سرورق
تن میں جب تک میرے دم ہے یا محمدمصطفیٰ
مقدور نہیں خلق کو خالق کی ثنا کا
ہے سخن قید میں جب تک نہ زباں سے نکلا
زمانہ عالم ہستی ہے یا کہ خواب ہے کیا
پردہ جو اسنے رخ سے اٹھایا نقاب کا
مت کر بدی کہ خوف ہے رب کے عتاب کا
بیاں میں کیا کروں صاحب تمہاری مہربانی کا
محفل میں یک بیک جو وہ شب کو مچل گیا
کیا دبدبہ بتاتے ہو تم ہم کو شال کا
پھر شوق ہوا یا ر کو ہے تیرو کمان کا
دوست رویہ نفس دشمن مجھ سے جب ہم خانہ تھا
مثل یہ کہتے ہیں غم میں کہ آسماں ٹوٹا
پھر مجھے جوش جوانی آگیا
غم زمانہ یہ آغشتۂ ملال کیا
اگر وہ پاد شہ حسن مہرباں ہوتا
قتل خنداں ہو یہ انساں کا مقدور نہ تھا
شعر ہے سحر سنا جس نے وہ دیوانہ بنا
جہاں میں جس کے تئیں قید آب ودانہ ہوا
کروں گر ذکر میں باغ وبہار اور لالہ و گل کا
ہر چند نخل عمر کو ہے پھول وپھل لگا
زندہ گردم سے تیرے قالب پجاں ہوگا
جو ہوگیا عزیز خدا کے حضور کا
مشتاق ہوں میں انکی شب وروز دید کا
دل میرا داغ محبت سے جو گلعذار بنا
عید ہے ہم کو تمہارا روے روش دیکھنا
ڈھونڈتے جس کو پھرے ہم وہ ہمارے گھر میں تھا
خدائے پاک ہے مختار کل اپنی خدائی کا
چہرے پہ تیرے یار جو کاجل کا تل بنا
ہو ا ہے تاب غم سے سو کہہ کہ جس کا کہ تن ہلکا
یاد حق سے جس کا یکدم رایگاں ہو جائیگا
ہریک بشر کو میں یہاں بندۂ شکم دیکھا
ردیف باے موحدہ
ابروے یار ہے خم محراب کا جواب
ردیف تاے فوقانی
یا الٰہی کہیں ہو جاے یہ دن شام شتاب
شراب کرتی ہے دنیا کے سارے کام خراب
نہیں ہے عجب مجھے یہ نہیں عجب کی بات
اعمال جس کے نیک ہیں انجام ہے درست
غیر کوشش کے ہو نہ کام درست
خوش مجھ کو ان دنوں نہیں آتی کسی کی بات
ردیف ثاے مثلثہ
نہیں ہے خالق اکبر کا کوئی کام عبث
مالداروں کی بزرگی ہے ورم کے باعث
ردیف جیم عربی
نازک ہے ان دنوں میں بہت آپ کا مزاج
یکدل دوسودے امر ہے مشکل جہاں کے بیچ
ردیف جیم فارسی
جہاں میں گرچہ نہیں صاحب ہنر محتاج
ہر گز کسی سے دلا قیل وقال تلخ
ردیف خاے معجمہ
دو کینہ ور میں اگر ہو ہزار بار صلاح
ردیف حاے مہملہ
دل نہیں گیا ہے دام میں گیسو کے بیطرح
ردیف دال مہملہ
اے محتشم عمارت دنیا نہ کر بلند
نہیں ہے زیر سماجب ہمیں امان جاوید
ہے جہاں میں ہریک کو جاہ پسند
کسی کے حال پہ کرتا ہے کب نظر بیدرد
بات اچھی ہے وہی جس کو کریں چار پسند
جہاں میں آج ہے تحقیق گرچہ گھر گھر عید
ردیف راے معجمہ
ردیف ذال معجمہ
