ہر لمحے میں صدیوں کا افسانہ ہوتا ہے
ہر لمحے میں صدیوں کا افسانہ ہوتا ہے
گردش میں جب سانسوں کا پیمانہ ہوتا ہے
ہم کو تو بس آتا ہے سانسوں کا کاروبار
کیا کھونا ہوتا ہے اور کیا پانا ہوتا ہے
دل کی ضد پر اس سے ملنا پڑتا ہے ہر روز
اور پھر ساری دنیا کو سمجھانا ہوتا ہے
آنکھیں بھر آتی ہیں میری ہنس لینے کے بعد
شہر سے آگے اکثر ویرانہ ہوتا ہے
گھر میں خواہش ہوتی ہے صحراؤں کو جائیں
پھر کچھ سوچ کے رستے میں رک جانا ہوتا ہے
روز کوئی پہنا دیتا ہے خوابوں کی پازیب
اور پھر ناچ کے دنیا کو دکھلانا ہوتا ہے
کھو دینا ہوتا ہے خود کو دن ہونے کے ساتھ
شام ڈھلے تک پھر سے خود کو پانا ہوتا ہے
پہلے ثابت ہوتا ہے اس سے ملنے کا جرم
اور پھر مجھ پہ یادوں کا جرمانہ ہوتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.