میں نے اک حرف سے آگے کبھی سوچا ہی نہ تھا
میں نے اک حرف سے آگے کبھی سوچا ہی نہ تھا
اور وہ حرف لغت میں تری لکھا ہی نہ تھا
میں نے کہنا بھی جو چاہا تو بیاں کر نہ سکی
مجھ میں لفظوں کو برتنے کا سلیقہ ہی نہ تھا
اس نے ملنے کی رہ و رسم نہ کی ترک مگر
میں ہی چپ رہ گئی اب کے وہ اکیلا ہی نہ تھا
میں تو شاعر مری سچائی دلیلیں مانگے
اس کو کیا ہو گیا وہ جھوٹ تو بولا ہی نہ تھا
میں نے اک بوند جو مانگی تو عجب قحط پڑا
خون بازاروں میں جیسے کبھی بکتا ہی نہ تھا
وہ کڑی دھوپ ہے سیلاب زدوں کے سر پر
ایسا لگتا ہے یہاں ابر تو اٹھا ہی نہ تھا
اتنے دن بعد جو آئینہ اٹھایا میں نے
اتنا دیکھا مرا چہرہ مرا اپنا ہی نہ تھا
- کتاب : ایک دیا اور ایک پھول (Pg. 41)
- Author : عشرت آفریں
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.