جب سے دیکھا ہوں میں اسکے سبز دامن کی بہار
آگے تمہارے لب کے نہیں ہے شکر لذیذ
سبکروحوں کا ہے مسکن ہوا پر
کوئی ہے یہاں جمال پر مغرور
لہو لعب میں عمر کو مت پائمال کر
ہر چند ہم تو کرتے ہیں تدبیر دیکھ کر
ردیف زاے معجمہ
حسن وہ جنس ہے جس کے ہیں خریدار ہزار
گیسوئے دلستاں کا ہے باقی اثر ہنوز
مجھ کو نفرت ہے نہ کمبل سے نہ کچھ شال عزیز
زر کے سب دوست ہیں اور سب کو زردار عزیز
کہاں سے لائی یہ ہستی ہمیں کہاں افسوس
ردیف سین مہملہ
عذاب گور ہے انساں کو جہاں کی ہوس
دانا کو ہر یک امر میں ہے ایک سخن بس
ردیف شین معجمہ
دل اگر خوش ہے تو باغستاں ہے خوش
دینا میں ہر کسی کو ہے آرام کی تلاش
ردیف صادمہملہ
ردیف ضاد معجمہ
نہ آئے کام پہ کچھ بہر آب ونان اخلاص
قرض ہے قرض محبت کی جہاں میں مقراض
کیا کروں میں خاک مخلوق جہا ں سے اختلاط
ردیف طاے مہملہ
سرد وگرم دیر سے ہے مجھ کو اکثر احتیاط
ردیف عین مہملہ
جلتی ہ جو بالیں پہ میری تابسحر شمع
ردیف ظاے معجمہ
اے یار نہ ہو در ہم ودینا سے محظوظ
ہم کو نہیں ہے عشق میں کچھ جان کی طمع
ہے وہ جانا سر سے پاتک چار باغ
ردیف غین معجمہ
ہے ہمارا بس توکل پر دماغ
گلشن میں صاحب سے کسی کے ہے سمن داغ
توڑ کر دل کو جو کہتے ہو کہ تقصیر معاف
مصروف یہاں ہر ایک ہے تدبیر کی طرف
ردیف فاے معجمہ
ردیف قاف
احمقوں کو عیب ہے علم وہنر کا اشتیاق
خدا کسی کو دکھادے کبھی نہ شام فراق
ہے اسکے رخ پہ خال سے وہ گال میں نمک
شعر شاعر کا اگر ہووے دگر سے فایق
چرخ پر مہ نہیں ہے یہ قدح شیرہلاک
ردیف کاف عربی
ہم نہ رہیں تو کیا ہے غم تم رہو دیر سال تک
ہو یا نہیں ہے مجھے شال سے ملال
ہے سرکشی جہاں میں سرف ابلہی کی چال
ردیف لام مہملہ
رہتا ہے جو خیال ہمیں روز وشب مدام
ردیف میم مہملہ
صبح گلشن میں یہ پاے بھید کو شبنم سے ہم
بخداے پاک کہ دہر میں مجھے کوئی شے کی ہوس نہیں
سب عضو سے بہتر ہے زبان گرچہ دہن میں
ردیف نون معجمہ
زندہ گو نوشیرواں اور حاتم طائی نہیں
واہ کیا جسم مطہر ہے کہ جس کو ظل نہیں
مست خوش ہو اگر راحت و آرام بھی ہے بیان
کیا لعل ہیں حنا سے تیرے اے نگار پانوں
جس میں عجز وفروتنی ہی نہیں
پردہ رخسار سے زروجور اٹھا دیتے ہیں
میں آہستہ بولوں وہ چلا رہے ہیں
خوبصورت ہیں بہت انکی خماری آنکھیں
دنیا عجب مکان ہے کہ ہے آج کل نہیں
زنہار مجھ کو خواہش باغ ارم نہیں
تمہاری چشم وابرو کیا ستم ہیں
بے جرم قتل کوئی بشر کاروا نہیں
