Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کچھ طبیعت آج کل پاتا ہوں گھبرائی ہوئی

پروین ام مشتاق

کچھ طبیعت آج کل پاتا ہوں گھبرائی ہوئی

پروین ام مشتاق

MORE BYپروین ام مشتاق

    کچھ طبیعت آج کل پاتا ہوں گھبرائی ہوئی

    شہر بھر میں ہے اداسی ہر طرف چھائی ہوئی

    ہائے رے غارت گر صبر و شکیبائی ہوئی

    وہ تری ترچھی نظر وہ آنکھ شرمائی ہوئی

    اے صبا چلتی ہے کیوں اس درجہ اترائی ہوئی

    کیا نہیں ہے تو وہی اس گل کی ٹھکرائی ہوئی

    وصل میں اچھی طرح جب بادہ پیمائی ہوئی

    اڑ گئی کافور بن بن کر حیا آئی ہوئی

    شب کو جب ابرو و مژگاں کی صف آرائی ہوئی

    شوخیوں میں دب گئی شرم و حیا آئی ہوئی

    ہائے میری بے قراری اور ان کا اضطراب

    اور چلتے وقت کی باتیں وہ گھبرائی ہوئی

    قبر تک پہونچا گئے سارے عزیز و اقربا

    آگے آگے پھر رفیق راہ تنہائی ہوئی

    ہاں تمہیں پر جان دیتا ہوں تمہیں پر ہوں نثار

    ہاں تمہیں پر ہے طبیعت ٹوٹ کر آئی ہوئی

    ٹکڑے ٹکڑے ہیں جگر کے شیشۂ دل چور چور

    یہ قیامت ہے تمہاری چال کی ڈھائی ہوئی

    جس میں طاقت ہے نہ حرکت ہے نہ خواہش ہے نہ جاں

    دل نہیں اک لاش ہے سینہ میں دفنائی ہوئی

    بیٹھتے ہی بیٹھتے محفل میں بے خود ہو گیا

    دیکھتے ہی دیکھتے رخصت توانائی ہوئی

    خوب رونے دو کہ یہ روکے سے رک سکتا نہیں

    میرے دل پر ہے ابھی غم کی گھٹا چھائی ہوئی

    آب دیدہ ہو کے وہ آپس میں کہنا الوداع

    اس کی کم میری سوا آواز بھرائی ہوئی

    منتیں کرتا ہوں درگزرو خدارا بخش دو

    اب تو نادانی ہوئی یا مجھ سے دانائی ہوئی

    شکوۂ وعدہ خلافی کا ملا اچھا جواب

    پیشگی رکھی تھی اک امید بر آئی ہوئی

    حور پر میری طبیعت آئے کیا مقدور ہے

    توبہ توبہ یہ بھی تیری طرح ہرجائی ہوئی

    خود ہی سوچو دیکھنے والوں کا اس میں کیا قصور

    جب تماشا تم ہوئے خلقت تماشائی ہوئی

    روتے روتے ٹھہر جاتا ہوں تری سر کی قسم

    یاد آ جاتی ہے جب وہ بات سمجھائی ہوئی

    دے کے دل غصہ میں واپس ان کو پچھتانا پڑا

    کیا رقم جاتی رہی ہے ہاتھ سے آئی ہوئی

    خوش نصیبی اس جگہ کی تو جہاں رکھے قدم

    ریل بھی پھرتی ہے اسٹیشن پر اترائی ہوئی

    جب کہا اس نے کہ مرتا ہوں تو کوسا اس طرح

    تجھ کو آئے یا الٰہی غیر کی آئی ہوئی

    ربط بڑھنے پر کھلا کرتا ہے کچھ اچھا برا

    اس سے کیا ہوتا ہے گر رسمی شناسائی ہوئی

    عشق بازی اور شے ہے فسق ہے کچھ اور چیز

    نیک نامی کو نہ کہہ پرویںؔ کہ رسوائی ہوئی

    مأخذ:

    Deewan-e-parveen (Pg. ebook-181 page-178)

    • مصنف: پروین ام مشتاق
      • ناشر: عزیزی پریس

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے