غم آفاق ہے رسوا غم دلبر بن کے
غم آفاق ہے رسوا غم دلبر بن کے
تہمت عشق لگی ہم پہ سخن ور بن کے
وہ نہیں موت سہی موت نہیں نیند سہی
کوئی آ جائے شب غم کا مقدر بن کے
راہبر تم کو بنایا ہمیں معلوم نہ تھا
راہرو راہ بھٹک جاتے ہیں رہبر بن کے
اس زیاں خانے میں اک قطرے پہ کیا کیا گزری
کبھی آنسو کبھی شبنم کبھی گوہر بن کے
موت کی نیند کے ماتوں پہ نہ کیوں رشک آئے
جاگنا ہے انہیں ہنگامۂ محشر بن کے
یاد پھر آ گئیں بھولی ہوئی باتیں کیا کیا
پھر ملاقات ہوئی ایسے مقدر بن کے
آہ یہ عقدۂ غم بزم طرب میں بھی حفیظؔ
بارہا آنکھ چھلک جاتی ہے ساغر بن کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.