بے تابئ دل نے زار پا کر
دے دے پٹکا اٹھا اٹھا کر
گھر میں دعویٰ نہ حسن کا کر
یوسف سے نکل کے سامنا کر
زلفوں کو نہ چھوڑ تو بڑھا کر
نازک ہے گرے گا جھونک کھا کر
بیٹھے جو وہ شب نقاب اٹھا کر
بجھنے لگی شمع جھلملا کر
برباد نہ کر تو آبرو کو
مانند حباب سر اٹھا کر
اس گل کی مژہ نے مار ڈالا
کانٹے کی طرح سکھا سکھا کر
بے تابئ دل اگر دکھاؤں
بجلی رہ جائے تلملا کر
سفاک نے بند بند کاٹا
چوٹیں ماریں جھکا جھکا کر
اللہ رے سوزش دل اے یار
مارا کس آگ میں جلا کر
پیرے کوئی خاک بحر غم میں
آخر ڈوبا میں ڈھب ڈھبا کر
پھبتی کہتی ہیں ابر تر کے
اچھی سوجھی مجھے رلا کر
وہ مست ہیں عرش پر ٹکے ہاتھ
نشہ میں گرے جو لڑکھڑا کر
گرد غم نے زمیں جھکائی
چھوڑا مجھے خاک میں ملا کر
بوسے کے سوال پر وہ بگڑے
منہ کی کھائی زباں ہلا کر
نالہ کوئی بن پڑا جو ہم سے
افلاک کو رکھ دیا مٹا کر
خوف دوزخ سے کانپتا ہوں
ساقی مجھے جام دے تپا کر
وہ نزع میں حال سن کے روئے
کام آئی زباں لڑکھڑا کر
قصہ دل سے اٹھا دوئی کا
پرچھا ہو جائے فیصلہ کر
جب کوچ کیا صباؔ عدم کو
رہ جائیں گے یار خاک اڑا کر
مأخذ:
Ghuncha-e-Arzu (Pg. 63)
-
مصنف:
وزیر علی صبا لکھنؤی
-
- اشاعت: 1856
- ناشر: مطبع محمدی، لکھنو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.