اصنام جہاں بتکدۂ اردو میں
اردو کے بیاں میں گارہا ہوں نغمات
ہے پیکر خاک خاکداں کا رہبر
الٹو کبھی تاریخ معیشت کے ورق
صدیوں سے تو ہم کی فضا طاری ہے
شاید ہو تجھے علم رسول عربی!
نفرت کی گھٹا جھوم رہی ہے ہر سو
کب اہل نظر جنس ہنر بیچتے ہیں
لو شمع تمنا کی ذرا اور بڑھاؤ
ادراک کو وحشت سے ملا دیتا ہوں
اک کلی
زندگی کی سحر
ارض دکن
خیال
کاش
یادیں!
امید
آخر شب
نذر
وہ آئیں گھر پہ
ایک راز
خموشی
دل چالاک
بے رخی
سلام کہنا
وہ لمحہ
تجدید
طوفان کے بعد
دامن بہار
آمد بہار
کون؟
فصل گل
ساز بہار
ابھی نہیں
کانٹوں کی سیج
محبت سے پہلے
آفتاب حیات
محبت کے بعد
موت اور زندگی
پرانے خدا
خود داری کے تابوت
تفریق مذاہب
محبت کا نشاں
خسرو
سنگ پارے
غالب واقبال
کچھ تڑپ کر رہ گئے کچھ تلملا کر رہ گئے
ٹھکرارہا ہوں ہستیٔ نائیدار کو
فضا خاموش ہے یاد آر ہے ہیں
مسکراتا ہوا پھر کوئی لب بام آیا
مری صبح درد کی دلکشی مری شام غم کی ملاحتیں
بڑی آرزو ہے کوئی مری انجمن میں آئے
یہ فضا جنون پرور یہ اداس تنہائی
کوئی زخم دل شعلہ افشاں نہیں ہے
دعائیں دل سے نکلی ہیں زمانہ کی جفاؤں پر
لٹ جائے گی یہ دل کی بستی یہ راز ہمیں معلوم نہ تھا
پھول اب کہاں لیکن زخم مسکرائے ہیں
تری نظر کے اشارے بھی کام آنہ سکے
یہ عشویے یہ غمزے اداؤں کے پھول
تو جمال فکر انساں میں جلال آدمیت
مجھے فخر معصیت ہے تجھے زعم پارسائی
سخن کا ماہتاب ابھرا غزل کا آفتاب آیا
عجیب ضد ہے بیاباں کو گلستاں کہیئے
بیان غم کے لئے ، شرح آرزو کے لئے
چاند سے کہدو کہ یہ رات نہ ڈھلنے پائے
ہاں ان کو دیکھتے ہیں مگر بے رخی سے ہم
ہمارا پیر ہن تار تار باقی ہے!
نہ بہار آرزو کی نہ امید کے نظارے
چھلکا رہا ہوں لذت تشنہ لبی کے جام
وہ آرہے ہیں، اگر دل کو یہ گماں ہوتا
پھر زندگی کی زلف پریشاں ہے آج کل
درد کی نشتر زنی ہے اور میں
ایسی چلی ہوائے غم گلشن دل جلا دیا
کعبۂ و دیر تو کجا، خود سے بھی بے خبر ہوں میں
یہ مہر لب کہیں ٹوٹے تو دل کی بات کہوں
نظر اٹھاؤ بہاروں کی گفتگو چھیڑو
زندگی دور جام ہے ساقی
ان کی نظروں کے تیور بدلتے رہے اہل دل ہر قدم پر سنبھلتے رہے
آدمیت ہے محبت میں فنا ہو جانا
نہ ذکر بادہ کروں اور نہ فکر جام کروں
بند میخانے کا در ہے شام سے
اے زندگی میں تیرا پرستار بھی نہیں
یہ زندگی کا ہے چمن عجب یہاں کا ہے چلن
دل رہ گیا ہمارااک بار مسکرا کر
وقت کے ساقی نے چھلکا یا خوشیوں کا پیمانہ
ناچ رہی ہے زمین جھوم رہا آسماں
ہنس رہا ہے چاند گارہی ہے رات
محبت کا ادھورا گیت گالوں پھر چلے جانا
ٹوٹے ہوئے دل کا سنے اب کون فسانہ
ٹوٹے ہوئے دل آتجھے آنکھوں سے لگالوں
دل کا سکون لٹ گیا روح بھی بیقرار ہے
آجاؤ سن تو لو مرے دل کی پکار تم!
