بے قراری جو ادھر ہے وہ ادھر ہے کہ نہیں
بے قراری جو ادھر ہے وہ ادھر ہے کہ نہیں
یہ نظر جیسے ہے بے کل وہ نظر ہے کہ نہیں
دل کی حالت کا بگڑنا تو ہے معمول مگر
وہ جو ہیں اس کا سبب ان کو خبر ہے کہ نہیں
گو نگاہوں سے نگاہیں تو ملی ہیں اکثر
ربط اس دل کو کچھ اس دل سے مگر ہے کہ نہیں
یہ شب ہجر مری جاں ہی نہ لے جائے کہیں
نہ سہی وصل مقدر میں سحر ہے کہ نہیں
کیوں مری روح کو ہر پل یہ گماں رہتا ہے
جس مکاں میں ہے مکیں اس کا ہی گھر ہے کہ نہیں
دوست چھوڑ آئیں گے بے شک مجھے شمشان تلک
اس کے آگے نہیں معلوم سفر ہے کہ نہیں
عارفو کیا ہے مجاز اور حقیقت کیا ہے
وہ جو آتا ہے نگاہوں کو نظر ہے کہ نہیں
پڑھ کے دیوان صداؔ بولو ذرا نقادو
شعر کہنے کا کچھ اس میں بھی ہنر ہے کہ نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.