کیوں نہ ہو شوق ترے در پہ جبیں سائی کا
اس میں جوہر ہے مری آئینہ سیمائی کا
طور کشتہ ہے اسی ناز خود آرائی کا
برق کی لہر ہے نقشہ تری انگڑائی کا
عشق اک تبصرہ ہے حسن کی رعنائی پر
حسن اک فلسفہ ہے عشق کی رسوائی کا
آج اک خاک کا ذرہ بھی نہیں باقی ہے
دل برباد یہ حاصل ہے خود آرائی کا
یاد ایام کہ تھی لب پہ مرے مہر سکوت
اب تو ماتم ہے بپا دل میں شکیبائی کا
موج در موج رواں بادۂ سرجوش شباب
عالم کیف ہے عالم تری انگڑائی کا
حسرت و یاس کا انبوہ مگر میں بیکس
ایسے مجمع میں یہ عالم مری تنہائی کا
تیرگی شام لحد کی ہے بھیانک لیکن
ہے یہ اترا ہوا جامہ شب تنہائی کا
جزر و مد حسن کے دریا میں نظر آتا ہے
قابل دید ہے عالم تری انگڑائی کا
تیرے دیدار سے محروم رہیں جب آنکھیں
کوئی مصرف ہی نہیں پھر مری بینائی کا
عالم گور غریباں کا یہ غم ناک سکوت
اک نمونہ ہے مرے دل کی شکیبائی کا
نیند ان کی اگر اڑ جائے تو کچھ دور نہیں
سو گیا جاگنے والا شب تنہائی کا
شعر دل کش ہو اگر صفحۂ کاغذ پہ عزیزؔ
اک مرقع ہے کمال سخن آرائی کا
مأخذ:
Anjum Kada (Pg. 80)
-
مصنف:
مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی
-
- اشاعت: 1956
- ناشر: انجمن ترقی اردو (ہند)، علی گڑھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.