میں تو مہمان ہوں ستاروں کا
اگر تم نہ آئے اگر تم نہ آئے
جانے تم کون ہو کس دیس کے باسی ہو تم
بہاریں آگئیں لیکن نہ دل جھوما نہ تم آئے
کلی کلی چٹک گئی چمن چمن مہک اٹھا
یہ چاندنی یہ فضا، یہ سماں ستاروں کا
میں بہت دور ہوں لیکن میر آواز سنو
جو دل میں سمائے ہیں وہ سامنے آجائیں
ہجوم شوق میں آنسو بہا کے لوٹ آیا
دل میں شعلے نہاں لب پہ نغمے جواں
کتنی اداس آج محبت کی شام ہے
مرے وطن کے عزیز لوگو جہان میں انتخاب ہو تم
نئے نقشے
نغمۂ جمہور
نغمۂ اتحاد
نیا ترانہ
نذر ٹیگور
نغمۂ دہلی
کشمیر
ہر یانہ
مرا وطن
نوجوانان وطن
پیش قدمی
رزمیہ غزل
زندہ باد نو جوان
شان وطن
گگارن کی آمد پر
زخم کا پھول
اے وطن! اے وطن! ہم ترے پاسباں
نیا سفر
نہروؔ
جواہرؔ جیوتی
روح صداقت
صبا شاعر گل کا پیغام لے جا
ایک ہے روح وطن ایک ہے ساز وطن
اشعار کے پیکر
چاندنی
لغزش
سرگوشیاں
فرار
پس مرگ
نفرت
خانہ آبادی
عشرت فردا
رخصت
محرومی
لہریں
چاندنی رات
ہنگام وصال
مسافر شب
نمائش علی گڑھ
کہاں تک
ترا خیال
شہزادیٔ بہار
بعد رخصت
ناگفتنی
لمحۂ یک نظر
لمحۂ آرزو
یاد
گل آرزو
ترے جسم کے پھولوں کی مہک
اصنام جہاں بتکدۂ اردو میں
اردو کے بیاں میں گارہا ہوں نغمات
ہے پیکر خاک خاکداں کا رہبر
الٹو کبھی تاریخ معیشت کے ورق
صدیوں سے تو ہم کی فضا طاری ہے
شاید ہو تجھے علم رسول عربی!
نفرت کی گھٹا جھوم رہی ہے ہر سو
کب اہل نظر جنس ہنر بیچتے ہیں
لو شمع تمنا کی ذرا اور بڑھاؤ
ادراک کو وحشت سے ملا دیتا ہوں
اک کلی
زندگی کی سحر
ارض دکن
خیال
کاش
یادیں!
امید
آخر شب
نذر
وہ آئیں گھر پہ
ایک راز
خموشی
دل چالاک
بے رخی
سلام کہنا
وہ لمحہ
تجدید
طوفان کے بعد
دامن بہار
آمد بہار
کون؟
فصل گل
ساز بہار
ابھی نہیں
کانٹوں کی سیج
محبت سے پہلے
آفتاب حیات
محبت کے بعد
موت اور زندگی
پرانے خدا
خود داری کے تابوت
تفریق مذاہب
محبت کا نشاں
خسرو
سنگ پارے
غالب واقبال
کچھ تڑپ کر رہ گئے کچھ تلملا کر رہ گئے
ٹھکرارہا ہوں ہستیٔ نائیدار کو
فضا خاموش ہے یاد آر ہے ہیں
مسکراتا ہوا پھر کوئی لب بام آیا
مری صبح درد کی دلکشی مری شام غم کی ملاحتیں
بڑی آرزو ہے کوئی مری انجمن میں آئے
یہ فضا جنون پرور یہ اداس تنہائی
کوئی زخم دل شعلہ افشاں نہیں ہے
دعائیں دل سے نکلی ہیں زمانہ کی جفاؤں پر
لٹ جائے گی یہ دل کی بستی یہ راز ہمیں معلوم نہ تھا
پھول اب کہاں لیکن زخم مسکرائے ہیں
تری نظر کے اشارے بھی کام آنہ سکے
یہ عشویے یہ غمزے اداؤں کے پھول
تو جمال فکر انساں میں جلال آدمیت
مجھے فخر معصیت ہے تجھے زعم پارسائی
سخن کا ماہتاب ابھرا غزل کا آفتاب آیا
عجیب ضد ہے بیاباں کو گلستاں کہیئے
بیان غم کے لئے ، شرح آرزو کے لئے
چاند سے کہدو کہ یہ رات نہ ڈھلنے پائے
ہاں ان کو دیکھتے ہیں مگر بے رخی سے ہم
ہمارا پیر ہن تار تار باقی ہے!