افزایش اگر یار کی ہو نازوادا میں
خدا جانے کہ ہم رہ پر ہیں یا بے راہ چلتے ہین
جب تک فنا کا دغدغہ در پیش ہے ہمیں
قسم خدا کی میرے دل میں جب چاہ نہیں
فراز بام جووہ بن سنور نکلتے ہیں
یہ کیا گریۂ آدم نے اثر پہتر میں
مصرے کی طرح جسکی ہوتی ہے زباں شیریں
اکیلے جانے سے ہمرہ ہے بدرقہ احسن
نامۂ فرقت لکھوں کیوں کر بت طناز کو
ردیف واو مہملہ
کیا بلا یار کا ہر ناز وادا ہے جادو
چہرے پہ اپنے یار جو ہٹلایا خال کو
طبل تھی ہے جس میں بھرا سر ہو نہ ہو
قد کو گر اسکے کہوں سرد کہ شمشاد ہے یہ
واں ہوگی زاہد خود بیں تیرے دل کی گرہ
ردیف ہاے ہوز
ہے لرائی میں ظفر بازی شمشیر کے ساتھ
کیا عجب گرتن سے دم جاوے نکل ٹھوکر کے ساتھ
جو آگے اپنے باندھتے تھے جوں غلام ہاتھ
اے لب شکر ذرا تو کر وہم سے بات کچھ
شب جدائی ہے ایسی بہاری الٰہی توبہ الٰہی توبہ
ردیف یاے تحتانی
بد زبانی پر مجھے طاقت نہیں ہے تاب کی
فراق یار گل رخ میں ہمیں دیدار گل گل ہے
کسی کو میں نہ دیکھا سچ بات کرتے
ہوا ہےپھر چمن سر سبز ابر نوبہاری سے
زندگی بے یار مجھ کو سخت دشواری ہوئی
کیا کروں لذت بیاں میں اس لب قناد کی
تمہارے حسن کی گرمی دل آہن گلاتی ہے
کچھ کام کی نہیں ہے محبت جہاں کی
خوشی کیا ہے بہار آنیکے پیچھے ہی خزاں پہنچی
خاتم کی صف کوئی بشر میں نہیں آتی
دنیا کی ہر بہار کے پیچھے خزاں بھی ہے
گر خوے زشت ہووے کسی ہمنشین کی
اپنے سے موافق جو نہیں جاے کدھر بھی
اگر فلک کی میرے سر پہ آسیا پھر جاے
سپیدی موے مینہ میں جہاں نکل آئی
اسکے کیونکر کوئی زلفو دوتا کے سامنے
جب تک شبیہ یار میرے روبرو رہے
مشتاق جو جہاں میں ہیں دوشالہ شاں کے
ہم کام نہیں رکھتے ہیں پیمان شکنوں سے
تصفیۂ دل تجھے گر چاہئے
ظاہر زبان گرچہ تراپنے دہن میں ہے
وہ لالہ رو جو آج کی شب انجمن میں ہے
ہم اپنے اشکوں کو چاہتے گر تو ہر ہنر سے گہر بناتے
خونیں نگہوں سے کوئی کیوں کر بسر آوے
شب تو کھرا ہوا تو ہوئی انجمن کھڑی
اگر وہ روے روشن شمع ہر کا شانہ بن جاوے
دل جس سے لگے اس سے جدائی نہیں ہوتی
کس کو خبر ہے کیا شدنی کل کے روز ہے
جو باد صبا کوچۂ دلدار سے نکلے
گرتی میری آنکھوں سے جو آنسو کی لڑی ہے
نازو ادا جو اس بت ابروکمان میں ہے
جب وزد حنا یار کی ہر پور پر آئے
کہوں درد دل کیا میں بیدرد دل سے
کیا فکر ہے گر آج کا دل کل سے بتر ہے
بوریا جب تک ہے گہر میں بوریا کی سیر میں ہے
آنکھ بہتر شے ہے پر اسمیں اثر یہ بھی تو ہے
