فکر انجام نہ آغاز کا کچھ ہوش رہا
دلچسپ معلومات
1904
فکر انجام نہ آغاز کا کچھ ہوش رہا
چار دن تک تو جوانی کا عجب جوش رہا
میں قفس میں بھی کسی روز نہ خاموش رہا
کشمکش میں بھی طبیعت کا وہی جوش رہا
نشۂ الفت ساقی کا عجب جوش رہا
ہول صحرائے قیامت بھی فراموش رہا
غیر ہوں جرعہ کش بزم تمنا افسوس
خون کے گھونٹ میں پیتا رہا خاموش رہا
ہیچ آفت نرسد گوشۂ تنہائی را
دشت غربت میں میں یہ سونچ کے روپوش رہا
موسم گل کی ہوا داروئے بے ہوشی تھی
سر اٹھانے کا بھی سبزے کو نہ کچھ ہوش رہا
نکہت گل کی طرح جامے سے باہر ہوں گا
فصل گل کا جو گلستاں میں یہی جوش رہا
بحر رحمت میں بہت ہوگا تلاطم برپا
تجھ کو اے اشک ندامت جو یہی جوش رہا
اپنے سر سے بھی کسی روز گزر جائے گا
آب شمشیر کو قاتل جو یہی جوش رہا
سایۂ دامن قاتل میں جو نیند آئی مجھے
پھر تو کروٹ بھی بدلنے کا نہ کچھ ہوش رہا
دھوم سنتا رہا اب آتے ہیں اب آتے ہیں
حشر تک میں یوں ہی کھولے ہوئے آغوش رہا
دور کھنچتی ہی گئی منزل مقصود مگر
رہرو عشق کی ہمت کا وہی جوش رہا
رحمت حق رہی ہم عاصیوں پر سایہ فگن
سر پہ چھایا ہوا اک ابر خطا پوش رہا
اٹھتے اٹھتے تھی وہی بزم کی مستانہ روش
چلتے چلتے بھی خم مے کو وہی جوش رہا
پھر گئیں آنکھیں مری کوچۂ جاناں کی طرف
شکر ہے مرتے دم اتنا تو مجھے ہوش رہا
مأخذ:
Kulliyat-e-Yagana (Pg. 115)
- مصنف: Meerza Yagana Changezi Lukhnawi
-
- اشاعت: 2005
- ناشر: Farib Book Depot (P) Ltd.
- سن اشاعت: 2005
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.