نہ بہار آرزو کی نہ امید کے نظارے
چھلکا رہا ہوں لذت تشنہ لبی کے جام
وہ آرہے ہیں، اگر دل کو یہ گماں ہوتا
پھر زندگی کی زلف پریشاں ہے آج کل
درد کی نشتر زنی ہے اور میں
ایسی چلی ہوائے غم گلشن دل جلا دیا
کعبۂ و دیر تو کجا، خود سے بھی بے خبر ہوں میں
یہ مہر لب کہیں ٹوٹے تو دل کی بات کہوں
نظر اٹھاؤ بہاروں کی گفتگو چھیڑو
زندگی دور جام ہے ساقی
ان کی نظروں کے تیور بدلتے رہے اہل دل ہر قدم پر سنبھلتے رہے
آدمیت ہے محبت میں فنا ہو جانا
نہ ذکر بادہ کروں اور نہ فکر جام کروں
بند میخانے کا در ہے شام سے
اے زندگی میں تیرا پرستار بھی نہیں
یہ زندگی کا ہے چمن عجب یہاں کا ہے چلن
دل رہ گیا ہمارااک بار مسکرا کر
وقت کے ساقی نے چھلکا یا خوشیوں کا پیمانہ
ناچ رہی ہے زمین جھوم رہا آسماں
ہنس رہا ہے چاند گارہی ہے رات
محبت کا ادھورا گیت گالوں پھر چلے جانا
ٹوٹے ہوئے دل کا سنے اب کون فسانہ
ٹوٹے ہوئے دل آتجھے آنکھوں سے لگالوں
دل کا سکون لٹ گیا روح بھی بیقرار ہے
آجاؤ سن تو لو مرے دل کی پکار تم!
میں تو مہمان ہوں ستاروں کا
اگر تم نہ آئے اگر تم نہ آئے
جانے تم کون ہو کس دیس کے باسی ہو تم
بہاریں آگئیں لیکن نہ دل جھوما نہ تم آئے
کلی کلی چٹک گئی چمن چمن مہک اٹھا
یہ چاندنی یہ فضا، یہ سماں ستاروں کا
میں بہت دور ہوں لیکن میر آواز سنو
جو دل میں سمائے ہیں وہ سامنے آجائیں
ہجوم شوق میں آنسو بہا کے لوٹ آیا
دل میں شعلے نہاں لب پہ نغمے جواں
کتنی اداس آج محبت کی شام ہے
مرے وطن کے عزیز لوگو جہان میں انتخاب ہو تم
نئے نقشے
نغمۂ جمہور
نغمۂ اتحاد
نیا ترانہ
نذر ٹیگور
نغمۂ دہلی
کشمیر
ہر یانہ
مرا وطن
نوجوانان وطن
پیش قدمی
رزمیہ غزل
زندہ باد نو جوان
شان وطن
گگارن کی آمد پر
زخم کا پھول
اے وطن! اے وطن! ہم ترے پاسباں
نیا سفر
نہروؔ
جواہرؔ جیوتی
روح صداقت
صبا شاعر گل کا پیغام لے جا
ایک ہے روح وطن ایک ہے ساز وطن
اشعار کے پیکر
چاندنی
لغزش
سرگوشیاں
فرار
پس مرگ
نفرت
خانہ آبادی
عشرت فردا
رخصت
محرومی
لہریں
چاندنی رات
ہنگام وصال
مسافر شب
نمائش علی گڑھ
کہاں تک
ترا خیال
شہزادیٔ بہار
بعد رخصت
ناگفتنی
لمحۂ یک نظر
لمحۂ آرزو
یاد
گل آرزو
ترے جسم کے پھولوں کی مہک
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।