غزلیات فارسی
دو جاہل گر بہم جنگند صد شرمے شود پیدا
جاناز چہرہ باز برافگن نقاب را
باز پیشیم آورید آن بت جامہ زیب را
اے کنہ ذات قسمت بروں ازگماں ما
ساقیا بر خیز درد ہ جام را
بحمداللہ چوہ دولت دارم امشب
ردیف بائے موحدہ
ردیف تاے فوقانی
اے یار گر اے بتو ایں کا نہ کونیست
حال دلم از چہرہ عیاں ست بیان چیت
اے یار آرزوے تو پختہ عمارت ست
گر موافق نیست یار ازیار یاری مشکل ست
ہر کراسوداے زلف یار دل خوں میکند
ردیف دال مہملہ
گر زاغ را بر آن شہ خوباں فدا کنند
ابروے خمدار تو جاناں ہلال دیگر ست
سواری نوشہ چواز کو برآمدہ
تامیان دہنت لخت زباں میگرد
ردیف ضاد معجمہ
ہست چوں آئینہ بہر حق نمائی روئے فیض
بنو شہ ایں شب نیکو مبارک
ردیف کاف عربی
خوش نغمہ بندگان شکم راصدائے دیگ
ردیف کاف فارسی
ردیف النون
چہ آسایش بودبی یار سیر بوستاں کردن
برو بخلق پیامیز دہر کجا بنشیں
کلام متفرقات
خمسہ برغزل عشرتی
خمسہ
خمسہ برغزل محمود غزنوی
تاریخ تیاری مکان المعروف بہ فلک نما برکوہ ٹانکی ۔۔۔۔۔۔
تاریخات
تاریخ تیاری بنگلہ حضور پرنور دام اقبالہ والی دکن
تاریخ وفا راے بچو لعل تمکین علاقہ مہاراجہ بہادر
سرورق
تن میں جب تک میرے دم ہے یا محمدمصطفیٰ
مقدور نہیں خلق کو خالق کی ثنا کا
ہے سخن قید میں جب تک نہ زباں سے نکلا
زمانہ عالم ہستی ہے یا کہ خواب ہے کیا
پردہ جو اسنے رخ سے اٹھایا نقاب کا
مت کر بدی کہ خوف ہے رب کے عتاب کا
بیاں میں کیا کروں صاحب تمہاری مہربانی کا
محفل میں یک بیک جو وہ شب کو مچل گیا
کیا دبدبہ بتاتے ہو تم ہم کو شال کا
پھر شوق ہوا یا ر کو ہے تیرو کمان کا
دوست رویہ نفس دشمن مجھ سے جب ہم خانہ تھا
مثل یہ کہتے ہیں غم میں کہ آسماں ٹوٹا
پھر مجھے جوش جوانی آگیا
غم زمانہ یہ آغشتۂ ملال کیا
اگر وہ پاد شہ حسن مہرباں ہوتا
قتل خنداں ہو یہ انساں کا مقدور نہ تھا
شعر ہے سحر سنا جس نے وہ دیوانہ بنا
جہاں میں جس کے تئیں قید آب ودانہ ہوا
کروں گر ذکر میں باغ وبہار اور لالہ و گل کا
ہر چند نخل عمر کو ہے پھول وپھل لگا
زندہ گردم سے تیرے قالب پجاں ہوگا
جو ہوگیا عزیز خدا کے حضور کا
مشتاق ہوں میں انکی شب وروز دید کا
دل میرا داغ محبت سے جو گلعذار بنا
عید ہے ہم کو تمہارا روے روش دیکھنا
ڈھونڈتے جس کو پھرے ہم وہ ہمارے گھر میں تھا
خدائے پاک ہے مختار کل اپنی خدائی کا
چہرے پہ تیرے یار جو کاجل کا تل بنا
ہو ا ہے تاب غم سے سو کہہ کہ جس کا کہ تن ہلکا
