خواب چاہے خواب ہی ہو دل لگانے دے مجھے
خواب چاہے خواب ہی ہو دل لگانے دے مجھے
اس حقیقت سے کبھی تو جاں چھڑانے دے مجھے
انقلاب آ کے رہے گا حق کی ہوگی جیت ہی
بیٹھ میرے پاس خود کو ورغلانے دے مجھے
بے طرح تنہا ہیں وہ جو عشق کے قائل نہیں
ان کو سینے سے لگا کچھ پل سلانے دے مجھے
آج کل تو خواب بھی آنے لگے ہیں عام سے
آ بچھڑ جا خواب میں پھر غم پرانے دے مجھے
روکنا ہے خود کو ہر کار جنوں سے اب مجھے
یار اب کچھ دوست ناصح کچھ سیانے دے مجھے
گھر میں رہ کر بھی تری صحرا نوردی کم نہیں
اپنی سی دیوانگی اب اے دوانے دے مجھے
عشق یک رنگی ہوا اور غم بھی کچھ تازہ نہیں
شاعری کے واسطے اچھے بہانے دے مجھے
یہ چمن صحرا ہوا ہے پنچھی بھی خاموش ہیں
پیار برسا کر یہاں بونے ترانے دے مجھے
دادی نانی کی کہانی میں سبھی جب ٹھیک تھا
بدلا کیوں میرا جہاں گزرے زمانے دے مجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.