چہرے کو وہ جو اپنے اخبار کر رہا ہے
چہرے کو وہ جو اپنے اخبار کر رہا ہے
اظہار اپنے غم کا بے کار کر رہا ہے
ہر مرحلہ وہ گویا دشوار کر رہا ہے
جو واپسی پہ ہم کو تیار کر رہا ہے
بچوں کی خواہشیں ہیں اور میرا تنگ دامن
سامان میرے دکھ کا تہوار کر رہا ہے
منزل کی جب تمنا دم توڑنے لگی ہے
تب میرا راستہ وہ ہموار کر رہا ہے
جیون ہمارا یارو اک ناؤ کاغذی ہے
لیکن سمندروں کو یہ پار کر رہا ہے
پھر قربتوں کی خواہش پلٹے گی چوٹ کھا کر
اپنی انا کو پھر وہ دیوار کر رہا ہے
ہم غم سے پا کے فرصت مرقد میں چین سے اب
ہر دن عبیدؔ اپنا اتوار کر رہا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.