یاد حق سے جس کا یکدم رایگاں ہو جائیگا
ہریک بشر کو میں یہاں بندۂ شکم دیکھا
ردیف باے موحدہ
ابروے یار ہے خم محراب کا جواب
ردیف تاے فوقانی
یا الٰہی کہیں ہو جاے یہ دن شام شتاب
شراب کرتی ہے دنیا کے سارے کام خراب
نہیں ہے عجب مجھے یہ نہیں عجب کی بات
اعمال جس کے نیک ہیں انجام ہے درست
غیر کوشش کے ہو نہ کام درست
خوش مجھ کو ان دنوں نہیں آتی کسی کی بات
ردیف ثاے مثلثہ
نہیں ہے خالق اکبر کا کوئی کام عبث
مالداروں کی بزرگی ہے ورم کے باعث
ردیف جیم عربی
نازک ہے ان دنوں میں بہت آپ کا مزاج
یکدل دوسودے امر ہے مشکل جہاں کے بیچ
ردیف جیم فارسی
جہاں میں گرچہ نہیں صاحب ہنر محتاج
ہر گز کسی سے دلا قیل وقال تلخ
ردیف خاے معجمہ
دو کینہ ور میں اگر ہو ہزار بار صلاح
ردیف حاے مہملہ
دل نہیں گیا ہے دام میں گیسو کے بیطرح
ردیف دال مہملہ
اے محتشم عمارت دنیا نہ کر بلند
نہیں ہے زیر سماجب ہمیں امان جاوید
ہے جہاں میں ہریک کو جاہ پسند
کسی کے حال پہ کرتا ہے کب نظر بیدرد
بات اچھی ہے وہی جس کو کریں چار پسند
جہاں میں آج ہے تحقیق گرچہ گھر گھر عید
ردیف راے معجمہ
ردیف ذال معجمہ
جب سے دیکھا ہوں میں اسکے سبز دامن کی بہار
آگے تمہارے لب کے نہیں ہے شکر لذیذ
سبکروحوں کا ہے مسکن ہوا پر
کوئی ہے یہاں جمال پر مغرور
لہو لعب میں عمر کو مت پائمال کر
ہر چند ہم تو کرتے ہیں تدبیر دیکھ کر
ردیف زاے معجمہ
حسن وہ جنس ہے جس کے ہیں خریدار ہزار
گیسوئے دلستاں کا ہے باقی اثر ہنوز
مجھ کو نفرت ہے نہ کمبل سے نہ کچھ شال عزیز
زر کے سب دوست ہیں اور سب کو زردار عزیز
کہاں سے لائی یہ ہستی ہمیں کہاں افسوس
ردیف سین مہملہ
عذاب گور ہے انساں کو جہاں کی ہوس
دانا کو ہر یک امر میں ہے ایک سخن بس
ردیف شین معجمہ
دل اگر خوش ہے تو باغستاں ہے خوش
دینا میں ہر کسی کو ہے آرام کی تلاش
ردیف صادمہملہ
ردیف ضاد معجمہ
نہ آئے کام پہ کچھ بہر آب ونان اخلاص
قرض ہے قرض محبت کی جہاں میں مقراض
کیا کروں میں خاک مخلوق جہا ں سے اختلاط
ردیف طاے مہملہ
سرد وگرم دیر سے ہے مجھ کو اکثر احتیاط
ردیف عین مہملہ
جلتی ہ جو بالیں پہ میری تابسحر شمع
ردیف ظاے معجمہ
اے یار نہ ہو در ہم ودینا سے محظوظ
ہم کو نہیں ہے عشق میں کچھ جان کی طمع
ہے وہ جانا سر سے پاتک چار باغ
ردیف غین معجمہ
ہے ہمارا بس توکل پر دماغ
گلشن میں صاحب سے کسی کے ہے سمن داغ
توڑ کر دل کو جو کہتے ہو کہ تقصیر معاف
