ریزہ ریزہ ہوئے یوں صبح کے آثار کہ بس
ریزہ ریزہ ہوئے یوں صبح کے آثار کہ بس
ایسے خوابوں پہ چلائی گئی تلوار کہ بس
شمع کیا بجھ سا گیا سارا جہان آواز
اس قدر زور سے چلائی شب تار کہ بس
کسی زنداں کی ضرورت ہی نہیں پیش آئی
شہر کا شہر ہوا ایسا گرفتار کہ بس
خود بخود پہنچے ہے گل گوشۂ دستار کے پاس
باغباں ایسا بکا ہے سر دربار کہ بس
لوگ اپنے ہی گھروں کو نہیں پہچان سکے
لفظ وہ لکھے گئے بر سر دیوار کہ بس
ہم نے چاہا تھا کہ بے ساختہ پن تم سا ہو
ایسے بے باک ہوئے شہر کے دل دار کہ بس
جیسے مفتوح نہ ہو فاتح صد عالم ہو
دل نے یوں ڈال دئے عشق میں ہتھیار کہ بس
دیدہ و دل کو رہی پردۂ غفلت کی تلاش
آگہی نے وہ کیا ہم کو گنہ گار کہ بس
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.