آندھیوں کے ساتھ کیا منظر سہانے آئے ہیں
آندھیوں کے ساتھ کیا منظر سہانے آئے ہیں
آج میدانوں میں باغوں کے خزانے آئے ہیں
اب مرے تلووں کے نیچے کی زمیں آزاد ہے
آسمانوں سے مجھے بادل بلانے آئے ہیں
ریت سے دریا اٹے ہیں خاک سے جھیلیں پٹیں
یہ پرندے خون میں شاید نہانے آئے ہیں
خواب جس دل میں رہا کرتے تھے کب کا مر چکا
کس کا دروازہ یہ بچے کھٹکھٹانے آئے ہیں
ان میں روشن ہیں ابھی تک تیرے بوسوں کے چراغ
اس لئے ہم اپنی آنکھیں خود بچھانے آئے ہیں
گرتی دیواروں سے لگ کر دیمکوں کے قافلے
کچھ صحیفے اپنی آنکھوں سے لگانے آئے ہیں
آج ہم سب ایک بہتر زندگی کی دوڑ میں
کیسے کیسے خواب قبروں میں سلانے آئے ہیں
بارہا اس گھر کا بٹوارا ہوا ٔہے اور سدا
اپنے حصے میں فقط دکھ کے خزانے آئے ہیں
چار دشمن آ ملے ہیں رات کی چھت کے تلے
مدتوں کے بعد پھر اگلے زمانے آئے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.