جانے کیوں ان دنوں مضطرب ہے طبیعت مگر ٹھیک ہے
جانے کیوں ان دنوں مضطرب ہے طبیعت مگر ٹھیک ہے
اک عجب سی گھٹن اور دل میں ہے وحشت مگر ٹھیک ہے
جاں بلب تھا کوئی شدت تشنگی سے بھرے شہر میں
سب تماشائی بن کے تھے واں محو حیرت مگر ٹھیک ہے
آج بھی ذہن پر تیری یادوں کا پہرہ ہے شام و سحر
اس قدر ڈھا رہی ہے ستم تیری فرقت مگر ٹھیک ہے
خود کو کہتے ہو قائد مگر یہ بتاؤ کہ انساں بھی ہو
ظالمو لاش پر کر رہے ہو سیاست مگر ٹھیک ہے
سانس روکے ہوئے دل کو تھامے ہوئے میں تری بزم میں
منتظر ہوں کہ ہو مجھ پہ نظر عنایت مگر ٹھیک ہے
چارہ گر ساری دنیا سے حاصل محبت کا میں کیا کروں
مجھ کو ہے بس ترے حوصلے کی ضرورت مگر ٹھیک ہے
آؤ اب اس جہاں کے بنائے ہوئے سب قوانین کو توڑ کر
کیوں نہ کر دیں حقیقت میں اک دن بغاوت مگر ٹھیک ہے
وہ مسیحا جو باتوں سے بھرتا تھا ہر زخم رخصت ہوا
اب کہاں جائیں کس سے کہیں دل کی حسرت مگر ٹھیک ہے
ظلم و نفرت جہالت عداوت کا ہے بول بالا یہاں
اس خرابے میں کرتے ہو جینے کی چاہت مگر ٹھیک ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.