مصروف یہاں ہر ایک ہے تدبیر کی طرف
ردیف فاے معجمہ
ردیف قاف
احمقوں کو عیب ہے علم وہنر کا اشتیاق
خدا کسی کو دکھادے کبھی نہ شام فراق
ہے اسکے رخ پہ خال سے وہ گال میں نمک
شعر شاعر کا اگر ہووے دگر سے فایق
چرخ پر مہ نہیں ہے یہ قدح شیرہلاک
ردیف کاف عربی
ہم نہ رہیں تو کیا ہے غم تم رہو دیر سال تک
ہو یا نہیں ہے مجھے شال سے ملال
ہے سرکشی جہاں میں سرف ابلہی کی چال
ردیف لام مہملہ
رہتا ہے جو خیال ہمیں روز وشب مدام
ردیف میم مہملہ
صبح گلشن میں یہ پاے بھید کو شبنم سے ہم
بخداے پاک کہ دہر میں مجھے کوئی شے کی ہوس نہیں
سب عضو سے بہتر ہے زبان گرچہ دہن میں
ردیف نون معجمہ
زندہ گو نوشیرواں اور حاتم طائی نہیں
واہ کیا جسم مطہر ہے کہ جس کو ظل نہیں
مست خوش ہو اگر راحت و آرام بھی ہے بیان
کیا لعل ہیں حنا سے تیرے اے نگار پانوں
جس میں عجز وفروتنی ہی نہیں
پردہ رخسار سے زروجور اٹھا دیتے ہیں
میں آہستہ بولوں وہ چلا رہے ہیں
خوبصورت ہیں بہت انکی خماری آنکھیں
دنیا عجب مکان ہے کہ ہے آج کل نہیں
زنہار مجھ کو خواہش باغ ارم نہیں
تمہاری چشم وابرو کیا ستم ہیں
بے جرم قتل کوئی بشر کاروا نہیں
افزایش اگر یار کی ہو نازوادا میں
خدا جانے کہ ہم رہ پر ہیں یا بے راہ چلتے ہین
جب تک فنا کا دغدغہ در پیش ہے ہمیں
قسم خدا کی میرے دل میں جب چاہ نہیں
فراز بام جووہ بن سنور نکلتے ہیں
یہ کیا گریۂ آدم نے اثر پہتر میں
مصرے کی طرح جسکی ہوتی ہے زباں شیریں
اکیلے جانے سے ہمرہ ہے بدرقہ احسن
نامۂ فرقت لکھوں کیوں کر بت طناز کو
ردیف واو مہملہ
کیا بلا یار کا ہر ناز وادا ہے جادو
چہرے پہ اپنے یار جو ہٹلایا خال کو
طبل تھی ہے جس میں بھرا سر ہو نہ ہو
قد کو گر اسکے کہوں سرد کہ شمشاد ہے یہ
واں ہوگی زاہد خود بیں تیرے دل کی گرہ
ردیف ہاے ہوز
ہے لرائی میں ظفر بازی شمشیر کے ساتھ
کیا عجب گرتن سے دم جاوے نکل ٹھوکر کے ساتھ
جو آگے اپنے باندھتے تھے جوں غلام ہاتھ
اے لب شکر ذرا تو کر وہم سے بات کچھ
شب جدائی ہے ایسی بہاری الٰہی توبہ الٰہی توبہ
ردیف یاے تحتانی
بد زبانی پر مجھے طاقت نہیں ہے تاب کی
فراق یار گل رخ میں ہمیں دیدار گل گل ہے
کسی کو میں نہ دیکھا سچ بات کرتے
ہوا ہےپھر چمن سر سبز ابر نوبہاری سے
زندگی بے یار مجھ کو سخت دشواری ہوئی
کیا کروں لذت بیاں میں اس لب قناد کی
تمہارے حسن کی گرمی دل آہن گلاتی ہے
کچھ کام کی نہیں ہے محبت جہاں کی
