ہم نے اپنا آپ اٹھائے کتنے جنگل کاٹ دیے
ہم نے اپنا آپ اٹھائے کتنے جنگل کاٹ دیے
ویرانی کے پھل کھائے اور رات گھنی کے گیت سنے
کون مسلسل ڈھول اٹھائے مجھ میں ماتم کرتا ہے
کوئی اداسی رقص کناں ہے وحشت کے گھنگھرو پہنے
سناٹے کے لمس بدن میں سہرن پیدا کرتے ہیں
ذہن میں کھلنے لگتے ہیں پھر بند قبا آوازوں کے
اک سورج غم خوار کسی کا اور کسی کا شیدائی
ہر منظر میں ڈوب گیا پھر ایسا ڈوبا ہوک اٹھے
بستی بستی ایک تماشہ بکھرا ہے چوراہوں پر
جس نے جتنی آہیں پھینکیں اس کو اتنے دام ملے
پھر سے مبہم لفظ اٹھائے پھر ماتم مضمون کیا
آوازوں پر پتھر مارے غیر ضروری بین کئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.