت
ناصر بغدادی
خزاں زدہ
انور قمر
سایہ
پرویز محسن
تہذیب وتمدن
تقی حسین خسرو
پُرسہ
قدیر زماں
نجات
بیگ احساس
اعتماد شکنی
منیر الدین احمد
اعلانوں بھرا شہر
سلیم آغا قزلباش
سرنگ کے بعد کا اندھیرا
شاہد اختر
اگست 25۔1983
جارج لوئی بور خیز/ ترجمہ: حیدر جعفری
مسجد کی کبوتری (تلگو کہانی)
دادا دھیات/ ترجمہ: حیدر جعفری سید
یہودی بیوی
برتولت بریخت/ ترجمہ: حیدر جعفری سید
ڈھلتی دھوپ کی چھاؤں
غلام جیلانی
چوتھی دیوار
انل ٹھکر
ناچ راجا ناچ
زبیر رضوی
مہندر بھلّہ
ادارہ
ایک شوہر کے نوٹس
مہندر بھلّہ/ ترجمہ: حیدر جعفری سید
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.