خوشی کیا ہے بہار آنیکے پیچھے ہی خزاں پہنچی
خاتم کی صف کوئی بشر میں نہیں آتی
دنیا کی ہر بہار کے پیچھے خزاں بھی ہے
گر خوے زشت ہووے کسی ہمنشین کی
اپنے سے موافق جو نہیں جاے کدھر بھی
اگر فلک کی میرے سر پہ آسیا پھر جاے
سپیدی موے مینہ میں جہاں نکل آئی
اسکے کیونکر کوئی زلفو دوتا کے سامنے
جب تک شبیہ یار میرے روبرو رہے
مشتاق جو جہاں میں ہیں دوشالہ شاں کے
ہم کام نہیں رکھتے ہیں پیمان شکنوں سے
تصفیۂ دل تجھے گر چاہئے
ظاہر زبان گرچہ تراپنے دہن میں ہے
وہ لالہ رو جو آج کی شب انجمن میں ہے
ہم اپنے اشکوں کو چاہتے گر تو ہر ہنر سے گہر بناتے
خونیں نگہوں سے کوئی کیوں کر بسر آوے
شب تو کھرا ہوا تو ہوئی انجمن کھڑی
اگر وہ روے روشن شمع ہر کا شانہ بن جاوے
دل جس سے لگے اس سے جدائی نہیں ہوتی
کس کو خبر ہے کیا شدنی کل کے روز ہے
جو باد صبا کوچۂ دلدار سے نکلے
گرتی میری آنکھوں سے جو آنسو کی لڑی ہے
نازو ادا جو اس بت ابروکمان میں ہے
جب وزد حنا یار کی ہر پور پر آئے
کہوں درد دل کیا میں بیدرد دل سے
کیا فکر ہے گر آج کا دل کل سے بتر ہے
بوریا جب تک ہے گہر میں بوریا کی سیر میں ہے
آنکھ بہتر شے ہے پر اسمیں اثر یہ بھی تو ہے
غزلیات فارسی
دو جاہل گر بہم جنگند صد شرمے شود پیدا
جاناز چہرہ باز برافگن نقاب را
باز پیشیم آورید آن بت جامہ زیب را
اے کنہ ذات قسمت بروں ازگماں ما
ساقیا بر خیز درد ہ جام را
بحمداللہ چوہ دولت دارم امشب
ردیف بائے موحدہ
ردیف تاے فوقانی
اے یار گر اے بتو ایں کا نہ کونیست
حال دلم از چہرہ عیاں ست بیان چیت
اے یار آرزوے تو پختہ عمارت ست
گر موافق نیست یار ازیار یاری مشکل ست
ہر کراسوداے زلف یار دل خوں میکند
ردیف دال مہملہ
گر زاغ را بر آن شہ خوباں فدا کنند
ابروے خمدار تو جاناں ہلال دیگر ست
سواری نوشہ چواز کو برآمدہ
تامیان دہنت لخت زباں میگرد
ردیف ضاد معجمہ
ہست چوں آئینہ بہر حق نمائی روئے فیض
بنو شہ ایں شب نیکو مبارک
ردیف کاف عربی
خوش نغمہ بندگان شکم راصدائے دیگ
ردیف کاف فارسی
ردیف النون
چہ آسایش بودبی یار سیر بوستاں کردن
برو بخلق پیامیز دہر کجا بنشیں
کلام متفرقات
خمسہ برغزل عشرتی
خمسہ
خمسہ برغزل محمود غزنوی
تاریخ تیاری مکان المعروف بہ فلک نما برکوہ ٹانکی ۔۔۔۔۔۔
تاریخات
تاریخ تیاری بنگلہ حضور پرنور دام اقبالہ والی دکن
تاریخ وفا راے بچو لعل تمکین علاقہ مہاراجہ بہادر
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