اسیر عشق مرض ہیں تو کیا دوا کرتے
جو انتہا کو پہنچتے تو ابتدا کرتے
اگر زمانے میں اپنے کبھی وفا کرتے
دہان زخم تڑپنے پہ کیوں ہنسا کرتے
مریض لذت فریاد کہہ نہیں سکتے
جو نالے کام نہ آتے تو چپ رہا کرتے
ہم ان سے مل کے بھی فرقت کا حال کہہ نہ سکے
مزہ وصال کا کھوتے اگر گلہ کرتے
مذاق درد سے نا واقفی نہیں اچھی
کبھی کبھی تو مری داستاں سنا کرتے
شب فراق گوارا نہ تھی مگر دیکھی
اب اور خاطر مہماں زیادہ کیا کرتے
در قفس نہ کھلا قدر صبر کر صیاد
تڑپتے ہم تو پہاڑوں میں راستا کرتے
اسے جلا کے اسے آگ دی برا نہ کیا
جگر جو رکھتے تھے آخر وہ دل کو کیا کرتے
زبان والوں سے سن سن کے ہے یقیں ثاقبؔ
کہ بولتے تو صنم بھی خدا خدا کرتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.