aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کارواں گزر گیا

گوپال داس نیرج

کارواں گزر گیا

گوپال داس نیرج

MORE BYگوپال داس نیرج

    سوپن جھڑے پھول سے

    میت چبھے شول سے

    لٹ گئے سنگار سبھی باغ کے ببول سے

    اور ہم کھڑے کھڑے بہار دیکھتے رہے

    کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے

    نیند بھی کھلی نہ تھی کہ ہائے دھوپ ڈھل گئی

    پاؤں جب تلک اٹھے کہ زندگی پھسل گئی

    پات پات جھڑ گئے کہ شاخ شاخ جل گئی

    چاہ تو نکل سکی، نہ پر عمر نکل گئی

    گیت اشک بن گئے

    چھند ہو دفن گئے

    ساتھ کے سبھی دیے دھواں دھواں پہن گئے

    اور ہم جھکے جھکے

    موڑ پر رکے رکے

    عمر کے چڑھاؤ کا اتار دیکھتے رہے

    کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے

    کیا شباب تھا کہ پھول پھول پیار کر اٹھا

    کیا سروپ تھا کہ دیکھ آئنہ سحر اٹھا

    اس طرف زمین اٹھی تو آسمان ادھر اٹھا

    تھام کر جگر اٹھا کہ جو ملا نظر اٹھا

    ایک دن مگر یہاں

    ایسی کچھ ہوا چلی

    لٹ گئی کلی کلی کہ گھٹ گئی گلی گلی

    اور ہم لٹے لٹے

    وقت سے پٹے پٹے

    سانس کی شراب کا خمار دیکھتے رہے

    کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے

    ہاتھ تھے ملے کہ زلف چاند کی سنوار دوں

    ہونٹھ تھے کھلے کہ ہر بہار کو پکار دوں

    درد تھا دیا گیا کہ ہر دکھی کو پیار دوں

    اور سانس یوں کہ سورگ بھومی پر اتار دوں

    ہو سکا نہ کچھ مگر

    شام بن گئی سحر

    وہ اٹھی لہر کہ دہ گئے قلعے بکھر بکھر

    اور ہم ڈرے ڈرے

    نیر نین میں بھرے

    اوڑھ کر کفن پڑے مزار دیکھتے رہے

    کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے

    مانگ بھر چلی کہ ایک جب نئی نئی کرن

    ڈھولکیں دھمک اٹھیں ٹھمک اٹھے چرن چرن

    شور مچ گیا کہ لو چلی دلہن چلی دلہن

    گاؤں سب امڈ پڑا بہک اٹھے نین نین

    پر تبھی زہر بھری

    گاج ایک وہ گری

    پونچھ گیا سندور تار تار ہوئی چنری

    اور ہم انجان سے

    دور کے مکان سے

    پالکی لیے ہوئے کہار دیکھتے رہے

    کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے